جمہوری رویے اور غیر جمہوری گویے
ہم توتکار اور سر پھٹول کے اتنے عادی، الزام تراشی اور افترا پردازی کے اتنے شیدائی ہوگئے ہیں ٍ
ہم توتکار اور سر پھٹول کے اتنے عادی، الزام تراشی اور افترا پردازی کے اتنے شیدائی ہوگئے ہیں کہ تہذیب کا چلن، شائستگی کے ڈھنگ، پیار و محبت کے رنگ ہی بھول بیٹھے۔ نتیجتاً ہم پر فارسی کے ایک قدیم شاعر انوری کا یہ شعر صادق آتا ہے جس کا مفہوم ہے ''آسمان سے جو بلا بھی زمین پر نازل ہوتی ہے وہ انوری کے گھر کا پتہ پوچھتی ہوئی آتی ہے۔'' فرق صرف اتنا ہے کہ ہم پر نازل ہونے والی بلاؤں کو ہمارا پتہ منہ زبانی یاد ہے۔
دوزخ میں دوزخی بڑے مہنگے چارجز دے کر اپنے اپنے ملکوں کو کال کر رہے تھے۔ ایک پاکستانی دوزخی آیا انتہائی معمولی چارجز دے کر کال کی اور چلا گیا۔ دیگر ممالک کے دوزخیوں نے فرشتے سے شکایت کی۔ اس نے جواب دیا ''پاکستانی دوزخیوں سے پاکستان کال کرنے کے لوکل چارجز لیے جاتے ہیں''۔
آج کل مسلم لیگ ن کے دو اقدامات پر اخباروں اور ٹی وی پر تبصرے جاری ہیں۔
(1)۔ 7 جولائی کو لندن میں بلائی گئی اے پی سی جس میں شریک تمام پارٹیوں کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ وہ مستقبل میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت نہ بنائیں۔ صرف پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی۔
(2)۔ 26 جولائی 2013 کو (ن) لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین، وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کی نائن زیرو آمد۔ تاکہ صدارتی انتخاب میں ایم کیو ایم کا تعاون حاصل کیا جاسکے۔ جس میں وہ کامیاب رہے۔
ذاتی پسند یا ناپسند کو ایک طرف رکھ کر یہ دیکھا جانا چاہیے تھا کہ کون سا اقدام جمہوریت نواز ہے اور کون سا اقدام جمہوریت کش۔ ظاہر ہے کہ کسی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا، اسے تنہا کرنے کی کوشش کرنا جمہوریت کے منافی عمل ہے۔ اس وقت اس کی مخالفت کی جانی چاہیے تھی۔ جب کہ دوسرا اقدام نائن زیرو جاکر ایک سیاسی پارٹی سے اپنے صدارتی امیدوار کی کامیابی کے لیے تعاون حاصل کرنا، پچھلے غلط اقدام کا ازالہ کرنا ہوا۔ ملک اور قوم کے مفاد میں پرانی تلخیاں بھلانے کا عزم ظاہر کرنا ایک مثبت، قابل قدر، جمہوری اصولوں کے مطابق اقدام اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ ہے جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اس کی مرضی۔ میں تو دیکھوں گا۔ چنانچہ میں (ن) لیگ کے قائد کو ان کی اخلاقی جرأت پر سلام پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ جب تک غلطی تسلیم نہیں کرلی جاتی وہ غلطی ہی رہتی ہے۔ تسلیم کر لینے پر تجربہ کہلاتی ہے اور تجربہ انسان کو غلطی دہرانے نہیں دیتا۔
لیکن افسوس کہ ایک سنجیدہ ٹی وی کے سنجیدہ پروگرام میں جس میں سنجیدہ موضوعات پر سنجیدہ شخصیات اظہار خیال کرتی ہیں 30 جولائی کو (ن) لیگ کے نمایندہ وفد کی نائن زیرو آمد کی جس انداز میں جھلکیاں پیش کی گئی ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ (1) (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کے قائدین کے درمیان تندوتیز جملوں کے تبادلے کی (Edited) جھلکیاں دکھائی گئیں۔ (2) اس کے بعد چوہدری نثار کا ایک ٹھنڈا ٹھار شعلہ بداماں جملہ جس میں ایک خاتون خانہ کا ذکر آگیا تھا۔ (3) جیسا کہ خواجہ معین ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا ردعمل۔ اﷲ دے اور بندہ لے۔ گویا کانگو کی تھاپ پر امبھا سنبھا۔ (4) درمیان میں اسٹوڈیو سے وارننگ سگنلز کی ''ٹون ٹون'' کی ٹیون (Tune)۔ الطاف حسین کی سرزنش، وسیم اختر کی معذرت کو اہمیت سی دی گئی۔ جس کو الطاف حسین نے 30 جولائی کو بھی یاد کیا اور معذرت کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کیونکہ میں بھی اردو اسپیکنگ ہوں اس لیے اس کے تذکرے پر مجھے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے، اس کے باوجود یہاں اس کے دہرانے کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی گالی دے (یا انتہائی اشتعال انگیز بات کرے) تو سننے والا کا عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کوئی خاموش ہوگا تو کوئی جواباً دو گالی دے گا، کوئی گالی کے ساتھ گریبان بھی پکڑ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس فساد کا ذمے دار کون ہے؟ گالی دے کر مشتعل کرنے والا یا گالی کھاکر مشتعل ہونے والا؟ اس نکتے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
(ن) لیگ کے وفد کی نائن زیرو پر آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی نے کہا ہے ''ن لیگی رہنمائوں نے نائن زیرو آکر اپنی ہی کھنچی ہوئی لکشمن ریکھا کراس کی ہے۔ 1992 کے آپریشن کے بعد ایم کیو ایم مزید طاقتور ہوئی''۔ 1992 کے آپریشن کلین اپ پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس آپریشن کے کرتا دھرتاؤں نے ٹی وی پر آکر تمام الزامات کی تردید کر ڈالی ہے۔
یہاں میں ان صالحین کی بات کرنا چاہوں گا جو ہمیشہ اس بات پر دکھی، افسردہ، دل گرفتہ اور مغموم رہتے ہیں کہ بے چارے شہریان شہر قائد ایم کیو ایم کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ ایم کیو ایم سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے صالحین کو ووٹ دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اتنے آزاد ہیں تو پھر یرغمال کون ہے؟ معاملہ اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے کیونکہ جن چند ہزار ایم کیو ایم کے کارکنوں نے بے چارے شہریان شہر قائد کو یرغمال بنایا ہوا ہے وہ ان یرغمالیوں کے ہی نور نظر لخت جگر ہیں۔ میرے خیال میں یرغمال بنانے کی بات تو صحیح ہے لیکن وجوہات دو نمبر کی، جینوئن وجوہات درج ذیل ہیں۔
(1) الطاف حسین الیکشن ہی نہیں لڑتے، وزارت عظمیٰ کے خواہشمند نہیں نہ پارٹی کا ہی کوئی عہدہ رکھتے ہیں۔ (2) ایم کیو ایم کے اوسطاً 25 ارکان قومی اسمبلی، سینیٹ کے ارکان، 50 صوبائی ارکان اسمبلی، گورنر سندھ، سٹی ناظم کراچی حیدر آباد، سیکڑوں کونسلرز، وغیرہ وغیرہ بے چارے شہریان شہر قائد کے یرغمالی ہوتے ہیں یا ان کی اولاد۔ ان میں الطاف حسین کی آل اولاد، بھائی بھتیجا، چاچا ماما، نہیں ہوتا۔ (3) ایم کیو ایم میں الیکشن کے ٹکٹ کی لوٹ سیل نہیں ہوتی، میرٹ پر غریب اور اوسط طبقے کے امیدوار چنے جاتے ہیں۔ الیکشن کے اخراجات پارٹی برداشت کرتی ہے اس لیے اس پارٹی میں لوٹے نہیں ہوتے۔ (4) ایم کیوایم کی اصل طاقت جناح گراؤنڈ پر بیٹھے ہوئے ورکرز نہیں ہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے ہوئے ووٹرز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے ورکرز قتل ہوں گے اس سے زیادہ پائپ لائن میں منتظر۔ بات لمبی کرنے کی گنجائش نہیں۔ میرا خیال ہے ایم کیو ایم ہو یا پی پی پی، (ن) لیگ ہو یا پی ٹی آئی، اے پی ایم ایس او ہو یا جماعت اسلامی، فرشتے کوئی نہیں ہیں، سب انسان ہیں غلطیوں کے پتلے، اس لیے ان کے قائدین قابل احترام، ان کے ورکرز قابل عزت، ان کی غلطیاں قابل درگزر، سوائے ایک خصلت تکبر کے جو صرف اﷲ کی ذات کو ہی زیب دیتا ہے۔
دوزخ میں دوزخی بڑے مہنگے چارجز دے کر اپنے اپنے ملکوں کو کال کر رہے تھے۔ ایک پاکستانی دوزخی آیا انتہائی معمولی چارجز دے کر کال کی اور چلا گیا۔ دیگر ممالک کے دوزخیوں نے فرشتے سے شکایت کی۔ اس نے جواب دیا ''پاکستانی دوزخیوں سے پاکستان کال کرنے کے لوکل چارجز لیے جاتے ہیں''۔
آج کل مسلم لیگ ن کے دو اقدامات پر اخباروں اور ٹی وی پر تبصرے جاری ہیں۔
(1)۔ 7 جولائی کو لندن میں بلائی گئی اے پی سی جس میں شریک تمام پارٹیوں کو اس بات پر قائل کیا گیا کہ وہ مستقبل میں ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر حکومت نہ بنائیں۔ صرف پیپلز پارٹی نے اس کی مخالفت کی۔
(2)۔ 26 جولائی 2013 کو (ن) لیگ کے صدارتی امیدوار ممنون حسین، وزیر خزانہ اسحق ڈار اور وزیر اطلاعات پرویز رشید کی نائن زیرو آمد۔ تاکہ صدارتی انتخاب میں ایم کیو ایم کا تعاون حاصل کیا جاسکے۔ جس میں وہ کامیاب رہے۔
ذاتی پسند یا ناپسند کو ایک طرف رکھ کر یہ دیکھا جانا چاہیے تھا کہ کون سا اقدام جمہوریت نواز ہے اور کون سا اقدام جمہوریت کش۔ ظاہر ہے کہ کسی پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرنا، اسے تنہا کرنے کی کوشش کرنا جمہوریت کے منافی عمل ہے۔ اس وقت اس کی مخالفت کی جانی چاہیے تھی۔ جب کہ دوسرا اقدام نائن زیرو جاکر ایک سیاسی پارٹی سے اپنے صدارتی امیدوار کی کامیابی کے لیے تعاون حاصل کرنا، پچھلے غلط اقدام کا ازالہ کرنا ہوا۔ ملک اور قوم کے مفاد میں پرانی تلخیاں بھلانے کا عزم ظاہر کرنا ایک مثبت، قابل قدر، جمہوری اصولوں کے مطابق اقدام اور اخلاقی جرأت کا مظاہرہ ہے جس کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے اس کی مرضی۔ میں تو دیکھوں گا۔ چنانچہ میں (ن) لیگ کے قائد کو ان کی اخلاقی جرأت پر سلام پیش کرتا ہوں۔ کیونکہ جب تک غلطی تسلیم نہیں کرلی جاتی وہ غلطی ہی رہتی ہے۔ تسلیم کر لینے پر تجربہ کہلاتی ہے اور تجربہ انسان کو غلطی دہرانے نہیں دیتا۔
لیکن افسوس کہ ایک سنجیدہ ٹی وی کے سنجیدہ پروگرام میں جس میں سنجیدہ موضوعات پر سنجیدہ شخصیات اظہار خیال کرتی ہیں 30 جولائی کو (ن) لیگ کے نمایندہ وفد کی نائن زیرو آمد کی جس انداز میں جھلکیاں پیش کی گئی ہیں اس کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے۔ (1) (ن) لیگ اور ایم کیو ایم کے قائدین کے درمیان تندوتیز جملوں کے تبادلے کی (Edited) جھلکیاں دکھائی گئیں۔ (2) اس کے بعد چوہدری نثار کا ایک ٹھنڈا ٹھار شعلہ بداماں جملہ جس میں ایک خاتون خانہ کا ذکر آگیا تھا۔ (3) جیسا کہ خواجہ معین ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کا ردعمل۔ اﷲ دے اور بندہ لے۔ گویا کانگو کی تھاپ پر امبھا سنبھا۔ (4) درمیان میں اسٹوڈیو سے وارننگ سگنلز کی ''ٹون ٹون'' کی ٹیون (Tune)۔ الطاف حسین کی سرزنش، وسیم اختر کی معذرت کو اہمیت سی دی گئی۔ جس کو الطاف حسین نے 30 جولائی کو بھی یاد کیا اور معذرت کی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کیونکہ میں بھی اردو اسپیکنگ ہوں اس لیے اس کے تذکرے پر مجھے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے، اس کے باوجود یہاں اس کے دہرانے کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی گالی دے (یا انتہائی اشتعال انگیز بات کرے) تو سننے والا کا عمل ایک جیسا نہیں ہوتا۔ کوئی خاموش ہوگا تو کوئی جواباً دو گالی دے گا، کوئی گالی کے ساتھ گریبان بھی پکڑ سکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس فساد کا ذمے دار کون ہے؟ گالی دے کر مشتعل کرنے والا یا گالی کھاکر مشتعل ہونے والا؟ اس نکتے کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔
(ن) لیگ کے وفد کی نائن زیرو پر آمد پر تبصرہ کرتے ہوئے بی بی سی نے کہا ہے ''ن لیگی رہنمائوں نے نائن زیرو آکر اپنی ہی کھنچی ہوئی لکشمن ریکھا کراس کی ہے۔ 1992 کے آپریشن کے بعد ایم کیو ایم مزید طاقتور ہوئی''۔ 1992 کے آپریشن کلین اپ پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس آپریشن کے کرتا دھرتاؤں نے ٹی وی پر آکر تمام الزامات کی تردید کر ڈالی ہے۔
یہاں میں ان صالحین کی بات کرنا چاہوں گا جو ہمیشہ اس بات پر دکھی، افسردہ، دل گرفتہ اور مغموم رہتے ہیں کہ بے چارے شہریان شہر قائد ایم کیو ایم کے یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ ایم کیو ایم سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے صالحین کو ووٹ دیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ اتنے آزاد ہیں تو پھر یرغمال کون ہے؟ معاملہ اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہے کیونکہ جن چند ہزار ایم کیو ایم کے کارکنوں نے بے چارے شہریان شہر قائد کو یرغمال بنایا ہوا ہے وہ ان یرغمالیوں کے ہی نور نظر لخت جگر ہیں۔ میرے خیال میں یرغمال بنانے کی بات تو صحیح ہے لیکن وجوہات دو نمبر کی، جینوئن وجوہات درج ذیل ہیں۔
(1) الطاف حسین الیکشن ہی نہیں لڑتے، وزارت عظمیٰ کے خواہشمند نہیں نہ پارٹی کا ہی کوئی عہدہ رکھتے ہیں۔ (2) ایم کیو ایم کے اوسطاً 25 ارکان قومی اسمبلی، سینیٹ کے ارکان، 50 صوبائی ارکان اسمبلی، گورنر سندھ، سٹی ناظم کراچی حیدر آباد، سیکڑوں کونسلرز، وغیرہ وغیرہ بے چارے شہریان شہر قائد کے یرغمالی ہوتے ہیں یا ان کی اولاد۔ ان میں الطاف حسین کی آل اولاد، بھائی بھتیجا، چاچا ماما، نہیں ہوتا۔ (3) ایم کیو ایم میں الیکشن کے ٹکٹ کی لوٹ سیل نہیں ہوتی، میرٹ پر غریب اور اوسط طبقے کے امیدوار چنے جاتے ہیں۔ الیکشن کے اخراجات پارٹی برداشت کرتی ہے اس لیے اس پارٹی میں لوٹے نہیں ہوتے۔ (4) ایم کیوایم کی اصل طاقت جناح گراؤنڈ پر بیٹھے ہوئے ورکرز نہیں ہیں بلکہ گھروں میں بیٹھے ہوئے ووٹرز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جتنے ورکرز قتل ہوں گے اس سے زیادہ پائپ لائن میں منتظر۔ بات لمبی کرنے کی گنجائش نہیں۔ میرا خیال ہے ایم کیو ایم ہو یا پی پی پی، (ن) لیگ ہو یا پی ٹی آئی، اے پی ایم ایس او ہو یا جماعت اسلامی، فرشتے کوئی نہیں ہیں، سب انسان ہیں غلطیوں کے پتلے، اس لیے ان کے قائدین قابل احترام، ان کے ورکرز قابل عزت، ان کی غلطیاں قابل درگزر، سوائے ایک خصلت تکبر کے جو صرف اﷲ کی ذات کو ہی زیب دیتا ہے۔