ہمارا زمرد خان

میں نے جب ٹی وی لگایا تو اس پر یہ ڈرامہ چل رہا تھا جسے میں نے سچ مچ کوئی ٹی وی ڈرامہ ہی سمجھا۔


Abdul Qadir Hassan August 16, 2013
[email protected]

گزشتہ جمعرات کی شام کو اسلامی جمہوریہ پاکستان اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت کے دارالحکومت اسلام آباد کے اہم ترین علاقے میں ایک پاکستانی نے دونوں ہاتھوں میں صرف دو رائفلیں اٹھا کر کئی گھنٹوں تک ہزاروں کی تعداد میں گوناگوں ہتھیاروں والے حفاظتی عملے کو بے بس کیے رکھا۔ میں نے جب ٹی وی لگایا تو اس پر یہ ڈرامہ چل رہا تھا جسے میں نے سچ مچ کوئی ٹی وی ڈرامہ ہی سمجھا لیکن جلد ہی پتہ چل گیا کہ یہ کوئی ڈرامہ ورامہ نہیں بلکہ ہماری قومی غیرت، حمیت اور عزت کا تماشہ لگا ہوا ہے جسے پوری قوم ٹھنڈے پیٹوں اور دل و دماغ کے دیکھ رہی ہے اور قدرتی طور پر اپنی پولیس وغیرہ کی کسی کارروائی کے انتظار میں ہے جو اس ڈرامے کو بند کر دے اور بیس کروڑ افراد کی قوم سکھ کا سانس لے لیکن معلوم ہوا کہ صرف ایک پاکستانی ایسا تھا جو سکھ کا سانس نہیں لے رہا تھا، وہ راولپنڈی کا زمرد خان تھا جس کی قومی غیرت نے اسے بے تاب کر دیا اور وہ جان پر کھیل گیا۔اقبال نے کسی ایسے زمرد خان کے لیے کہا تھا کہ ع

ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

چنانچہ یہی چنگاری شعلہ بنکر اس پاکستانی پر لپک پڑی جس نے ملک کو دنیا کے سامنے مذاق اور تماشا بنا دیا تھا۔ بدامنی اور دہشت گردی میں عالمی شہرت والے پاکستان کا یہ واقعہ پوری دنیا کے لیے دلچسپ تھا۔ یہ سب دیکھ کر میرا قلم مر گیا یا گنگ ہو گیا کہ میں بہت دیر تک دم بخود اس سانحے پر غور کرتا رہا، ایک لفظ بھی لکھ نہ سکا ،کم از کم اپنے وزیر داخلہ اور اسلام آباد کے آئی جی دونوں کے استعفے کا انتظار کرتا رہا کہ وہ اپنی اس شرمناک ناکامی بلکہ بزدلی پر شرمندہ ہو کر ہماری جان بخش دیں گے لیکن پھر وہی اقبال کہ ع حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔ آج ہم بالکل الف ننگے ہو کر اپنے اسلام آباد کے بیچ بازار کے کھڑے ہیں اور دانت نکال رہے ہیں۔ مجھے اسلام آباد کے ایک افسر کی بات یاد آ رہی ہے۔ 1965ء کی جنگ کا زمانہ تھا، اس وقت لاہور میں موجود وفاقی سیکریٹری اطلاعات جناب الطاف گوہر سے ان کی پریس بریفنگ میں کسی نے پوچھا کہ لاہور پر قبضہ ہو گیا تو پھر کیا کیا جائے گا جواب میں اس افسر نے فی البدیہہ کہا کہ پھر میں تو نہیں ہوں گا جو زندہ ہو گا اس سے پوچھ لیجیے گا۔

افسروں سے بھرپور اس شہر میں کسی الطاف گوہر کی تلاش میں اس گفتگو کا حوالہ دے دیا ہے جو ان ہی کے ایک سابق افسر نے کہا تھا۔ میں ان دفتری بابوئوں سے کسی حفاظتی کارروائی کی توقع نہیں کر رہا حالانکہ الطاف گوہر ان سے زیادہ تنخواہ نہیں لیتا تھا اور اس سے بڑے عہدوں پر کئی افسر آج بھی زندہ موجود ہیں۔ میں اس وقت ائر مارشل نور خان کا ذکر بھی نہیں کرتا جو کراچی ایئر پورٹ پر اپنے جہاز پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف بھڑ گئے تھے، میں تو یہاں پولیس کے افسروں کا ذکر کرتا ہوں کہ انھوں نے پاکستان کی تنخواہ کیوں حلال نہ کی۔ اور اپنی وردیوں کے چمکتے پیتل کی لاج کیوں نہ رکھی۔ وہ تو بھرتی ہی قوم کی حفاظت کے لیے ہوتے تھے۔ اگر پولیس کا کوئی سپاہی بھی اس قانون شکن سے بھڑ جاتا اور اس معرکے میں گزر جاتا تو میں اس کے مزار پر بار بار حاضری دیا کرتا۔ ایسے غیرت مند پاکستانی کی کوئی کتنی عزت بھی کرتا کم تھی لیکن اس سانحہ کے اختتام پر اب کوئی اس کا سامنا نہ کرنے اور اس سے چھپ جانے والوں کی کتنی ذلت بھی کرے کم ہے۔

راولپنڈی کا یہ حقیقی فرزند زمرد خان میری ناپسندیدہ جماعت کا رکن تھا لیکن اس نے ثابت کر دیا کہ وہ پہلے پاکستانی پھر کسی سیاسی جماعت کا رکن ہے اور اس کی پاکستانیت کو میں جتنا سلام بھی کروں کم ہے۔ وہ بیت المال کے سربراہ بھی رہے لیکن مال و دولت کی اس نگہبانی میں ان کے بارے میں کوئی بری خبر نہیں ملی لیکن ظاہر ہے وہ کوئی فرشتہ نہ تھے، ہماری آپ کی طرح ایک عام پاکستانی تھے لیکن زمرد ہے ایک بڑا ہی قیمتی پتھر جس کی قیمت اس کے نام والے نے ہزاروں گنا بڑھا دی ہے۔ مجھے نہیں معلوم زمرد خان کو قوم کیا انعام دے گی۔ اس نے جو کچھ کیا وہ اس کے کسی طرح بھی عام فرائض میں شامل نہیں تھا۔ کسی بھی عام پاکستانی سے یہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دونوں ہاتھوں میں ہتھیار اٹھائے، اس مسلح شخص سے لپٹ جائے گا اور یوں اپنے ملک اپنی قوم اور اپنے وطن کی عزت بچا لے گا اور دلیری کی ایک تاریخ بنا دے گا جو اس قوم کی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہے گا۔ وہ ہماری آپ کی طرح گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھا۔

پہلے تو وہ دلچسپی کے ساتھ یہ ڈرامہ دیکھتا رہا لیکن جب یہ قومی عزت کا ڈرامہ بنتا گیا تو اس کی قوت برداشت جواب دے گئی، وہ اپنے محفوظ گھر سے اٹھا اور دل میں قومی غیرت کی بھڑکتی ہوئی آگ دہکائے قوم کی عزت اسلام آباد کی طرف بڑھا اور پھر جو ہوا وہ تاریخ کا ایک روشن سنہرا اور زندہ باب ہے۔ اﷲ اس ملک پر بہت مہربان ہے۔ ہمارے اپنوں نے ہمارا ملک توڑ دیا، قوم ٹوٹ پھوٹ گئی، نیم مردہ سی ہو گئی، اس کو اس کے تاریخی دشمن ہندو نے شکست دی تھی اور طعنے دیے تھے جس کو شکست دے کر اس نے پاکستان بنایا تھا، اس وقت ایک پاکستانی سامنے آیا، اس نے قوم کو نئے دور کی سب سے بڑی طاقت ایٹم بم دیا۔ قوم ان ایٹمی دھماکوں سے جاگ اٹھی لیکن صحیح قیادت سے محروم یہ قوم بار بار دشمنوں کے زخم کھاتی چلی آ رہی ہے' اب بظاہر ایک چھوٹے سے واقعہ نے قوم کو جگا دیا ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ کتنے ہی پاکستانی زمرد خان بننے کے شوق میں ہوں گے۔ یہ قوم چُھپے اور ظاہر زمرد خانوں کی قوم ہے، ایک زندہ قوم۔ آخر میں آپ یہ منظر یاد رکھئے کے جب سکندر پکڑا گیا تو پولیس نے اس کی ٹھکائی شروع کر دی۔ لاتیں مکے اور ڈنڈے۔ اندازہ ہوا کہ پولیس اب صرف پکڑے گئے ملزموں کے لیے رہ گئی ہے اور اس کی جوانمردی کسی گرفتار ملزم کی محتاج ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں