’اولادِ نرینہ‘ کیا ہماری سوچ بدل رہی ہے

شوہر اس گھڑی کو کوستا جب بیٹے کی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کو گود لیا تھا۔

شوہر اس گھڑی کو کوستا جب بیٹے کی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کو گود لیا تھا۔ فوٹو: فائل

تیسری بیٹی پیدائش کے بعد شوہر کا رویہ اس کے لیے نہایت تکلیف دہ تھا۔ وہ ذہنی اذیت کا شکار ہو گئی۔ اس پر طلاق یا شوہر کے دوسری شادی کر لینے کا خوف سوار ہو گیا۔

زندگی اس کے لیے کسی عذاب سے کم نہیں تھی۔ شوہر اتنا کم خرچ دیتا کہ بچیوں کی ضروریات سے لے کر ان کا پیٹ بھرنا تک مشکل ہوگیا۔ وہ اپنی حد تک تو یہ برداشت کررہی تھی، مگر بچیوں کی خاطر شوہر سے بات کرنے کی ہمّت کی اور جواب میں اسے جس سلوک اور رویے کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کی زندگی کا ایک اور درد ناک لمحہ تھا۔ ایک شادی شدہ عورت کی حیثیت سے تو وہ اپنی خود داری کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی رہی، مگر ممتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر میکے سے مالی مدد کا تقاضا کر دیا۔

اس سے کم از کم نومولود کی غذائی ضرورت بہتر طریقے سے پوری ہونے لگی تھی۔ شوہر بیٹا چاہتا تھا۔ تیسری بیٹی کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد شوہر نے ایک رشتے دار سے ان کا بیٹا گود لے لیا۔ اس نے سگے بیٹے کی طرح اس کی پرورش کی، ماں کا پیار دیا۔ بیٹا باپ کی آنکھوں کا تارا بن چکا تھا۔ باپ اس کے لیے ہر اچھی چیز لاتا اور ہر فرمائش پوری کرتا۔ اسی پیار نے بیٹے کو ذرا خود سر اور ضدی بنا دیا۔ اس نے تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور محلے کے دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔

بدقسمتی سے بری صحبت کا شکار ہوکر نشے کی لت کا عادی ہوگیا۔ گھر کے قیمتی سامان سے لے کر برتن تک غائب ہونے لگے تو انکشاف ہوا کہ یہ تمام سامان بیٹا بیچ کر نشہ کرتا ہے۔ ڈانٹ ڈپٹ سے لے کر مار پیٹ تک سبھی کچھ آزما لیا، لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آخر کار بیٹے کو گھر سے نکال دیا۔ حقیقی والدین نے برسوں بعد آنے والے بیٹے کو قبول کرنا چاہا، مگر سگے بھائیوں کے رویے نے اتنا دل برداشتہ کیا کہ یہ دوبارہ ان والدین کے پاس آگیا جنہوں نے بچپن سے اب تک پالا تھا گوکہ وہ اس کو رکھنا نہیں چاہتے تھے مگر اس کے غصے، لڑائی جھگڑے اور ہٹ دھرمی کے آگے ہار ماننی پڑی۔ وقت گزرتا رہا۔

یہ والدین کا سہارا بننے کے بجائے ان پر بوجھ بن گیا۔ شوہر اس گھڑی کو کوستا جب بیٹے کی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس کو گود لیا تھا۔ کچھ عرصے بعد بیوی کا انتقال ہوگیا۔ شوہر عارضۂ قلب میں مبتلا ہوا تو بڑی بیٹی نے والد کے کھانے پینے کے ساتھ دواؤں کا خاص خیال رکھا۔ اسپتال جانے، والد کے علاج اور ڈاکٹر کی ہدایات تک بیٹی نے حق ادا کیا، علاج کے ساتھ وہ دن رات اپنے والد کی صحت یابی کے لیے دعا گو رہتی۔


والد کی فکر معاش چھوٹی اور شادی شدہ بیٹی نے ختم کردی۔ اس طرح کہ اس نے باپ کی جمع پونجی اپنے نیک طینت شوہر کو دی تاکہ وہ کسی کاروبار میں لگائے اور ماہانہ منافع سے گھر کا خرچ باآسانی چل سکے۔ بیٹیوں کی خدمت، مشاورت و معاونت نے دکھوں، مرض کی تکالیف اور پیچیدگیوں کے باوجود وہ راحت اور آسانی دی جو بظاہر ممکن نہ تھی۔ آج وہ معاشرے میںِ باعزت زندگی گزار رہے ہیں، لیکن بیٹا ان کے لیے کچھ نہ کرسکا بلکہ بدنامی کا باعث بنا ہوا ہے۔

یہ ایک سچی کہانی ہے اور ایسی بے شمار کہانیاں ہم سب کے ارد گرد موجود ہیں۔ اولاد نرینہ کے خواہش مند شوہر جب بیٹی کی پیدائش کی اطلاع پاتے تو اپنی بیوی پر برس پڑتے ہیں۔ ذہنی اور جسمانی اذیت اور ہر قسم کے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ طلاق دے دی جاتی ہے۔ اگرچہ بیٹیوں کی محبت، خدمت اور بیٹوں کی نافرمانی اور بڑھاپے میں چھوڑ دینے کی خبریں اور ایسے واقعات کے علم میں آنے سے ہماری سوچ اب تبدیل ہورہی ہے، مگر اب بھی ناخواندگی اور ذہنی پسماندگی کے سبب بیٹے اور بیٹی میں تفریق روا رکھی جاتی ہے۔ جب کہ بیٹا نعمت ہے تو بیٹی کو رحمت کہا گیا ہے۔

ہمارے اسی معاشرے کی بیٹیاں جہاں اپنے والدین کے لیے فخر کا باعث ہیں اور ان کا سہارا بنیں، وہیں ملک کا نام بھی روشن کیا۔ یہ چاہے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں ملالہ یوسفزئی ہو یا کم عمر انفارمیشن ٹیکنالوجی پروفیشنل ارفع کریم ہو، آسکرایوارڈ یافتہ شرمین عبید چنائے کی بات کریں یا ایشین گیمز میں کراٹے کا مقابلہ جیت کر کانسی کا تمغہ اپنے نام کرنے والی نرگس حمداﷲ ہو۔ تھر کی پہلی خاتون انجینئر کرن سدھوانی ہو یا پاکستان کی پہلی اسکوبا ڈائیونگ انسٹرکٹر روشین خان ہو، کراٹے چیمپئن کلثوم زہرہ ہو یا پاکستان کی پہلی خاتون ٹرک ڈرائیور شمیم اختر، قراقرم پہاڑی سلسلے کی چوٹی سر کرنے والی آمنہ مریم اور سعدیہ بتول ہوں یا پہلی بم ڈسپوزل افسر رافعہ قاسم بیگ ہوں۔

ہمارا سَر فخر سے بلند ہو جاتا ہے جب ہم ناسا کی جانب سے منتخب کی جانے والی رادیہ عامر کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ نام محض چند مثالیں ہیں جو نہ صرف اپنے والدین، خاندان بلکہ اپنے وطن کے لیے بھی فخر کا باعث ہیں۔ ایسی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جن کے والدین نے دن رات ایک کر کے اپنی بچیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا اور ساتھ ہی وہ اعتماد، تحفظ اور حوصلہ دیا کہ وہ ان کے لیے باعث عزت و فخر بنیں۔ یہ عزت اور فخر صرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنے والی بیٹیوں تک محدود نہیں بلکہ ہر وہ بیٹی جو گھر میں رہتے ہوئے اپنے والدین کا سہارا بنی اور اپنے کردار اور عمل کے ذریعے ان کے راحت و سکون کا باعث ہے، اس میں شامل ہے۔

لیکن اس کے باوجود آج بھی ہمارے معاشرے میں پسماندہ سوچ اور محدود ذہنیت موجود ہے جس پر افسوس ہوتا ہے، مگر جس عزت اور وقار سے بیٹیاں اپنی قابلیت و صلاحیت کا لوہا منوا رہی ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ معاشرہ بھی بدلے گا۔ بیٹیوں کو تعلیم دلوائیں، ان کی بہتر تربیت کے ساتھ بھرپور توجہ اور اعتماد دیں تو وہ بیٹوں کی طرح آپ کا سہارا بنیں گی اور آپ ان پر فخرکریں گے۔

 
Load Next Story