نیلم جہلم کی کامیابی اور سولر پالیسی پر توجہ
نیلم جہلم آج پاکستان کا ایک قومی اثاثہ ہے۔ ہم سب کو اس پر فخرہے۔
گرمی کی آمد ہے اور اس بات کے خدشات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں کہ گرمیوں میں بجلی کی شدید لوڈشیڈنگ ہو گی۔ عوام میں لوڈ شیڈنگ کا خوف دوبارہ پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار کے حوالہ سے بھی اچھی خبریں سامنے آرہی ہیں۔ میرے نزدیک سب سے اچھی خبر یہ ہے کہ نیلم جہلم نے اپنی استطاعت سے بھی زیادہ بجلی بنانی شروع کر دی ہے۔
نیلم جہلم کی استطاعت 969میگاواٹ ہے اور گزشتہ روز نیلم جہلم سے 1040میگاواٹ بجلی پیدا ہوئی ہے۔بظاہر یہ ایک چھوٹی سے خبر ہے لیکن ہائیڈرل بجلی میں یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔ اپریل 2018میں نیلم جہلم کے پہلے یونٹ سے بجلی کی پیداوار شروع ہوئی تھی۔ اور اب تک نیلم جہلم پاور پراجیکٹ نیشنل گرڈ کو دو ارب 35کروڑ یونٹ بجلی فراہم کر چکا ہے۔ آجکل یہ منصوبہ روزانہ دو کروڑ یونٹ سے زیادہ بجلی فراہم کر رہا ہے۔ اس لیے توقع ہے کہ رواں سال یہ منصوبہ 4ارب 60کروڑ یونٹ سالانہ فراہم کرنے کا ہدف حاصل کر لے گا۔
نیلم جہلم آج پاکستان کا ایک قومی اثاثہ ہے۔ ہم سب کو اس پر فخرہے۔ جیسے پاکستان کے دیگر قومی منصوبوں پر فخر ہے۔ میں اس کے ماضی میں نہیں جانا چاہتا۔ آج اس کی کامیابی ماضی کی تمام تکالیف کو کم کر رہی ہے۔آج اس کی کامیابی اس کی تاخیر کو بھی دھو رہی ہے۔ لوگ شکر ادا کر رہے ہیں چلیں بن تو گیا ۔ کام تو کر رہا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین خصوصی خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ کہ ان کے دور میں نیلم جہلم کا منصوبہ نہ صرف مکمل ہوا ہے بلکہ اس نے اعلیٰ معیار کے مطابق کام بھی شروع کر دیا ہے۔ پوری قوم کو اس کامیابی پر چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر)مزمل حسین کو مبارکباد دینی چاہیے۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین نے اس کامیابی پر واپڈا کے انجینئرز کو مبارکباد دی ہے۔ بلا شبہ تمام انجینئرز مبارکباد کے مستحق ہیں۔ لیکن مزمل حسین کی قیادت کے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ ورنہ اس سے پہلے اسی نیلم جہلم منصوبے کے بارے میں ایک عمومی رائے یہی تھی کہ یہ منصوبہ کبھی مکمل ہی نہیں ہوگا۔ بعد میں اس منصوبے کے معیار کے بارے میں خدشات سامنے آتے رہے۔ اس منصوبہ میں بہت غیر ضروری تاخیر بھی ہوئی۔ لیکن پھر بھی اس کی کامیابی کا سہر ا مزمل حسین کے سر جاتا ہے۔ جس پر پوری قوم کو انھیں خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔
نیلم جہلم نے اپنی پوری پیداواری استطاعت 29مارچ کو حاصل کی تھی۔ منصوبے کے چاروں پیداواری یونٹس چلانے کے لیے 280مکعب میٹر پانی فی سیکنڈ درکار ہوتا ہے۔ جو نیلم جہلم میں پانی کے ہائی سیزن ہونے کی وجہ سے آجکل دستیاب ہے۔ ہمارے دریاؤں میں پانی کا ہائی سیزن مارچ سے اگست تک رہتا ہے۔ جب برف پگھلتی ہے اور بارشوں سے پانی دریاؤں میں آتا ہے۔ اس لیے پانی سے سستی بجلی بنانے کے لیے یہ بہترین سیزن ہے۔
پاکستان میں ہائیڈرل بجلی بنانے کے منصوبوں پر ماضی میں بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ ہم نے بجلی کے مہنگے پلانٹ لگائے ہیں لیکن ہائیڈرل بجلی پر بہت کم توجہ دی ہے۔ اسی لیے پاکستان میں بجلی مہنگی سے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ گیس اور تیل سے بننے والی بجلی کا مہنگا ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس لیے بجلی کے نرخ بڑھ بھی رہے ہیں تاہم نیلم جہلم جیسے ہائیڈرل بجلی کے منصوبے ہی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس لیے ان پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔
میری چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین سے درخواست ہے کہ وہ واپڈا کی توجہ سستی ماحول دوست بجلی بنانے پر کریں۔ اب قوم کو بھاشا اور دیگر ڈیموں پر کام شروع ہونے کا انتظار ہے۔ گو کہ رزاق داؤد کو ٹھیکہ دینے کی وجہ سے ڈیموں کے ٹھیکوں کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر رزاق داؤد کی کمپنی کو ٹھیکہ دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن تحریک انصاف کی ماضی کی سیاست نے خود ہی اس کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ چیئرمین واپڈا نے اس معاملہ کو غیر سیاسی رکھنے کی کافی کوشش کی ہے۔ ان کی وجہ سے ہی شائد یہ معاملہ بہت زیادہ سیاسی ہونے سے بچ گیا ہے۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ ان ڈیموں پر کام بھی شروع ہو سکے گا۔
نیلم جہلم کے ساتھ تھر سے بھی بجلی بننے کی خبریں آرہی ہیں۔ تھر کا کوئلہ پاکستان کا کوئلہ ہے۔ تھر میں بجلی پاکستان کی بجلی ہے۔ یہ بجلی پاکستان اپنے وسائل سے بنا رہا ہے۔ ابھی تو بہت تھوڑی بجلی بننی شروع ہوئی ہے ۔ سو سو میگاوٹ کے پلانٹس لگے ہیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تھر میں ہزاروں میگاواٹ بجلی بنانے کے پلانٹ لگنے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک سال میں تھر میں کوئلہ سے بجلی کی پیداوار پانچ ہزار میگاوٹ تک پہنچ جائے گی۔ جن سے ہم اپنے وسائل سے بجلی بنانے کے قابل ہونگے۔ ورنہ اس وقت پاکستان میں کوئلہ سے بجلی بنانے کے جو پلانٹ کام کر رہے ان سے درآمدہونے والے کوئلہ سے بجلی بن رہی ہے۔ تا ہم تھر کے کوئلے سے بجلی بنانا پاکستان کی ایک کامیابی ہے۔ یہ درست ہے کہ تھر کی بجلی نیلم جہلم کی بجلی کے مقابلے میں مہنگی ہوگی۔ ہائیڈرل بجلی کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ اس لیے نیلم جہلم کی کامیابی ایک بڑی کامیابی ہے۔
پاکستان میں ہائیڈرل بجلی بنانے کے لیے کام بہت سست ہے۔ یہ درست ہے کہ ڈیم بنانا اور نیلم جہلم جیسے ہائیڈرل بجلی کے منصوبے بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ جو حکومت یہ کام شروع کرے اسی کے دور اقتدار میں یہ کام مکمل بھی ہو جائے۔ اس لیے سیاسی حکومتوں کی توجہ ایسے منصوبوں پر زیادہ رہتی ہے جو ان کے اپنے دور حکومت میں ہی مکمل ہو جائیں۔ جن کا افتتاح وہ خود کر سکیں۔ کیونکہ جانے کے بعد کون کریڈٹ دیتا ہے۔اس تناظر میں آج نیلم جہلم کا کریڈٹ ماضی کی اس حکومت کو بھی جاتا ہے جس نے اس کو مکمل کرنے پر توجہ دی۔ لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں سیاسی کریڈٹ دینا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
بہرحال بات لوڈ شیڈنگ سے شروع ہوئی تھی۔ گرمیوں میں لوڈ شیڈنگ کے بڑھ جانے کے خدشات اس وقت زبان زد عام ہیں۔ پیسے والے لوگ گھروں پر سولر لگا رہے ہیں۔ عام آدمی کا خیال ہے کہ بجلی نہیں آنی اور اگر آنی بھی ہے تو اتنی مہنگی ہوگی کہ بل دینا مشکل ہوگا۔ اس لیے گھروں پر سولر پلانٹ لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ واپڈا کو دیگر حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر ملک میں ایک بڑی سولر پالیسی بھی لانی چاہیے۔ عوام کو سولر کا شعور دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں ہر گھر میں سولر لگ سکتا ہے۔ شاید لوگ سولر لگانے کے لیے تیار بھی ہیں۔ صرف ان کو سمجھانے کی ضرورت ہے۔
میری رائے میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین کو واپڈا کے تحت سولر منصوبوں کی حوصلہ افزائی پر کام شروع کرنا چاہیے۔ جس طرح ڈیم اور دیگر بجلی کے منصوبے اہم ہیں۔ اس طرح گھروں اور صنعتی منصوبوں پر لگنے والے سولر منصوبے بھی بجلی کی قومی پیداوار بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ واپڈا کو نیپرا کو سمجھانا ہو گا کہ نیٹ میٹرنگ کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں واپڈا کو نہ صرف عام صارف کو ٹیکنیکل سپورٹ بھی دینی چاہیے ۔ گھریلو اور چھوٹے صنعتی سولر کو واپڈا کے تحت ون ونڈو سسٹم میں لانے کی ضرورت ہے۔ اگر لیفٹیننٹ جنرل (ر) مزمل حسین اس ضمن میں بھی توجہ دیں گے تو یہ بھی نیلم جہلم کی کامیابی سے کم نہیں ہوگا۔