کیا ہم زندہ قوم ہیں
زادی کا جشن ہم نے منا لیا۔ رات کے بارہ بجے تھے کہ چاروںطرف سے گولیوں کی برسات ہونے لگی.
KARACHI:
آزادی کا جشن ہم نے منا لیا۔ رات کے بارہ بجے تھے کہ چاروںطرف سے گولیوں کی برسات ہونے لگی۔ مختلف ہتھیار شعلے اگلنے لگے اور یہ سلسلہ خاصی دیر تک جاری رہا۔ صبح سویرے سارے چینلز آزادی کا جشن منا رہے تھے، قومی ترانے، ملی نغمے، بچوں کے ٹیبلوز، لوک فنکاروں کے والہانہ رقص، فیس پینٹنگ، ہر طرف سبز ہلالی پرچموں کی بہار، ہمارا پرچم، یہ پیارا پرچم، یہ پرچموں میں عظیم پرچم، عطائے رب کریم پرچم، میرا مالک اس عظیم پرچم کو سدا سر بلند رکھے۔ زندہ قومیں اپنی آزادی کا دن اسی جوش و جذبے سے مناتی ہیں، منانا بھی چاہیے، لیکن وہ اس دن اپنا احتساب بھی کرتی ہیں، اپنا جائزہ بھی لیتی ہیں، ان سے جو غلطیاں ہوئی ہیں ان سے سبق سیکھتی اور آئندہ ان سے بچنے کا عہد بھی کرتی ہیں۔
ان کے رہنما اس دن اپنی سال گزشتہ کی غلطیوں کا اعتراف کرتے اور اپنی قوم سے معذرت کرتے ہیں، اور اگلے دن اپنی پوری توانائی سے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی کے لیے پہلے سے زیادہ تندہی سے مصروف کار ہوجاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہم کبھی سنجیدہ نہیں ہوتے، ہم ہر موقعے پر پہلے سے زیادہ غیر سنجیدہ ہوجاتے ہیں، آزادی کے جشن میں نامعلوم گولیوں کا شکار لوگ اب کس سے سوال کریں کہ انھیں جیون سے مکتی دینے والا کون تھا؟ ریلیوں کی آڑ میں نوجوانوں نے جو کچھ کیا، کیا یہی آزادی کا جشن تھا؟ موٹر سائیکلوں کے سائلنسر نکال کر سڑکوں پر طوفان بدتمیزی کا مظاہرہ کیا آزادی کا جشن تھا؟ اس جشن کی آڑ میں خواتین کو تنگ کرنا، انھیں ہراساں کرنا کیا جشن آزادی تھا؟ اور تو رہنے دیجیے بابائے قوم کے مزار پر چڑھ کرغیر شائستہ حرکات کرنا جشن آزادی تھا؟ سڑکوں پر اس دن ان شتر بے مہار نوجوانوں کو روکنے والے قانون کے محافظ کہاں تھے...؟ اور مزار قائد پر تعینات دستہ آخر کیا کر رہا تھا؟
بات ہے تلخ، مگر بات ہے سچائی کی، کبھی ہم نے سوچا کہ ہماری یہ ساری حرکتیں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ بھی ریکارڈ کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم اس جشن کی آڑ میں کرتے ہیں اس سے دنیا بھر میں ہمارا کیا تاثر قائم ہوگا۔ ہم جنھیں چاروں طرف سے دشمنوں نے گھیرا ہوا ہے، ہر طرف بم دھماکے ہیں۔ قتل و غارت گری ہے جس میں ہمارے بے گناہ اور معصوم شہری مر رہے ہیں، ہمارے لوگ خط غربت سے نیچے زندگی کے اذیت ناک دن گزار رہے ہیں، ہمارے لوگ اپنے پیٹ کا جہنم بھرنے کے لیے اپنے گردے بیچ رہے اور اپنی عزتیں نیلام کر رہے ہیں، جہاں غربت سے تنگ آکر مائیں اپنے بچوں کو لے کر دریائوں میں کود کر اپنی زندگی سے نجات حاصل کر رہی ہیں، جہاں ہر طرف موت کے ہرکارے خونیں رقص کر رہے ہیں، جہاں ہر قسم کی کرپشن کا دور دورہ ہے۔
جہاں ہم اپنی ملی غیرت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جہاں ہم عالمی ساہوکار اداروں سے بھیک مانگ مانگ کر گزر بسر کر رہے ہیں اور بھیک بھی ایسی جو وہ اپنی شرائط پر ہمیں دیتے ہیں، ہم ان کے دست نگر ہیں، ہم ان کی ہدایات کے پابند ہیں، ہم ان کی مرضی کے خلاف سانس بھی نہیں لے سکتے، ہماری سرحدیں محفوظ نہیں ہیں، یوں تو پورا ملک ہی آگ میں جل رہا ہے، لیکن خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالات سے کون بے خبر ہے، ہمارا معاشی قلعہ کراچی کس قدر خوفناک صورت حال کا شکار ہے۔ ہلاکتیں ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔کچھی بلوچ جھگڑا اب تک کئی گھروں کے چراغ گل کرچکا ہے۔علاقے میں سناٹا ہے، کاروبار تباہ اور لوگ نقل مکانی کرچکے ہیں، کچھیوں کے بعد اب بلوچ گھرانے نقل مکانی کررہے ہیں۔ شہریوں کو پینے کا صاف پینے تو کجا گندا پانی بھی دستیاب نہیں ہے، ہمارے معصوم بچے خوراک کی انتہائی کمی کا شکار ہیں، جس کی رپورٹ حال ہی میں شائع ہوئی ہیں۔
ہمارے لوگ اسپتالوں میں دوائوں کے لیے ترس رہے اور کربناک صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں، ہمارے نوجوان بدترین بیروزگاری کا لقمہ بن کر تخریب کی راہ پر چل پڑے ہیں، ایسے میں ہمارا یہ رویہ جس کا مظاہرہ ہم نے جشن آزادی کے دن کیا، کیا ہمیں زیب دیتا ہے؟ ہمارے سیاسی اور مذہبی اکابرین نے اپنی وہی گھسی پٹی تقاریر کیں یا اخبار کو جاری کیں، کیا وہ یہ سب کرکے بری الذمہ ہوگئے؟ کیا انھیں بس یہی کرنا چاہیے تھا؟ ہم آخر کب تک اپنے اس سفاک رویے کو ترک کریں گے؟ اور کریں گے بھی...؟ ہمارے نوجوانوں کو سر جوڑ کر سوچنا چاہیے کہ ہم اپنے اس عظیم ملک کو کیسے اس کربناک حال سے نکال سکتے ہیں۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آزادی حاصل کرنا آسان اور اپنی آزادی کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل ہے۔ آزادی کا جشن منانا چاہیے لیکن پہلے آزادی کا مفہوم بھی سمجھنا چاہیے۔ ہمیں بھوک، افلاس، بیروزگاری، کرپشن، بدامنی سے آزادی حاصل کرنے کے لیے اپنی پوری توانائی صرف کرنی چاہیے۔ جس دن ہم نے مکمل آزادی حاصل کرلی اس دن ہمیں آزادی کا جشن ضرور منانا چاہیے۔ اس وقت تک اس دن کو سادگی سے منانے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔رئیس امروہی کا شعر ہے ؎
اس آزادی نے مجھ کو کیا دیا ہے
فقط آزاد ہو کر رہ گیا ہوں