سیاست دان اور گرگٹ
روئے سخن ظاہر ہے اشرافیہ کی بالادست اور عوام بیزار قوتوں سے ہے جن کی مٹھی میں قومی اور ملکی وسائل ہیں۔
احمد ندیم قاسمی کا سدا بہار شعر ہے
بلندیوں کی بلندی ہے پستیوں سے عبارت
صنوبرو کے رفیقو ببول کو نہ جلاؤ
روئے سخن ظاہر ہے اشرافیہ کی بالادست اور عوام بیزار قوتوں سے ہے جن کی مٹھی میں قومی اور ملکی وسائل ہیں، جن کے ہرکارے جنگلوں کے جنگل صاف چٹ کرگئے، ٹمبر مافیا کیا کسی سے کم ہے، درختوں کے شکاری ہیں، دھرتی کے دشمن ہیں، انھیں ملکی ایکولوجی سے کیا محبت، ماحولیات کے تحفظ سے ان کا کیا لینا دینا۔ پاکستان موسمیاتی اور ماحولیاتی تباہی کے دہانے پرکھڑا ہے۔آبی قلت قوم کی آنکھوں نے خشک دریائے سندھ کے پیاسے لبوں پر دیکھی ہے، ایکسپریس کے صفحہ اول پر ایک تصویر چھپی جس میں ایک شخص خاک اڑاتے دریائے سندھ سے اپنی بھینسیں لے کر جا رہا ہے۔
کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یارب
اک آبلہ پا وادیٔ پر خار میں آئے
مجھے ٹمبر مافیا کی دست درازی اور فطرت سے چھیڑ چھاڑ کی اندھی لڑائی کا اندازہ ایک موقر روزنامہ کے رپورٹر کی حیثیت میں ہوا۔ راقم کو سیکریٹری جنگلات سے بھی خبریں ملتی تھیں ، وہ ماحو ل دوست بیوروکریٹ تھے اور منتظر رہتے تھے کہ قومی اخبارات جنگلات اور آبی حیات سے متعلق خبریں ضرور دیا کریں ۔ان کی خواہش تھی کہ ملکی زراعت، معیشت اور عوام کی خوشحالی کے لیے جنگلات کے کٹاؤ کا ظالمانہ سلسلہ رکنا چاہیے ، طلبا کو ماحولیات کے علم سے آگہی ہونی چاہیے ، وہ ایک ملک گیر مہم کے تیز ہونے کی وکالت کرتے تھے، میں صحرا نورد جیسا رپورٹر ان کے دیے گئے پوائنٹس پر خبر بناتا اور وہ شایع ہوتیں ۔
سلسلہ چلتا رہا، مگر ایک دن انھوں نے ایک فارم میرے سامنے رکھا اور کہنے لگے ، نوجوان ! آپ پیدل چلتے ہوئے خبریں ڈھونڈتے ہیں، آپ کے لیے آسانی ہوگی اگر آپ اس فارم کو پرکرلیں، آپ کا فائدہ ہوگا۔ آپ کو جنگلی حیوانات، سرسبز وشاداب کھیت کھلیان ، ہاری کسان مزارعین سے عقیدت ہے، آپ ماہی گیروں کی حالت زار اور فشریزکے بارے میں خبریں دیتے ہیں، اس دھرتی سے آپ کی محبت قابل تعریف ہے، ان کی ساری باتیں مجھے ینگ رپورٹر ہوتے ہوئے اچھی لگیں مگر اس فارم کی پیشکش کو میرے ذہن نے قبول نہیں کیا، اپنے قدم روک لیے، پھر اس بیرک کی طرف رپورٹنگ کے لیے نہیں گیا۔ بعد میں ایک سینئر سندھی صحافی دوست نے بتایا کہ یہ ٹمبر پرمٹ تھا سائیں ! قبول کرلیتے تو جوانی دیوانی ہو جاتی ۔
اب آئیے! اسی سلسلہ کی ایک اورکہانی کی طرف ، یہ 1984کا زمانہ تھا جب آج کے ملک کے نامور نعت خواں سید فصیح الدین سہروردی سے میری شناسائی تھی،ان کی نعتیں سننے کا اتفاق ہوا تھا، بڑے صوفی بزرگ شاعرکے فرزند ارجمند تھے،علامہ سید ریاض الدین سہروردی کے نام سے کون واقف نہیں۔ ان کی نعتیں روح کی گہرائیوں میں اترتی ہیں۔ سید فصیح سہروردی اس وقت شہرت کی سیڑھیوں پر چڑھ رہے تھے اور محکمہ جانور شناسی (زولوجیکل سروے ڈپارٹمنٹ) میں شاید سٹینوگرافر تھے۔ میں حسب عادت صبح گھر سے نکلتا ، نئی خبر کی تلاش میں وائلڈ لائف بورڈ میں ہفتہ دس دن میں فیاض خان سے ضرور ملتا ، یہ خوبرو جواں سال نوجوان صدر اور دیگر مقامات پر جنگلی حیوانات کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث تاجروں کے ٹھکانوں اور دکانوں پر چھاپے مارتا ، تلور، عقابوں کی دسیوں قسمیں ، اژدہے، مور، انواع و اقسام کے پرندے ، نایاب ہرن دیگر معدوم ہوتی جنگلی حیات کے بچاؤکے ساتھ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریاں بھی پوری کرتا تھا۔
انھوں نے کئی RAIDS میں مجھے اپنے ساتھ لیا۔ کالے ہرنوں کے امریکی تحفے ایئرپورٹ پر پہنچے تو ہم لوگ صبح سویرے ایئرپورٹ یارڈ میں ہرنوں کے باکسز تلاش کرتے رہے، بہت سارا درآمدی سامان پڑا ہوا تھا ۔ مشکل پیش آرہی تھی کہ ہرن کہاں روپوش ہیں ۔ اسی دوران سردار نبیل گبول کے والد احمد گبول اورکلکٹر کسٹم مبین صاحب نے فیاض خان کی مدد کی اور باکسز مل گئے،کیا قدرت کی صناعی تھی، ایسے سبک رفتار،خوبصورت اور انمول ہرن کبھی نہیں دیکھے ۔ مضبوط باکسز میں بند تھے ۔ البتہ ان کی تھوتنیاں باہر نکلی ہوئی تھی تاکہ سانس لے سکیں ، مگر جالیوں سے لگتا تھا کہ چھوٹے توکسی کے ہاتھ نہیں آئیں گے، ایسے صاف ستھرے جیسے چاندنی میں دھلے ہوئے ہوں ۔ انھیں کیرتھر پارک میں آزاد چھوڑا گیا۔
ایک دن وائلڈ لائف کے دفتر پہنچا، سخت گرمی کا موسم تھا کہ راہداری میں دو آدمی بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے ،ان کے دھوپ جلے چہرے سیاہ ہوچکے تھے، فیاض خان نے بتایا یہ عقابوں کے شکاری ہیں، یہ جیل جائیں گے۔ پھر کہنے لگے ہیں تو غریب دہاڑی دار، غربت کے مارے لوگ ،ان کو کیا ملے گا چند سو روپوں کی اجرت، عقاب مافیا توگلف کے شیخوں سے لاکھوں لیں گے۔ فیاض خان شفگتہ مذاق بھی کرتے،کہنے لگے گرفتار عقاب آزاد فضاؤں میں اڑائے جائیں گے، مگر یہ غریب لوگ قانون کے شکنجہ میں آئیں گے۔ بہت سال گزرے مجھے پھر فیاض خان نہیں ملے ۔ جہاں رہیں خوش رہیں۔
قارئین کرام! ذکر تھا فصیح الدین سہروردی کا ، تو سنیے میں زولوجیکل سروے ڈپارٹمنٹ میں داخل ہوا سامنے ایک چھوٹے کمرے سے فصیح الدین فوراً باہر نکل آئے، مجھے دیکھا تو بے حد حیران ہوئے، ''سر! آپ یہاں'' میں نے کہا '' جی فصیح ! ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں؟ کیا جانیں کیا ارماں لے کر ہم تیری گلی میںآنکلے، خبر کی تلاش آپ تک لے آئی ۔ ''
اس نے بھی وقت ضایع کیے بغیر کہا چلیے آپ کو اپنے ڈائریکٹر سے ملاتے ہیں، یوں وہ ساتھ والے کمرے میں لے گئے جہاں ایک بزرگ صورت افسر فاروق احمد نے خوش آمدید کہا، کہنے لگے ''خوشی اس بات کی ہے کہ اخبار والوں نے زولوجیکل سروے ڈپارٹمنٹ کا رستہ دیکھ لیا ،اس وقت لیاری ٹاؤن کے ایک اور افسر صادق نیازی بھی ان کے سامنے بیٹھے تھے، وہ دنیائے ماہی گیری اور مچھلیوں کے رمزآشنا تھے۔ افسر محترم نے ریسرچ میں مصروف چند طالبات کو بلایا جن میں سے دو ایک نے اپنی تحقیق کا پروفائل پیش کیا ان میں سے ایک تحقیق ''سرخاب'' پر تھی ۔ میں نے اسی معدوم نسل پر ہونے والی تحقیقی رپورٹ کی خبر دے دی ۔ سٹی ایڈیٹر ممتاز صحافی نصیر ہاشمی تھے انھوں نے سٹی پیج پر ایک باکس لگادیا ۔ خبر کا عنوان تھا '' سرخاب مررہا ہے۔''
جب تک اس پرندہ کو نہیں دیکھا تھا تو تصورو تخیل میں اس کی سرخابی خصوصیت ذہن پر چھائی ہوئی تھی مگر یہ بطخ کی ایک نسل سے تھا۔ اس کے بعد کئی خبریں چھپیں جن میں ایک خبر اس عنوان سے '' ڈیپ سی فشنگ نہ رکی تو مچھلیاں اور جھینگے بھارت چلے جائیں گے''جب کہ دوسری دوکالمی خبرکی سرخی تھی ''سمندری سانپ زہریلے مگر شرمیلے ہوتے ہیں'' مجھے یاد ہے ایک خبر سروے ڈپارٹمنٹ نے دی تھی کہ پاکستان کے بعض صحرائی علاقوںکے گرگٹ رنگ نہیں بدلتے۔ اس خبر پر جناب عبدالقادر حسن نے پورا کالم لکھا اور اس میں فرمایا ۔ ''ہمارے سیاستدانوں سے تو یہ گرگٹ ہی اچھے۔''
ان دنوں وہیل مچھلیاں بھی اکا دکا پاکستانی سمندری حدود میں میں آیا کرتیں، زولوجیکل سروے ڈپارٹمنٹ کی طرف سے فون آتا اور ہم رپورٹنگ کے لیے کبھی فش ہاربر، کبھی منوڑہ ، بابا بھٹ جزائر اورکبھی ہاکس بے اور مبارک ولیج کی طرف نکل جاتے۔ ایک مردہ وہیل مچھلی ہاکس بے ساحل پر چند روز رکھی گئی۔
اس پر دو روپے ٹکٹ بھی لگادیا گیا لوگ اس کے دانت اور جسامت دیکھنے دور دور سے جوق در جوق چلے آتے۔ یہ بات ڈائریکٹر فاروق صاحب نے بتائی کہ اس دیو ہیکل میمل کے اوپر نیچے دانتوں کے بیچ جھالر سی بنی ہوئی نائیلون جیسی دیوار قدرت کی حسین تخلیق ہے۔انھوں نے بتایا کہ میمل بے ضرر مخلوق ہے ، اس کی خوراک چھوٹی مچھلیوں کے بحری قافلے ہیں جو کو یہ پورے کا پورا نگل لیتی ہے اور پھر اسی جھالر کو دانتوں سے پکڑ کر سارا پانی منہ سے باہر نکال دیتی ہے، مچھلیاں جھالر سے لگ کر نیچے گرتی رہتی ہیں اور وہیل ان کو آہستہ آہستہ چبھاتی رہتی ہے۔
ایک بارکلفٹن پر بڑی جسامت کی وہیل لہروں نے ساحل پر اگل دی تھی ،اس کا ہزاروں کلو گوشت اور لیور آئل تاجروں نے خریدا، ایک وہیل مچھلی جو غالباً 44 فٹ لمبی تھی ا سکا دھڑگاندھی گارڈن میں رکھا گیا تھا۔گزشتہ دنوں بلوچستان میںایک معدوم نسل کی وہیل مچھلی مردہ حالت میں دفن کی گئی ۔ اس پر ماہرین نے احتجاج کیا کہ تحقیق کے بغیر اسے عجلت میں دفن کرنا غیر ذمے دارانہ حماقت ہے۔ ایک دلچسپ بات عرض کردوں ۔ مور نایاب پرندہ ڈیکلیئر کیا گیا ہے لیکن گینگ وار کمانڈر مرحوم بابا لاڈلہ کے پالے ہوئے تین مور ان کی رہائش گاہ سے اڑ کر ہمسایوں کی چھتوں پر بسیرا کرتے ۔ان کے لیاری سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہونے کے بعد مور نہ معلوم کہاں چلے گئے۔