ہنر اور سمت

ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ کہاں جانا ہے، کیا کچھ ہوسکتا ہے اور میں کیا کرسکتا ہوں؟


اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ہمارے نوجوانوں کے پاس کوئی کیریئر پاتھ، کوئی سمت نہیں ہوتی۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کسی گاؤں میں ایک آدمی رہتا تھا۔ کام وہ کرتا نہیں تھا، ہنر اسے کوئی آتا نہیں تھا لیکن اس کے گھر کے سامنے ایک لوہار کی دکان تھی جس پر وہ اکثر جاکر بیٹھ جاتا تھا، اس کا کام دیکھتا اور کہتا کہ یہ تو کوئی مشکل کام ہی نہیں۔ لوہار مسکرا دیتا لیکن کہتا کچھ بھی نہیں تھا۔

کرنا خدا کا یہ ہوا کہ اس نوجوان کی شادی ایک قریبی گاؤں میں ہوگئی۔ ایک روز وہ اپنے سسرال گیا، سسرال والوں نے خوب خاطر تواضع کی۔ اگلی صبح ہوئی تو اس کا سسر گھر میں بات کرنے لگا کہ آج لوہار سے کلہاڑی بنوانی ہے، تو نوجوان جھٹ سے بولا ''میں بنا دیتا ہوں! اس میں کونسی بڑی بات ہے۔ مجھے آتا ہے یہ کام۔'' سسرال والے بھی خوش ہوجاتے ہیں کہ کیا بات ہے ہمارے داماد کی، ہنرمند ہے۔ نوجوان بھی خوش کہ عزت زیادہ ہوگئی۔ اب اس نوجوان کو خام لوہا اور آگ جلا کر دے دی جاتی ہے۔

بس پھر کیا تھا، شروع ہوگئے داماد صاحب۔ بہت دیر محنت کی لیکن کچھ بن نہیں پارہا تھا۔ پھر وہ لڑکا کہنے لگا کہ کچھ میرا ہاتھ صحیح کام نہیں کر رہا، میں آپ کو ٹوکا بنا دیتا ہوں، کلہاڑی پھر کبھی بنا دوں گا۔ سسرالی کہتے ہیں کہ ٹھیک ہے بھئی، وہی بنادو۔

خاصی دیر پھر سے محنت کی لیکن کچھ نہ بن سکا تو بات چھری پر آگئی، پھر تھوڑی دیر میں چاقو پر... اور اس میں بھی ناکامی کے بعد وہ کہنے لگا کہ آپ کے لوہے میں ہی خرابی ہے، اس سے صرف ایک کام ہوسکتا ہے۔

''وہ کیا؟'' سسرال والوں نے پوچھا۔

''شررررررررر'' نوجوان نے جواب دیا۔

اب سسرالی حیران یہ کیا نئی چیز بتا رہا ہے؟ خیر! دیکھ لیتے ہیں۔ اب نوجوان حکم دیتا ہے کہ جلدی سے پانی لایا جائے اور لوہا گرم کیا جائے۔ حکم کی تکمیل ہوئی، سب بڑے تجسس سے دیکھنے لگے کہ آخر نوجوان کیا کرتا ہے۔ وہ پانی لیتا ہے اور گرم لوہے پر ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ پانی بہت تیزی سے بخارات بننے لگتا ہے جس سے ''شررررررررررر...'' کی آواز آنے لگتی ہے۔ اب نوجوان اپنی پیشانی سے پسینہ پونچھتے ہوئے کہتا ہے، ''میں اب چلتا ہوں، گاؤں میں اور بھی کام ہیں مجھے۔''

ایسی ہی حالت ہمارے نوجوانوں کی بھی ہے۔ ہنر ہے نہیں، کوئی کام کرتے نہیں، اور پھر کہتے ہیں کہ یہاں کا سسٹم ہی خراب ہے، پاکستان میں جاب نہیں۔ بھئی دنیا ایکسپرٹ مانگتی ہے۔ ایکسپرٹ بن کر آؤ، دنیا تمہیں ہاتھوں ہاتھ لے گی۔

پاکستان میں کئی ایسی کہانیاں ہیں جو زیرو سے شروع کرکے نہ جانے کہاں سے کہاں چلی گئیں۔ آپ بھی آئیے، شروع تو کیجیے، فیصلہ تو کیجیے کچھ کرنے کا؛ لیکن ہم سے کوئی فیصلہ ہی تو نہیں ہوپاتا۔

دوسری بات ہماری کوئی سمت ہی نہیں ہوتی یا پھر سمت غلط ہوتی ہے۔ مثلاً اگر ہمیں فیصل آباد سے لاہور جانا ہو اور اسلام آباد جانے والے راستے پر چلنا شروع کردیں تو کہاں پہنچیں گے؟

مشہور موٹیویشنل اسپیکر اور ٹرینر جناب قاسم علی شاہ کہتے ہیں: ''زندگی برسوں مہینوں میں نہیں بدلتی بلکہ اسی لمحے میں بدل جاتی ہے جس لمحے میں آپ خود کو بدلنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔'' یعنی پہلے ہم وہ فیصلہ تو کریں ناں!

آئیے، اب میں آپ کے ساتھ اپنی کچھ ریسرچ شیئر کرتا ہوں:

میں نے میٹرک (نویں اور دسویں جماعتوں) کے طالب علموں سے انٹرویوز لیے، ان کے جوابات ملاحظہ فرمائیے۔ آپ حیران تو شاید نہیں ہوں گے کیونکہ آپ بھی اسی دور سے گزر چکے ہیں لیکن شاید کچھ سوچنے پر مجبور ضرور ہوجائیں گے۔

میں: آپ نے کونسا سبجیکٹ (مضمون) لیا ہے؟

طالبعلم: سائنس۔

میں: آپ نے سائنس کا مضمون ہی کیوں منتخب کیا؟

طالبعلم: آج کل سائنس ہی چل رہی ہے۔

میں: اچھا تو آپ خود کیسے چل رہے ہیں سائنس کے ساتھ؟

طالبعلم: تقریباً ٹھیک ہی جا رہے ہیں۔

رائٹر: میٹرک کے بعد کیا ارادہ ہے؟

80 فیصد کا جواب: ابھی کچھ پتا نہیں کیا کرنا ہے۔

10 فیصد کا جواب: انجینئر اور ڈاکٹر۔

باقی 10 فیصد کے جوابات: متفرق/ مختلف

کیوں نہیں پتا؟

انجینئر اور ڈاکٹر ہی کیوں؟

ان سوالوں کے جواب وہ خود بھی نہیں دے پاتے کیوں کہ یہ سوال ان کے ذہنوں میں آتے ہی نہیں۔

کیوں؟

کیونکہ وہ سوچ ہی نہیں سکتے ان سوالوں کے بارے میں۔ ان کی سوچ کو ہم نے محدود کر رکھا ہے، جیسے ہاتھی کے پاؤں سے رسی بندھی ہوتی ہے جس کا اگلا سرا کھلا ہوتا ہے، لیکن ہاتھی کو یہی لگتا ہے کہ میں بندھا ہوا ہوں۔

ہمارے بچوں کو بھی یہی لگتا ہے کہ دنیا میں دو ریسیں لگی ہوئی ہیں: ایک انجینئرز کی اور دوسری ڈاکٹرز کی۔ اگر ایک میں بھی نہ پہنچا تو یہاں میری کوئی جگہ نہیں؛ یا پھر کیونکہ میرے انکل ڈاکٹر ہیں اس لیے یا پھر ہم چاہتے ہیں کہ پتر ڈاکٹر جے نہ بنا تے ساڈی عزت نئیں رینی، ''ویکھ تیرے انکل دا منڈا ڈاکٹر بن گیا اے!'' یہ ساری وجوہ بغیر سوچے سمجھے اور بھیڑ چال والی ہیں۔ اسی لیے تو سوموار (پیر) والے دن سب سے زیادہ ہارٹ اٹیک ہوتے ہیں کیونکہ ان پر بوجھ ہوتا ہے جو کسی اور نے ان پر لادا ہوتا ہے۔

ارے بھائی! بوجھ اتارو یار! زندگی کھل کر جیو۔

اگر آپ واقعی زندگی کا مزہ لینا چاہتے ہیں تو ان سب جھگڑوں سے نکل جائیے۔ زندگی کونسی بار بار ملے گی؟ جو کچھ کرنا ہے، اس کےلیے ہمارے پاس صرف یہی زندگی ہے... پھر تو حساب کتاب اور جزا اور سزا کا سلسلہ ہوگا۔

اب آتے ہیں دوسرے سوال کی طرف: کیوں نہیں پتا؟

ہمارے ہاں زیادہ تر لوگ یہ فیصلہ ہی نہیں کر پاتے کہ کہاں جانا ہے، کیا کیا ہوسکتا ہے، اور میں کیا کرسکتا ہوں؟ کیونکہ ہم نے انہیں فیصلہ کرنا ہی نہیں سکھایا ہوتا۔ ہم نے انہیں یہ نہیں بتایا ہوتا کہ بیٹا تم بڑی چیز ہو (پتر توں بڑی شے اے)، سکون صرف اپنے شوق میں ہے۔

بچے کو اقبال صاحب کی شاعری سمجھاتے ہی نہیں کہ اقبال نے کسے شاہین کہا ہے؟ یہ ستاروں سے آگے جہاں اور کہاں ہیں؟ کیونکہ ہماری ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں؛ اور ہر کوئی یہی چاہتا ہے کہ ہمارا پتر بس ''ڈھیر سارے پیسے کمانے والا'' بن جائے؛ بس اور کچھ نہیں چاہیے! تو ''پتر'' بے چارہ ڈھیر سارے پیسے کمانے والا تو بن جاتا ہے لیکن خوش رہنے والا اور دوسروں کا خیال رکھنے والا انسان نہیں بن پاتا کیونکہ اس کے اپنے جھگڑے ہی ختم نہیں ہوتے... تو وہ کیا کرے بے چارہ؟

سب بھاگے جا رہے ہیں۔ کسی کے پاس کسی کو سمجھنے کا وقت ہی نہیں۔ جو کچھ لوگ صرف سمجھاتے ہیں، وہ بھی صرف جھاڑ کر کر چلے جاتے ہیں اور نصیحتوں کا بنڈل تھما کر چلتے بنتے ہیں۔

اس حالت میں بچہ یا تو اسٹریس میں چلا جاتا ہے یا پھر بے پرواہ ہوجاتا ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں کہ ہمارا بچہ نالائق ہے، یہ کسی کام کا نہیں، بدتمیز ہوگیا ہے وغیرہ۔ مطلب پھر شکایات ہی چلتی رہتی ہیں۔ لیکن یاد رکھیے کہ یہ ہمارے ہی لگائے ہوئے پودے ہیں جو آج درخت بن گئے ہیں۔ جیسا پودا تھا، ویسا ہی درخت ہوگا۔

خدارا اپنے بچوں کی سنیے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ ان سے پوچھیے تو سہی کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں، کیا بننا چاہتے ہیں۔ انہیں آزاد رہنا سکھائیے، ہر وقت تنقید کا نشانہ نہ بنائیے۔

ہر وقت کی اور بے جا تنقید ہی سے بچہ بدتمیزی سیکھتا ہے، کیونکہ ایسی تنقید خود ایک بدتمیزی ہے۔ اس لیے خواہ مخواہ کی تنقید سے خود بھی بچیے اور اپنے بچوں کو بھی بچائیے۔ انہیں فیصلے کرنا سکھائیے، ہر فیصلہ نہ سہی لیکن شروع میں کچھ فیصلے اپنے بچوں کو خود سے کرنے دیجیے تاکہ وہ سیکھ سکیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہ سکھا سکیں۔

آخر میں صرف ایک بات اور کروں گا: ٹھوکر لگنا کوئی بڑی بات نہیں، ٹھوکر کھا کر اپنی غلطی درست کرنا بہت بڑی بات ہے۔ افسوس اس پر ہوتا ہے کہ ٹھوکریں لگتی جائیں لیکن پھر بھی سنبھل نہ پائیں اور اس طرف دھیان بھی نہ جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |