پاکستان پیپلز پارٹی کی احتجاجی حکمت عملی کیا رنگ لائے گی
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مفاہمانہ سیاست کااب اختتام ہوگیا ہے۔
سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی 40 ویں برسی پر پاکستان پیپلزپارٹی نے گڑھی خدا بخش بھٹو میں بھرپور سیاست قوت کا مظاہرہ کیا۔اس موقع پر پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اس سال حکومت کے خاتمہ کی نوید سناتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ کرنے کا عندیہ دیا ہے جبکہ بلاول بھٹو زرداری نے بھی حکومت کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے 18ویں ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو وہ لات مار کر اس کا خاتمہ کردیں گے۔
گڑھی خدا بخش بھٹو میں پیپلزپارٹی کے قائد ین کے خطاب سے اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ آصف علی زرداری میگا منی لانڈرنگ کیس میں اپنی گرفتاری کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار ہیں۔انہوں نے کارکنوں کے نام یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں کارکن بلاول بھٹو زرداری، بختاور اور آصفہ کا خیال رکھیں۔آصف علی زرداری نے کہا کہ کارکن تیاری کر لیں اب ان لوگوں کو اقتدار سے نکالنے کا وقت آگیا ہے، ملک کی بہتری کے لیے اس حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔
اس لیے ان لوگوں کو گھر بھیجنے کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کارکن صبر کریں، بہت جلد ان کو نکالنے کی تحریک چلائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور راولپنڈی کی احتساب عدالت میں اس کیس میں پیش ہوگئے ہیں۔ مقدمہ کو راولپنڈی منتقل کرنے پر پیپلزپارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی جو عدالت عالیہ نے مسترد کردی۔ بلاول بھٹو نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے لاڑکانہ کے جلسہ عام میں کہا کہ راولپنڈی میں ہمارے خلاف ایک بار پھر کربلا برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے انہیں تاریخ سبق سکھاتی ہے، ہمارے قاتلوں کی پناہ گاہوں کو کب تک تحفظ دیا جاتا رہے گا اور بھٹو کیوں قتل ہوتے رہیں گے؟۔ آخر ہمارے خون کا احتساب کب ہوگا؟ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مفاہمانہ سیاست کااب اختتام ہوگیا ہے۔ سیاسی حالات نے اسے نہج پر پہنچادیا ہے جہاں اس کے پاس حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔
اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری انتہائی متحرک ہیں۔ سندھ میں ان کے ٹرین مارچ کو عوام کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ اسی طرح لاڑکانہ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر ہونے والے جلسہ عام میں عوام کی بڑی تعدا د میں شرکت نے اس بات کو تقویت پہنچائی ہے کہ تمام تر الزامات کے باوجود پیپلزپارٹی آج بھی سندھ کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے تاہم اگر پارٹی کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے یا کسی احتجاج کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کی کامیابی کے لیے پیپلزپارٹی پنجاب کے عہدیداروں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوجائے گی۔ جنوبی پنجاب کی سطح پر پیپلزپارٹی کو آج بھی معقول عوامی حمایت حاصل ہے لیکن اصل مسئلہ سینٹرل پنجاب میں پیش آئے گا۔اسلام آباد میں احتجاج کے لیے کارکنوں کی کمک ان علاقوں سے باہر نہیں نکلی تو پیپلزپارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری10 اپریل کو اسلام کوٹ میں تھرکول پاور پروجیکٹ کا دورہ کرینگے اور تھرکول کے پہلے فیز میں 660 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کو نیشنل گرڈ سے لنک کرنے کی رونمائی کرینگے۔ تھرکول پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے 1996میں رکھا تھا۔اسلام کوٹ میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے وفاق سے کسی شخصیت کو دعوت نہیں دی گئی ہے۔ یہ قومی سطح کا پروجیکٹ ہے اس لیے پورے ملک کو فائدہ حاصل ہوگا۔
پیپلزپارٹی اگر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو اس تقریب میں مدعو کرتی تو اس سے ایک اچھاپیغام جاتا۔ مشیر اطلاعات سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ شہید بی بی کے خواب کو سندھ حکومت نے روشن تھر روشن سندھ اور روشن پاکستان کی صورت میں حقیقت کا روپ دیا ہے۔
اس افتتاح کی تاریخی اہمیت ہے۔ تھرکول پورے پاکستان کو روشن کرے گا۔ سندھ حکومت کی کارکردگی اور تھر کول منصوبے پر بے جا تنقید کرنے والے آج دیکھ لیں کہ شہید بی بی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے۔ بیرسٹر مرتضی وہاب نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ اور تھرپارکر کے بعد سندھ و پنجاب کے بارڈر گھوٹکی شہر میں تاریخی جلسے سے خطاب کرینگے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے گھوٹکی میں جلسے سے خطاب کے بعد پیپلز پارٹی کے گھوٹکی سے منتخب ارکانِ اسمبلی، عہدیداران و کارکنان پارٹی چیئرمین کو جلسہ عام منعقد کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔سیاسی حلقے بلاول بھٹو زرداری کے گھوٹکی کے جلسے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے ،جسے پیپلزپارٹی کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حیدآباد میں یونیورسٹی کا قیام سندھ کے دوسرے بڑے شہر کے باسیوں کی دیرینہ خواہش ہے۔
ایم کیو ایم نے حکومت کے ساتھ اپنے معاہدہ میں بھی اس بات کو شامل کرایا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے گی۔ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد چاہے اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس میں ہی رکھا گیا ہو لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے اس جانب سنجیدہ قدم اٹھایا ہے۔ا ب تمام توجہ اس جانب مبذول ہونا ضروری ہے کہ یونیورسٹی جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے اور حیدرآباد سمیت سندھ کے دوسرے شہروں کے طلباء اس سے مستفید ہوسکیں۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کی بات ہے اس کا موقف ہے کہ حیدرآباد یونیورسٹی کا اسلام آباد میں افتتاح سندھ کے ساتھ مذاق ہے۔
گڑھی خدا بخش بھٹو میں پیپلزپارٹی کے قائد ین کے خطاب سے اس بات کا اشارہ مل رہا ہے کہ آصف علی زرداری میگا منی لانڈرنگ کیس میں اپنی گرفتاری کے حوالے سے ذہنی طور پر تیار ہیں۔انہوں نے کارکنوں کے نام یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں کارکن بلاول بھٹو زرداری، بختاور اور آصفہ کا خیال رکھیں۔آصف علی زرداری نے کہا کہ کارکن تیاری کر لیں اب ان لوگوں کو اقتدار سے نکالنے کا وقت آگیا ہے، ملک کی بہتری کے لیے اس حکومت کا خاتمہ ضروری ہے۔
اس لیے ان لوگوں کو گھر بھیجنے کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ کارکن صبر کریں، بہت جلد ان کو نکالنے کی تحریک چلائیں گے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور راولپنڈی کی احتساب عدالت میں اس کیس میں پیش ہوگئے ہیں۔ مقدمہ کو راولپنڈی منتقل کرنے پر پیپلزپارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور اس حوالے سے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی گئی تھی جو عدالت عالیہ نے مسترد کردی۔ بلاول بھٹو نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے لاڑکانہ کے جلسہ عام میں کہا کہ راولپنڈی میں ہمارے خلاف ایک بار پھر کربلا برپا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے انہیں تاریخ سبق سکھاتی ہے، ہمارے قاتلوں کی پناہ گاہوں کو کب تک تحفظ دیا جاتا رہے گا اور بھٹو کیوں قتل ہوتے رہیں گے؟۔ آخر ہمارے خون کا احتساب کب ہوگا؟ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مفاہمانہ سیاست کااب اختتام ہوگیا ہے۔ سیاسی حالات نے اسے نہج پر پہنچادیا ہے جہاں اس کے پاس حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔
اس حوالے سے بلاول بھٹو زرداری انتہائی متحرک ہیں۔ سندھ میں ان کے ٹرین مارچ کو عوام کی جانب سے بھرپور پذیرائی ملی ہے۔ اسی طرح لاڑکانہ میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کے موقع پر ہونے والے جلسہ عام میں عوام کی بڑی تعدا د میں شرکت نے اس بات کو تقویت پہنچائی ہے کہ تمام تر الزامات کے باوجود پیپلزپارٹی آج بھی سندھ کی سب سے مقبول سیاسی جماعت ہے تاہم اگر پارٹی کی جانب سے اسلام آباد میں دھرنے یا کسی احتجاج کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس کی کامیابی کے لیے پیپلزپارٹی پنجاب کے عہدیداروں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوجائے گی۔ جنوبی پنجاب کی سطح پر پیپلزپارٹی کو آج بھی معقول عوامی حمایت حاصل ہے لیکن اصل مسئلہ سینٹرل پنجاب میں پیش آئے گا۔اسلام آباد میں احتجاج کے لیے کارکنوں کی کمک ان علاقوں سے باہر نہیں نکلی تو پیپلزپارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری10 اپریل کو اسلام کوٹ میں تھرکول پاور پروجیکٹ کا دورہ کرینگے اور تھرکول کے پہلے فیز میں 660 میگاواٹ بجلی کی پیداوار کو نیشنل گرڈ سے لنک کرنے کی رونمائی کرینگے۔ تھرکول پاور پراجیکٹ کا سنگ بنیاد شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے 1996میں رکھا تھا۔اسلام کوٹ میں ہونے والی تقریب میں شرکت کے لیے وفاق سے کسی شخصیت کو دعوت نہیں دی گئی ہے۔ یہ قومی سطح کا پروجیکٹ ہے اس لیے پورے ملک کو فائدہ حاصل ہوگا۔
پیپلزپارٹی اگر فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کو اس تقریب میں مدعو کرتی تو اس سے ایک اچھاپیغام جاتا۔ مشیر اطلاعات سندھ بیرسٹر مرتضی وہاب کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ شہید بی بی کے خواب کو سندھ حکومت نے روشن تھر روشن سندھ اور روشن پاکستان کی صورت میں حقیقت کا روپ دیا ہے۔
اس افتتاح کی تاریخی اہمیت ہے۔ تھرکول پورے پاکستان کو روشن کرے گا۔ سندھ حکومت کی کارکردگی اور تھر کول منصوبے پر بے جا تنقید کرنے والے آج دیکھ لیں کہ شہید بی بی کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے جارہا ہے۔ بیرسٹر مرتضی وہاب نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ بلاول بھٹو زرداری لاڑکانہ اور تھرپارکر کے بعد سندھ و پنجاب کے بارڈر گھوٹکی شہر میں تاریخی جلسے سے خطاب کرینگے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے گھوٹکی میں جلسے سے خطاب کے بعد پیپلز پارٹی کے گھوٹکی سے منتخب ارکانِ اسمبلی، عہدیداران و کارکنان پارٹی چیئرمین کو جلسہ عام منعقد کرنے کی اپیل کر رہے تھے۔سیاسی حلقے بلاول بھٹو زرداری کے گھوٹکی کے جلسے کو انتہائی اہم قرار دے رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد میں حیدرآباد یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ہے ،جسے پیپلزپارٹی کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حیدآباد میں یونیورسٹی کا قیام سندھ کے دوسرے بڑے شہر کے باسیوں کی دیرینہ خواہش ہے۔
ایم کیو ایم نے حکومت کے ساتھ اپنے معاہدہ میں بھی اس بات کو شامل کرایا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت حیدرآباد میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لائے گی۔ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد چاہے اسلام آباد کے وزیراعظم ہاؤس میں ہی رکھا گیا ہو لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت نے اس جانب سنجیدہ قدم اٹھایا ہے۔ا ب تمام توجہ اس جانب مبذول ہونا ضروری ہے کہ یونیورسٹی جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے اور حیدرآباد سمیت سندھ کے دوسرے شہروں کے طلباء اس سے مستفید ہوسکیں۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کی بات ہے اس کا موقف ہے کہ حیدرآباد یونیورسٹی کا اسلام آباد میں افتتاح سندھ کے ساتھ مذاق ہے۔