جشن مناتا چلا گیا
جب پاکستانی قوم آزادی کی 67 ویں سالگرہ منا رہی تھی تو اس وقت دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں۔
HYDERABAD/KARACHI:
14 اگست کو جب پاکستانی قوم اپنی آزادی کی 67 ویں سالگرہ منا رہی تھی تو اس وقت دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں۔ وہ مناظر آنکھوں میں گھوم گئے، جب مشرقی پنجاب، یوپی اور بہار میں مسلم کش فسادات کا بازار گرم تھا۔ جب دلی کے علاقوں سبزی منڈی، پہاڑ گنج اور قرول باغ میں ہندو اور سکھ بلوائی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے اور ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمتیں پامال کر رہے تھے، جب ہندوستان کی راجدھانی کی فضاؤں میں مسلمانوں کی بستیوں کی لگائی جانے والی آگ کے شعلے اور دھوئیں کے بادل بلند ہورہے تھے اور جے بجرنگ بلی اور ست سری اکال کے نعروں کے جواب میں مظلوم مسلمانوں کے اﷲ اکبر کے فلک شگاف جوابی نعرے گونج رہے تھے۔
ہماری آنکھوں میں وہ منظر بھی ابھر آیا جب ہم اپنا بھرا پورا گھر چھوڑ کر پناہ حاصل کرنے کے لیے ہمایوں کے مقبرے کی جانب روانہ ہوئے اور وہاں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے مجبور ہوکر پرانے قلعے کے باہر کھلے آسمان تلے جاکر ٹھہر گئے۔ ہمیں وہ اندھیری رات بھی یاد ہے جب ہم سب مسلسل موسلا دھار بارش میں بے یار و مددگار گھنٹوں بھیگتے رہے اور ہمارے والد نے چند روز قبل جنم لینے والے ہمارے بھائی کی زندگی بچانے کے لیے اسے اپنے اوورکوٹ کی بڑی سی جیب میں دبکا دیا تھا۔
14 اگست کے ساتھ بے شمار دلخراش واقعات اور اندوہناک داستانیں وابستہ ہیں جن میں ایسے قصے بھی شامل ہیں جب ہندو اور سکھ بلوائیوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے بعد اﷲ اور اس کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیواؤں نے باطل پر یہ ثابت کردیا کہ:
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
ایسے ہی لوگوں میں وہ بزرگوار بھی شامل ہیں جو تقریباً 20 سال پہلے ہمیں اچانک ہمارے ایک عزیز کے یہاں اتفاقاً مل گئے تھے۔ تعارف کے طور پر انھوں نے جب ہمارا پس منظر معلوم کیا تو دلی کے خون آلود مسلم کش فسادات کے حوالے آپ بیتی بیان کرتے کرتے ان پر لرزہ طاری ہوگیا اور ان کی کیفیت اس قدر دگرگوں ہوگئی کہ ان کو نارمل ہونے میں تقریباً ایک گھنٹہ لگ گیا۔ ان کی ہچکیاں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور آنسوؤں کا وہ سیلاب آنکھوں سے رواں تھا جس کے آگے کوئی بندھ باندھنا ممکن نہ تھا۔ قصہ یہ تھا کہ بلوائیوں نے دلی کے علاقے چونامنڈی میں ان کے پیاروں اور آنکھوں کے تاروں کو ایک ایک کرکے تہہ تیغ کردیا گیا تھا۔
اسی علاقے کے ایک اور رہائشی ڈاکٹر حسین بخش نے مسلسل 36 گھنٹے تک ہندو سکھ بلوائیوں کا تن تنہا اپنی بندوق سے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جب ان کی گولیوں کا اسٹاک ختم ہونے لگا تو چار و ناچار انھوں نے اپنی خواتین کی عصمتوں کو بلوائیوں کے ناپاک ہاتھوں سے بچانے کے لیے اپنے ہی ہاتھوں سے ان کا خاتمہ کردیا اور خود کو فسادیوں کے ذلت آمیز سلوک سے بچانے کے لیے گولی مار کر ہلاک کردیا۔ انبالہ، لدھیانہ، جالندھر اور امرتسر کے مسلمانوں کی داستانیں بھی کچھ کم خونچکاں اور اندوہناک نہیں ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ روح کے زخم کبھی مندمل نہیں ہوتے۔ دلی، مشرقی پنجاب، یوپی، سی پی اور بہار سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والوں کے یہ زخم کبھی نہیں بھریں گے اور ہر سال جب بھی 14 اگست آئے گی تو انھیں اپنی ناقابل فراموش قربانیوں کی یاد ضرور ستائے گی اور رہ رہ کر رلائے گی اور تڑپائے گی۔
اگرچہ اس وقت ہماری عمر شاید پانچ چھ سال تھی لیکن ہماری آنکھوں میں وہ منظر آج تک محفوظ ہے جب ہم اپنے والد صاحب کے کندھوں پر سوار ہوکر بانی پاکستان اور بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کو دلی کی تاریخی جامع مسجد کے سامنے اردو پارک میں تقریر کرتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ جلسہ گاہ کھچا کھچ بھری ہوئی تھی اور قائد کے شیدائیوں کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا بے کنار سمندر ہماری نگاہوں کے سامنے موجود تھا۔ اپنے قائد کی پکار پر اس وقت برصغیر کے تمام علاقوں سے تعلق رکھنے والے انگریز اور ہندوسے آزادی کے متوالے ایک ہی جھنڈے تلے جمع ہوگئے تھے۔ ان میں نہ کوئی سندھی تھا، نہ بلوچ، نہ پنجابی، بنگالی اور نہ پٹھان۔ سب کے سب ایک اﷲ، ایک نبی اور ایک قرآن کے ماننے والے تھے۔ ان تمام لوگوں کی شناخت ایک اور صرف ایک تھی۔ یہ یقین محکم، اتحاد اور تنظیم کا ہی کرشمہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کا ایک علیحدہ وطن پاکستان معرض وجود میں آکر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اگر ہم آج کی طرح یوں ہی مختلف قومیتوں میں تقسیم ہوتے تو اس مملکت خداداد کا قیام ممکن نہ ہوتا۔ مگر ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے بہت جلد اپنے ماضی کو بھلا دیا اور تاریخ نے اپنا یہ سبق 1971 میں دہرا دیا کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو فراموش کردیتی ہیں ان کا جغرافیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔
سب سے زیادہ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم نے 1971 کے اس عظیم سانحے کو بھی بہت جلد فراموش کردیا جس کے نتیجے میں ہمارا پیارا وطن دولخت ہوگیا اور اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یہ کہتے ہوئے ہمارے قلب و ذہن پر چرکہ لگایا تھا کہ ہم نے نظریہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔
افسوس صد افسوس کہ ہم نے سقوط مشرقی پاکستان کے المناک واقعے سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور خود کو ہمیشہ کے لیے متحد کرنے کے بجائے پھر ان ہی قومیتوں میں بٹ گئے۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ آج ہم میں سے ہر ایک اپنی شناخت مسلمان اور پاکستانی ہونے کے بجائے پنجابی، سندھی، بلوچ، پٹھان اور مہاجر کے نام سے کرانا پسند کرتا ہے۔ آپ ہی بتائیے کہ یہ نظریہ پاکستان کی نفی اور انکار نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ آج وطن عزیز میں تقسیم در تقسیم کی جو کیفیت پائی جاتی ہے اس کی وجہ سے مصور پاکستان علامہ اقبال اور خالق پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی ارواح عالم بالا میں کس بری طرح تڑپتی ہوں گی۔ ہماری سیاسی جماعتوں کی مصلحت کوشیوں اور مفاد پرستی نے اس ملک کو جن حالات سے دوچار کردیا ہے اس پر پوری قوم ملول اور افسردہ ہے اور ہم نے بربادیوں، محصور ہوکر اپنی آزادی کا 67 واں جشن منایا ہے۔ اس پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہماری اپنی جماعتوں نے بھی اپنی ذمے داریاں کماحقہ ادا نہیں کیں اور سیاسی اور گروہی مصلحتوں کا شکار ہوکر لوگوں کو متحد کرنے کے بجائے مزید منتشر کردیا ہے اور جسے دیکھیے وہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے میں مصروف ہے اور اپنا قبلہ درست کرنے کا کسی کو بھی کوئی احساس نہیں ہے۔ یہ کیسی آزادی ہے کہ اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والے اور اسلام کا قلعہ کہلانے والے اس ملک میں آج تمام عبادت گاہیں حتیٰ کہ ہماری مساجد اور ان میں سر بسجود ہونے والے نمازی بھی دست قاتل سے محفوظ نہیں ہیں اور ہمارے حکمراں بے دست و پا ہوکر اور عضوئے معطل بن کر محض تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ افسوس ان پاکستانی والدین پر بھی ہے جنھوں نے کھلونوں کی صورت میں بھی اپنے معصوم نونہالوں کے ہاتھوں میں ہتھیار تھما دیے ہیں۔ ان سرکاری اداروں پر بھی افسوس ہے کہ نے جشن آزادی سجدہ شکر ادا کرنے کے بجائے لاکھوں روپے پھونک کر آتش بازی کے مظاہرے کرکے منایا ہے۔