فلسطین مصر اور عراق کی صورتحال آخری حصہ
مشرق وسطیٰ میں دوسرا اہم ترین مسئلہ اس وقت مصر کا ہے جہاں خانہ جنگی کے خطرات منڈلا رہے ہیں.
KARACHI:
مشرق وسطیٰ میں دوسرا اہم ترین مسئلہ اس وقت مصر کا ہے جہاں خانہ جنگی کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ تاہم پوری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ کس طرح سے ایک منتخب عوامی حکومت کو راستے سے ہٹا کر وہاں پر فوجی حکومت قائم کردی گئی ہے، مصر کی صورتحال روز بروز خراب ہو رہی ہے اور یقیناً مصر میں خانہ جنگی کے حالات کو پیدا کرنے میں عالمی استعماری قوتوں اور غاصب صہیونی رجیم کا ہاتھ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ مصر جو کہ مشرق وسطیٰ کا ایک انتہائی اہم ترین اسلامی ملک ہے، آج امریکی و صہیونی سازشوں کے شکنجے میں ہے لیکن دنیا کی بڑی قوتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔ مصر میں خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ گیا ہے اور یہ ایک انتہائی بری خبر ہے۔ کیا مصر کی عظیم قوم نے شام میں رونما ہونے والا حالات اور واقعات سے درس عبرت حاصل نہیں کیا ہے یا شام میں جاری خانہ جنگی سے پیدا ہونے والی صورتحال اور سنگین نتائج کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ نہیں کیا ہے؟
کیا شام کی صورتحال، خانہ جنگی کے انتہائی ہولناک نتائج اور عالم اسلام کے مختلف خطوں میں دہشت گرد عناصر اور مغربی قوتوں اور اسرائیل کے ایجنٹس کی موجودگی کے شدید منفی اثرات مصری عوام کے لیے سبق سیکھنے اور عبرت حاصل کرنے کے لیے کافی نہیں؟ آج مصر کی فوج مصر کے عوام کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے ہوئے ہے جو فلسطین میں اسرائیلی افواج فلسطینیوں کے ساتھ روا رکھتی ہیں۔ مختلف گروہوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر ملک میں خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تو اس کے نتیجے میں بیرونی قوتوں کو مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا بہترین جواز فراہم ہوجائے گا جس کے باعث مصری قوم شدید مشکلات اور مسائل کا شکار ہو سکتی ہے۔ مصر کا موجودہ بحران صرف اور صرف عوام، سیاسی و مذہبی گروہ اور سیاسی و مذہبی شخصیات کے ہاتھوں حل ہوسکتا ہے اور انھیں چاہیے کہ وہ بیرونی قوتوں کو مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہ دیں۔مصر میں جاری بحران کے بارے میں اہم نکات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مصر میں شروع ہونے والی برادر کشی اور جنم لینے والی شدت پسندی کی لہر کی مخالفت جو ان دنوں اکثر سیاسی ماہرین کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔ مصر میں فوج اور اخوان المسلمون کے درمیان خانہ جنگی کی صورت میں وہی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے جس کا مشاہدہ ماضی میں الجزائر میں کیا جاچکا ہے۔ مصر آرمی کی فوجی طاقت، بعض عوامی گروہوں کی جانب سے مصر آرمی کی حمایت کا اعلان، عوام کے اندر اخوان المسلمون کی مقبولیت اور اخوان المسلمون کی عسکری صلاحیتوں کے پیش نظر مصر میں قومی مفاہمت پیدا نہ ہونے کی صورت میں خانہ جنگی کا خطرہ انتہائی شدید نوعیت کا ہے۔
2۔ مصر کے حالیہ سیاسی بحران میں مغربی قوتوں اور اسرائیل کی شیطنت نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔
3۔ دہشت گردانہ اقدامات کی مخالفت۔ مصر کے بعض گروہوں کی جانب سے دہشت گردی اپنائے جانے کا امکان موجود ہے۔ وہ گروہ جو فکری اور سیاسی اعتبار سے شام کے حکومت مخالف مسلح گروہوں سے نزدیک ہیں اور شام میں جاری بحران میں انتہائی اہم اور بنیادی کردار کے حامل رہے ہیں۔
4۔ مصر میں جمہوریت صرف اور صرف تمام مصری گروہوں کے باہمی تعاون سے ہی ممکن ہے۔
5۔ مصر میں جاری بحران کے حل میں سیاسی و مذہبی گروہوں، اہم شخصیات اور علمائے گرامی کے ساتھ ساتھ الازہر یونیورسٹی اس کام میں سب سے زیادہ بنیادی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اس شرط پر کہ قومی اتحاد کو اپنا نصب العین بنائے اور بعض مخصوص گروہوں کی طرفداری نہ کرے۔
6۔ مصر کی تقدیر کا فیصلہ بیرونی قوتوں کے ہاتھ میں نہیں ہونا چاہیے ورنہ مصر کا انقلاب ناکامی کا شکار ہوجائے گا اور سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک جیسا دور واپس آجائے گا۔
تیسرا اہم ترین مسئلہ مشرق وسطیٰ کا اہم ترین ملک عراق ہے جہاں عالمی استعماری قوتوں نے اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے القاعدہ نامی ایک دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں انارکی پھیلانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ آئے روز عراق میں بیک وقت درجنوں بم دھماکے ہو رہے ہیں، معصوم انسانی جانوںکا زیاں ہورہا ہے اور دنیا کی باضمیر حکومتیں خاموش تماشائی بن کر اس تماشے کو دیکھنے میں مصروف عمل ہیں۔ عراق کی سب سے بڑی مصیبت یا مسئلہ یہ ہے کہ وہاں پر ایک جمہوری حکومت قائم ہے جو کہ امریکا اور اسرائیل سمیت خطے کی دیگر ڈکٹیٹر حکومتوں کی آنکھوں کا کانٹا ہے۔
عراقی حکومت انتخابات میں بھاری اکثریت سے برسر اقتدار آئی ہے اور اس کو عوام کا بھرپور مینڈیٹ حاصل ہے لیکن خطے کی بعض ڈکٹیٹر حکومتیں اور عالمی طاقتیں اس کی مخالفت میں مصروف ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عراق میں انجام پانے والے خودکش دھماکے اور دہشت گردانہ اقدامات خطے کے بعض ممالک اور عالمی طاقتوں کی جانب سے مالی اور سیاسی مدد سے انجام پا رہے ہیں، ان دہشت گردانہ اقدامات کا مقصد عراقی عوام کی زندگی اجیرن کرنا اور ملک میں بدامنی پیدا کرنا ہے۔ یقیناً اس سارے عمل کا مقصد یہ بھی ہے کہ یہ دہشت گرد قوتیں شام میں ناکام ہوگئی ہیں، تاہم شام کے بعد عراق کو نشانہ بنا رہی ہیں۔ عراق کی سیاسی شخصیات، سیاسی جماعتوں اور عوام، چاہے وہ کرد ہوں یا عرب یا کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، کو چاہیے کہ اپنے اندرونی اختلافات کے بھیانک نتائج کی جانب متوجہ ہوں۔ انھیں یاد رکھنا چاہیے کہ خانہ جنگی ملک کے قیمتی اثاثوں کی نابودی اور قوم کے مستقبل کی تاریکی کا باعث بنتی ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عراقی موجودہ حکومت کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے لیکن اس کے لیے سنگین مسائل کی ایک بڑی فہرست موجود ہے، جس میں ایک خطرہ عراق کا اندرونی سطح کا ہے جس کے تحت عراق میں موجود غیر ملکی ایما پر کام کرنے والے دہشت گرد گروہ ہیں جو عراق کو غیر مستحکم کرنے کی گھنائونی سازشوں میں مصروف عمل ہیں اور آئے روز دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف عمل رہتے ہیں۔ عراق میں انجام پانے والے خودکش دھماکے اور دہشت گردانہ اقدامات روزانہ درجنوں عراقی شہریوں کی شہادت اور بڑی تعداد میں زخمی ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہ دہشت گرد گروہعلاقے کی دیگر ریاستوں کی حمایت اور مدد سے کام کر رہے ہیں جو شام کے حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی مدد اور سرپرستی کرنے میں مصروف ہیں۔ خطے کی بعض حکومتیں عراق میں اپنی مخالف اکثریت کو برسراقتدار نہیں دیکھ سکتیں۔
دوسری طرف عراقی حکومت کے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات بھی ان حکومتوں کے غیظ و غضب میں اضافے کا باعث بنے ہیں لہٰذا ان حکومتوں نے عراق میں حکومت مخالف اقدامات شروع کر رکھے ہیں۔ یہ حکومتیں سابق عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین سے شدید اختلافات رکھنے کے باوجود صرف اس وجہ سے اس کی حمایت میں مصروف تھیں کیونکہ تصور کر رہی تھیں کہ صدام حسین ایران کی طاقت کو محدود کرنے میں بنیادی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اب جب دو ممالک یعنی ایران اور عراق کے درمیان برادرانہ تعلقات استوار ہوچکے ہیں تو علاقے کی دیگر حکومتوں کے لیے یہ امر قابل قبول نہیں۔
عراق کی موجودہ جمہوری حکومت کے لیے دوسرا بڑا خطرہ عرب اور کردوں کے درمیان پائے جانے والے دیرینہ اختلافات ہیں۔ کردوں میں بعض ایسے گروہ پائے جاتے ہیں جو عراق سے الگ ہو کر نئی کرد ریاست کی آرزو دل میں لیے ہوئے ہیں اور اس مقصد کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ آزادی خواہی پر مبنی یہ رجحانات کردستان کے علاقے میں اسرائیل کے جاسوسی اداروں کے نفوذ اور سرگرمیوں کے ساتھ مل کر عراقی حکومت کے لیے ایک بڑے خطرے میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران کردستان کے صدر اور عراقی وزیراعظم میں بھی اختلافات کا سلسلہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ان اختلافات کی بنیادی وجہ ملکی آئین کی مختلف تفسیر اور تشریح بیان کی جاتی ہے۔ اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ شام کے بعد عراق مغربی قوتوں اور اسرائیل کی فتنہ انگیزی کا نشانہ بن سکتا ہے۔ یہ فرضیہ موجودہ حالات اور پائے جانے والے قرائن کی روشنی میں زیادہ بعید نظر نہیں آتا۔