سیاستدانوں کا کردار…
ملک کے حالات جس نہج پر جارہے ہیں وہ نہایت تشویشناک ہے۔
ملک کے حالات جس نہج پر جارہے ہیں وہ نہایت تشویشناک ہے۔ ہم سب کو مل کر ان مشکل حالات کا سامنا کرنا ہے لیکن ہم اب موجودہ دور میں سیاستدانوں کا جو ردعمل دیکھ رہے ہیں وہ نہایت افسوسناک ہے، کسی کو ملکی اور قومی معاملات کا ادراک نہیں بس منفی سیاست پر کاربند ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی، اداروں کے درمیان تصادم، سیاسی جماعتوں کا اپنے اپنے منشور پر عملدرآمد کرنے کے بجائے نان ایشوز پر الجھے ہوئے ہیں۔ کوئی الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہا ہے تو کوئی معزز اداروں کے خلاف باتیں کر رہا ہے۔ حالانکہ صورت حال یعنی عوام کی بے بسی، مجبوری اور عدم توجہی کی طرف غور کرنے کے بجائے عوام کو حالات کے غیر یقینی اور بے اطمینانی کے راستے پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ عوام کے مینڈیٹ کے احترام کا تو خوب شور مچایا جارہا ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے دعوے کیے جارہے ہیں کہ ہم ہر ایک جماعت کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں اور سب کو اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق سیاست چلانے کا حق حاصل ہے، کسی جماعت پر کوئی قدغن نہیں لگائی جائے گی، سب کو آزادی رائے کا حق حاصل ہے پھر کیوں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کا رویہ اختیار کیا جارہا ہے؟ کوئی اس مسئلے پر غور کرنے، سوچنے، بہترین مفاہمتی راہ اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ کوئی کسی کو ملک دشمن قرار دے رہا ہے تو کوئی دوسرے کو یہودی ایجنٹ ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اور کوئی حب الوطنی کو ڈھونگ کا نام دے رہا ہے۔ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ خدارا! اپنی روشوں کو بدلو، ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دو۔ ذاتی مفادات کی سیاست پہلے ہی ملک کی کشتی کو بھنور میں پھنسا چکی ہے جس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پچھلے کئی سال سے جو سیاست دیکھنے میں آرہی ہے کیا وہ ملکی و قومی مفادات کی سیاست کہلانے کی حقدار ہے؟ قطعی نہیں۔
اگر گزشتہ کئی سال سے ملکی و قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاست کی جاتی تو قوم کا یہ برا حال نہ ہوتا، سوائے اس کے کہ ملکی سلامتی اور قوم کے ارتقاء کی کوئی علامات نظر نہیں آرہی بلکہ ملک و قوم کی تنزلی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔ ان ناخداؤں کو کون سمجھائے کہ ملک کے اندرونی اور بیرونی خطرات، خدشات و شبہات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے، صرف اپنے اقتدار کی مسند کو مضبوط کرنے کی نہیں۔ ملک پہلے ہی اتنے گمبھیر مسائل میں گھرا ہوا ہے، ان کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی ہے، محض بیان بازیوں سے اور سبز باغ دکھا کر عوام کا دل بہلانے اور جھوٹی تسلیاں دے کر خاموش کرانے سے کام نہیں چلے گا۔ عمل کی ضرورت ہے۔ عوام کو کچھ ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ قوم کو کچھ ڈلیور کیا جائے گا تو تب ہی ملک کو خوشحالی نصیب ہوگی اور عوام بھی خوشحال ہوںِ گے۔ جب عوام کی طرف سے ردعمل آتا ہے تو اپنی مجبوریاں گنوانا شروع کردیتے ہیں، یہ کیا تماشا ہورہا ہے، سمجھ نہیں آتا۔ حکومت میں آنے کے لیے تو بڑے بڑے گر آزمائے جاتے ہیں، عوام کو جھوٹے وعدوں، یقین دہانیوں، اور جھوٹے دعوؤں سے بہلانے کا دور ختم ہوگیا۔
اب تو پریکٹسزم کا دور ہے۔ عوام کو کچھ کرکے دکھانے کا وقت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی روش تبدیل کی جائے اور عوام کو سیدھا راستہ دکھایا جائے۔ عوام کو اندھیرے میں رکھ کر اپنی بادشاہت قائم کرنے کا دور گزر گیا ہے اب اگر جمہوری نظام اور جمہوریت کو چلانا ہے، صحیح سمت میں لے جانا ہے تو ''جمہوری نظام'' کو بھی صحیح خطوط پر چلانا ہوگا۔ جمہوریت، جمہوریت مالا جپنے سے جمہوریت کی ریل پٹری پر قائم نہیں رہ سکتی۔ جمہوریت کے دعویدار ہو تو جمہوریت کو حقیقی معنوں میں عروج دو۔ جمہوری دور میں تو یہی ہوتا ہے کہ ''عوام کی خدمت، ملک کی خوشحالی، ملک کی ترقی کی راہ پر گامزن رکھنے کا عزم'' یہی ہر ایک کے منشور کا حصہ ہونا چاہیے۔ ووٹ لیتے وقت تو اپنے اپنے منشور میں بڑی روشن خیالی اور عوام کی فلاح و بہبود کی شقیں رکھی جاتی ہیں جسے پڑھ کر عوام بھی خوش فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بلا خوف و خطر اپنے ووٹ کا استعمال ان کے حق میں کردیتے ہیں، بعدازاں انتخابات ان ہی کے منتخب نمائندے ان ہی کے ساتھ ہاتھ کر جاتے ہیں۔ کس قدر شرمناک رویہ ہوتا ہے سیاستدانوں کا۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ سیاست کیا ہے صرف جھوٹ کا پلندہ۔ سیاست میں سب کچھ جائز ہوتا ہے اس لیے کہ اگر صحیح خطوط پر سیاست کی جائے تو وہ نفع بخش کیسے ہوگی؟
اس میں تو خسارہ ہی خسارہ نظر آتا ہے اور فائدہ عوام کے حق میں جاتا ہے۔ یہ کیسی سیاست ہے، بوئیں کانٹے اور امید کریں گندم کی۔ اب ایسے کام نہیں چلے گا، سیاست کرنی ہے تو ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دے کر کرنا ہوگی۔ ورنہ ایسی سیاست تو عوام کو آمریت کی طرف لے جاتی ہے۔ عوام سیاستدانوں سے بیزاری کا اظہار کرکے افواج پاکستان کی طرف دیکھتی ہے۔ اس میں کوئی حیل و حجت نظر نہیں آتی ہے بلکہ یہ ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ اس سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ سیاستدانوں کو اپنی سیاست کا رخ صحیح معنوں میں ''حقیقی جمہوریت'' کی طرف موڑنا ہوگا۔ دکھائیں حلوہ اور مرغن غذا مگر جب کھلانے کا وقت آیا تو سوکھی روٹی سامنے رکھی جاتی ہے۔ عوام کی خدمت کے بجائے اپنے ذاتی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تو نتیجتاً انجام یہی ہوتا ہے کہ کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری، سفارش، رشوت جیسی لعنتیں جنم لیتی ہیں جو جمہوری نظام حکومت کو سخت ٹھیس پہنچاتی ہیں اور پورا معاشرہ بگڑ جاتا ہے۔ اندھیر نگری چوپٹ راج دکھائی دیتا ہے۔ پھر جب حالات بے قابو ہوجاتے ہیں تو ملک دشمنی کا واویلا مچاکر طرح طرح کے حیلے بہانے بنائے جاتے ہیں۔ غلطی کا اعتراف کرنے کی بجائے خودسری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ کیا ایسی چالیں چلنے سے کہیں جمہوریت کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے؟
باتیں تو بہت کڑوی لگتی ہیں لیکن آپ خود بھی تو اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے عوام کو ''کڑوی گولی'' نگلنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ عوام آج سے نہیں 66 سال سے کڑوی گولیاں کھا کھا کر ہی جی رہے ہیں اور ان کے لیے ''کڑوی گولیاں'' بھی بے اثر ہوگئی ہیں۔ کیا کیجیے ان سیاستدانوں کی سیاست کا، عوام کو ہی ان سب مشکلات کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ سیاستدان تو یہ کہہ کر بری الذمہ ہوجاتا ہے کہ کیا جائے یہ تمام مسائل ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔
خدارا! اب بھی وقت ہے، کچھ بگڑا نہیں، صحیح سوچ اور مثبت راستہ اختیار کرلیا جائے تو صاف و شفاف سیاستدان کہلائے جاسکتے ہیں۔ اسی طرز عمل کو آگے بڑھایا جائے گا تو بہتری دور کی بات، تباہی ہمارا مقدر بن جائے گی۔ میرا صائب مشورہ تمام سیاستدانوں خواہ وہ حزب اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف یہی ہے کہ پرانی ڈگر پر سیاست چلانے کے بجائے نئے روشن خیال اور قومی جذبے کے ساتھ سیاست کرنی ہوگی۔ شخصیات تو شخصیات اب صوبوں سے صوبوں کے درمیان بھی محاذ آرائی کی سیاست کی جارہی ہے کیا یہ ملک و قوم کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے، ہر گز نہیں۔ یہی آج میرے مضمون کا عنوان ہے ''ہمارے سیاستدانوں کا کردار''۔ کیا ان مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو سیاستدانوں کا منفی کردار عیاں نہیں ہوتا؟ اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو ہوتی رہے۔ لیکن حقائق سے چشم پوشی کی سیاست نے ہی تو ملک کو اس نازک موڑ پر لاکھڑا کیا ہے۔ ایک طرف دہشت گردوں کا راج ہے تو دوسری طرف بدکردار سیاستدانوں کا جھمیلا۔ کیا اسی طرح سے ملک وقوم کو ترقی و خوشحالی کے راستے پر لے جایا جاسکتا ہے؟ بالکل نہیں۔ ضروری ہے کہ تمام سیاستدانوں کو ہوش کے ناخن لینے ہوں گے اور اپنی روش بدلنا ہوگی۔ ورنہ ہر طرف اندھیروں کے بادل چھائے رہیں گے۔