سوشل میڈیا پر خواتین کو ہراساں کرنے کی شکایات میں اضافہ
ایف آئی اے کو 3 ماہ میں 1500 شکایات، اکثر کیسز میں متاثرین کارروائی آگے نہیں بڑھاتے
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی انتظار گاہ میں اپنا سر اور منہ ایک بڑی سی چادر میں لپیٹے ہوئے ایک ڈری سہمی سی نوجوان لڑکی ایک ادھیڑ عمر عورت کے ساتھ انویسٹی گیشن آفیسر کے سامنے اپنی باری کے انتظار میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ادھیڑ عمر عورت وقفے سے وقفے اپنے دائیں طرف بیٹھی لڑکی کے کان میں سرگوشی کرتی اور ہر مرتبہ سرگوشی کے دوران اس کے چہرے کی لالی میں اضافہ ہوجاتا۔
لڑکی آنکھیں نم ہوگئیں اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹشو کی مدد سے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتی رہی تاہم آنسو کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد نائب قاصد نے نام پکارا ''فریحہ خان کو صاحب بلارہے ہیں''، دونوں خواتین اپنے ہینڈ بیگز سنبھالتے ہوئے انویسٹی گیشن آفیسر کے کمرے میں چلی گئیں۔
انویسٹی گیشن آفیسر کے کمرے میں پہنچ کر ادھیڑ عمر عورت نے اپنا تعارف مس خان کی پھوپھو کے طور پر کرایا اور بتایا کہ فریحہ کی عمر 21 سال ہے اور وہ تین سال قبل اپنے اسکول کے سالانہ اسپورٹس ڈے کے موقع پر ایک لڑکے سے ملی، دونوں ہم عمر تھے وہ ملاقات چند ہی دنوں میں دوستی میں تبدیل ہوگئی اور دونوں اپنے مشترکہ دوستوں کے ہمراہ مختلف مواقع پر ملنے لگے۔
فریحہ اور عدنان ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے، دونوں نوجوانوں میں یہ تعلق ابھی پروان ہی چڑھ رہا تھا کہ فریحہ کو مشترکہ دوستوں کے ذریعے عدنان کے کچھ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا پتا چلا تو اس نے عدنان سے فاصلہ رکھنا شروع کردیا، جب تمام تر کوششوں کے باوجود فریحہ نے عدنان سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے سے انکار کردیا تو عدنان مشتعل ہوگیا اور اسے دھمکی دی کی وہ اس کی برہنہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردے گا۔
فریحہ نے شروع میں اسے کھوکھلی دھمکی سمجھ کر نظر انداز کیا تاہم جب عدنان اس بات پر مصر رہا تو اس کی رات کی نیندیں اڑگئیں اس نے عدنان سے منت سماجت کی کہ وہ ایسا نہ کرے تاہم عدنان باز نہ آیا اور اس نے فریحہ کی تصاویر مشترکہ دوستوں کو بھیج دیں، فریحہ اس کی منتیں کرتی رہی تاکہ اس کے اہل خانہ کو اس بات کا علم نہ ہو تاہم عدنان انتقام کی آگ میں سب بھول گیا اور اس نے کچھ عرصے بعد فریحہ کی تصاویر اور وڈیو نہ صرف فیس بک پر اپ لوڈ کردیں بلکہ فریحہ کے اہل خانہ کو بھجوادیں۔
فریحہ اس کی تاب نہ لاسکی اور اہل خانہ اور معاشرے کا سامنا نہ کرنے کے لیے اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تاہم اہل خانہ کی بروقت مداخلت پراس کی جان بچ گئی۔ بعد ازاں اس کی پھوپھو نے اسے حوصلہ دیا اور عدنان کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل جانے کا فیصلہ کیا تاہم دو دن فریحہ ایک بار پھر خودکشی کی ناکام کوشش کی۔
روزانہ ایسی متعدد شکایات موصول ہوتی ہیں، ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم عبدالغفار
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے بتایا کہ یہ صرف فریحہ کی کہانی نہیں ہے انھیں روزانہ درجنوں کی تعداد میں اس نوعیت کی شکایات موصول ہوتی ہیں، زیادہ تر شکایات سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ تقریبا 70 فیصد شکایات ہراساں کرنے کی ہیں اور ان میں نوے فیصد شکایات خواتین کی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال ایف آئی اے کو ہراساں کرنے کی 4 ہزار سے زائد شکایتیں موصول ہوئیں اور رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران وصول ہونے والی شکایتوں کی تعداد 15 سو سے زائد ہے، زیادہ ترشکایات کرنے والے خاندان یا متاثرہ فریق معاملے کو عدالت میں لے جانے سے پہلے ہی ختم کردیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ وہ معاشرے میں اپنی اور اپنے خاندان کی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتے۔
انھوں نے بتایا کہ خواتین کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی 90 فیصد شکایات کرنے والے افراد اپنی شکایت ملزم کی جانب سے معافی نامہ لکھنے، تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹانے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کی یقین دہانی پر واپس لے لی جاتی ہیں، صرف 10 فیصد شکایات عدالت میں قانونی کارروائی کے لیے جاتی ہیں۔
اپنی زندگی کو مزید آگے بڑھانا چاہتی ہوں، متاثرہ لڑکی
فریحہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ عدنان کی جانب سے تصاویر کے معاملے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کررہی تھیں تاکہ ان کا خاندان سے معاملے میں لاعلم رہے تاہم جب عدنان نے مجھ پر توہین کرنے کا الزام لگایا تو مجھے لگا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ مجھے اب اس معاملے پر خاندان کو اعتماد میں لے کر ایف آئی اے سے رجوع کرنا پڑے گا، یہی وہ موقع تھا جب عدنان نے آخری حربے کے طور پر میرے اہل خانہ کو بھی تصاویر بھیج دیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں ایک آدمی کے لیے اپنی پوری زندگی تباہ نہیں کرسکتیں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ معاملے کو کس حد تک لے جانا چاہتی ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ وہ اس شخص کو اپنی زندگی میں دوبارہ نہ دیکھیں اور وہ اپنی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔
انھوں نے کہا کہ اس یقین دہانی کے بعد مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایف آئی اے حکام اس سے کس طرح نمٹتے ہیں، ملزمان کو عدالتی عمل سے گزرے بغیر ہی تصفیہ کے نتیجے میں معاف کرنے کی وجہ سے ملزمان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور ان کے دوبارہ اسی طرح کا جرم کرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ایک شخص خود کو فوجی افسر ظاہر کرکے چار شادیاں کرچکا، ٹیکنیکل آفیسر سائبر کرائم
سائبر کرائم کے ٹیکنیکل آفیسر طارق حسین نے بتایا کہ انھیں ایک شکایت موصول ہوئی کہ ایک شخص اپنے آپ کو پاکستان آرمی کا افسر ظاہر کرکے لڑکیوں سے جعلی شادیاں کرتا ہے، ایک لڑکی کی شکایت پر ملزم کو گرفتارکرلیا گیا تاہم لڑکی کے گھر والوں نے جعلی فوجی افسر سے اس یقین دہانی پر تصفیہ کرلیا کہ وہ دوبارہ اس لڑکی کو ہراساں نہیں کرے گا تمام تصاویر ڈیلیٹ کردے گا۔
ملزم نے چار لڑکیوں کو نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا، طارق حسین
افسر کے مطابق اس کے بعد دوران تفتیش سامنے آیا کہ ملزم نے مزید چار لڑکیوں کو بھی ان کی برہنہ تصاویر اور وڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا ہے، تاہم مدعی نہ ہونے کی ہم مقدمے کو عدالت میں لے جانے سے قاصر تھے لیکن اب ملزم کی متاثرہ ایک اور لڑکی سامنے آئی ہے اور اس نے ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اتنی بڑی تعداد میں سائبر کرائم کی شرح میں تیزی سے اضافے ہورہا ہے تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم انسانی اور مالی مسائل مکمل طور پر محروم دکھائی دیتا ہے۔
سائبر کرائم ونگ کی خستہ حالی
سائبر کرائم ونگ کا قیام 2007ء میں عمل میں آیا تھا اس کے بعد سے اب تک سائبر کرائم میں تکنیکی آلات کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا حتی کہ فرانزک لیب اور کمپیوٹر سافٹ ویئرز کو بھی تبدیل نہیں کیا گیا، کراچی کے سائبر کرائم سرکل میں صرف ایک فرانزک ماہر ہے جبکہ دو ٹیکنیکل افسر ہیں۔ پولیس افسران سائبر کرائم ونگ کے اہم انتظامی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ ان میں بڑی تعداد آئی ٹی کے شعبے سے نابلد ہے اور معمولی شدبد رکھنے والے افسران بھی آئی ٹی ماہر نہیں کہلائے جاسکتے۔
علاوہ ازیں موجودہ ماہرین کو آئی ٹی کے شعبے میں تیزی سے آتی تبدیلی سے آراستہ کرنے کے لیے تربیت اور ریفرشر کورسزکا جامع نظام موجود نہیں۔
ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سائبر کرائم کے ماہرین کے کورسز کے لیے سائبر ماہرین کے بجائے انتظامی افسران کو سرکاری خرچ پر بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے اور وہ افسران چند ماہ کے دوران ہی ایف آئی اے کے کسی اور شعبے میں تبادلہ کردیے جاتے ہیں یا وہ اپنے بنیادی اداروں میں چلے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ غیرتکنیکی انتظامی افسران کی وجہ سے آج تک ایف آئی اے سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کے ساتھ معاہدے کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ مقدمات کی تفتیش تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔
فیس بک نے قابل اعتراض مواد کو ہٹانے کا معاہدہ کیا ہے، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن
ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن سے وابستہ نگہت داد نے بتایا کہ انھوں نے متاثرہ خواتین کے لیے ایک آن لائن ہیلپ لائن دسمبر 2016 میں قائم کی تھی اور دسمبر 2018ء تک مجموعی طور پر 2 ہزار متاثرہ خواتین نے ان سے رابطہ کیا تاہم انھوں نے بتایا کہ 2019ء کے پہلے چار ماہ کے دوران ایک ہزار سے متاثرہ خواتین ان سے رابطہ کرچکی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یا تو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے یا خواتین میں اس حوالے سے شعور اجاگر ہوا ہے، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہراسگی کا شکار خواتین کو ایف آئی اے سائبر کرائم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتی ہیں جبکہ انھیں ایف آئی اے اور عدالت میں قانونی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بہت ساری خواتین صرف اپنی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹانے کی خواہش مند ہوتی ہیں تو اس سلسلے میں ان کی مدد کی جاتی ہے، حال ہی میں فیس بک نے پاکستان سمیت دنیا کی پانچ سول سوسائٹی آرگنائزیشنز کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ہم نہ صرف قابل اعتراض تصاویر کو بلاک کراسکیں گے بلکہ خواتین تصاویر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی دینے والوں سے فیس بک کو آگاہ کرکے تصاویر کو پیشگی بلاک کراسکیں گی۔
لڑکی آنکھیں نم ہوگئیں اور اپنے ہاتھ میں پکڑے ٹشو کی مدد سے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کرتی رہی تاہم آنسو کسی طرح رکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد نائب قاصد نے نام پکارا ''فریحہ خان کو صاحب بلارہے ہیں''، دونوں خواتین اپنے ہینڈ بیگز سنبھالتے ہوئے انویسٹی گیشن آفیسر کے کمرے میں چلی گئیں۔
انویسٹی گیشن آفیسر کے کمرے میں پہنچ کر ادھیڑ عمر عورت نے اپنا تعارف مس خان کی پھوپھو کے طور پر کرایا اور بتایا کہ فریحہ کی عمر 21 سال ہے اور وہ تین سال قبل اپنے اسکول کے سالانہ اسپورٹس ڈے کے موقع پر ایک لڑکے سے ملی، دونوں ہم عمر تھے وہ ملاقات چند ہی دنوں میں دوستی میں تبدیل ہوگئی اور دونوں اپنے مشترکہ دوستوں کے ہمراہ مختلف مواقع پر ملنے لگے۔
فریحہ اور عدنان ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے، دونوں نوجوانوں میں یہ تعلق ابھی پروان ہی چڑھ رہا تھا کہ فریحہ کو مشترکہ دوستوں کے ذریعے عدنان کے کچھ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا پتا چلا تو اس نے عدنان سے فاصلہ رکھنا شروع کردیا، جب تمام تر کوششوں کے باوجود فریحہ نے عدنان سے دوبارہ تعلقات استوار کرنے سے انکار کردیا تو عدنان مشتعل ہوگیا اور اسے دھمکی دی کی وہ اس کی برہنہ تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردے گا۔
فریحہ نے شروع میں اسے کھوکھلی دھمکی سمجھ کر نظر انداز کیا تاہم جب عدنان اس بات پر مصر رہا تو اس کی رات کی نیندیں اڑگئیں اس نے عدنان سے منت سماجت کی کہ وہ ایسا نہ کرے تاہم عدنان باز نہ آیا اور اس نے فریحہ کی تصاویر مشترکہ دوستوں کو بھیج دیں، فریحہ اس کی منتیں کرتی رہی تاکہ اس کے اہل خانہ کو اس بات کا علم نہ ہو تاہم عدنان انتقام کی آگ میں سب بھول گیا اور اس نے کچھ عرصے بعد فریحہ کی تصاویر اور وڈیو نہ صرف فیس بک پر اپ لوڈ کردیں بلکہ فریحہ کے اہل خانہ کو بھجوادیں۔
فریحہ اس کی تاب نہ لاسکی اور اہل خانہ اور معاشرے کا سامنا نہ کرنے کے لیے اس نے نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کرنے کی کوشش کی تاہم اہل خانہ کی بروقت مداخلت پراس کی جان بچ گئی۔ بعد ازاں اس کی پھوپھو نے اسے حوصلہ دیا اور عدنان کے خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل جانے کا فیصلہ کیا تاہم دو دن فریحہ ایک بار پھر خودکشی کی ناکام کوشش کی۔
روزانہ ایسی متعدد شکایات موصول ہوتی ہیں، ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم عبدالغفار
ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے بتایا کہ یہ صرف فریحہ کی کہانی نہیں ہے انھیں روزانہ درجنوں کی تعداد میں اس نوعیت کی شکایات موصول ہوتی ہیں، زیادہ تر شکایات سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بک سے متعلق ہوتی ہیں جبکہ تقریبا 70 فیصد شکایات ہراساں کرنے کی ہیں اور ان میں نوے فیصد شکایات خواتین کی ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ گذشتہ سال ایف آئی اے کو ہراساں کرنے کی 4 ہزار سے زائد شکایتیں موصول ہوئیں اور رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران وصول ہونے والی شکایتوں کی تعداد 15 سو سے زائد ہے، زیادہ ترشکایات کرنے والے خاندان یا متاثرہ فریق معاملے کو عدالت میں لے جانے سے پہلے ہی ختم کردیتے ہیں اور اس کی بنیادی وجہ وہ معاشرے میں اپنی اور اپنے خاندان کی ساکھ خراب نہیں کرنا چاہتے۔
انھوں نے بتایا کہ خواتین کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی 90 فیصد شکایات کرنے والے افراد اپنی شکایت ملزم کی جانب سے معافی نامہ لکھنے، تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹانے اور آئندہ ایسی حرکت نہ کرنے کی یقین دہانی پر واپس لے لی جاتی ہیں، صرف 10 فیصد شکایات عدالت میں قانونی کارروائی کے لیے جاتی ہیں۔
اپنی زندگی کو مزید آگے بڑھانا چاہتی ہوں، متاثرہ لڑکی
فریحہ نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ عدنان کی جانب سے تصاویر کے معاملے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کررہی تھیں تاکہ ان کا خاندان سے معاملے میں لاعلم رہے تاہم جب عدنان نے مجھ پر توہین کرنے کا الزام لگایا تو مجھے لگا کہ وہ وقت آگیا ہے کہ مجھے اب اس معاملے پر خاندان کو اعتماد میں لے کر ایف آئی اے سے رجوع کرنا پڑے گا، یہی وہ موقع تھا جب عدنان نے آخری حربے کے طور پر میرے اہل خانہ کو بھی تصاویر بھیج دیں۔
ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ وہ اپنی زندگی کو آگے بڑھانا چاہتی ہیں ایک آدمی کے لیے اپنی پوری زندگی تباہ نہیں کرسکتیں جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ معاملے کو کس حد تک لے جانا چاہتی ہیں تو انھوں نے کہا کہ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ وہ اس شخص کو اپنی زندگی میں دوبارہ نہ دیکھیں اور وہ اپنی زندگی کو معمول پر لانے کی کوشش کریں۔
انھوں نے کہا کہ اس یقین دہانی کے بعد مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ایف آئی اے حکام اس سے کس طرح نمٹتے ہیں، ملزمان کو عدالتی عمل سے گزرے بغیر ہی تصفیہ کے نتیجے میں معاف کرنے کی وجہ سے ملزمان کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے اور ان کے دوبارہ اسی طرح کا جرم کرنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ایک شخص خود کو فوجی افسر ظاہر کرکے چار شادیاں کرچکا، ٹیکنیکل آفیسر سائبر کرائم
سائبر کرائم کے ٹیکنیکل آفیسر طارق حسین نے بتایا کہ انھیں ایک شکایت موصول ہوئی کہ ایک شخص اپنے آپ کو پاکستان آرمی کا افسر ظاہر کرکے لڑکیوں سے جعلی شادیاں کرتا ہے، ایک لڑکی کی شکایت پر ملزم کو گرفتارکرلیا گیا تاہم لڑکی کے گھر والوں نے جعلی فوجی افسر سے اس یقین دہانی پر تصفیہ کرلیا کہ وہ دوبارہ اس لڑکی کو ہراساں نہیں کرے گا تمام تصاویر ڈیلیٹ کردے گا۔
ملزم نے چار لڑکیوں کو نازیبا ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا، طارق حسین
افسر کے مطابق اس کے بعد دوران تفتیش سامنے آیا کہ ملزم نے مزید چار لڑکیوں کو بھی ان کی برہنہ تصاویر اور وڈیو کے ذریعے بلیک میل کیا ہے، تاہم مدعی نہ ہونے کی ہم مقدمے کو عدالت میں لے جانے سے قاصر تھے لیکن اب ملزم کی متاثرہ ایک اور لڑکی سامنے آئی ہے اور اس نے ملزم کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اتنی بڑی تعداد میں سائبر کرائم کی شرح میں تیزی سے اضافے ہورہا ہے تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم انسانی اور مالی مسائل مکمل طور پر محروم دکھائی دیتا ہے۔
سائبر کرائم ونگ کی خستہ حالی
سائبر کرائم ونگ کا قیام 2007ء میں عمل میں آیا تھا اس کے بعد سے اب تک سائبر کرائم میں تکنیکی آلات کو اپ گریڈ نہیں کیا گیا حتی کہ فرانزک لیب اور کمپیوٹر سافٹ ویئرز کو بھی تبدیل نہیں کیا گیا، کراچی کے سائبر کرائم سرکل میں صرف ایک فرانزک ماہر ہے جبکہ دو ٹیکنیکل افسر ہیں۔ پولیس افسران سائبر کرائم ونگ کے اہم انتظامی عہدوں پر فائز ہیں جبکہ ان میں بڑی تعداد آئی ٹی کے شعبے سے نابلد ہے اور معمولی شدبد رکھنے والے افسران بھی آئی ٹی ماہر نہیں کہلائے جاسکتے۔
علاوہ ازیں موجودہ ماہرین کو آئی ٹی کے شعبے میں تیزی سے آتی تبدیلی سے آراستہ کرنے کے لیے تربیت اور ریفرشر کورسزکا جامع نظام موجود نہیں۔
ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے سائبر کرائم کے ماہرین کے کورسز کے لیے سائبر ماہرین کے بجائے انتظامی افسران کو سرکاری خرچ پر بیرون ملک بھیج دیا جاتا ہے اور وہ افسران چند ماہ کے دوران ہی ایف آئی اے کے کسی اور شعبے میں تبادلہ کردیے جاتے ہیں یا وہ اپنے بنیادی اداروں میں چلے جاتے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ غیرتکنیکی انتظامی افسران کی وجہ سے آج تک ایف آئی اے سوشل میڈیا ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز کے ساتھ معاہدے کرنے میں ناکام رہا ہے اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ مقدمات کی تفتیش تاخیر کا شکار ہوتی ہے۔
فیس بک نے قابل اعتراض مواد کو ہٹانے کا معاہدہ کیا ہے، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن
ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن سے وابستہ نگہت داد نے بتایا کہ انھوں نے متاثرہ خواتین کے لیے ایک آن لائن ہیلپ لائن دسمبر 2016 میں قائم کی تھی اور دسمبر 2018ء تک مجموعی طور پر 2 ہزار متاثرہ خواتین نے ان سے رابطہ کیا تاہم انھوں نے بتایا کہ 2019ء کے پہلے چار ماہ کے دوران ایک ہزار سے متاثرہ خواتین ان سے رابطہ کرچکی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یا تو ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے یا خواتین میں اس حوالے سے شعور اجاگر ہوا ہے، وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہراسگی کا شکار خواتین کو ایف آئی اے سائبر کرائم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتی ہیں جبکہ انھیں ایف آئی اے اور عدالت میں قانونی مدد بھی فراہم کی جاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بہت ساری خواتین صرف اپنی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹانے کی خواہش مند ہوتی ہیں تو اس سلسلے میں ان کی مدد کی جاتی ہے، حال ہی میں فیس بک نے پاکستان سمیت دنیا کی پانچ سول سوسائٹی آرگنائزیشنز کے ساتھ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ہم نہ صرف قابل اعتراض تصاویر کو بلاک کراسکیں گے بلکہ خواتین تصاویر اپ لوڈ کرنے کی دھمکی دینے والوں سے فیس بک کو آگاہ کرکے تصاویر کو پیشگی بلاک کراسکیں گی۔