بغیر ٹرائل 70 افراد کو قید رکھنے پر وفاقی اور صوبائی حکومت سے جواب طلب
عدالت نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو 23 اپریل تک مہلت دی ہے۔
ہائی کورٹ نے بغیر ٹرائل 70 افراد کے انٹرمنٹ سینٹروں میں قید ہونے پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں 70درخواست گزاروں کی جانب سے دی گئی درخواستوں پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ گزشتہ کئی سال سے قبائلی علاقوں میں قائم انٹرمنٹ سینٹروں میں قید ہیں ان کی گرفتاری 'ایکشن ان ایڈ سول پاور ریگولیشن 2011ء 'کے تحت عمل میں لائی گئی ہے مگر تاحال ان کا ٹرائل شروع نہیں ہوا اور نہ ہی انہیں بتایا جارہا ہے کہ ان پر الزام کیا ہے؟
درخواست گزار عبداللہ کی وکیل عذرا سلیمان ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل عبداللہ کو 2014 میں مہمند ایجنسی سے اٹھایا گیا اور2015ء میں سینٹر شفٹ کیاگیا، ان پر الزام ہے کہ اس تعلق تحریک طالبان سے تھا اور اسی الزام میں اسے گرفتار کیا گیا لیکن 5 سال گزر جانے کے باوجود تاحال نہ تو ٹرائل شروع کیا گیا اور نہ ہی انہیں رہا کیا جارہا ہے، کیونکہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایکشن ان ایڈ سول پاور ریگولیشن 2011 کی قانونی حیثیت نہیں رہی، ان افراد کی گرفتاری اس قانون کے تحت کی گئی ہے لہذا رہائی کے احکامات جاری کیے جائیں۔
حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عبدالطیف یوسف زئی عدالت میں پیش ہوئے اور بیان دیا کہ اس حوالے سے 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ قبائلی اضلاع کو صوبے کا حصہ بنایا گیا ہے اور ضروری ہے کہ ایک مفصل جواب عدالت میں جمع کیا جائے، عدالت سے درخواست ہے کہ مہلت دی جائے تاکہ جامع رپورٹ جمع کرنے پر ہائی کورٹ کے لیے آسانی ہوسکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ وفاقی حکومت بھی اپنا جواب جمع کرائے گی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 23 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ میں 70درخواست گزاروں کی جانب سے دی گئی درخواستوں پر سماعت ہوئی، کیس کی سماعت چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی۔ درخواست گزاروں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ گزشتہ کئی سال سے قبائلی علاقوں میں قائم انٹرمنٹ سینٹروں میں قید ہیں ان کی گرفتاری 'ایکشن ان ایڈ سول پاور ریگولیشن 2011ء 'کے تحت عمل میں لائی گئی ہے مگر تاحال ان کا ٹرائل شروع نہیں ہوا اور نہ ہی انہیں بتایا جارہا ہے کہ ان پر الزام کیا ہے؟
درخواست گزار عبداللہ کی وکیل عذرا سلیمان ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل عبداللہ کو 2014 میں مہمند ایجنسی سے اٹھایا گیا اور2015ء میں سینٹر شفٹ کیاگیا، ان پر الزام ہے کہ اس تعلق تحریک طالبان سے تھا اور اسی الزام میں اسے گرفتار کیا گیا لیکن 5 سال گزر جانے کے باوجود تاحال نہ تو ٹرائل شروع کیا گیا اور نہ ہی انہیں رہا کیا جارہا ہے، کیونکہ 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد ایکشن ان ایڈ سول پاور ریگولیشن 2011 کی قانونی حیثیت نہیں رہی، ان افراد کی گرفتاری اس قانون کے تحت کی گئی ہے لہذا رہائی کے احکامات جاری کیے جائیں۔
حکومت کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا عبدالطیف یوسف زئی عدالت میں پیش ہوئے اور بیان دیا کہ اس حوالے سے 25 ویں آئینی ترمیم کے بعد سابقہ قبائلی اضلاع کو صوبے کا حصہ بنایا گیا ہے اور ضروری ہے کہ ایک مفصل جواب عدالت میں جمع کیا جائے، عدالت سے درخواست ہے کہ مہلت دی جائے تاکہ جامع رپورٹ جمع کرنے پر ہائی کورٹ کے لیے آسانی ہوسکے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور بتایا کہ وفاقی حکومت بھی اپنا جواب جمع کرائے گی۔ عدالت نے کیس کی سماعت 23 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے جواب طلب کرلیا۔