عشق نے جلایا ہجر نے راکھ کیا ہوا اڑا لے گئی
عشق نے مجھے جلایا، ہجر و فراق نے راکھ کیا، اب مرضی ہوا کی ہے جس طرف اڑا لے جائے۔
پشتو کا ایک ٹپہ ہے جو آج کل رہ رہ کر ہماری زبان پر آتا ہے بلکہ یوں کہیے کہ پورے ایک سال سے ہمارا ورد زبان ہے خاص طور پر جب سے نئی حکومتوں نے ''جلوس'' فرمایا ہے یا جب سے آئی ایم ایف نے ہمیں نہایت ہی معمولی شرائط پر ''قرض حسینہ'' دیا ہے۔ یہ ''قرض حسنہ'' کی بڑی بہن ہے جو صرف پاکستان میں رہتی ہے اور پھر جب سے رمضان ۔۔۔۔۔ لیکن ٹھہریئے پہلے وہ ٹپہ تو سن لیجیے۔۔۔ ایک عاشق زار و نزار کہتا ہے،
مینے لمبہ بیلتون ایرے کڑم
خوخہ دباد دہ چہ پہ کوم طرف مے وڑینہ
ترجمہ یوں ہے کہ عشق نے مجھے جلایا، ہجر و فراق نے راکھ کیا، اب مرضی ہوا کی ہے جس طرف اڑا لے جائے۔ غالبؔ کے ہاں بھی یہ مضمون اکثر پایا جاتا ہے کہ
مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
غالبؔ بھی ذرا مشکل پسند ہیں، اس لیے ان کے فرمودہ کی بھی تھوڑی سی تشریح کر لیں۔ فرماتے ہیں، اپنے بال و پر میں تو اب اڑنے کی طاقت نہیں رہی ہے ہاں اگر یہ بال و پر مٹی ہو کر گرد و غبار بن جائیں تو پرواز کا شوق پورا ہو سکتا ہے۔ غالبؔ صاحب جو پکے ''راکھی'' تھے، اس لیے اپنے راکھ ہونے کا مضمون انھوں نے اکثر باندھا ہے،
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
اور یہی بات ہم بھی واپڈا اور نیپرا وغیرہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ جلا ہے جسم جہاں ۔۔۔ ''بل'' بھی جل گیا ہو گا۔ تم نے ہمارے اندر چھوڑا کیا ہے جو بل ادا کرنے کے لائق ہو۔
زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی کیا رب
تیر بھی سینہ بسمل سے پر افشاں نکلا
وہ اصل بات تو رہی جاتی ہے، عید کے موقع پر جب ہماری زوجہ محترمہ نے ڈھونڈ ڈھونڈ کہیں سے ایک نئی فرمائش نکال ڈالی تو غیر دانستہ طور پر ہمارے منہ سے وہ چیخ نکل ہی گئی جو رمضان کی ابتداء میں سینے سے باہر نکلنے کو بے تاب تھی اور ہم اب تک اسے روکنے میں کامیاب رہے تھے۔
بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیہ چاک گریباں ہو گئیں
ہماری بے اختیارانہ اس مسکین سی چیخ کو سن کر محترمہ نے گویا بریکنگ نیوز دیتے ہوئے کہا: کیا کریں عید ہے اور یہی وہ مقام ہے جب ہمارے دل کے تمام تالہ لگے ہوئے سوراخ وا ہو گئے اور وہ سارا ملبہ اس ٹپے کی صورت میں ابل پڑا ۔۔۔۔ جو ایک عرصے سے جمع ہو رہا تھا۔ عرض کیا، ہاں عید ہے کہ روزے میں جو کچھ ہڈیاں اپنی بچائی تھیں، وہ اس عید نے چورا چور کر کے سرمہ بنا دیں، پھر خیال پھدک پھدک یہاں وہاں پرواز کرنے لگا، روزے والے دکانداروں نے جسم پر سے وہ پتلی سی کاغذی کھال اتار دی جو کسی نہ کسی طرح حکومت کی مہرباں چھریوں سے بچا لائے تھے۔ ظاہر ہے کہ کھال کے نیچے اور تو کچھ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صرف سفید، بھر بھری ہڈیاں ہی تھیں سو عید کے لوہار نے بھی ایک جما دیا اور نتیجہ وہی ہوا جو اس ٹپے میں بیاں کیا گیا ہے، اب ایک مٹھی راکھ ہی تو ہے جسے ہوا جہاں چاہے اڑا کر لے جائے۔
دل سے ہوائے کشت و فا مٹ گئی کہ یاں
حاصل سوائے حسرت حاصل نہیں رہا
جس عاشقِ خستہ کو عشق نے جلایا تھا اور فرقت نے راکھ بنایا تھا، اس کی راکھ کو اڑانے کے لیے تو ایک وہی عام سی ہوا تھی جو ہمیشہ سے چلتی آئی ہے اور چلتی رہے گی، بلکہ بعض اوقات یہ ''سادھارن'' سی ہوا کچھ فائدہ بھی کر جاتی ہے، خاص طور پر جب یہ ''مخالف'' ہو جاتی ہے اور اس میں کچھ تندی سی آ جاتی ہے۔ اس بات کے شاہد ہمارے علامہ اقبال ہیں جو فرماتے ہیں کہ
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
لیکن ہماری راکھ کو اُڑانے کے لیے ایک وہی ہمیشہ سے چلنے والی ہوا کے ساتھ اس کی بہت ساری چھوٹی بڑی بہنیں خالائیں پھپھیاں اور نانیاں دادایاں بھی منتظر کھڑی ہیں، مہنگائی کی بعد از عید لہر تو شروع ہو بھی چکی ہے، واپڈا والی لہر اس آنے والے ''بل'' اپنا زور دکھائے گی کیونکہ اس مرتبہ اس کے ہاتھ میں وہ نئی آبدار تلوار ہو گی جسے آئی ایم ایف کے لوہار نے خاص طور پر ''آب'' دیا ہے،
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
بہرحال اب تو راکھ ہوئے پڑے ہیں لیکن راکھ بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ کئی کئی آتش ہائے سوزاں سے گزری ہوئی، اس تھوڑے سے عرصہ میں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کتنی کتنی مرتبہ اور کتنے کتنے طریقوں سے راکھ ہوئے، سب سے پہلے تو پی پی پی کی عوامی جمہوریت کا الاؤ بھڑک اٹھا جس میں نہایت ہی دیدہ دلیری بلکہ بے دردی سے عوام ہی کی جیب کاٹ کر اس میں سے عوام کو ''بھیک'' دینے کی ابتداء کی، لوگ سمجھتے رہے کہ پی پی پی نے اپنی جائیداد سے اس خیرات عظیم کا بندوبست کیا ہے لیکن گھر جا کر اپنی جیبیں ٹٹولتے تو پتہ چلتا کہ یہ تو انہی کی جیبوں سے نکالا ہوا وہ مال تھا جو مختلف محکموں نے اپنی مخصوص قینچیوں سے نکالا تھا کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ
''سبزہ و گل'' کہاں سے آتے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
بچپن کا ایک حقیقہ یاد آیا چند نوجوانوں نے ایک گروپ بنایا جو رات کو جا کر کھیتوں سے بھٹے لاتے تھے اور پھر رات بھر بھون بھون کر کھائے جاتے تھے۔ بھٹے توڑنے اور چوری کرنے کے لیے ہر رات دو الگ نوجوانوں کی باری ہوتی تھی ۔۔۔۔ سیزن بھر خوب بھٹے کھائے گئے لیکن جب مکئی کی کٹائی کا وقت آیا تو سب کو پتہ چلا کہ ہر رات وہ بھٹے کہاں سے آتے تھے۔ دراصل ہوتا یوں تھا کہ جولوگ جاتے وہ اپنے ان ساتھیوں کے کھیت کا رخ کرتے جو موجود نہ ہوتے دوسرے دن وہ جاتے اور ان لوگوں کے کھیتوں پر ہلہ بولتے جن کی کل باری تھی۔ سب کے کھیتوں میں صرف کنارے کنارے بھٹے باقی رہ گئے تھے کھیت کے درمیان کچھ بھی نہ تھا، شاید غالبؔ نے اسی مضمون کو یوں باندھا ہے:
''کھیت چوری زدہ تھا'' مائدہ لذت درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دندان نکلا
انکم سپورٹ والے بے چارے بھی خود یا اپنی ازواج کو میلے برقعے اوڑھا کر قطاروں میں تیل نکلوانے کے لیے بھیج دیتے تھے وہاں سے چند کرارے اور کڑکڑاتے نوٹ لاتے لیکن ابھی اس کا جشن بھی نہ منا پاتے بجلی والے بل اندر پھنکوا دیتے، پڑوسی گیس کا بل پہلے ہی گھر میں دے چکا ہوتا اور دکاندار کا لڑکا بھی ایک پرچہ لیے دروازے میں کھڑا ہوتا کیوں کہ دکانداروں کو صحیح موقع ہمیشہ یاد رہتا ہے وہ تو اچھا ہے کہ پاکستان کے عوام بڑے بادشاہ لوگ ہیں اور بادشاہ لوگ حساب کتاب میں زیادہ نہیں پڑتے ورنہ اگر ایک دو دن کی دیہاڑی مختلف بلوں کی ماہانہ بڑھوتری اور مہنگائی کی روزانہ ترقی کا حساب لگا لیتے تو بے چاروں کی چیخیں نکل جاتیں
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا
حسب معمول جانے والی حکومت مقدور بھر خزانہ خالی کر گئی اور ہمیشہ کی طرح نئی حکومت کو خزانہ خالی ملا، وہ تو ہمارا نصیب اچھا ہے خدا ہمارے سیاسی بزرگوں کو وہیں پہنچائے اور ہمیشہ رکھے جو انھوں نے کمائی ہے کہ ایسے مواقع پر ہمارے لیے ایک زبردست سہارا چھوڑ گئے ہیں ''آئی ایم ایف'' ۔۔۔۔ زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا ۔۔۔ آگے جو بھی رونا ہو آپ خود رو لیں، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہماری کھال اترنے ہڈیوں کے راکھ ہونے اور راکھ کے اڑنے کے مواقع اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی آئے اوپر سے جب رمضان اور عید جیسی باسعادت خوشیاں بھی چلتی ہیں تو
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے
مینے لمبہ بیلتون ایرے کڑم
خوخہ دباد دہ چہ پہ کوم طرف مے وڑینہ
ترجمہ یوں ہے کہ عشق نے مجھے جلایا، ہجر و فراق نے راکھ کیا، اب مرضی ہوا کی ہے جس طرف اڑا لے جائے۔ غالبؔ کے ہاں بھی یہ مضمون اکثر پایا جاتا ہے کہ
مگر غبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں
غالبؔ بھی ذرا مشکل پسند ہیں، اس لیے ان کے فرمودہ کی بھی تھوڑی سی تشریح کر لیں۔ فرماتے ہیں، اپنے بال و پر میں تو اب اڑنے کی طاقت نہیں رہی ہے ہاں اگر یہ بال و پر مٹی ہو کر گرد و غبار بن جائیں تو پرواز کا شوق پورا ہو سکتا ہے۔ غالبؔ صاحب جو پکے ''راکھی'' تھے، اس لیے اپنے راکھ ہونے کا مضمون انھوں نے اکثر باندھا ہے،
جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے
اور یہی بات ہم بھی واپڈا اور نیپرا وغیرہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ جلا ہے جسم جہاں ۔۔۔ ''بل'' بھی جل گیا ہو گا۔ تم نے ہمارے اندر چھوڑا کیا ہے جو بل ادا کرنے کے لائق ہو۔
زخم نے داد نہ دی تنگیٔ دل کی کیا رب
تیر بھی سینہ بسمل سے پر افشاں نکلا
وہ اصل بات تو رہی جاتی ہے، عید کے موقع پر جب ہماری زوجہ محترمہ نے ڈھونڈ ڈھونڈ کہیں سے ایک نئی فرمائش نکال ڈالی تو غیر دانستہ طور پر ہمارے منہ سے وہ چیخ نکل ہی گئی جو رمضان کی ابتداء میں سینے سے باہر نکلنے کو بے تاب تھی اور ہم اب تک اسے روکنے میں کامیاب رہے تھے۔
بس کہ روکا میں نے اور سینے میں ابھریں پے بہ پے
میری آہیں بخیہ چاک گریباں ہو گئیں
ہماری بے اختیارانہ اس مسکین سی چیخ کو سن کر محترمہ نے گویا بریکنگ نیوز دیتے ہوئے کہا: کیا کریں عید ہے اور یہی وہ مقام ہے جب ہمارے دل کے تمام تالہ لگے ہوئے سوراخ وا ہو گئے اور وہ سارا ملبہ اس ٹپے کی صورت میں ابل پڑا ۔۔۔۔ جو ایک عرصے سے جمع ہو رہا تھا۔ عرض کیا، ہاں عید ہے کہ روزے میں جو کچھ ہڈیاں اپنی بچائی تھیں، وہ اس عید نے چورا چور کر کے سرمہ بنا دیں، پھر خیال پھدک پھدک یہاں وہاں پرواز کرنے لگا، روزے والے دکانداروں نے جسم پر سے وہ پتلی سی کاغذی کھال اتار دی جو کسی نہ کسی طرح حکومت کی مہرباں چھریوں سے بچا لائے تھے۔ ظاہر ہے کہ کھال کے نیچے اور تو کچھ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ صرف سفید، بھر بھری ہڈیاں ہی تھیں سو عید کے لوہار نے بھی ایک جما دیا اور نتیجہ وہی ہوا جو اس ٹپے میں بیاں کیا گیا ہے، اب ایک مٹھی راکھ ہی تو ہے جسے ہوا جہاں چاہے اڑا کر لے جائے۔
دل سے ہوائے کشت و فا مٹ گئی کہ یاں
حاصل سوائے حسرت حاصل نہیں رہا
جس عاشقِ خستہ کو عشق نے جلایا تھا اور فرقت نے راکھ بنایا تھا، اس کی راکھ کو اڑانے کے لیے تو ایک وہی عام سی ہوا تھی جو ہمیشہ سے چلتی آئی ہے اور چلتی رہے گی، بلکہ بعض اوقات یہ ''سادھارن'' سی ہوا کچھ فائدہ بھی کر جاتی ہے، خاص طور پر جب یہ ''مخالف'' ہو جاتی ہے اور اس میں کچھ تندی سی آ جاتی ہے۔ اس بات کے شاہد ہمارے علامہ اقبال ہیں جو فرماتے ہیں کہ
تندیٔ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اُونچا اُڑانے کے لیے
لیکن ہماری راکھ کو اُڑانے کے لیے ایک وہی ہمیشہ سے چلنے والی ہوا کے ساتھ اس کی بہت ساری چھوٹی بڑی بہنیں خالائیں پھپھیاں اور نانیاں دادایاں بھی منتظر کھڑی ہیں، مہنگائی کی بعد از عید لہر تو شروع ہو بھی چکی ہے، واپڈا والی لہر اس آنے والے ''بل'' اپنا زور دکھائے گی کیونکہ اس مرتبہ اس کے ہاتھ میں وہ نئی آبدار تلوار ہو گی جسے آئی ایم ایف کے لوہار نے خاص طور پر ''آب'' دیا ہے،
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
بہرحال اب تو راکھ ہوئے پڑے ہیں لیکن راکھ بھی ایسی ویسی نہیں بلکہ کئی کئی آتش ہائے سوزاں سے گزری ہوئی، اس تھوڑے سے عرصہ میں ہم سب جانتے ہیں کہ ہم کتنی کتنی مرتبہ اور کتنے کتنے طریقوں سے راکھ ہوئے، سب سے پہلے تو پی پی پی کی عوامی جمہوریت کا الاؤ بھڑک اٹھا جس میں نہایت ہی دیدہ دلیری بلکہ بے دردی سے عوام ہی کی جیب کاٹ کر اس میں سے عوام کو ''بھیک'' دینے کی ابتداء کی، لوگ سمجھتے رہے کہ پی پی پی نے اپنی جائیداد سے اس خیرات عظیم کا بندوبست کیا ہے لیکن گھر جا کر اپنی جیبیں ٹٹولتے تو پتہ چلتا کہ یہ تو انہی کی جیبوں سے نکالا ہوا وہ مال تھا جو مختلف محکموں نے اپنی مخصوص قینچیوں سے نکالا تھا کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ
''سبزہ و گل'' کہاں سے آتے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے
بچپن کا ایک حقیقہ یاد آیا چند نوجوانوں نے ایک گروپ بنایا جو رات کو جا کر کھیتوں سے بھٹے لاتے تھے اور پھر رات بھر بھون بھون کر کھائے جاتے تھے۔ بھٹے توڑنے اور چوری کرنے کے لیے ہر رات دو الگ نوجوانوں کی باری ہوتی تھی ۔۔۔۔ سیزن بھر خوب بھٹے کھائے گئے لیکن جب مکئی کی کٹائی کا وقت آیا تو سب کو پتہ چلا کہ ہر رات وہ بھٹے کہاں سے آتے تھے۔ دراصل ہوتا یوں تھا کہ جولوگ جاتے وہ اپنے ان ساتھیوں کے کھیت کا رخ کرتے جو موجود نہ ہوتے دوسرے دن وہ جاتے اور ان لوگوں کے کھیتوں پر ہلہ بولتے جن کی کل باری تھی۔ سب کے کھیتوں میں صرف کنارے کنارے بھٹے باقی رہ گئے تھے کھیت کے درمیان کچھ بھی نہ تھا، شاید غالبؔ نے اسی مضمون کو یوں باندھا ہے:
''کھیت چوری زدہ تھا'' مائدہ لذت درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دندان نکلا
انکم سپورٹ والے بے چارے بھی خود یا اپنی ازواج کو میلے برقعے اوڑھا کر قطاروں میں تیل نکلوانے کے لیے بھیج دیتے تھے وہاں سے چند کرارے اور کڑکڑاتے نوٹ لاتے لیکن ابھی اس کا جشن بھی نہ منا پاتے بجلی والے بل اندر پھنکوا دیتے، پڑوسی گیس کا بل پہلے ہی گھر میں دے چکا ہوتا اور دکاندار کا لڑکا بھی ایک پرچہ لیے دروازے میں کھڑا ہوتا کیوں کہ دکانداروں کو صحیح موقع ہمیشہ یاد رہتا ہے وہ تو اچھا ہے کہ پاکستان کے عوام بڑے بادشاہ لوگ ہیں اور بادشاہ لوگ حساب کتاب میں زیادہ نہیں پڑتے ورنہ اگر ایک دو دن کی دیہاڑی مختلف بلوں کی ماہانہ بڑھوتری اور مہنگائی کی روزانہ ترقی کا حساب لگا لیتے تو بے چاروں کی چیخیں نکل جاتیں
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا
حسب معمول جانے والی حکومت مقدور بھر خزانہ خالی کر گئی اور ہمیشہ کی طرح نئی حکومت کو خزانہ خالی ملا، وہ تو ہمارا نصیب اچھا ہے خدا ہمارے سیاسی بزرگوں کو وہیں پہنچائے اور ہمیشہ رکھے جو انھوں نے کمائی ہے کہ ایسے مواقع پر ہمارے لیے ایک زبردست سہارا چھوڑ گئے ہیں ''آئی ایم ایف'' ۔۔۔۔ زباں پہ بارِ خدایا یہ کس کا نام آیا ۔۔۔ آگے جو بھی رونا ہو آپ خود رو لیں، مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہماری کھال اترنے ہڈیوں کے راکھ ہونے اور راکھ کے اڑنے کے مواقع اس مرتبہ کچھ زیادہ ہی آئے اوپر سے جب رمضان اور عید جیسی باسعادت خوشیاں بھی چلتی ہیں تو
چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہماری جیب کو اب حاجت رفو کیا ہے