مودی کا انتخابی منشور اور ہندواتہ کی سیاست
بھارت کا یہ انتخابی معرکہ اوراس سے جڑے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
نریندر مودی بھارت کی سیکولر سیاست کو ہندواتہ پر مبنی سیاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ان کی پرانی سیاسی سوچ ہے اور اسی بنیاد پر وہ سخت گیر ہندو سیاست کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں۔ ابھی چند دن بعد بھارت میں سات مراحل پر مشتمل عام انتخابات کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ ان انتخابات میں مودی کی حمایت اور مخالفت کی بنیاد پر سب جماعتوں نے سیاسی لنگوٹ کس کر میدان میں اپنا اپنا سیاسی دربار سجایا ہوا ہے۔
مودی کی خواہش ہے کہ وہ ان انتخابات میں بھی ماضی کی جیت کو برقرار رکھ کر اپنے سیاسی مخالفین پر اپنی سیاست کی برتری کو قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اس خواہش کی تکمیل کے لیے ان کے پاس وہی پرانا روائتی نکتہ نظر ہے کہ اپنے ووٹروں پر اثرانداز ہونے کے لیے وہ پاکستان دشمنی اور مسلم دشمنی کا ایجنڈے کو ہی اپنی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ بنا کر پیش کریں۔
اس بار نریندر مودی کے لیے سیاسی حالات ماضی کے سیاسی حالات سے کافی مختلف ہیں۔اس بات کا احساس نریندر مودی اوران کے حامی عناصر کو اچھی طرح ہے۔ اس نکتہ کی حمایت میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پچھلے چند ماہ قبل بھارت کی پانچ ریاستوں کے انتخابی معرکہ میں مودی حکومت کی بدترین شکست تھی۔ اس لیے بھارت کے بعض سیاسی پنڈت یہ دلیل دیتے ہیں کہ مودی کے لیے موجودہ انتخابات جیتنا آسان نہیں ہوگا۔ اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر مودی سرکار نے ماضی اور حال کے پیش نظر ہندواتہ کی سیاست کو اپنی انتخابی سیاست میں بطور ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جو لوگ بھارت کی انتخابی مہم کا جائزہ لے رہے ہیں وہ اس بات کی تصدیق کریں گے کہ مودی بشمول بی جے پی کی انتخابی مہم میں کافی شدت پسندی پائی جاتی ہے۔
مودی کی انتخابی مہم وہاں کے لوگوں کے بنیادی مسائل سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔جو انتخابی نعرے یا پالیسی غالب ہے اس میں نفرت، غصہ، تعصب، تنگ نظری اور ٹکراؤ کی پالیسی غالب ہے۔ پہلی بار بھارت کی انتخابی مہم میں مسلم اور پاکستان دشمنی کے ساتھ ساتھ کشمیر دشمنی کا ایجنڈا بھی سرفہرست نظر آتا ہے۔ کشمیر میں موجود کشمیری قیادت اور دہلی حکومت کے درمیان بداعتمادی بڑھتی جارہی ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ اب نریندر مودی سرکار نے جو اپنا انتخابی منشور پیش کیا ہے ، اس میں ہندواتہ سمیت کشمیرکی سیاست کو اہم حیثیت حاصل ہے۔
مودی حکومت نے جو انتخابی منشور پیش کیا اس میں ہندواتہ کے تناظر میں تین نکات اہم ہیں۔ اول بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، دوئم مقبوضہ کشمیر کی خودمختاری اور خصوصی آئینی حقوق کا خاتمہ، سوئم کشمیر میں مسلمانوں کے مقابلے میں پنڈتوں کو دوبارہ آباد کرنا شامل ہے۔یہ بات اہم ہے کہ مودی سرکار دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں مقبوضہ کشمیر میں آئین کی شق 35-A اور شق 370 کے تحت کشمیر کی خودمختاری اور کشمیریوں کو دیے گئے خصوصی آئینی حقوق کا خاتمہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مسلم دشمنی کے اندھے نشے کا شکار ہیں۔ 75 اہداف پرمشتمل یہ انتخابی منشور کی بڑی جھلک ہندواتہ کی سیاست کی عکاسی کرتی ہے۔ بی جے پی میں جو اعتدال پسند افراد ہیں وہ جماعتی فیصلوں میں کمزور اور ڈرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مودی حکومت کے بقول ان کا انتخابی منشور جسے سنگ پست بھارت کا نام دیا گیا ہے اس کی تکمیل بھارت کے 75 ویں یوم آزادی کے موقع پر 2022 تک مکمل کیا جائے گا۔ آئین کی شق 35-A مقبوضہ جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ ریاست کے مستقل شہریوں اور ان کے خصوصی حقوق کا تعین کرے۔لیکن اس کے برعکس مودی اس زہر کو بھر رہے ہیں کہ آئین کی شق 35-A بھارت کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔مودی حکومت کی جانب سے آئین کی شق 370 اے کے خاتمہ کے اعلان کے بعد مقبوضہ کشمیر اور کشمیری قیادت میں سخت ردعمل سامنے آیا ہے جو فطری امر ہے۔
کشمیری لیڈر فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، عمرعبداللہ کے بقول مودی اوران کی حکومت کو آگ سے نہیں کھیلنا چاہیے۔ ان کے بقول آئین کی شق 370-A کے خاتمہ کا مطلب ریاست کی بھارت سے مکمل آزادی تصور ہو گی۔ اس آرٹیکل کے خاتمہ سے بھارت کا کشمیر پر قانونی حکمرانی کا تصورختم ہو جائے گا۔کشمیری قیادت نے مودی کو خبردار کیا ہے کہ ان کا انتخابی نعرہ اوراس کی تکمیل کشمیر کو آزادی کا راستہ مہیا کرے گی۔بھارت کا یہ انتخابی معرکہ جو 11اپریل سے19مئی تک جاری رہے گااور ووٹوں کی گنتی کے بعد 23 مئی کو انتخابی نتیجہ کا حتمی اعلان کیا جائے گا۔اس لیے اگلے چند ہفتے بھارت کی سیاست میں شدت پسندی کے پہلو کو بالادستی حاصل رہے گی۔ دوسری طرف پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی خبردار کیا ہے کہ بھارت ہم پر کوئی جنگی مہم جوئی کرسکتا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ بھارت کے داخلی انتخابی منظر نامہ میں مودی کی ہندواتہ کی بنیاد پر سیاسی ایجنڈا اور ان کے سیاسی مخالفین کی سیاسی حکمت عملی میں کس کو برتری حاصل ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ پچھلے چند ہفتوں قبل مودی کی پاکستان میں جنگی مہم جوئی کا ان کو بہت فائدہ ہوا ہے اورجو ان کی مقبولیت میں کمی ہوئی تھی اس میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن سیاسی مخالفین بھی مودی کو سخت ٹائم دے رہے ہیں۔ جہاں ہندواتہ کی سیاست کو شدت مل رہی ہے وہیں بہت سی ریاستوں میں مودی سرکار کے انتخابی منشور کو شدت سے چیلنج کیا جارہا ہے۔ سوشل میڈیا میں مڈل کلاس کے پڑھے لکھے نوجوان ہندواتہ کے مقابلے میں سیکولر سیاست کی حمایت اورمودی کی شدت پسندی کو بھارت کے داخلی استحکام کے لیے خطرہ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سابقہ عام انتخابات میں بھارت کا مجموعی میڈیا مودی کی حمایت میں پیش پیش تھا۔ لیکن اس بار بھارت کے میڈیا میں مودی کی حمایت اور مخالفت میں واضح تقسیم نظر آتی ہے۔مودی جو پہلے ہی مقبوضہ کشمیر کی سیاست پر سیاسی تنہائی کا شکار تھے ا ب موجودہ منشور پیش کرکے انھوں نے مقبوضہ کشمیر میں خود کو مزید تنہا کرلیا ہے۔مودی اس نکتہ پر مضبوط ہیں کہ ان کی برتری یا جیت صرف اور صرف ہندواتہ کی سیاست کے ساتھ ہی جڑی ہوئی ہے۔
بھارت کا یہ انتخابی معرکہ اوراس سے جڑے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ان انتخابات میں مودی کی واضح اور بڑی جیت کی صورت میں یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ وہ جیت کے بعد کھل کر ہندواتہ کی سیاست اور کشمیر پر اپنے انتخابی منشور پر عملدرآمد کریں گے۔ اگرچہ ان کی تو یہ خواہش ہے کہ وہ بھارت کے آئین کو بھی سیکولر کے مقابلے میں ہندواتہ کی بنیاد پر پیش کریں، لیکن یہ بہت آسان کام نہیں ۔ اس لیے فوری طور پر مودی کا بڑا محور موجودہ انتخاب اوراس کے نتائج ہیں۔
ان انتخابی نتائج نے بھارت کے مستقبل کے بارے میں بھی ایک سوچ کو پیدا کرنا ہے کہ بھارت کے لوگ سیکولر اور ہندواتہ کی سیاست میں سے کس کا انتخاب کرتے ہیں۔اس کا ایک بڑا دارومدار کانگریس اور راہول سمیت ان کی بہن کی انتخابی مہم سے بھی ہے کہ وہ خود کو کتنا زیادہ مضبوط اورمتبادل سیاست کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ایک طرف مودی کی ہندواتہ اور دوسری طرف راہول متبادل یعنی سیکولر سیاست ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ ووٹر کس کے حق میں فیصلہ کرتے ہیں۔لیکن مسئلہ محض انتخابی نتائج تک ہی نہیں بلکہ بھارت میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی سمیت ایک ایسی ہندواتہ سیاست کا ہے جوبھارت کے داخلی استحکام کے لیے بھی بڑا خطرہ ہے۔