دہشت زدہ اسلام آباد وزیرداخلہ کہاں تھے نصیراللہ بابر یاد آتے رہے
وزارت داخلہ اوراسکے سربراہ نفاذقانون میں ناکام رہے،’ماڈل پولیس‘بے بس نظرآئی
وفاقی دارالحکومت کی اہم ترین شاہراہ پرگزشتہ روزکلاشنکوف اورسب مشین گن سے لیس شخص نے اپنی برقع پوش بیوی اور 2کمسن بچوں کی موجودگی میںسارے اسلام آبادکو جس اندازمیں اپنے حصار میں لیے رکھااور دہشت پھیلائے رکھی۔
اِس کی بازگشت ساری دنیامیں سنائی دی گئی۔ مختلف ٹی وی چینلز کی براہِ راست نشریات کی بدولت اِس آتشیںڈرامے سے متاثرہو کر غیر ممالک میں بسنے والے تقریباً تمام پاکستانی تشویش میں مبتلا ہوکر پاکستان میں اپنے عزیزواقارب سے خیریت بھی معلوم کرتے رہے۔ یہ افسوسناک واقعہ 5گھنٹے سے زائدوقت تک جاری رہا جس کے دوران وفاقی پولیس، جسے اسلام آباد کے آئی جی پولیس نے ''ماڈل پولیس'' کا خطاب بھی دے رکھا ہے، اس قدربے بس اوربے کس نظرآتی رہی کہ وہ مسلح شخص پرہاتھ ڈالنے، اُسے گرفتارکرنے یااپنے کمانڈوز کے توسط سے اُسے غیرمسلح کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ اسلام آباد بے یارومددگار شہرکی تصویر بنارہا۔ اِس موقع پر اسلام آباد کے شہری چندبرس قبل پیش آنے والے اِسی طرح کے ایک سانحہ کوشدت سے یادکرتے پائے گئے جب اس وقت کے وزیرداخلہ جنرل(ر) نصیراللہ بابرنے ذاتی حیثیت میںکارروائی کرکے مسلح اور اغواکنندگان گروہ پرقابو بھی پا لیاتھا اورمغوی بچے رہابھی کرالیے تھے۔
لیکن اِس موقع پر موجودہ وزیرداخلہ کہیں نظرآئے نہ اُن کی طرف سے 4گھنٹوں کے دوران کوئی بیان ہی جاری ہوسکا۔ اِس اسلوبِ سیاست پر عوام کفِ افسوس ملتے رہے۔ اِس واقعے کے پیش منظرمیں، جبکہ ایک مسلح شخص کی وجہ سے سارے اسلام آباد کی ٹریفک منجمدہو کررہ گئی تھی، کئی سوالات اٹھائے گئے۔ مثال کے طورپر اسلام آباد کے چاروںطرف اور اندرتقریباً 2درجن پولیس ناکوں کی موجودگی میں یہ شخص گاڑی میں بندوقیں اور اسلحہ لیے کیسے آزادانہ پھرتارہا؟ اسلام آبادپولیس کے ایس ایس پی آپریشنزڈاکٹر رضوان کی مکمل ناکامی سے یہ اندیشے بھی ظاہرکیے گئے ہیں کہ اگر خدانخواستہ طالبان زیادہ تعداد میں اسلام آباد پرہلہ بول دیتے ہیں جیساکہ اُنھوں نے بنوں اورڈیرہ اسماعیل خان پرکامیاب ہلہ بولا ہے، تواسلام آباد کے شہریوں کا پرسانِ حال کون ہو گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلح شخص کے ہاتھوںوفاقی دارالحکومت کاجہاں درجنوںممالک کے غیرملکی سفارت خانے بھی ہیں۔
یرغمال بنا لیا جانا ساری دنیا میں وطنِ عزیز کی ندامت کا باعث بھی بنا ہے۔ اِس گمبھیر صورتحال میں غیرملکی سفارت کار پاکستان کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے اور اپنے سنگین خدشات کااظہار کرتے رہے اوریہ تبصرے اپنی جگہ کوئی غیر فطری اور غیرمنطقی بھی نہیں۔ گزشتہ روزکی صورتحال کے دوران اسلام آباد کے شہری جس نفسیاتی کرب سے گزرے ہیں، یہ بجا طورپر کہاجا سکتاہے کہ کسی حکمران کی طبعِ نازک پرچاہے کتناہی گراںکیوں نہ گزرے، وزارتِ داخلہ اور اُس کے سربراہ قانون کے نفاذمیں بری طرح ناکام ونامراد ہوئے ہیں۔ ایسے میںاسلام آبادمیں اے پی سی بلاکر سارے ملک میں امن کا قیام اورطالبان سے نجات حاصل کرنے کی باتیں محض مصنوعی اوربے روح لگتی ہیں۔ کیا وزیرداخلہ چوہدری نثارجن سے قوم نے بڑی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں، اِس بارے میں فوری خصوصی اقدام کرنے کافوری فیصلہ کریں گے؟ یہ سوال اِس لیے بھی ناگزیرہے کہ اسلام آبادکی حفاظت اورسلامتی براہِ راست وزیرداخلہ کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔
اِس کی بازگشت ساری دنیامیں سنائی دی گئی۔ مختلف ٹی وی چینلز کی براہِ راست نشریات کی بدولت اِس آتشیںڈرامے سے متاثرہو کر غیر ممالک میں بسنے والے تقریباً تمام پاکستانی تشویش میں مبتلا ہوکر پاکستان میں اپنے عزیزواقارب سے خیریت بھی معلوم کرتے رہے۔ یہ افسوسناک واقعہ 5گھنٹے سے زائدوقت تک جاری رہا جس کے دوران وفاقی پولیس، جسے اسلام آباد کے آئی جی پولیس نے ''ماڈل پولیس'' کا خطاب بھی دے رکھا ہے، اس قدربے بس اوربے کس نظرآتی رہی کہ وہ مسلح شخص پرہاتھ ڈالنے، اُسے گرفتارکرنے یااپنے کمانڈوز کے توسط سے اُسے غیرمسلح کرنے میں مکمل ناکام رہی۔ اسلام آباد بے یارومددگار شہرکی تصویر بنارہا۔ اِس موقع پر اسلام آباد کے شہری چندبرس قبل پیش آنے والے اِسی طرح کے ایک سانحہ کوشدت سے یادکرتے پائے گئے جب اس وقت کے وزیرداخلہ جنرل(ر) نصیراللہ بابرنے ذاتی حیثیت میںکارروائی کرکے مسلح اور اغواکنندگان گروہ پرقابو بھی پا لیاتھا اورمغوی بچے رہابھی کرالیے تھے۔
لیکن اِس موقع پر موجودہ وزیرداخلہ کہیں نظرآئے نہ اُن کی طرف سے 4گھنٹوں کے دوران کوئی بیان ہی جاری ہوسکا۔ اِس اسلوبِ سیاست پر عوام کفِ افسوس ملتے رہے۔ اِس واقعے کے پیش منظرمیں، جبکہ ایک مسلح شخص کی وجہ سے سارے اسلام آباد کی ٹریفک منجمدہو کررہ گئی تھی، کئی سوالات اٹھائے گئے۔ مثال کے طورپر اسلام آباد کے چاروںطرف اور اندرتقریباً 2درجن پولیس ناکوں کی موجودگی میں یہ شخص گاڑی میں بندوقیں اور اسلحہ لیے کیسے آزادانہ پھرتارہا؟ اسلام آبادپولیس کے ایس ایس پی آپریشنزڈاکٹر رضوان کی مکمل ناکامی سے یہ اندیشے بھی ظاہرکیے گئے ہیں کہ اگر خدانخواستہ طالبان زیادہ تعداد میں اسلام آباد پرہلہ بول دیتے ہیں جیساکہ اُنھوں نے بنوں اورڈیرہ اسماعیل خان پرکامیاب ہلہ بولا ہے، تواسلام آباد کے شہریوں کا پرسانِ حال کون ہو گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ایک مسلح شخص کے ہاتھوںوفاقی دارالحکومت کاجہاں درجنوںممالک کے غیرملکی سفارت خانے بھی ہیں۔
یرغمال بنا لیا جانا ساری دنیا میں وطنِ عزیز کی ندامت کا باعث بھی بنا ہے۔ اِس گمبھیر صورتحال میں غیرملکی سفارت کار پاکستان کے بارے میں چہ میگوئیاں کرتے اور اپنے سنگین خدشات کااظہار کرتے رہے اوریہ تبصرے اپنی جگہ کوئی غیر فطری اور غیرمنطقی بھی نہیں۔ گزشتہ روزکی صورتحال کے دوران اسلام آباد کے شہری جس نفسیاتی کرب سے گزرے ہیں، یہ بجا طورپر کہاجا سکتاہے کہ کسی حکمران کی طبعِ نازک پرچاہے کتناہی گراںکیوں نہ گزرے، وزارتِ داخلہ اور اُس کے سربراہ قانون کے نفاذمیں بری طرح ناکام ونامراد ہوئے ہیں۔ ایسے میںاسلام آبادمیں اے پی سی بلاکر سارے ملک میں امن کا قیام اورطالبان سے نجات حاصل کرنے کی باتیں محض مصنوعی اوربے روح لگتی ہیں۔ کیا وزیرداخلہ چوہدری نثارجن سے قوم نے بڑی امیدیں وابستہ کررکھی ہیں، اِس بارے میں فوری خصوصی اقدام کرنے کافوری فیصلہ کریں گے؟ یہ سوال اِس لیے بھی ناگزیرہے کہ اسلام آبادکی حفاظت اورسلامتی براہِ راست وزیرداخلہ کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔