جہانگیر ترین اورعلیم خان کو غیروں سے زیادہ اپنوں کی سازشوں کا سامنا

جہانگیر ترین کو شاہ جی پر مزید بالادستی مل گئی ہے لیکن دو بڑوں کی یہ لڑائی تحریک انصاف کیلئے بہرصورت نہایت تباہ کن ہے۔


رضوان آصف April 10, 2019
جہانگیر ترین کو شاہ جی پر مزید بالادستی مل گئی ہے لیکن دو بڑوں کی یہ لڑائی تحریک انصاف کیلئے بہرصورت نہایت تباہ کن ہے۔ فوٹو: فائل

شاہ محمود قریشی ملکی سیاست کے ایک منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں،تین دہائیوں سے زائد مدت سے وہ سیاسی میدان میں موجود ہیں،ان کی سیاست کا زیادہ عرصہ پیپلز پارٹی میں گذرا ہے لیکن وہاں بھی وہ اپنی سر توڑ کوشش کے باوجود یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کی مانند وزارت عظمی کا لطف نہیں لے سکے۔

شاہ جی پر ''مقتدر'' طاقتوں کی خصوصی قربت کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے اور یہ بھی دعویٰ سنائی دیتا ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میںجو استعفیٰ دیا تھا وہ بھی ''کسی''کے کہنے پر دیا تھا۔شاہ محمود قریشی اس وقت تحریک انصاف کی حکومت میں نہ صرف وفاقی وزیر خارجہ کے عہدے پر براجمان ہیں بلکہ وہ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔گزشتہ دنوں گورنر ہاؤس لاہور میں گورنر چوہدری محمد سرور کے ہمراہ ایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے اپنی جماعت کے اہم ترین رہنما جہانگیر ترین کے خلاف ایک متنازعہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کو سرکاری اجلاسوں میں بیٹھ کر پارٹی کو اپوزیشن کی تنقید کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔

شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس کے دوران موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی شامل گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کو نا اہل کرنے والے بنچ میں موجودہ چیف جسٹس بھی شامل تھے لہٰذا ترین کا یوں سرکاری اجلاس میں بیٹھنا چیف جسٹس کے فیصلے کی توہین ہے۔

شاہ جی ویسے تو ہر قدم بہت سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں لیکن اس مرتبہ ان سے مس کیلکولیشن ہو گئی،جونہی شاہ جی کا بیان نشر ہوا اس کے ساتھ ہی ملک بھر سے شاہ جی کے بیان پر تحریک انصاف کے اہم رہنماؤں کا ردعمل آنا شروع ہوگیا جو سو فیصد جہانگیر ترین کے حق میں تھا، صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے جہانگیر ترین کو فون کر کے شاہ جی کے بیان پر ناپسندیدگی اور جہانگیر ترین کی حمایت کا اظہار کیا، وفاقی وزراء فواد چوہدری، فیصل واوڈا،مراد سعید، پرویز خٹک سمیت صوبائی وزراء کی بڑی تعداد نے اپنے بیانات میں جہانگیر ترین کی حمایت کی، سب سے دلچسپ امر یہ کہ شاہ جی کے بیان کے بعد جہانگیر ترین کے حق میں تو بیانات آئے لیکن شاہ جی کے بیان کی حمایت میں کوئی ایک بیان بھی نہیں آیا یہاں تک کہ ان کے گروپ کے رہنماؤں نے بھی شاہ جی کو تنہا چھوڑ دیا۔

تحریک انصاف کے کارکنوں نے بھی شاہ محمود قریشی کے بیان کو سخت ناپسند کیا،اگلے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عمران خان نے بھی کہا کہ وہ جسے چاہیں گے کابینہ اجلاس میں بلا ئیں گے۔ ملک کے ممتاز آئینی و قانونی ماہرین نے بھی ٹی وی ٹاک شوز میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی قومی یا صوبائی اسمبلی کا الیکشن لڑنے یا پھر کوئی سرکاری عہدہ لینے تک نافذ العمل ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی بھی طور جہانگیر ترین کو وزیر اعظم کی دعوت پر بحیثیت تکنیکی ماہر کسی سرکاری اجلاس میں شرکت سے نہیں روکتا۔

ایسے وقت میں جب عمران خان اور ان کی حکومت شدید معاشی وسیاسی مشکلات اور عوامی ناراضگی کا شکار ہے،شاہ محمود قریشی کو پبلک میں آکر ایسا بیان نہیں دینا چاہئے تھا اگر انہیں ترین کے حوالے سے کوئی تحفظات تھے تو انہیں براہ راست وزیر اعظم سے بات کرنا چاہیے تھی، یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین نہیں بلکہ عمران خان پر ''سرجیکل سٹرائیک'' کی ہے اور اس کے پس منظر میں کوئی بڑی بات ہے۔ فی الوقت تو شاہ محمود قریشی کو پسپائی ہوئی ہے اور جہانگیر ترین کو شاہ جی پر مزید بالادستی مل گئی ہے لیکن دو بڑوں کی یہ لڑائی تحریک انصاف کیلئے بہر صورت نہایت تباہ کن ہے اور اسے فوری روکنا ناگزیر ہے۔ شاہ جی کو اب یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ پارٹی کے اندر آج بھی جہانگیر ترین کے حق میں بولنے والوں کی آواز ''اینٹی ترین گروپ'' سے کہیں زیادہ بلند ہے۔

عمران خان کے دوسرے اہم ترین ساتھی عبدالعلیم خان بھی اس وقت ''بیلنس پالیسی''کا شکار ہیں ، نیب ابھی تک ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کر سکا ہے اور قوی امکان ہے کہ رواں ماہ کے دوران عبدالعلیم خان کو عدالت سے ضمانت مل جائے گی۔ معتبر ترین ذرائع کے مطابق عبدالعلیم خان کیس میں نیب کے جانبدارانہ اقدامات اور کیس میں عبدالعلیم خان کے خلاف ٹھوس شواہد نہ ملنے کی وجہ سے عمران خان بھی علیم خان کی بے گناہی سے متفق دکھائی دے رہے ہیں اور کپتان بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ توازن قائم کرنے کی کوشش کے طور پر ان کے ایک اہم ترین ایسے ساتھی کو پابند سلاسل کیا گیا ہے جو پنجاب کابینہ میں سینئر وزیر اور وزیر بلدیات کی حیثیت سے بہترین کارکردگی دکھا رہا تھا اور وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کو بھی انتظامی معاملات میں علیم خان کی بھرپور سپورٹ مل رہی تھی۔

تمام تجزیہ نگار اور ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ اگر پنجاب کی وزارت اعلیٰ جہانگیر ترین یا عبدالعلیم خان کے پاس ہوتی تو آج پنجاب میں حکومتی نتائج یکسر مختلف ہوتے اور شہباز شریف کی گڈ گورننس کے مقابلے میں تحریک انصاف کی حکومت کی ساکھ زیادہ مضبوط ہوجاتی۔ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کی بدقسمتی کہہ لیجئے کہ انہیں غیروں سے کہیں زیادہ اپنوں کی سازشوں اور مخالفت نے نقصان پہنچایا ہے۔ تحریک انصاف کے وہ رہنما جو ''درشنی پہلوان'' بن کر میلہ لوٹنا چاہتے تھے ان کی راہ میں ترین اور علیم کی صورت میں ایک ایساسنگ میل آکھڑا ہوا جسے صرف اور صرف حقیقی کارکردگی کے ذریعے ہی عبور کیا جا سکتا تھا لہٰذا ان سب نے باہمی اتحاد کر کے ان دونوں رہنماؤں کے خلاف اندرونی محاذ کھول دیا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان گزرے ہوئے کل، آج اور آنے والے کل میں بھی جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان کو اپنا نہایت قابل اعتماد ساتھی سمجھتے رہیں گے اور یہ بات ''اپنوں'' کو جتنی جلد سمجھ میں آ جائے ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہوگا بصورت دیگر ان کے چلائے ہوئے تیر آج تک تو صرف خطا ہوئے ہیں کہیں ایسا نہ ہوجائے کہ تیر پلٹ کر تیر انداز کو ہی گھائل کر دے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں