اسی عطار کے لونڈے سے دوا …
میں جنرل ضیاء کے مسلط کردہ جبر اور خوف کے دنوں میں بہت جوان ہوا کرتا تھا۔
میں جنرل ضیاء کے مسلط کردہ جبر اور خوف کے دنوں میں بہت جوان ہوا کرتا تھا۔ گھر بیٹھنے کو دل ہی نہیں مانتا تھا۔ صبح و شام ایک پرانی موٹر سائیکل پر بیٹھا خبروں کی تلاش میں مصروف رہتا۔ خوش قسمتی سے ان دنوں میں ایک ایسے انگریزی روز نامے کے لیے کام کرتا تھا جو سرکاری ملکیت میں نہ تھا۔ غیر سرکاری ہونے کے باوجود اس اخبار کی خبریں بھی چھپنے سے پہلے وزارتِ اطلاعات میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے محافظ بنے افراد تک بھجوائی جاتیں۔ وہ فیصلہ کرتے کہ کونسی خبر کو کس صفحے پر کتنے لفظوں کے ساتھ چھپا جا سکتا ہے۔ ایسے حالات میں مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام آباد میں مختلف سفارتخانوں کی جانب سے منعقد کردہ تقاریب کے بارے میں بظاہر ایک ''سوشل کالم'' لکھا جائے۔ اس کالم کا آغاز میں بڑے ہی معصوم الفاظ سے کیا کرتا۔ سنسر والے اسے محض ایک سفارتی تقریب کے حوالے سے کی گئی رپورٹنگ سمجھ کر نظر انداز کر جاتے اور میں کسی نہ کسی طرح چند ایسی باتیں لکھ ڈالنے میں کامیاب ہو جاتا جو Hard News کی صورت شائع نہیں ہو سکتی تھیں۔
اپنے اس کالم کی وجہ سے میرے اسلام آباد میں مقیم سفارتکاروں سے دوستانہ مراسم قائم ہونا شروع ہو گئے۔ کئی امریکی اور یورپی افراد سے بہت بے تکلفی بھی ہو گئی۔ وہ ''آف دی ریکارڈ'' بہت کچھ کہہ ڈالتے۔ محض اتفاق ہے کہ جنرل مشرف کے گیارہ برسوں کے درمیان بھی میرے کئی امریکی اور یورپی سفارتکاروں سے ایسے ہی تعلقات برقرار رہے۔ جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے دنوں میں غیر ملکی سفارتکاروں کے ساتھ بے تکلفانہ مراسم کے ذریعے مجھے یہ دریافت کرنے کے لیے کوئی زیادہ تردد نہ کرنا پڑا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق وغیرہ کے بارے میں بلندوبانگ دعوے کرنے کے باوجود امریکا اور یورپی ممالک غریب اور خاص طور پر مسلمان ملکوں میں جمہوریت کے تحفظ اور فروغ میں حقیقی دلچسپی نہیں لیتے۔
ان کے کچھ اہداف ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق ان ممالک کے دفاعی اور معاشی مفادات سے ہے۔ اگر مسلم دُنیا میں کوئی جابر حکمران ان مفادات کی تکمیل کا وسیلہ بنے تو اس کی جانب سے اپنے لوگوں پر مسلط کردہ ظلم اور جبر پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ مجھے آج بھی وہ دن نہیں بھولتا جب 2005ء کے آخری مہینوں میں اس وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر ریان سی کروکر نے چند صحافیوں کو اپنے ایک سفارتکار کے گھر گپ شپ کے لیے بلایا۔ اپنی گفتگو میں موصوف بار بار بڑے جوش سے ہم لوگوں کو یاد دلاتے رہے کہ پاکستانی کتنے خوش نصیب ہیں کہ انھیں جنرل مشرف جیسا Visionaryرہنما ملا۔ جب اسی سفیر نے یہ بات تیسری بار کہی تو میں خود پر قابو نہ پا سکا۔ تڑپ کر بول اُٹھا کہ سفیر موصوف ایسے Visionary شخص کو اپنے ملک لے جا کر ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی کوئی ترکیب کیوں نہیں سوچ رہے۔
ماضی کے اتنے سارے تجربات کی روشنی میں مجھے ان دنوں مصر میں وہاں کی فوج کے ظالمانہ رویے کے بارے میں ہرگز کوئی حیرانی نہیں ہو رہی۔ میرا نہیں خیال کہ امریکا یا دوسرے یورپی ممالک مصیبت کی اس گھڑی میں مصری عوام کے حقوق اور جان و مال کے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس قدم اُٹھائیں گے۔ مصر کے لوگوں کو یہ جنگ صرف اپنے طور پر لڑنا ہو گی۔ ہم پاکستانی بھی ان کی ٹھوس حوالوں سے کوئی خاص مدد نہیں کر سکتے۔ مگر مسلم دُنیا میں دردِ دل رکھنے والے دانشوروں اور لکھاریوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی ذہنی اور تخلیقی صلاحیتوں کا کچھ حصہ مصر کے حالات کو سمجھنے اور میرے جیسے عامیوں کو سمجھانے کی کوشش میں بھی ضرور صرف کریں۔
آج ہمیں جمال الدین افغانی جیسے دانشوروں کی شدید ضرورت ہے جو ٹھوس تحقیق کے ذریعے دُنیا بھر میں یہ پیغام پھلائیں کہ پاکستان جیسے ملکوں میں عام شہری جس دہشت گردی کا شکار ہیں اس کے فروغ کا پہلا سبب الجزائر کی فوج کا وہ اقدام تھا جس نے مذہبی سیاسی جماعتوں کی بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ جمہور کے فیصلے سے دوسری بڑی روگردانی حماس کی انتخابی کامیابی کو نہ ماننے کی صورت میں نظر آئی۔ ان دو واقعات کے بعد سے جمہوریت پسند قوتوں میں جو مایوسی پھیلی اس کے مقابلے میں مہلک ہتھیاروں سے لیس ان شدت پسندوں کی طاقت میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا جن کی دانست میں کسی ظالمانہ نظامِ حکمرانی کا مقابلہ جمہوری جدوجہد کے ذریعے نہیں بلکہ ''جہاد'' کے بعد ''شرعی نظام'' قائم کرنے کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ سوچ رکھنے والے دن بدن مضبوط ہو رہے ہیں۔ مئی 2013ء کے انتخابات میں انھوں نے حصہ نہیں لیا۔
ان کی عدم دلچسپی نے ہماری دینی سیاسی جماعتوں کے ووٹ بینک کو بری طرح متاثر کیا۔ مرکزی اور صوبائی سطح پر قائم ہونے والی منتخب حکومتوں نے ابھی تک اپنے اور جمہوریت کے بارے میں کوئی Feel Good Factorپیدا نہیں کیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کافی حد تک کم ہوئی ہے۔ مگر مہنگائی کا طوفان بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔ ان سب باتوں سے کہیں بڑھ کر دہشت گردی کی لہر میں رمضان کے مقدس مہینے میں نظر آنے والی سنگینی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں جیل توڑ دی گئی۔ سکھر میں آئی ایس آئی کے دفاتر پر حملہ ہوا اور کوئٹہ میں پولیس کے کئی جوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ ہمارے حکمران بجائے ہمارے تحفظ کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کے ابھی تک ''اس جنگ'' کو ہماری یا غیروں کی قرار دینے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔
ایک بار پھر آل پارٹیز کانفرنس کے ذریعے Consensus پیدا کرنے کی باتیں شروع کر دی گئی ہیں۔ آہستہ آہستہ مئی 2013ء کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کی کرپشن اور نااہلی کی کہانیاں بھی گردش کرنا شروع ہو گئی ہیں۔ منتخب حکومتوں کی نمایاں نااہلی اور بے بسی کو اگر امریکا کے افغانستان سے متعلقہ عزائم کے تناظر میں دیکھا جائے تو کئی خدشات ذہن کو پریشان اور دل کو اداس کر دیتے ہیں۔ خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ واشنگٹن میں بیٹھے ہمارے ''دوست'' کہیں ایک بار پھر ہمارے ہاں بھی ''عطار کے اسی لونڈے'' سے دوا لینے پر مجبور نہ ہو جائیں جو 1960،1980ء کی دہائیوں اور پھر 1999ء کے بعد والے برسوں میں ان کے بہت کام آیا۔