پانچ سال میں کچھ تو ہوسکتا ہے…
بین الاقوامی مقولہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کے اطوار دیکھنے ہوں تو اس ملک کے ٹریفک کے نظام کو دیکھا جائے۔
KARACHI:
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ بندے کو اچھا کام کرنے کی نیت باندھتے ہی اس کا ثواب مل جاتا ہے اور انگریزی کا ایک مقولہ ہے where there is a will, there is a way پاکستان میں انتخابات ہوگئے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ نئی حکومت بھی اپنے 5 سال پورے کرے گی۔ بیشک مسائل بہت ہیں، لیکن نیت صاف تو منزل آسان۔ بجلی کا بحران تو ہے ہی، جو پلک جھپکتے میں تو دور نہیں ہوگا، اس کا حل تو جنگی بنیادوں پر نکالنا ہوگا، لیکن اس حکومت کو اگر عوام کے قریب آنا ہے تو سب سے پہلے انتظامی ڈھانچہ صحیح کرنا ہوگا۔ اسلام آباد سے لے کر بدین (جو جنوبی سندھ کا آخری ضلع ہے) تک سرکاری دفاتر میں چیف سیکریٹری سے لے کر خاکروب تک کو وقت کا پابند بنانا ہوگا۔ بہت اچھی بات ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس کی ابتدا ہوچکی ہے۔ اس سے عوام کے مسائل جلد حل ہوں گے۔ حکومت کے سب ملازمین کو اپنی نشستوں پر ٹھیک 9 بجے بیٹھ جانا ہوگا، تاکہ لوگوں کے کام جلد سے جلد نمٹائے جائیں۔ دوپہر کے کھانے اور نماز کا وقفہ جوکہ 45 منٹ ہے، اس کی مکمل پابندی کرنی ہوگی۔
بین الاقوامی مقولہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کے اطوار دیکھنے ہوں تو اس ملک کے ٹریفک کے نظام کو دیکھا جائے اور معیشت کو دیکھنا ہو تو اسٹاک ایکسچینج کو دیکھا جائے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں دونوں چیزیں اس مقولے کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ٹریفک کا نظام صحیح ہونا تو کجا، ہم لوگوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز سرے سے قائم نہیں ہوسکی۔ ہم لوگ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنے کے روادار ہی نہیں ہیں۔ ہم 66 سال میں رکشاؤں کے سائیلنسر تک ٹھیک نہیں کرا سکے۔ کراچی کے ایک بھلے افسر نے یہ کوشش کی، لیکن رکشا والے گھنٹوں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر پورے آواز سے سائیلنسر بجا بجا کر احتجاج کرتے رہے اور انھوں نے اپنے سائیلنسر ٹھیک کرانے سے صریح انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائیلنسر ٹھیک کرنے میں ان کا تیل زیادہ خرچ ہوگا (واللہ اعلم)۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک کا نظام درست کیا جائے، کیونکہ ٹریفک کے رکنے سے وقت اور تیل کا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری حکومتیں مصلحت کے نام پر کوئی بھی نظام درست کر نہیں پاتیں، اور احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں، لیکن اب مضبوط فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ امن وامان کو فوراً سے پیشتر بحال کرنا ضروری ہے۔ لوگوں کی جانیں، مال اور عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا ہوگا۔ اس وقت پولیس کے عملے کا بہت بڑا حصہ سیاسی پارٹیوں اور سرکاری افسران کی ذاتی ڈیوٹیوں پر مامور ہے، انھیں عوامی ڈیوٹیوں پر لگانا ہوگا اور انھیں امن وامان قائم کرنے کے لیے مکمل اختیارات دینے ہوں گے۔ مثلاً اس وقت حالت یہ ہے کہ، گاڑیوں پر کالے شیشے لگانا منع ہیں، اگر کوئی عام آدمی شیشے لگائے تو اسے اتارنے کے لیے کہا جاتا ہے اور کوئی سیاستدان یا سرکاری عملدار اور ان کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے لگائیں اور اگر کوئی فرض شناس ٹریفک پولیس والا انھیں روکے تو وہ اس پر دھونس جماتے ہیں۔ اگر کوئی ''احمق'' پولیس والا دھونس میں نہ آئے تو ایک دم موبائل فون پر اپنے باپ، ماموں یا چچا کو بتائیں گے اور وہ حکم فرمائے گا کہ اسے تو چھوڑ دو اور تم ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرو۔ اس حالت میں کیسے قانون کی پاسداری ہوسکتی ہے۔ اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ انھیں دو ٹوک کہنا ہوگا کہ اگر کوئی بھی ان کا غلط استعمال کرے گا تو اس کو نہ صرف ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ سزا بھی ملے گی (میں کچھ زیادہ ہی امید کر بیٹھا ہوں کہ ایسا ہوگا، لیکن جناب! اب بہت ہوچکا، اور پانی سر سے اوپر چڑھ چکا ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں)۔ ابھی کچھ روز پہلے بلوچستان اسمبلی میں ایک وزیر باتدبیر صاحب کے گارڈوں کو اندر جانے سے روکنے پر ایس پی کو معطل کیا گیا (واہ ری جمہوریت!)
پولیس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی زیادہ فعال ہونا ہوگا۔ عدالتوں میں لاکھوں کروڑوں مقدمات زیرالتوا ہیں، جن میں مجرموں کو سزائیں ملنے میں دیر ہونے کی وجہ سے دوسرے مجرموں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ عدالتوں میں غیر ضروری مہلتوں اور احکام امتناعی سے پرہیز ہونی چاہیے۔ وکیل صاحبان بھی ذرا ذرا سی بات پر تاریخیں مانگتے ہیں اور جج صاحبان بھی اس معاملے پر غور کریں۔بعض مقدمات کے فیصلے آنے تک عشرے لگ جاتے ہیں۔
لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں، نہ کہ ان کو امدادوں کے آسروں پر لگایا جائے۔ انھیں مچھلی پکڑنا سکھایا جائے، نہ کہ بھکاری بنایا جائے۔ انکم سپورٹ، لیپ ٹاپ جیسے شعبدوں سے بھیک کا عادی نہ بنایا جائے اور نہ ہی ان کو قرضوں کی اسکیموں میں جکڑا جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو صاحب نے ایک رورل ورکس پروگرام شروع کیا تھا، جس کے تحت گاؤں، دیہاتوں کو پکی سڑکوں سے ملانے کے لیے پکی اینٹوں کی سڑکیں بنائی گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے دیہات کے لوگوں کو اپنے ہی گھروں کے نزدیک روزگار مہیا ہوگیا تھا۔ کئی چھوٹی چھوٹی صنعتیں بھی قائم ہوئی تھیں، جو بجلی کے بحران کے سبب بند ہوگئیں۔ اب بھی بجلی کے مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ گاؤں کے لوگوں کو کاٹیج انڈسٹریز شروع کرنے میں آسانی ہوگی، اور انھیں روزگار کے لیے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا۔
ہماری گزشتہ سب حکومتیں تعلیم کے فروغ کے لیے 66 سال سے بڑے بلند و بالا دعوے کرتی رہی ہیں، لیکن عام لوگوں کے لیے معیاری تعلیم عنقا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت تو ناقابل بیان ہے۔ امیر و امراء کے بچے تو پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں، غریب و غربا کے بچے سرکاری اسکولوں میں۔ کچھ سال پہلے میرے ایک جاننے والے صاحب کا تبادلہ بحیثیت ڈپٹی کمشنر گوادر ہوا۔ وہاں ایک سرکاری اسکول تھا جو حسب معمول ناگفتہ بہ حالت میں تھا۔ انھوں نے بحالت مجبوری اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کروایا۔ خوش قسمتی سے اس کی بیگم نے اسکول میں اعزازی طور پر پڑھانا شروع کیا اور اسکول میں فرنیچر اور دیگر سہولیات مہیا کروائیں۔ ان کے تبادلے کے بعد اس اسکول کا کیا حال ہوا ہوگا، یہ آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن کاش! کہ ہمارے صدور، وزراء اور سرکاری افسران کا تبادلہ کم ازکم ایک بار گوادر ہو۔ کاش! کہ ہمارے لیڈران جو ملک کی حالت سدھارنے، انقلاب برپا کرنے اور شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے کے وعدوں پر لوگوں سے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والے ہیں، یہ انقلاب برپا کریں کہ اپنے بچوں کو بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں۔
اسی طرح سرکاری اسپتالوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ کاش! کہ یہ لیڈر صاحبان بھی ان ہی سرکاری اسپتالوں سے علاج و معالجہ کرائیں اور نزلہ زکام کے لیے عوام کے خرچے پر بیرون ملک تشریف نہ لے جائیں۔
خاص بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا گزارشات میں سرکاری خزانے پر نہ صرف کوئی بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ اور گھٹے گا، شرط صرف یہ ہے کہ نیت باندھی جائے۔
شیرشاہ سوری کو بھی یہی 5 سال ملے تھے، لیکن اس کی اصلاحات نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ دنیا کی تاریخ میں ضرب المثل ہیں۔ ان کے لیے مشہور تو یہ ہے کہ صرف جرنیلی سڑک بنوائی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے 4 بڑی بڑی سڑکیں بنوائی تھیں، اس کے علاوہ لنڈر فارم (ہمارے جیسے نہیں)، انتظامی اور دیگر اصلاحات، جن میں ڈاک کا نظام بھی شامل ہے، کیے تھے اس وقت میں جب نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی سڑکیں بنانے کی مشینری۔ شیر شاہ کی اصلاحات پر ایک نہایت مزے دار بات یاد آئی، جو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ اسکول کے زمانے میں ایوب خان کا مارشل لاء لگا تھا، جس میں دیگر اصلاحات کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ اتائی ڈاکٹروں نے دواخانے بند کردیے تھے۔ ہمارے پرچے میں شیرشاہ کی اصلاحات کے بارے میں سوال آیا۔ ہمارے ایک دوست نے جواب میں لکھا کہ اس کے زمانے میں اتائی ڈاکٹروں کے دواخانے بند ہوگئے۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ بندے کو اچھا کام کرنے کی نیت باندھتے ہی اس کا ثواب مل جاتا ہے اور انگریزی کا ایک مقولہ ہے where there is a will, there is a way پاکستان میں انتخابات ہوگئے ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ نئی حکومت بھی اپنے 5 سال پورے کرے گی۔ بیشک مسائل بہت ہیں، لیکن نیت صاف تو منزل آسان۔ بجلی کا بحران تو ہے ہی، جو پلک جھپکتے میں تو دور نہیں ہوگا، اس کا حل تو جنگی بنیادوں پر نکالنا ہوگا، لیکن اس حکومت کو اگر عوام کے قریب آنا ہے تو سب سے پہلے انتظامی ڈھانچہ صحیح کرنا ہوگا۔ اسلام آباد سے لے کر بدین (جو جنوبی سندھ کا آخری ضلع ہے) تک سرکاری دفاتر میں چیف سیکریٹری سے لے کر خاکروب تک کو وقت کا پابند بنانا ہوگا۔ بہت اچھی بات ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اس کی ابتدا ہوچکی ہے۔ اس سے عوام کے مسائل جلد حل ہوں گے۔ حکومت کے سب ملازمین کو اپنی نشستوں پر ٹھیک 9 بجے بیٹھ جانا ہوگا، تاکہ لوگوں کے کام جلد سے جلد نمٹائے جائیں۔ دوپہر کے کھانے اور نماز کا وقفہ جوکہ 45 منٹ ہے، اس کی مکمل پابندی کرنی ہوگی۔
بین الاقوامی مقولہ ہے کہ اگر کسی ملک کے لوگوں کے اطوار دیکھنے ہوں تو اس ملک کے ٹریفک کے نظام کو دیکھا جائے اور معیشت کو دیکھنا ہو تو اسٹاک ایکسچینج کو دیکھا جائے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ہاں دونوں چیزیں اس مقولے کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ ٹریفک کا نظام صحیح ہونا تو کجا، ہم لوگوں میں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز سرے سے قائم نہیں ہوسکی۔ ہم لوگ قطار میں کھڑے ہوکر اپنی باری کا انتظار کرنے کے روادار ہی نہیں ہیں۔ ہم 66 سال میں رکشاؤں کے سائیلنسر تک ٹھیک نہیں کرا سکے۔ کراچی کے ایک بھلے افسر نے یہ کوشش کی، لیکن رکشا والے گھنٹوں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر پورے آواز سے سائیلنسر بجا بجا کر احتجاج کرتے رہے اور انھوں نے اپنے سائیلنسر ٹھیک کرانے سے صریح انکار کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سائیلنسر ٹھیک کرنے میں ان کا تیل زیادہ خرچ ہوگا (واللہ اعلم)۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹریفک کا نظام درست کیا جائے، کیونکہ ٹریفک کے رکنے سے وقت اور تیل کا نقصان ہوتا ہے۔ ہماری حکومتیں مصلحت کے نام پر کوئی بھی نظام درست کر نہیں پاتیں، اور احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں، لیکن اب مضبوط فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ امن وامان کو فوراً سے پیشتر بحال کرنا ضروری ہے۔ لوگوں کی جانیں، مال اور عزتیں محفوظ نہیں ہیں۔ پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں کرنا ہوگا۔ اس وقت پولیس کے عملے کا بہت بڑا حصہ سیاسی پارٹیوں اور سرکاری افسران کی ذاتی ڈیوٹیوں پر مامور ہے، انھیں عوامی ڈیوٹیوں پر لگانا ہوگا اور انھیں امن وامان قائم کرنے کے لیے مکمل اختیارات دینے ہوں گے۔ مثلاً اس وقت حالت یہ ہے کہ، گاڑیوں پر کالے شیشے لگانا منع ہیں، اگر کوئی عام آدمی شیشے لگائے تو اسے اتارنے کے لیے کہا جاتا ہے اور کوئی سیاستدان یا سرکاری عملدار اور ان کے بیٹے، بھانجے، بھتیجے لگائیں اور اگر کوئی فرض شناس ٹریفک پولیس والا انھیں روکے تو وہ اس پر دھونس جماتے ہیں۔ اگر کوئی ''احمق'' پولیس والا دھونس میں نہ آئے تو ایک دم موبائل فون پر اپنے باپ، ماموں یا چچا کو بتائیں گے اور وہ حکم فرمائے گا کہ اسے تو چھوڑ دو اور تم ہیڈ کوارٹر رپورٹ کرو۔ اس حالت میں کیسے قانون کی پاسداری ہوسکتی ہے۔ اختیارات دینے کے ساتھ ساتھ انھیں دو ٹوک کہنا ہوگا کہ اگر کوئی بھی ان کا غلط استعمال کرے گا تو اس کو نہ صرف ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے گا بلکہ سزا بھی ملے گی (میں کچھ زیادہ ہی امید کر بیٹھا ہوں کہ ایسا ہوگا، لیکن جناب! اب بہت ہوچکا، اور پانی سر سے اوپر چڑھ چکا ہے، اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں)۔ ابھی کچھ روز پہلے بلوچستان اسمبلی میں ایک وزیر باتدبیر صاحب کے گارڈوں کو اندر جانے سے روکنے پر ایس پی کو معطل کیا گیا (واہ ری جمہوریت!)
پولیس کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی زیادہ فعال ہونا ہوگا۔ عدالتوں میں لاکھوں کروڑوں مقدمات زیرالتوا ہیں، جن میں مجرموں کو سزائیں ملنے میں دیر ہونے کی وجہ سے دوسرے مجرموں کی حوصلہ افزائی بھی ہوتی ہے۔ عدالتوں میں غیر ضروری مہلتوں اور احکام امتناعی سے پرہیز ہونی چاہیے۔ وکیل صاحبان بھی ذرا ذرا سی بات پر تاریخیں مانگتے ہیں اور جج صاحبان بھی اس معاملے پر غور کریں۔بعض مقدمات کے فیصلے آنے تک عشرے لگ جاتے ہیں۔
لوگوں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے چاہئیں، نہ کہ ان کو امدادوں کے آسروں پر لگایا جائے۔ انھیں مچھلی پکڑنا سکھایا جائے، نہ کہ بھکاری بنایا جائے۔ انکم سپورٹ، لیپ ٹاپ جیسے شعبدوں سے بھیک کا عادی نہ بنایا جائے اور نہ ہی ان کو قرضوں کی اسکیموں میں جکڑا جائے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو صاحب نے ایک رورل ورکس پروگرام شروع کیا تھا، جس کے تحت گاؤں، دیہاتوں کو پکی سڑکوں سے ملانے کے لیے پکی اینٹوں کی سڑکیں بنائی گئی تھیں۔ جس کی وجہ سے دیہات کے لوگوں کو اپنے ہی گھروں کے نزدیک روزگار مہیا ہوگیا تھا۔ کئی چھوٹی چھوٹی صنعتیں بھی قائم ہوئی تھیں، جو بجلی کے بحران کے سبب بند ہوگئیں۔ اب بھی بجلی کے مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ گاؤں کے لوگوں کو کاٹیج انڈسٹریز شروع کرنے میں آسانی ہوگی، اور انھیں روزگار کے لیے شہروں کا رخ نہیں کرنا پڑے گا۔
ہماری گزشتہ سب حکومتیں تعلیم کے فروغ کے لیے 66 سال سے بڑے بلند و بالا دعوے کرتی رہی ہیں، لیکن عام لوگوں کے لیے معیاری تعلیم عنقا ہے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت تو ناقابل بیان ہے۔ امیر و امراء کے بچے تو پرائیویٹ اسکولوں میں جاتے ہیں، غریب و غربا کے بچے سرکاری اسکولوں میں۔ کچھ سال پہلے میرے ایک جاننے والے صاحب کا تبادلہ بحیثیت ڈپٹی کمشنر گوادر ہوا۔ وہاں ایک سرکاری اسکول تھا جو حسب معمول ناگفتہ بہ حالت میں تھا۔ انھوں نے بحالت مجبوری اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کروایا۔ خوش قسمتی سے اس کی بیگم نے اسکول میں اعزازی طور پر پڑھانا شروع کیا اور اسکول میں فرنیچر اور دیگر سہولیات مہیا کروائیں۔ ان کے تبادلے کے بعد اس اسکول کا کیا حال ہوا ہوگا، یہ آپ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن کاش! کہ ہمارے صدور، وزراء اور سرکاری افسران کا تبادلہ کم ازکم ایک بار گوادر ہو۔ کاش! کہ ہمارے لیڈران جو ملک کی حالت سدھارنے، انقلاب برپا کرنے اور شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پلانے کے وعدوں پر لوگوں سے ووٹ لے کر اقتدار میں آنے والے ہیں، یہ انقلاب برپا کریں کہ اپنے بچوں کو بھی سرکاری اسکولوں میں پڑھائیں۔
اسی طرح سرکاری اسپتالوں کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے۔ کاش! کہ یہ لیڈر صاحبان بھی ان ہی سرکاری اسپتالوں سے علاج و معالجہ کرائیں اور نزلہ زکام کے لیے عوام کے خرچے پر بیرون ملک تشریف نہ لے جائیں۔
خاص بات یہ ہے کہ مندرجہ بالا گزارشات میں سرکاری خزانے پر نہ صرف کوئی بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ اور گھٹے گا، شرط صرف یہ ہے کہ نیت باندھی جائے۔
شیرشاہ سوری کو بھی یہی 5 سال ملے تھے، لیکن اس کی اصلاحات نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ دنیا کی تاریخ میں ضرب المثل ہیں۔ ان کے لیے مشہور تو یہ ہے کہ صرف جرنیلی سڑک بنوائی تھی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے 4 بڑی بڑی سڑکیں بنوائی تھیں، اس کے علاوہ لنڈر فارم (ہمارے جیسے نہیں)، انتظامی اور دیگر اصلاحات، جن میں ڈاک کا نظام بھی شامل ہے، کیے تھے اس وقت میں جب نہ تو بجلی تھی اور نہ ہی سڑکیں بنانے کی مشینری۔ شیر شاہ کی اصلاحات پر ایک نہایت مزے دار بات یاد آئی، جو آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں۔ اسکول کے زمانے میں ایوب خان کا مارشل لاء لگا تھا، جس میں دیگر اصلاحات کے ساتھ یہ بھی ہوا کہ اتائی ڈاکٹروں نے دواخانے بند کردیے تھے۔ ہمارے پرچے میں شیرشاہ کی اصلاحات کے بارے میں سوال آیا۔ ہمارے ایک دوست نے جواب میں لکھا کہ اس کے زمانے میں اتائی ڈاکٹروں کے دواخانے بند ہوگئے۔