کیا پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کیا جارہا ہے

موجودہ حکومت کے مسائل اور طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے بظاہر پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام میں نظر آتا ہے


پاکستان میں صدارتی نظام کو مطلق العنانیت اور آمریت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔(فوٹو: انٹرنیٹ)

قیام پاکستان سے لے کر اب تک اس بات کا تعین نہیں ہوسکا کہ ملک کےلیے کون سا نظام حکومت بہتر رہے گا؟ گورنر جنرل، صدر اور وزیراعظم کے عنوانات کے تحت ملک کا نظام چلانے کےلیے مختلف تجربات کیے گئے۔ ایک نظام نے جہاں آمرانہ طرز حکومت دیا تو دوسرے نظام نے موروثی سیاست کو فروغ دیا۔ ملک کا اقتدار گزشتہ 70 سال سے چند خاندانوں کے درمیان ہی گھومتا رہا۔ اس کی باگ ڈور جہاں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرز نے سنبھالی، وہیں بعض اوقات سرمایہ دار اور صنعت کار مسند اقتدار پر براجمان ہوئے۔

آئین پاکستان کے تحت اقتدار اعلیٰ کی مالک اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذات ہے اور عوامی نمائندے اقتدار کو ایک امانت کے طور پر رکھیں گے۔ لیکن تاریخ شاہد ہے کہ عوامی نمائندوں نے اس امانت میں جی بھر کر خیانت کی۔ پاکستان میں ایک بار پھر صدارتی نظام نافذ کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

ملک میں پہلی بار صدارتی نظام حکومت جنرل ایوب خان کے دور حکومت میں لایا گیا۔ جنرل ایوب خان کا دعویٰ تھا کہ پاکستانی ووٹر اتنا باشعور نہیں کہ وہ اپنے نمائندے چن سکے، اس لیے ملک میں کنٹرولڈ ڈیموکریسی نافذ کی جائے تاکہ موم کی اس گڑیا کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالا جاسکے۔ انہوں نے 1962 میں ایک پریس کانفرنس کے ذریعے آئین کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے کسی بھی عوامی نمائندے سے رائے نہیں لی۔ صدر ایوب کا یہ منصوبہ بھی صرف سات برس ہی چل سکا۔

وفاقی پارلیمانی آئین میں پارلیمینٹ دو تہائی اکثریت سے ترمیم کرسکتی ہے، تاہم ملک کی اعلیٰ ترین عدالت قرار دے چکی ہے کہ پارلیمنٹ بھی اس آئین میں بنیادی نوعیت کی کوئی ایسی ترمیم نہیں کرسکتی جو اس کی روح کے خلاف ہو۔

پاکستان میں اس وقت پارلیمانی نظام نافذ ہے، ماضی میں اس نظام کو صدارتی چھتری میں لانے کی دو بڑی کوششیں ہوچکی ہیں۔ پہلی کوشش جنرل ضیاالحق اور دوسری کوشش جنرل پرویز مشرف نے کی تھی۔ جنرل ضیاالحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار دے دیا۔ جس کے تحت جنرل ضیاالحق، غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری نے بطور صدر چار اسمبلیاں تحلیل کیں۔ تاہم نواز شریف جب دوسری مرتبہ وزیراعظم بنے تو انہوں نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے یہ صدارتی اختیار ختم کردیا۔

جنرل پرویز مشرف نے جب نوازشریف کا تختہ الٹنے کے تین سال بعد 2002 میں انتخابات کرائے تو انہوں نے ایم ایم اے کی مدد سے سترہویں ترمیم منظور کرالی، جس کے تحت صدر کو اسمبلی توڑنے کا اختیار دوبارہ حاصل ہوگیا۔ تاہم اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ایک بار پھر یہ صدارتی اختیار ختم کردیا گیا۔

وفاقی حکومت کی موجودہ صورتحال، کابینہ وزرا اور اتحادیوں سے اختلافات آئے روز خبروں کا حصہ بنتے ہیں۔ بظاہر وزیراعظم کابینہ، اتحادیوں اور اپنی جماعت کے ممبران اسمبلی کے ہاتھوں بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ غیر جانبدار تجزیہ کاروں کے مطابق وزیراعظم کی اس بے بسی کے باعث اقتدار پر ان کی گرفت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ اس صورتحال میں حکمران جماعت کی جانب سے صدارتی نظام حکومت نافذ کرنے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟

صدارتی نظام لانا اتنا آسان نہیں، جتنا بظاہر دکھائی دے رہا ہے۔ حکمران جماعت کو صدارتی نظام لانے کےلیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہوگی، جس کےلیے تحریک انصاف کے پاس مطلوبہ برتری حاصل نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کو دوبارہ عوامی انتخابات میں جانا ہوگا۔ صدارتی نظام کو اپنا انتخابی منشور کا حصہ بناتے ہوئے عوام کا اعتماد دوبار حاصل کرنا ہوگا۔ اگر عوام انہیں منتخب کردیں تو اس کے بعد ہی صدارتی نظام کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

پاکستان میں صدارتی نظام کو مطلق العنانیت اور آمریت کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔ جس نظام میں تمام اختیارات صرف ایک شخص کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیا کے 75 فیصد ممالک میں صدارتی نظام نافذ ہے۔ بعض ماہرین سیاسیات کے مطابق پاکستان میں اداروں کی تشکیل، اہم فیصلے اور ترقی صدارتی نظام کے تحت زیادہ ہوئی ہے۔ اس نظام میں کرپشن کی گنجائش انتہائی کم ہوتی ہے۔ رئیس الریاست کسی سے بلیک میل نہیں ہوتا۔ اسے قانون پاس کرانے یا منصوبے بنانے کےلیے بلیک میل ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس نظام کے تحت اسمبلیوں میں دولت مند اور سرمایہ دار نہیں پہنچتے بلکہ حقیقی عوامی نمائندوں کے ممبران اسمبلی بننے کے مواقع میں اضافہ ہوتا ہے۔

موجودہ حکومت کے مسائل اور طریقہ کار کو دیکھتے ہوئے بظاہر تو پاکستان کے مسائل کا حل صدارتی نظام میں نظر آتا ہے۔ صدر ریاست اپنے پارٹی عہدیداران، وزرا اور دیگر افراد سے بلیک میل ہونے کے بجائے ملک کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرسکتا ہے۔

وزیراعظم پاکستان حکمران جماعت کے سربراہ بھی ہیں، ان کی پارٹی پر گرفت بھی مضبوط ہے، لیکن اس امر کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک انصاف کی حکومت الیکٹیبلز اور اتحادیوں کے سہارے کھڑی ہے۔ اور ان موسمی پرندوں کے بارے میں کوئی بھی بات وثوق سے نہیں کہی جاسکتی کہ وہ کب اپنی ہمدردیاں بدل لیں۔ اپوزیشن حکمران جماعت سے زیادہ مضبوط ہے۔ وزیراعظم یا ان کے مشیروں کی جانب سے کسی بھی قسم کی مہم جوئی ان کےلیے خطرے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس لیے فی الحال وزیراعظم ایسا کوئی قدم اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن مستقبل میں وزیراعظم صدارتی نظام کےلیے کوشش کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی بھی حل موجود نہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں