اگر یہ ناکام ہوئے تو

یہ ملک اب ’’تیری باری میری باری‘‘ کے اس کھیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ali.dhillon@ymail.com

میں نے گزشتہ کالم میں ان چند سابقہ حکومتوں کا احاطہ کیا جنہوں نے قرضے لیے، خوب لیے کہ ملک کو گروی رکھنے سے بھی گریز نہیں کیا گیا۔ افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ''جمہوریت'' کے نام پر کیا گیا۔

ملک کے کھربوں روپے منی لانڈرنگ کی نذر کر دیے گئے۔وہ جوباتیں کیا کرتے تھے کہ جمہوریت ایک تسلسل کا نام ہے، جمہوریت بہترین انتقام ہے، جمہوریت سے قومیں بنتی ہیں، جمہوریت سے تقدیریں بدلتی ہیں، جمہوریت حسن ہے وغیرہ وغیرہ انھیں بھی شرمندہ کر دیا گیا۔ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ نئی حکومت کے پاس لاکھ کوششوں کے باوجود قرض لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

حالانکہ سابقہ اقتدار کے آخری سال میں جب جمہوریت کا گھوڑا رک چکا تھا، ناکارہ ہو چکا تھایا تھک چکا تھا تو نظام کو چلانے کے لیے تازہ دم گھوڑے کی ضرورت تھی تاکہ وہ افکار ِ تازہ سے ملکی مسائل حل کرے۔ اسی لیے عوام نے عمران خان کو اقتدار میں آنے کا موقع دیاگیا لیکن کرپشن میں لتھڑے گھوڑے اُن کی راہ میں اصل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، گزشتہ پانچ دہائیوں کے قرضوں کا ذمے دار تحریک انصاف کو قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں، بیرون ملک پاکستان کے امیج خراب ہونے کی وجہ بھی تحریک انصاف کو قرار دے رہے ہیں۔

حالانکہ انھیں چاہیے کہ ملکی مفاد کی خاطر وہ حقیقت میں ''جمہوریت'' کا ساتھ دیں۔ وہ اس حکومت کا بازو بنیں، میرے ذاتی رائے کے مطابق عوام بھی حکمرانوں کو موقع دیں کیوں کہ ذرا سوچیں کہ اب اگر یہ ناکام ہوئے تو قوم کا کیا بنے گا؟ ملک کی دوسری دو بڑی پارٹیاں تو پرلے درجے کی نالائق ٹھہریں، لیکن جب یہ نئی ٹیم بھی ناکام ٹھہری تو ان کی جگہ پھر کون آئے گا؟ قوم پھر سے زرداریوں اورشریفوں کی متحمل تو ہو نہیں سکتی۔

ویسے بھی جمہوریت کا تسلسل یہی ہے کہ موجودہ حکومت کو بھی پانچ سال پورے کرنے دیے جائیں اور پھر نتائج اخذ کیے جائیں، بالکل اسی طرح جیسے پیپلزپارٹی پانچ سال اقتدار میں رہی۔ اُن پانچ سالوں میں سب کچھ سامنے آگیا۔ شک کی کچھ گنجائش باقی نہ رہی۔ نواز شریف اورنون لیگ کو بھی ڈھیل ملی تو اُن کا اصلی چہرہ سامنے آگیا اورشک کی گنجائش اُن کے بارے میں بھی ختم ہوگئی۔ پہلے کہاجاتاتھا کہ میاں صاحب کو موقع نہیں دیا جارہا۔ ہر بار ان کے اقتدار کو کاٹ دیاجاتاہے۔جب پورا دورانیہ ملے گا تو دیکھیے گا میاں صاحب کیا کارنامے سرانجام دیتے ہیں۔ تیسری بار منتخب ہوئے تواُن کے اقتدار پہ کوئی قدغن نہ تھی۔

لیکن ایک طرف ملکی خزانہ فضول منصوبوں پہ برباد ہوا اوردوسرا ہر ماہ گزرنے کے بعد اُن کا لندن جانے کو جی چاہا۔ پھر وہ آسمانی بجلی گری جس کانام پاناما پیپرزتھا اور ان کا وہ حشر ہوا جو ہم دیکھ چکے ہیں۔انھی مذکورہ جماعتوں کی بدولت آج ملک کو گھمبیر معاشی حالات سے نکالنے میں ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے۔ اورکیا ان پر دوبارہ اعتبار کیا جا سکتا ہے؟ کیا اب وہ وقت نہیں آگیا جس کی ہم پیش گوئی کیا کرتے تھے کہ ملک کا بچہ بچہ 2، 2لاکھ روپے کا مقروض ہو جائے گا۔


بہرحال عمران خان کی حکومت کو سات ماہ کے لگ بھگ عرصہ گزر چکا ہے۔ اس کی کارکردگی پر اب بات ہونا شروع ہوگئی ہے۔ عام طور پر حکومتوں کو شروع کے تین چار ماہ میں رعایت دی جاتی ہے، اس کے بعد حکومتی ترجیحات اور پالیسیوں پر نرم، گرم تنقید کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی ہے۔ عمران خان کی حکومت البتہ اس لحاظ سے بدقسمت ہے کہ اس پر پہلے دو تین ہفتوں کے بعد ہی تنقید شروع ہوگئی۔ کیوں کہ وزیراعظم عمران خان کے پاس دشمنوں کی کوئی کمی نہیں۔

سچ تو یہ کہ ان کی جماعت کے سوا (ق لیگ جیسا ننھا منا اتحادی چھوڑ کر)باقی ہر بڑی جماعت ان کی مخالف بلکہ شدید مخالف ہے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا تو تحریک انصاف سے براہ راست ٹکراؤ ہے۔ مولانا فضل الرحمن کی خیبر پختون خوا میں سیاست تحریک انصاف نے ختم کر دی،اس لیے آپ مولانا فضل الرحمن کی سرگرمیاں دیکھ لیں، مولانا فضل الرحمن کی پہلی دفعہ اقتدار سے الگ ہوئے ہیں، ورنہ وہ کسی نہ کسی طرح ہر دور میں اقتدار کے حصے دار رہے ہیں۔

وہ کبھی جیل میں نہیں گئے۔اس لیے کبھی وہ نواز شریف کے لیے آکسیجن کا کام کرتے ہیں تو کبھی زرداری کے پہلو میں بیٹھے نظر آتے ہیں ۔ دوسری طرف اے این پی کا بھی پی ٹی آئی نے ان کے سیاسی قلعہ سے صفایا کر ڈالا تو یہ دونوں جماعتیں پی ٹی آئی کی سخت سیاسی مخالف بن چکی ہیں۔ جماعت اسلامی کی نوعیت مولانا فضل الرحمن کی پارٹی سے مختلف ہے۔ مختلف وجوہات کی بنا پر وہ ایم ایم اے میں شامل ہوئی، مگر جلد غلطی کا احساس ہوگیا اور اب وہ عملی طور پر باہر آ چکی ہے ۔ جماعت اسلامی ریفارمز کے ایجنڈے کی وجہ سے تحریک انصاف کی فطری اتحادی ہے، مگر دونوں میںخاصا فاصلہ ہے۔ ذمے دار دونوں پارٹیوں میں موجود ہیں، اگرچہ جماعتی احباب کے مطابق اصل ذمے داری تحریک انصاف پر عائد ہوتی ہے، جس نے کبھی جماعت کے ساتھ اتحاد کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

وجہ جو بھی ہو، بہرحال جماعت اسلامی اس وقت تحریک انصاف کی مخالف نہیں تو قریب بھی نہیں کھڑی۔ محمود اچکزئی اور ڈاکٹر مالک بلوچ، حاصل بزنجو کی صورت میں بلوچ، پشتون قوم پرستوں کے اہم دھڑے بھی ن لیگ کے اتحادی اور عمران خان کے شدید سیاسی مخالف ہیں۔اور جب پیپلزپارٹی عمران خان کے بارے میں سلیکٹڈ وزیر اعظم کہتی ہے تو یہ بتانے کی حق بجانب ہونی چاہیے کہ موجودہ الیکشن میں کہاں دھاندلی ہوئی ہے؟ ہوئی ہوتی تو وہ سندھ میں اقتدار میں نہ ہوتی، دھاندلی ہوئی ہوتی تو وہ 50کے قریب قومی اسمبلی کی سیٹیں حاصل نہ کر سکتی۔

خود ہی ن لیگ اور پیپلزپارٹی نے نیب کا چیئرمین منتخب کیا اور خود الیکشن کمیشن کا چیئرمین لگایا تو پھر دھاندلی کیسی؟ ایم کیو ایم اگرچہ وفاقی حکومت میں شامل ہے، مگر کراچی میں جس طرح تحریک انصاف نے سویپ کیااور بیشتر نشستیں سمیٹ لیں، اس کے بعد متحدہ کیسے تحریک انصاف کی دل سے حامی رہ سکتی ہے؟ لہٰذامجھے لگتا ہے کہ عمران خان کے ساتھ انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا۔ان شروع کے سات ، ساڑھے سات ماہ کی بنیاد پر انھیں ناکام قرار دینا زیادتی ہوگی۔ حتمی رائے قائم کرنے کے لیے تو اصولی طور پر پانچ سال انتظارکرنا چاہیے ، اگر جلدی ہے تب بھی دو ڈھائی سال بعد ہی تبصرہ کرنابنے گا۔

بہرکیف کوئی کچھ بھی کہے عمران خان پاکستانیت کے بارے میں کسی احساس کمتری کا شکار نہیں ہیں۔ وہ اقوام عالم میں ڈٹ کر اپنا موقف پیش کررہا ہے۔ اُمید ہے وہ جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کی طرح سستے داموں آگ کے شعلوں میں نہیں کودیں گے۔ اورپہلی دفعہ سول اور ملٹری تعلقات حقیقت میں مثالی ہیں۔وہ باقاعدہ ووٹ لے کر وزیراعظم بنے ہیں، کروڑوں پاکستانی ان سے محبت کرتے ہیں اور یہ ان کی حکومت کو کامیاب بھی دیکھنا چاہتے ہیں، میں خود بھی سمجھتا ہوں عمران خان کی کامیابی ملک کی بقا کے لیے ضروری ہے اور دعا گو ہوں کہ اس ملک کے فائدے کے لیے جس حکمران کی نیت صاف ہو وہ اقتدار میں رہے۔

یہاں یہ کہنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ ملک اب ''تیری باری میری باری'' کے اس کھیل کا متحمل نہیں ہو سکتا، عمران خان کی ناکامی کے بعد اقتدار صرف میوزیکل چیئر بن کر رہ جائے گا اور عوام درمیان سے نکل جائیں گے چنانچہ عمران خان کا کامیاب ہونا ضروری ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے عمران خان کی ٹیم میں نالائق بھی ہیں، ناتجربہ کار بھی ہیں اور یہ انتہا درجے کے متکبر بھی ہو سکتے ہیں۔لہٰذاان کی تبدیلی سے اگر مسائل حل ہو سکتے ہیں توکپتان دیر نہیںکرنی چاہیے۔
Load Next Story