معاشی بدحالی کون کتنا قصوروار
آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار مس کمٹمنٹ کے باعث ہمیں نچلے درجے کے ممالک کی فہرست میں پھینک دیا گیا ہے۔
مہنگائی،بے چینی اور بے بسی عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ مہنگائی کیسے ہو رہی ہے؟ کیا یہ خود ساختہ ہے یا حقیقی؟ کہانی صرف اتنی سی ہے کہ غریب آدمی کا جینا دو بھر ہوگیا ہے،کوئی یہ نہیں بتا پارہا کہ آج ملک پر کھربوں روپے کا قرضہ کیسے چڑھا ہے۔ ماضی میں لیے جانے والے شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم قرضوں کو چکانے کا وقت (2019-20) آن پہنچا ہے۔
آیندہ چند ماہ میں پاکستان نے 12 سے14ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ہمارا تجارتی خسارہ بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ بار بار مس کمٹمنٹ کے باعث ہمیں نچلے درجے کے ممالک کی فہرست میں پھینک دیا گیا ہے۔ کوئی یہ نہیں بتا رہا کہ جب حکومت آئی تو اربوں ڈالر کے امپورٹ بل ادا کرنے والے تھے جس سے زر مبادلہ کے ذخائر ریکارڈ سطح تک نیچے چلے گئے۔ یہ سب باتیں شاید متعدد مرتبہ کی جاچکی ہوں مگر سوال یہ بھی ہے کہ وطن عزیز کو اس نہج تک پہنچانے والوں میں کیا تحریک انصاف قصور وار ہے؟ میں تحریک انصاف کا نمایندہ تو نہیں مگر بطور پاکستانی یہ جاننے کا حق ضرور رکھتا ہوں کہ میرے ملک کی بدحال معیشت میں کس نے کتنا حصہ ڈالا اور کون کتنا قصوروار ہے۔
تاریخی دستاویزات کے مطابق پاکستان بننے کے بعد سے ہی پاکستان کے معاشی حالات قابل ذکر نہیں رہے،مگر معیشت اتنی کمزور بھی نہ تھی جتنی آج ہے۔ 1960 میں ایک امریکی ڈالر 3پاکستانی روپے کے برابر تھا، جو 1971تک گھمبیرسیاسی حالات اور مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی وجہ سے بڑھ کر 7روپے کا ہوگیا۔ لیکن معاشی طور پر پھر بھی ہم قدرے مضبوط ہی تھے۔ بھٹو کے دور حکومت تک ہمارا کل بیرونی قرضہ 6ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا اور ضیاء دور میں ایف 16کی خریداری کا قرض، ایٹمی پروگرام کی تکمیل کا قرض اور متعدد چھوٹے ڈیموںکے لیے لیا جانے والا قرض ملا کرکل 12ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔ جسے اگلی آنے والی حکومتوں نے اس میں کمی کرنے کے بجائے اضافہ کیا۔
دسمبر1988میں محترمہ بے نظیر کی قیادت میں عالمی اداروں سے قرض کے دو پروگرام حاصل کیے گئے جس سے مزید 2ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ نواز شریف حکومت نے 1993ء میں ایک ارب ڈالر کے قریب بیرونی قرض لیا۔1994، 1995، 1997اور 1999میں بھی قرض پیکیج لیے گئے اور یوں دونوں منتخب جمہوری حکمرانوں نے مجموعی طور پر صرف 11 سال کے عرصے میں 26ارب ڈالر قرضہ لیا۔ جب کہ ان دس سالوں میں 4ارب ڈالر کے ایک موٹر وے کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا۔ یعنی 1999کے مارشل لاء تک پاکستان پر بیرونی قرض کا کل حجم 39ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا۔پاکستان اصل رقم کی واپسی تو دور کی بات ،سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں تھا۔
1999کے مارشل لاء کے بعد مشرف دور شروع ہوا، آغاز میں پاکستان کو اقتصادی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا مگر 9/11کے بعد حالات بہتر ہوگئے۔ پاکستان پر پابندیوں کا خاتمہ ہوا۔1999 اور 2000 کے اقتصادی جائزے کے مطابق جنرل مشرف نے پیرس کلب کے ساتھ معاہدہ کیا، کنسورشیم کو قرضوں کی ری شیڈولنگ پر راضی کیا۔
عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا گیا۔اس عرصے میں پاکستان کے سارے سود ادا کرکے اصل زر میں سے بھی پانچ ارب ڈالر کی رقم واپس کی گئی۔ 2008 میں پاکستان پر قرضوں کا بوجھ کم ہوکر 34ارب ڈالر رہ گیا۔اُس وقت ''منصوبہ 2020 ''بھی بنایا گیا جس کے مطابق پاکستان 2020تک ملک کے قرضے چکا دے گا۔مگر کہانی اُلٹ گئی،عالمی طاقتوں کی بدولت سیاسی جماعتوں کے ساتھ این آر او ہوا، جمہوریت بھی لوٹ آئی۔ 2008میں پیپلزپارٹی کے دور کا آغاز ہوا اور نئی نویلی جمہوریت نے 7.2ارب ڈالر کا تاریخی پیکیج وصول کیا۔
2008 سے 2013 تک کے پیپلزپارٹی کے پانچ سالوں میں بیرونی قرضہ 34ارب ڈالر سے بڑھ کر59 ارب ڈالر تک جاپہنچا۔ اندرونی قرضہ 6000ارب روپے سے بڑھ کر 12ہزار ارب روپے تک پہنچ گیا،پیپلزپارٹی نے پاکستان کوکل 31 ارب ڈالر کا مقروض کیا۔اس کے بعد 2013 میں ن لیگ آئی جس کے دور میں بیرونی قرضہ 59 ارب ڈالر سے 95 ارب ڈالر تک پہنچ گیا اور اندرونی قرض 19ہزار ارب روپے تک جا پہنچا۔ یوں پاکستان کل 30ہزار ارب روپے کے قرض میں ڈوب گیا۔
عوام حیران ہیں کہ آخری دونوں ادوار میں پاکستان پر عالمی ادارے اس قدر مہربان کیوں تھے؟ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ عالمی ادارے نیا قرض پرانے قرض میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے دیتے اور دوسرا نئے قرض کے لیے پاکستان سے اُس کے اہم ایسٹ گروی رکھوائے جاتے اور سابقہ حکومتیں خاص طور پر ن لیگی دور کے اسحاق ڈار اس حوالے سے خاصے ایکسپرٹ سمجھے جاتے تھے۔
بہرکیف مجال ہے کہ سابقہ حکومتیں اور موجودہ اپوزیشن اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہو کہ وہ وطن عزیز کو اس نہج تک لانے کی ذمے دار ہیں۔جس سے ہر پیدا ہونے والا پاکستانی پونے دو لاکھ روپے کا مقروض ہوگیا۔ سرپھوڑنے کو جی کرتا ہے جب یہ سنا جاتا ہے کہ آج پاکستان کی 70فیصد انڈسٹری آخری دس سالوں میں یا تو بند ہوگئی یا بنگلہ دیش منتقل ہوگئی۔ بیرونی سرمایہ کاری کا ستیا ناس کردیا گیا، 2007 کی اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 6ارب ڈالر تھا جو پی پی پی کے دور میں انتہا کی دہشت گرد کارروائیوں اور غیر مستحکم حالات کے باعث محض 0.8ارب ڈالر رہ گئی۔
اورسابقہ ن لیگی دور میں مزید کم ہو کر0.2ارب ڈالر رہ گئی۔ (سی پیک بیرونی سرمایہ کاری نہیں بلکہ بھاری بھرکم سود والا قرضہ ہے)۔ آج حالات تو یہ ہیں کہ ملک کے تین بڑے ادارے پی آئی اے، ریلوے اور پاکستان اسٹیل مل سالانہ 700ارب روپے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اور بقول عمران خان5000 ارب روپے کی کل آمدنی میں سے 23سو ارب روپے صوبے، 17سو ارب روپے دفاع، 7سو ارب روپے قرضے اُتارنے اور 7سو ارب روپے مذکورہ تین ادارے لے جاتے ہیںجس سے وفاق نقصان میں چلا جا تا ہے۔ ان حالات میں فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو تباہ کرنے میں کس کا کتنا حصہ رہا ہے اور موجودہ حکومت کس قدر قصور وار ہے!!!
بہرحال یہ بات حقیقت ہے کہ ملک کی معاشی حالت انتہائی خراب ہے اور موجودہ حکومت پر اس کا بہت شدید دباؤ ہے۔ ماضی کے حکمران تو اپنا کام کر کے چلے گئے اب سب سے زیادہ ذمے داری تحریک انصاف پر ہی عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو اس بحران سے نکالے ۔عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بحال کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے اس کے ساتھ ساتھ عالمی صف بندی میں اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنا بھی ایک اہم ترین بات ہے دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنے آپ کو کس حد تک مشکل صورت حال سے نکالنے میں کامیاب ہوتی ہے۔