اکبر معصوم اور افتخار مجاز
دنیا سے تعلق رکھنے والے دو بہت اچھے انسان ہماری آپ کی اس دم بدم بدلتی ہوئی محفل سے یکدم کنارا کرگئے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں ادب اور اس سے متعلق دنیا سے تعلق رکھنے والے دو بہت اچھے انسان ہماری آپ کی اس دم بدم بدلتی ہوئی محفل سے یکدم کنارا کرگئے ہیں، میری مراد سانگھڑ سے تعلق رکھنے والے عمدہ اور صاحبِ طرز شاعر اکبر معصوم اور پی ٹی وی نیوز کے ادب دوست پروڈیوسر اور ابتدائی باذوق قاری افتخار مجاز سے ہے جس کے بارے میں کل باتوں باتوں میں شوکت الٰہی نے یہ بھی بتایا کہ وہ معروف شاعر راشد مراد کا ماموں بھی تھا۔
افتخار مجاز سے متعارف تو اس کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر مرحوم کی وساطت سے ہوا لیکن اس کی پُرخلوص شخصیت اور ادب سے خصوصی شغف کے باعث بہت جلد یہ رشتہ ایسا مستحکم ہوگیا کہ اسے کسی اضافی تعلق کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ پی ٹی وی کے اُن منتخب اور محنتی پروڈیوسروں میں سے تھا جو اپنے کام کو صرف نوکری نہیں سمجھتے تھے۔
میری ذاتی رائے میں مُصلح الدین مرحوم کے بعد اگر پی ٹی وی نیوز کے کسی آدمی کے ادبی ذوق کی مثال دی جا سکتی ہے تو اس صف میں سب سے پہلا نام افتخاز مجاز ہی کا آئے گا۔ اِن دونوں کی ایک اور مشترکہ خوبی اُن کا حسنِ مزاج بھی تھی کہ انھیں جملہ کہنے اور سننے کا وہ قابلِ تعریف ڈھب بھی آتا تھا جو اب تقریباً ناپید ہوتا جارہا ہے۔ چند برس قبل عید کے کسی پروگرام میں اس نے اسی خوشدلی اور خوش مزاجی کے حوالے سے ہم چند دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ اس پروگرام کا نہ کوئی متعین موضوع ہے اور نہ فارمیٹ بس آپ لوگ دلچسپ یادوں کو دھیان میں لاتے جایئے اور اُن پر آپس میں باتیں کیجیے ۔ ناظرین کے لیے یہ عید کا سب سے اچھا تحفہ ہوگا ۔
یہ آئیڈیا ایسا جما کہ اس کے بعد نہ صرف خود اس نے اسے کئی بار دہرایا بلکہ کچھ دیگر چینلز نے بھی اس کی تقلید کی اور اب بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اعزاز احمد آذر سے دوستی کے رشتے کے پیش نظر وہ اُس کے دوستوں کو بھی بڑے بھائیوں کا رتبہ دیتا تھا اور عمومی طور پر اُن کے سامنے بہت موٗدب رہنے کی کوشش کرتا تھا مگر اُس کی طبیعت کے فطری بہاؤکے باعث اُس کی موجودگی میں ہر محفل باغ و بہار بن جاتی تھی گزشتہ کچھ عرصے سے وہ شدید علیل تھا کچھ دن قبل اُس سے فون پر آخری بار گفتگو ہوئی تو اُس وقت وہ بظاہر رُوبصحت تھا سو اُس کی ادبی فضا میں ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھا۔ میں ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھا جس کی مہکار اس کی یادوں کی صورت دیر تک قائم رہے گی۔
جہاں تک اگر معصوم کا تعلق ہے اس نے ساری زندگی جسمانی سطح پر مختلف مسائل کے ساتھ گزاری مگر اُس کا ادبی کیرئیر ہر اعتبار سے بہت کامیاب ، نمایاں اور ایک مخصوص تسلسل کا حامل تھا۔ صوبہ سندھ سے جدید اُردو غزل کے نمایندہ ترین نوجوان نمایندوں میں ثروت حسین اور جمال احسانی کے بعد وہ سب سے اہم شاعر تھا جو ہمارے درمیان سے اُٹھ گیا ہے ۔ افتخار مجاز کی طرح اس کے آخری دن بھی شدید علالت کی نذر ہوگئے مگر وہ اپنے پیچھے جو شاعری چھوڑ گیا ہے وہ بہت دیر تک اُس کے قارئین کی روحوں کو آباد اور سرشار رکھے گی۔ آیئے اُسے یاد کرتے ہوئے کچھ وقت اس کے شعروں کے ساتھ گزارتے ہیں۔
چھوڑ یہ بُودوباش کسی دن
خو د کو کریں تلاش کسی دن
کیوں سب کو اچھے لگتے ہو
راز کرو یہ فاش کسی دن
پتھر کی قسمت جاگے گی
آئے گا نقاش کسی دن
کھل جائیں گی شہر کی آنکھیں
بولے گی یہ لاش کسی دن
یہ موتیا یہ چنبیلی یہ موگرا یہ گلاب
یہ سارے گہنے یہ زیور اُسی سے ملتے ہیں
..................
اُسی سے ملتے ہیں یکسر یہ سارے موزوں قد
یہ سارے سرو و صنوبر اُسی سے ملتے ہیں
یہ شعر گر، یہ مصوّر یہ سارے بد اوقات
یہ سب خیال کی چھت پر اُسی سے ملتے ہیں
..................
در ، دیوار دریچہ اُس کا
گھر اُس کا باغیچہ اُسکا
ہم تو ہیں بس خاک برابر
سارا اونچا نیچا اس کا
روز ہماری مٹی پر
بچھتا ہے غالیچہ اُس کا
..................
عالمِ ر نگ و بُو ہمارا ہے
اور خالی سُبو ہمارا ہے
ہم اُسی آگ سے ہیں وابستہ
ہاں وہی شعلہ رُو ہمارا ہے
عشق نے جو تمہارا حال کیا
بس وہی ہوبہو ہمارا ہے
کس کو درکار ہیں یہ کون و مکاں
ہم تو خوش ہیں کہ تُو ہمارا ہے
افتخار مجاز سے متعارف تو اس کے بڑے بھائی اعزاز احمد آذر مرحوم کی وساطت سے ہوا لیکن اس کی پُرخلوص شخصیت اور ادب سے خصوصی شغف کے باعث بہت جلد یہ رشتہ ایسا مستحکم ہوگیا کہ اسے کسی اضافی تعلق کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ وہ پی ٹی وی کے اُن منتخب اور محنتی پروڈیوسروں میں سے تھا جو اپنے کام کو صرف نوکری نہیں سمجھتے تھے۔
میری ذاتی رائے میں مُصلح الدین مرحوم کے بعد اگر پی ٹی وی نیوز کے کسی آدمی کے ادبی ذوق کی مثال دی جا سکتی ہے تو اس صف میں سب سے پہلا نام افتخاز مجاز ہی کا آئے گا۔ اِن دونوں کی ایک اور مشترکہ خوبی اُن کا حسنِ مزاج بھی تھی کہ انھیں جملہ کہنے اور سننے کا وہ قابلِ تعریف ڈھب بھی آتا تھا جو اب تقریباً ناپید ہوتا جارہا ہے۔ چند برس قبل عید کے کسی پروگرام میں اس نے اسی خوشدلی اور خوش مزاجی کے حوالے سے ہم چند دوستوں کو جمع کیا اور کہا کہ اس پروگرام کا نہ کوئی متعین موضوع ہے اور نہ فارمیٹ بس آپ لوگ دلچسپ یادوں کو دھیان میں لاتے جایئے اور اُن پر آپس میں باتیں کیجیے ۔ ناظرین کے لیے یہ عید کا سب سے اچھا تحفہ ہوگا ۔
یہ آئیڈیا ایسا جما کہ اس کے بعد نہ صرف خود اس نے اسے کئی بار دہرایا بلکہ کچھ دیگر چینلز نے بھی اس کی تقلید کی اور اب بھی یہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔ اعزاز احمد آذر سے دوستی کے رشتے کے پیش نظر وہ اُس کے دوستوں کو بھی بڑے بھائیوں کا رتبہ دیتا تھا اور عمومی طور پر اُن کے سامنے بہت موٗدب رہنے کی کوشش کرتا تھا مگر اُس کی طبیعت کے فطری بہاؤکے باعث اُس کی موجودگی میں ہر محفل باغ و بہار بن جاتی تھی گزشتہ کچھ عرصے سے وہ شدید علیل تھا کچھ دن قبل اُس سے فون پر آخری بار گفتگو ہوئی تو اُس وقت وہ بظاہر رُوبصحت تھا سو اُس کی ادبی فضا میں ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھا۔ میں ایک خوشگوار جھونکے کی طرح تھا جس کی مہکار اس کی یادوں کی صورت دیر تک قائم رہے گی۔
جہاں تک اگر معصوم کا تعلق ہے اس نے ساری زندگی جسمانی سطح پر مختلف مسائل کے ساتھ گزاری مگر اُس کا ادبی کیرئیر ہر اعتبار سے بہت کامیاب ، نمایاں اور ایک مخصوص تسلسل کا حامل تھا۔ صوبہ سندھ سے جدید اُردو غزل کے نمایندہ ترین نوجوان نمایندوں میں ثروت حسین اور جمال احسانی کے بعد وہ سب سے اہم شاعر تھا جو ہمارے درمیان سے اُٹھ گیا ہے ۔ افتخار مجاز کی طرح اس کے آخری دن بھی شدید علالت کی نذر ہوگئے مگر وہ اپنے پیچھے جو شاعری چھوڑ گیا ہے وہ بہت دیر تک اُس کے قارئین کی روحوں کو آباد اور سرشار رکھے گی۔ آیئے اُسے یاد کرتے ہوئے کچھ وقت اس کے شعروں کے ساتھ گزارتے ہیں۔
چھوڑ یہ بُودوباش کسی دن
خو د کو کریں تلاش کسی دن
کیوں سب کو اچھے لگتے ہو
راز کرو یہ فاش کسی دن
پتھر کی قسمت جاگے گی
آئے گا نقاش کسی دن
کھل جائیں گی شہر کی آنکھیں
بولے گی یہ لاش کسی دن
یہ موتیا یہ چنبیلی یہ موگرا یہ گلاب
یہ سارے گہنے یہ زیور اُسی سے ملتے ہیں
..................
اُسی سے ملتے ہیں یکسر یہ سارے موزوں قد
یہ سارے سرو و صنوبر اُسی سے ملتے ہیں
یہ شعر گر، یہ مصوّر یہ سارے بد اوقات
یہ سب خیال کی چھت پر اُسی سے ملتے ہیں
..................
در ، دیوار دریچہ اُس کا
گھر اُس کا باغیچہ اُسکا
ہم تو ہیں بس خاک برابر
سارا اونچا نیچا اس کا
روز ہماری مٹی پر
بچھتا ہے غالیچہ اُس کا
..................
عالمِ ر نگ و بُو ہمارا ہے
اور خالی سُبو ہمارا ہے
ہم اُسی آگ سے ہیں وابستہ
ہاں وہی شعلہ رُو ہمارا ہے
عشق نے جو تمہارا حال کیا
بس وہی ہوبہو ہمارا ہے
کس کو درکار ہیں یہ کون و مکاں
ہم تو خوش ہیں کہ تُو ہمارا ہے