بڑے منہ اور چھوٹی باتیں
نہ کوئی منہ بڑا یا چھوٹا ہوتاہے اور نہ ہی بات بڑی یا چھوٹی ہوتی ہے نہ ہی کام یامقام۔
کبھی کبھی ہمارا بھی کوئی بات کرنے کو جی چاہتاہے لیکن بزرگوں کا وہ چھوٹا منہ اور بڑی بات والا قول سامنے آکر کھڑا ہوجاتاہے۔ حالانکہ ہمیں نہ اپنے منہ کا اندازہ ہے اور نہ اس بات کے بارے میں یہ جانتے ہیں کہ بڑی ہے یا چھوٹی۔اس لیے منہ پر ہاتھ رکھ کر چپ ہوجاتے ہیں کہ اگر بات ہمارے منہ سے بڑی نکلی تو؟ ویسے یہ بزرگ تھے بڑے ہوشیار۔ توہین عدالت والی دفعہ کی طرح انھوں نے بھی پہلے دفعہ لگارکھی ہے کہ
خطائے بزرگان گرفتن خطاست
گویا اس کو من ہی من میں احساس تھا کہ ہمارے بے تکے اقوال زریں کا ردعمل یقینی ہے۔اس لیے پہلے ہی بندوبست کرچکے تھے۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض اقوال ''زریں'' تو کیا ''خاکین'' بھی نہیں ہوتے، لیکن وہ بچارے بھی کیاکرتے کوئی ''کام وام''توان کا تھا نہیں کیونکہ سارے کام انھوں نے مغرب کے کمی کمین لوگوں کے ذمے لگا دیے تھے اور خود صرف اقوال کی پروڈکشن میں لگے ہوئے تھے۔ اکثر اوقات تو ہمیں یہ بھی شبہ ہوتاہے کہ شاید وہ کھاتے کھلاتے بھی اقوال زریں ہی تھے۔اور اوڑھنے، بچھانے، اٹھنے ،بیٹھنے،ٹہلنے اور لیٹنے کے لیے بھی اقوال زریں ہی استعمال کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑے میں بھی ایک دوسرے کو اقوال زریں ہی مارتے تھے۔ شادی بیاہ میں کھلاتے پلاتے بھی اقوال زریں ہی ہوں گے اور کشتی ،کبڈی اور کھیل کود بھی اقوال زریں ہی میں کرتے تھے۔
کسی دیوار سے ٹٰیگ لگاکر مشاعرے کی طرز پر اقوال زریں کا مقابلہ بھی مقرر کرتے ہوں گے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ بعض اقوال زریں سراسر اسٹوپڈ قسم کے ہوتے ہیں، مثلاً یہ چھوٹا منہ بڑی بات والا قول زریں ہی لے لیجیے، پورا قول زریں نہ سہی آدھا قول زریں سہی لیکن اسٹوپڈ پورے کا پورا ہے، بھلا چھوٹے منہ سے بڑی بات نکالی جاسکتی ہے؟ پستول کی گولی توپ کا گولہ نہیں بن جائے گا اور کوزے سے سمندر کیسے نکالا جاسکتاہے؟ مطلب یہ کہ اوورسائز بات نکال کر منہ پھٹ سکتا ہے، انھوں نے چھوٹے منہ دیکھے ہی نہیں تھے ورنہ چھوٹے منہ بچارے بڑی بات تو کیا چھوٹی بات بھی نہیں نکال سکتے بلکہ ان سے تو ''آہ'' بھی انتہائی چھوٹی اور دبلی ہوکر بلکہ ڈرتے ڈرتے نکلتی ہے تو بڑی بات کیانکلے گی اور اگرٹوٹی پھوٹی نکل بھی جائے تو اسے سنے گا کون اور اگر سن بھی لے تو سمجھے گا کون؟
اک شرردل میں ہے اس سے کوئی سمجھے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
لیکن وہ بزرگ بڑے کائیاں تھے، دل ہی دل میں جانتے تھے کہ اکثر بڑی چیز سے چھوٹی چیز نکلتی ہے اور بڑی چیز سے بہت چھوٹی چیز نکلتی ہے بلکہ منہ ہی پر کیا منحصر ہے چھوٹے سے بڑا اور بڑے سے چھوٹے کا سلسلہ ہر جگہ چل رہاہے۔اجمل خٹک جب فوت ہوگئے تھے تو اس سلسلے میں ایک تقریب بمقام پریس کلب منعقد ہوئی،جس میں ہمارے صوبے کے علاوہ سندھ سے بھی کچھ لوگ آئے تھے، ان ہی میں ایک شخص نے اپنے خطاب میں فرمایاکہ آج صبح ہم اجمل خٹک کا گھر دیکھنے گئے تھے، بہت چھوٹا ساگھر ہے۔
جب ہماری باری آئی تو اس بات کو لے کر عرض کیا کہ ہمیشہ بڑے لوگ ایسے ہی چھوٹے گھروں میں پیدا ہوئے اور ہوتے ہیں اور بڑے گھروں میں اکثر چھوٹے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اگر کسی نہ کسی طرح بڑے بھی ہوجائیں تو پھر بھی چھوٹے ہی رہتے ہیں۔باتوں کا بھی یہی سلسلہ ہے، یہ جو بڑے بڑے منہ ہوتے ہیں، ان سے بہت ہی چھوٹی باتیں نکلتی ہیں۔لیکن سننے والے چونکہ ان سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے وہ بڑی دکھائی دیتی ہیں اور باتوں کی طرح کام اور اعمال بھی ہوتے ہیں۔
اور ہمیں تو اس سلسلے میں ''چھوٹا''ہونے کے باوجود بڑا بلکہ بہت بڑا تجربہ ہے، ہم نے اتنے بڑے منہ بہت دیکھے ہیں جن سے بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں نکلتی ہیں اور بہت بڑے گھر بھی دیکھے ہیں جن میں بہت چھوٹے لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں، رہتے بھی ہیں اور پھر ''بڑے'' بھی بنادیے جاتے ہیں لیکن ہوتے چھوٹے ہی ہیں۔ وہ تو چونکہ ''بڑے'' بن جاتے ہیں یا بنادیے جاتے ہیں اور پھر بہت سارے''چھوٹے''ان کو اور ان کی باتوں کو ''بڑا'' بنانے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ورنہ چھوٹے کبھی بڑے نہیں ہوتے، اگر چھوٹے انھیں بڑے نہ بنائیں۔اس سلسلے میں بعداز تجربات ومشاہدات بسیار ہم نے ایک شعر کہاہے کہ
برقہ''الفاظ'' ھم د دے وخت دبنیادم پہ شان دی
چہ خولہ بدلہ شی پخپلہ خپل تاثیر بدل کڑی
یعنی ''الفاظ'' بھی اس وقت کے انسانوں جیسے ہوگئے ہیں کہ ''منہ'' بدلتے ہی اپنی تاثیر بدل لیتے ہیں۔کہتے ہیں ایک سردار کے پاس ایک نوکر تھا،وہ سردار زبان کا بہت براُتھا۔گالیاں تو اس کی نوک زبان پر رہتی تھیں جس دن سردار اس نوکر کو کوئی نئی یاخاص گالی دیتا تو اس دن وہ سارے گاؤں میں پھر پھر کر ہر ایک کو بتاتا کہ آج سردار صاحب نے مجھے یہ کہا ہے اور پھر وہ گالی دہرا دہرا کرمزے لیتا۔مثلاً آج سردار نے مجھے گدھا کہاہے، ہاہا گدھا۔اور پھر کسی دوسرے کو سنانے کے لیے یہی الفاظ دہراتا ہوا چل دیتا ہا ہا گدھا۔بلکہ ہمارے اپنے مشاہدے میں بھی ایک شخص تھا۔ صاف صاف ہی کیوں نہ کہہ دیں، خان عبدالقیوم خان کا خاص چمچہ تھالیکن قیوم خان نے اسے بڑا بنادیاتھا ۔کچھ عرصے کے لیے وزیر بھی بنایاتھا۔پھر قیوم خان بھی فوت ہو گیا اور وہ شخص بھی۔لیکن جس شخص کا ہم ذکر کررہے ہیں وہ قیوم خان کے اس خاص شخص جو خاص شخص تھا اس کا خاص شخص تھا یا ایسا خود کہتاتھا۔
چنانچہ اکثر ہمارے پاس روزنامہ بانگ حرم میں کوئی ''بیان'' لے کر آجاتاتھا۔اور یہی اس کی ہابی تھی۔ کسی بات پر کوئی نہ کوئی بیان دینا۔اس آنے جانے میں وہ جیسے ہمارے دفتر کا خاص آدمی ہوگیا تھا ،کاتب تک بھی اس کے ساتھ رل مل گئے۔اور وہ''سامعین'' کو پاکر اکثر گئے وقتوں کے قصے سناتا۔جن میں اس خاص شخص کا جو قیوم خان کے خاص آدمی کا خاص تھا۔ اس آدمی کے ایسے ایسے قصے ہوتے تھے کہ اکثر کتابی لطیفوں اور اقوال زریں پر مشتمل ہوتے تھے۔کہ ایک دن قیوم خان نے ایساکیا یا ایسا کہا۔صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میں خاص ہوں اور اس کا اظہار بھی کرتارہتاتھا کہ مجھ سے تو کوئی پردہ قیوم خان کا تھا نہیں، اس کا ثبوت وہ یہ پیش کرتا کہ۔ قیوم خان اکثر مجھے پیار سے فلاں گالی دے کر کہتا۔ قیوم خان کی یہ عادت تھی کہ خاص گالیاں صرف مجھے دیتاتھا۔
خلاصہ اس سارے سلسلے کا یہ ہے کہ نہ کوئی منہ بڑا یا چھوٹا ہوتاہے اور نہ ہی بات بڑی یا چھوٹی ہوتی ہے نہ ہی کام یامقام۔ایک بہت سرمایہ دارشخص کا بیٹا ایک مرتبہ انتخابات میں کھڑا ہوگیاتھا، بڑے اسکولوں کالجوں بلکہ باہر کا بھی پڑھا ہواتھا۔لیکن الیکشن مہم پر نکلنے کے لیے اس نے کسی نوکر کے میلے کپڑے اورپھٹے ہوئے جوتے رکھے ہوئے تھے،اور اس کے چمچے برابر اس کی ''سادگی''کا پرچارکرتے رہتے تھے اور اسی بات پر وہ جیت گیاتھا۔حالانکہ مقابلے میں درحقیقت ایک خدمت گزار اور سچاآدمی تھا لیکن وہ میلے کپڑے اور پھٹے جوتے نہیں پہنتاتھا۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو زلف کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
خطائے بزرگان گرفتن خطاست
گویا اس کو من ہی من میں احساس تھا کہ ہمارے بے تکے اقوال زریں کا ردعمل یقینی ہے۔اس لیے پہلے ہی بندوبست کرچکے تھے۔ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ بعض اقوال ''زریں'' تو کیا ''خاکین'' بھی نہیں ہوتے، لیکن وہ بچارے بھی کیاکرتے کوئی ''کام وام''توان کا تھا نہیں کیونکہ سارے کام انھوں نے مغرب کے کمی کمین لوگوں کے ذمے لگا دیے تھے اور خود صرف اقوال کی پروڈکشن میں لگے ہوئے تھے۔ اکثر اوقات تو ہمیں یہ بھی شبہ ہوتاہے کہ شاید وہ کھاتے کھلاتے بھی اقوال زریں ہی تھے۔اور اوڑھنے، بچھانے، اٹھنے ،بیٹھنے،ٹہلنے اور لیٹنے کے لیے بھی اقوال زریں ہی استعمال کرتے تھے۔ لڑائی جھگڑے میں بھی ایک دوسرے کو اقوال زریں ہی مارتے تھے۔ شادی بیاہ میں کھلاتے پلاتے بھی اقوال زریں ہی ہوں گے اور کشتی ،کبڈی اور کھیل کود بھی اقوال زریں ہی میں کرتے تھے۔
کسی دیوار سے ٹٰیگ لگاکر مشاعرے کی طرز پر اقوال زریں کا مقابلہ بھی مقرر کرتے ہوں گے۔لیکن سچ تو یہ ہے کہ بعض اقوال زریں سراسر اسٹوپڈ قسم کے ہوتے ہیں، مثلاً یہ چھوٹا منہ بڑی بات والا قول زریں ہی لے لیجیے، پورا قول زریں نہ سہی آدھا قول زریں سہی لیکن اسٹوپڈ پورے کا پورا ہے، بھلا چھوٹے منہ سے بڑی بات نکالی جاسکتی ہے؟ پستول کی گولی توپ کا گولہ نہیں بن جائے گا اور کوزے سے سمندر کیسے نکالا جاسکتاہے؟ مطلب یہ کہ اوورسائز بات نکال کر منہ پھٹ سکتا ہے، انھوں نے چھوٹے منہ دیکھے ہی نہیں تھے ورنہ چھوٹے منہ بچارے بڑی بات تو کیا چھوٹی بات بھی نہیں نکال سکتے بلکہ ان سے تو ''آہ'' بھی انتہائی چھوٹی اور دبلی ہوکر بلکہ ڈرتے ڈرتے نکلتی ہے تو بڑی بات کیانکلے گی اور اگرٹوٹی پھوٹی نکل بھی جائے تو اسے سنے گا کون اور اگر سن بھی لے تو سمجھے گا کون؟
اک شرردل میں ہے اس سے کوئی سمجھے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو جو ہوا کہتے ہیں
لیکن وہ بزرگ بڑے کائیاں تھے، دل ہی دل میں جانتے تھے کہ اکثر بڑی چیز سے چھوٹی چیز نکلتی ہے اور بڑی چیز سے بہت چھوٹی چیز نکلتی ہے بلکہ منہ ہی پر کیا منحصر ہے چھوٹے سے بڑا اور بڑے سے چھوٹے کا سلسلہ ہر جگہ چل رہاہے۔اجمل خٹک جب فوت ہوگئے تھے تو اس سلسلے میں ایک تقریب بمقام پریس کلب منعقد ہوئی،جس میں ہمارے صوبے کے علاوہ سندھ سے بھی کچھ لوگ آئے تھے، ان ہی میں ایک شخص نے اپنے خطاب میں فرمایاکہ آج صبح ہم اجمل خٹک کا گھر دیکھنے گئے تھے، بہت چھوٹا ساگھر ہے۔
جب ہماری باری آئی تو اس بات کو لے کر عرض کیا کہ ہمیشہ بڑے لوگ ایسے ہی چھوٹے گھروں میں پیدا ہوئے اور ہوتے ہیں اور بڑے گھروں میں اکثر چھوٹے لوگ پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اگر کسی نہ کسی طرح بڑے بھی ہوجائیں تو پھر بھی چھوٹے ہی رہتے ہیں۔باتوں کا بھی یہی سلسلہ ہے، یہ جو بڑے بڑے منہ ہوتے ہیں، ان سے بہت ہی چھوٹی باتیں نکلتی ہیں۔لیکن سننے والے چونکہ ان سے بھی چھوٹے ہوتے ہیں اس لیے وہ بڑی دکھائی دیتی ہیں اور باتوں کی طرح کام اور اعمال بھی ہوتے ہیں۔
اور ہمیں تو اس سلسلے میں ''چھوٹا''ہونے کے باوجود بڑا بلکہ بہت بڑا تجربہ ہے، ہم نے اتنے بڑے منہ بہت دیکھے ہیں جن سے بہت ہی چھوٹی چھوٹی باتیں نکلتی ہیں اور بہت بڑے گھر بھی دیکھے ہیں جن میں بہت چھوٹے لوگ پیدا بھی ہوتے ہیں، رہتے بھی ہیں اور پھر ''بڑے'' بھی بنادیے جاتے ہیں لیکن ہوتے چھوٹے ہی ہیں۔ وہ تو چونکہ ''بڑے'' بن جاتے ہیں یا بنادیے جاتے ہیں اور پھر بہت سارے''چھوٹے''ان کو اور ان کی باتوں کو ''بڑا'' بنانے میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ورنہ چھوٹے کبھی بڑے نہیں ہوتے، اگر چھوٹے انھیں بڑے نہ بنائیں۔اس سلسلے میں بعداز تجربات ومشاہدات بسیار ہم نے ایک شعر کہاہے کہ
برقہ''الفاظ'' ھم د دے وخت دبنیادم پہ شان دی
چہ خولہ بدلہ شی پخپلہ خپل تاثیر بدل کڑی
یعنی ''الفاظ'' بھی اس وقت کے انسانوں جیسے ہوگئے ہیں کہ ''منہ'' بدلتے ہی اپنی تاثیر بدل لیتے ہیں۔کہتے ہیں ایک سردار کے پاس ایک نوکر تھا،وہ سردار زبان کا بہت براُتھا۔گالیاں تو اس کی نوک زبان پر رہتی تھیں جس دن سردار اس نوکر کو کوئی نئی یاخاص گالی دیتا تو اس دن وہ سارے گاؤں میں پھر پھر کر ہر ایک کو بتاتا کہ آج سردار صاحب نے مجھے یہ کہا ہے اور پھر وہ گالی دہرا دہرا کرمزے لیتا۔مثلاً آج سردار نے مجھے گدھا کہاہے، ہاہا گدھا۔اور پھر کسی دوسرے کو سنانے کے لیے یہی الفاظ دہراتا ہوا چل دیتا ہا ہا گدھا۔بلکہ ہمارے اپنے مشاہدے میں بھی ایک شخص تھا۔ صاف صاف ہی کیوں نہ کہہ دیں، خان عبدالقیوم خان کا خاص چمچہ تھالیکن قیوم خان نے اسے بڑا بنادیاتھا ۔کچھ عرصے کے لیے وزیر بھی بنایاتھا۔پھر قیوم خان بھی فوت ہو گیا اور وہ شخص بھی۔لیکن جس شخص کا ہم ذکر کررہے ہیں وہ قیوم خان کے اس خاص شخص جو خاص شخص تھا اس کا خاص شخص تھا یا ایسا خود کہتاتھا۔
چنانچہ اکثر ہمارے پاس روزنامہ بانگ حرم میں کوئی ''بیان'' لے کر آجاتاتھا۔اور یہی اس کی ہابی تھی۔ کسی بات پر کوئی نہ کوئی بیان دینا۔اس آنے جانے میں وہ جیسے ہمارے دفتر کا خاص آدمی ہوگیا تھا ،کاتب تک بھی اس کے ساتھ رل مل گئے۔اور وہ''سامعین'' کو پاکر اکثر گئے وقتوں کے قصے سناتا۔جن میں اس خاص شخص کا جو قیوم خان کے خاص آدمی کا خاص تھا۔ اس آدمی کے ایسے ایسے قصے ہوتے تھے کہ اکثر کتابی لطیفوں اور اقوال زریں پر مشتمل ہوتے تھے۔کہ ایک دن قیوم خان نے ایساکیا یا ایسا کہا۔صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ میں خاص ہوں اور اس کا اظہار بھی کرتارہتاتھا کہ مجھ سے تو کوئی پردہ قیوم خان کا تھا نہیں، اس کا ثبوت وہ یہ پیش کرتا کہ۔ قیوم خان اکثر مجھے پیار سے فلاں گالی دے کر کہتا۔ قیوم خان کی یہ عادت تھی کہ خاص گالیاں صرف مجھے دیتاتھا۔
خلاصہ اس سارے سلسلے کا یہ ہے کہ نہ کوئی منہ بڑا یا چھوٹا ہوتاہے اور نہ ہی بات بڑی یا چھوٹی ہوتی ہے نہ ہی کام یامقام۔ایک بہت سرمایہ دارشخص کا بیٹا ایک مرتبہ انتخابات میں کھڑا ہوگیاتھا، بڑے اسکولوں کالجوں بلکہ باہر کا بھی پڑھا ہواتھا۔لیکن الیکشن مہم پر نکلنے کے لیے اس نے کسی نوکر کے میلے کپڑے اورپھٹے ہوئے جوتے رکھے ہوئے تھے،اور اس کے چمچے برابر اس کی ''سادگی''کا پرچارکرتے رہتے تھے اور اسی بات پر وہ جیت گیاتھا۔حالانکہ مقابلے میں درحقیقت ایک خدمت گزار اور سچاآدمی تھا لیکن وہ میلے کپڑے اور پھٹے جوتے نہیں پہنتاتھا۔
تمہاری زلف میں پہنچی تو زلف کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی