نریندر مودی آگ سے کھیلنے جا رہے ہیں
بھارت کے کئی مقامات پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کی ویڈیو کلپس دیکھ کر دل دہل اُٹھتا ہے۔
بھارت میں عام انتخابات کا آغاز ہو چکا ہے۔ ان کے نتائج اگلے ماہ، 23 مئی کو نکلیں گے۔ الیکشن کے نام پر بھارت میں قیامت برپا ہے۔ اکثریتی ہندوؤں نے خصوصاً بھارتی مسلمانوں اور مسیحیوں پر جینا حرام کر دیا ہے۔ انھیں ڈرا دھمکا کر ووٹ حاصل کیے جا رہے ہیں۔ مجھے کئی بھارتی اُردو اخبارات (جن کے مالکان زیادہ تر مسلمان ہیں) پڑھنے کے مواقعے میسر آئے ہیں۔ سب پر خوف اور دہشت طاری صاف نظر آ رہی ہے۔
بھارت کے کئی مقامات پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کی ویڈیو کلپس دیکھ کر دل دہل اُٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر اُتر پردیش (جہاں کا وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ ایک کٹر ہندو اور بی جے پی کا جنگجو سیاستدان ہے) میں ایک بزرگ امام مسجد کو ہندوؤں نے پکڑ کر زبردستی شراب اور گائے کاپیشاب پلانے کی مذموم حرکت کی ہے۔ مسلمانوں کی ایک پوری مارکیٹ جلا کر راکھ کر دی گئی ہے۔ جرم اُن کا یہ تھا کہ وہ گوشت فروخت کرتے تھے۔
آسام میں ایک مسلمان قصاب ( شوکت علی) کو ہندوؤں نے پکڑ کر بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اُسے خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ 8اپریل کو ممتاز بھارتی ویب اخبار thequint نے اس بارے میں باتصویر، تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے۔ مودی اور بی جے پی کی شہ پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اور برسرِ اقتدار جماعت ہر ہتھکنڈہ بروئے کار لا کر دوبارہ حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ مودی جی یہ الیکشن زندگی موت کا کھیل سمجھ کر، آخری جُوئے کی طرح لڑ رہے ہیں۔ اُن کی خوں آشامی سے کئی مہذب بھارتی بھی پریشان ہیں۔ مثلاً: مشہور بھارتی اخبار ''دی ہندو'' میں Ramin Jahanbegloo کے نام سے ایک چشم کشا آرٹیکل شایع ہُوا ہے۔
مضمون نگار نے بڑے کرب سے لکھا ہے کہ نریندر مودی نے بھارت میں جو پُر خطر سیاسی اور سماجی حالات پیدا کر دیے ہیں، اِن میں اگر بھارت کے باپو گاندھی جی کو الیکشن لڑنا پڑتا تو وہ بھی صاف انکار کر دیتے کیونکہ ''یہ حالات بھارتی ڈیموکریسی کے عکاس نہیں ہیں۔ بھارتی ڈیموکریسی دراصل موبو کریسی بن گئی ہے۔'' واقع بھی یہی ہے کہ ''ہجوم کی حکمرانی''(موبو کریسی)کی نفسیات کا استحصال اور استعمال کرتے ہُوئے مودی نے پورے بھارت میں آگ اور خون کا تماشہ شروع کر رکھا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ بھی مودی کے کھیل اور عزائم کی تکمیل میں معاون بن گئے ہیں۔
نریندر مودی اور بی جے پی کے دل میں چھپی جو باتیں عرصہ دراز سے بوجوہ سامنے نہیں آ رہی تھیں، تازہ انتخابات جیتنے کے لیے یہ باتیں اب اُن کی زبان پر بھی آ گئی ہیں۔ یوں مودی جی کی مسلم دشمنی اور کشمیریوں سے عناد کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ انتخابات کے آغاز سے تین دن پہلے مودی صاحب نے نئی دہلی میں امیت شاہ، راجناتھ سنگھ، ارون جیٹلی اور سشما سوراج ایسے اپنے جنگجو ساتھیوں کی موجودگی میںبی جے پی کے انتخابی منشور کا اعلان کیا۔ منشور ہی کسی سیاسی جماعت کے عزائم، منصوبوں اور نیتوں کا عکس ہوتا ہے۔ بی جے پی کا جاری کردہ یہ منشور 45 صفحات اور 75 اعلانات پر مشتمل ہے۔
دیگر باتوں کے علاوہ مودی نے خصوصاً یہ اعلان کیا ہے کہ دوسری بار اگر مَیں وزیر اعظم بن گیا تو (۱) ایودھیا میں (بابری مسجد کی جگہ) رام مندر بناؤں گا (۲) قوم پرستی کو مزید فروغ دوں گا (۳) بھارتی آئین میں موجود (مقبوضہ) کشمیر اور کشمیریوں کے بارے جو خصوصی شقیں (آٹیکل 370 اور 35 اے) ہیں، ختم کر دوں گا۔ مودی اور اُن کی پارٹی کا جن سنگھی ہندو برہنہ ہو کر سامنے آ گیا ہے۔ ووٹ کی خاطر رام مندر کی تعمیر اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں اُن کے دیرینہ عزائم بھی بے نقاب ہو گئے ہیں، جو پہلے ذرا ملفوف انداز میں سامنے لائے جاتے تھے۔
بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے دلوں میں ان اعلانات کے خلاف طوفان مچل رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں منشور کے ذکر پر نریندر مودی نے خاص طور پر یہ کہا: ''ہم اُسی موقف کا اعادہ کرتے ہیں جو جن سنگھ کے وقت سے رہا ہے کہ آرٹیکل 370 منسوخ کیا جائے۔ ہم دستورِ ہند کے آرٹیکل 35 اے کو بھی ختم کرنے کے پابند ہیں کیونکہ یہ دفعہ جموں و کشمیر کے غیر مستقل مکینوں اور خواتین کے خلاف امتیازی نوعیت کی ہے۔'' مودی نے اپنے اس منشور کو ''ہمہ پرت اور ہمہ رُخی'' قرار دیا ہے، جب کہ بھارتی مسلمان اور کشمیری اِسے ظلم اور جبر کا عنوان دے رہے ہیں۔ پچھلے انتخابات (2014) میں مودی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور مذکورہ دونوں دفعات کے بارے میں مصلحتاً خاموش رہے تھے۔ کشمیریوں کی اکثریت تازہ اعلان بارے سخت ردِ عمل کا اظہار کر رہی ہے۔
حتیٰ کہ وہ کشمیری لیڈرز جو نئی دہلی کی کٹھ پتلی بن کر (مقبوضہ) کشمیر کے اقتدار پر براجمان رہے ہیں، وہ بھی مقتدر مودی کے خلاف نکل آئے ہیں۔ سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ''بی جے پی اور مودی کا یہ منشور کشمیریوں کو متفقہ طور پر کامل آزادی کے راستے پر گامزن کر دے گا۔'' انھی کی مانند مقبوضہ کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کہہ رہی ہیں: ''کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا کھلا عندیہ دے کر نریندر مودی اور بھارتی ہیتِ مقتدرہ دراصل آگ سے کھیل رہے ہیں۔'' مودی کے زعفرانی انتخابی لشکروں پر طاری نفرت کے جنون میں مگر کمی نہیں آ رہی۔
نریندر مودی انتخابی جنگ جیتنے کے جنون میں پاکستان کے خلاف بھی آگ کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹور سکیں۔ ایک ممکنہ آگ کی طرف تو ہمارے وزیر خارجہ اشارہ کر چکے ہیں اور دُنیا کو بھی بتا چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت آگ کا دوسرا کھیل جھوٹ، انکار اور مکر کی بنیاد پر کھیلنا چاہتا ہے۔ پاکستان دُنیا کے ہر فورم پر بھارتی کذب و ریا کے پردے چاک کر رہا ہے مگر بھارت ڈھٹائی سے پیچھے ہٹنے پرتیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 27 فروری 2019ء کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب دیتے ہُوئے بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا اور اُس کا پائلٹ (ونگ کمانڈر ابھی نندن قیدی بنا لیا) تو بھارت نے شرمندگی سے بچنے کے لیے ترنت جھوٹا دعویٰ کر ڈالا کہ ہم نے بھی پاکستان کا ایک ایف سولہ جنگی جہاز مار گرایا ہے۔پاکستان جب بھارت کو چیلنج کرتا ہے کہ مار گرائے گئے پاکستانی ایف سولہ طیارے کا ملبہ دُنیا کے سامنے لاؤ تو بھارت راہِ فرار اختیار کر جاتا ہے۔
بھارتی جھوٹ شائد دُنیا مان ہی لیتی لیکن ممتاز امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں یہ انکشاف کر ڈالا ہے کہ پاکستانی ایف سولہ طیارہ مار گرانے کے بھارتی دعوے جھوٹ ہیں۔ پاکستان ایف سولہ طیاروں کی گنتی بھی پوری ہے۔اس خبر کی امریکی وزارتِ دفاع نے تردید کی ہے نہ پنٹاگان کے ذمے داران نے۔ گویا ''فارن پالیسی'' کی خبر درست ہے؛ چنانچہ بھارت کو مزید شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ مودی جی اس لیے بھی نادم ہیں کہ اس خبر کے منفی اثرات اُن کی انتخابی مہمات پر پڑیں گے کہ وہ تو پاکستان دشمنی کی بنیاد ہی پر انتخابی فتوحات حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
موثر امریکی جرائد کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان مخالف بھارتی جھوٹ اور آگ لگانے والے بیانات کی حمایت نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی امریکا مودی بیانیے کی تائید میں سامنے آ رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت اس خطے میں ''پرابلم اسٹیٹ'' بن گیا ہے ۔افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے نے جس تہذیب اور دلیل سے بھارتی کذب بیانیوں کا پردہ چاک کیا ہے، بھارتی اس پر بھی خاصے پریشان ہیں۔ ایک سابق بھارتی لیفٹیننٹ جنرل نے برطانوی تھنک ٹینک (آئی آئی ایس ایس) میں اس پریشانی کا برسرِ مجلس اعتراف بھی کیا ہے۔ آئی ایس پی آر نے بالاکوٹ میں غیر ملکی میڈیا کے نمایندگان اور غیر ملکی سفیروں کو تازہ تفصیلی دَورہ کروا کر ایک اور بھارتی جھوٹ اور پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی ہے۔
بھارت کے کئی مقامات پر مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے لرزہ خیز مظالم کی ویڈیو کلپس دیکھ کر دل دہل اُٹھتا ہے۔ مثال کے طور پر اُتر پردیش (جہاں کا وزیر اعلیٰ یوگی ادتیہ ناتھ ایک کٹر ہندو اور بی جے پی کا جنگجو سیاستدان ہے) میں ایک بزرگ امام مسجد کو ہندوؤں نے پکڑ کر زبردستی شراب اور گائے کاپیشاب پلانے کی مذموم حرکت کی ہے۔ مسلمانوں کی ایک پوری مارکیٹ جلا کر راکھ کر دی گئی ہے۔ جرم اُن کا یہ تھا کہ وہ گوشت فروخت کرتے تھے۔
آسام میں ایک مسلمان قصاب ( شوکت علی) کو ہندوؤں نے پکڑ کر بے پناہ تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر اُسے خنزیر کا گوشت کھانے پر مجبور کیا گیا ہے۔ 8اپریل کو ممتاز بھارتی ویب اخبار thequint نے اس بارے میں باتصویر، تفصیلی رپورٹ شایع کی ہے۔ مودی اور بی جے پی کی شہ پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم اور برسرِ اقتدار جماعت ہر ہتھکنڈہ بروئے کار لا کر دوبارہ حکومت بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ مودی جی یہ الیکشن زندگی موت کا کھیل سمجھ کر، آخری جُوئے کی طرح لڑ رہے ہیں۔ اُن کی خوں آشامی سے کئی مہذب بھارتی بھی پریشان ہیں۔ مثلاً: مشہور بھارتی اخبار ''دی ہندو'' میں Ramin Jahanbegloo کے نام سے ایک چشم کشا آرٹیکل شایع ہُوا ہے۔
مضمون نگار نے بڑے کرب سے لکھا ہے کہ نریندر مودی نے بھارت میں جو پُر خطر سیاسی اور سماجی حالات پیدا کر دیے ہیں، اِن میں اگر بھارت کے باپو گاندھی جی کو الیکشن لڑنا پڑتا تو وہ بھی صاف انکار کر دیتے کیونکہ ''یہ حالات بھارتی ڈیموکریسی کے عکاس نہیں ہیں۔ بھارتی ڈیموکریسی دراصل موبو کریسی بن گئی ہے۔'' واقع بھی یہی ہے کہ ''ہجوم کی حکمرانی''(موبو کریسی)کی نفسیات کا استحصال اور استعمال کرتے ہُوئے مودی نے پورے بھارت میں آگ اور خون کا تماشہ شروع کر رکھا ہے۔ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اور انڈین اسٹیبلشمنٹ بھی مودی کے کھیل اور عزائم کی تکمیل میں معاون بن گئے ہیں۔
نریندر مودی اور بی جے پی کے دل میں چھپی جو باتیں عرصہ دراز سے بوجوہ سامنے نہیں آ رہی تھیں، تازہ انتخابات جیتنے کے لیے یہ باتیں اب اُن کی زبان پر بھی آ گئی ہیں۔ یوں مودی جی کی مسلم دشمنی اور کشمیریوں سے عناد کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ انتخابات کے آغاز سے تین دن پہلے مودی صاحب نے نئی دہلی میں امیت شاہ، راجناتھ سنگھ، ارون جیٹلی اور سشما سوراج ایسے اپنے جنگجو ساتھیوں کی موجودگی میںبی جے پی کے انتخابی منشور کا اعلان کیا۔ منشور ہی کسی سیاسی جماعت کے عزائم، منصوبوں اور نیتوں کا عکس ہوتا ہے۔ بی جے پی کا جاری کردہ یہ منشور 45 صفحات اور 75 اعلانات پر مشتمل ہے۔
دیگر باتوں کے علاوہ مودی نے خصوصاً یہ اعلان کیا ہے کہ دوسری بار اگر مَیں وزیر اعظم بن گیا تو (۱) ایودھیا میں (بابری مسجد کی جگہ) رام مندر بناؤں گا (۲) قوم پرستی کو مزید فروغ دوں گا (۳) بھارتی آئین میں موجود (مقبوضہ) کشمیر اور کشمیریوں کے بارے جو خصوصی شقیں (آٹیکل 370 اور 35 اے) ہیں، ختم کر دوں گا۔ مودی اور اُن کی پارٹی کا جن سنگھی ہندو برہنہ ہو کر سامنے آ گیا ہے۔ ووٹ کی خاطر رام مندر کی تعمیر اور مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے بارے میں اُن کے دیرینہ عزائم بھی بے نقاب ہو گئے ہیں، جو پہلے ذرا ملفوف انداز میں سامنے لائے جاتے تھے۔
بھارتی مسلمانوں اور کشمیریوں کے دلوں میں ان اعلانات کے خلاف طوفان مچل رہے ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے بارے میں منشور کے ذکر پر نریندر مودی نے خاص طور پر یہ کہا: ''ہم اُسی موقف کا اعادہ کرتے ہیں جو جن سنگھ کے وقت سے رہا ہے کہ آرٹیکل 370 منسوخ کیا جائے۔ ہم دستورِ ہند کے آرٹیکل 35 اے کو بھی ختم کرنے کے پابند ہیں کیونکہ یہ دفعہ جموں و کشمیر کے غیر مستقل مکینوں اور خواتین کے خلاف امتیازی نوعیت کی ہے۔'' مودی نے اپنے اس منشور کو ''ہمہ پرت اور ہمہ رُخی'' قرار دیا ہے، جب کہ بھارتی مسلمان اور کشمیری اِسے ظلم اور جبر کا عنوان دے رہے ہیں۔ پچھلے انتخابات (2014) میں مودی مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور مذکورہ دونوں دفعات کے بارے میں مصلحتاً خاموش رہے تھے۔ کشمیریوں کی اکثریت تازہ اعلان بارے سخت ردِ عمل کا اظہار کر رہی ہے۔
حتیٰ کہ وہ کشمیری لیڈرز جو نئی دہلی کی کٹھ پتلی بن کر (مقبوضہ) کشمیر کے اقتدار پر براجمان رہے ہیں، وہ بھی مقتدر مودی کے خلاف نکل آئے ہیں۔ سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ''بی جے پی اور مودی کا یہ منشور کشمیریوں کو متفقہ طور پر کامل آزادی کے راستے پر گامزن کر دے گا۔'' انھی کی مانند مقبوضہ کشمیر کی سابق کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کہہ رہی ہیں: ''کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا کھلا عندیہ دے کر نریندر مودی اور بھارتی ہیتِ مقتدرہ دراصل آگ سے کھیل رہے ہیں۔'' مودی کے زعفرانی انتخابی لشکروں پر طاری نفرت کے جنون میں مگر کمی نہیں آ رہی۔
نریندر مودی انتخابی جنگ جیتنے کے جنون میں پاکستان کے خلاف بھی آگ کا کھیل کھیلنا چاہتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ بٹور سکیں۔ ایک ممکنہ آگ کی طرف تو ہمارے وزیر خارجہ اشارہ کر چکے ہیں اور دُنیا کو بھی بتا چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارت آگ کا دوسرا کھیل جھوٹ، انکار اور مکر کی بنیاد پر کھیلنا چاہتا ہے۔ پاکستان دُنیا کے ہر فورم پر بھارتی کذب و ریا کے پردے چاک کر رہا ہے مگر بھارت ڈھٹائی سے پیچھے ہٹنے پرتیار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر 27 فروری 2019ء کو پاکستان نے بھارتی جارحیت کا جواب دیتے ہُوئے بھارتی جنگی طیارہ مار گرایا اور اُس کا پائلٹ (ونگ کمانڈر ابھی نندن قیدی بنا لیا) تو بھارت نے شرمندگی سے بچنے کے لیے ترنت جھوٹا دعویٰ کر ڈالا کہ ہم نے بھی پاکستان کا ایک ایف سولہ جنگی جہاز مار گرایا ہے۔پاکستان جب بھارت کو چیلنج کرتا ہے کہ مار گرائے گئے پاکستانی ایف سولہ طیارے کا ملبہ دُنیا کے سامنے لاؤ تو بھارت راہِ فرار اختیار کر جاتا ہے۔
بھارتی جھوٹ شائد دُنیا مان ہی لیتی لیکن ممتاز امریکی جریدے ''فارن پالیسی'' نے اپنی ایک خصوصی رپورٹ میں یہ انکشاف کر ڈالا ہے کہ پاکستانی ایف سولہ طیارہ مار گرانے کے بھارتی دعوے جھوٹ ہیں۔ پاکستان ایف سولہ طیاروں کی گنتی بھی پوری ہے۔اس خبر کی امریکی وزارتِ دفاع نے تردید کی ہے نہ پنٹاگان کے ذمے داران نے۔ گویا ''فارن پالیسی'' کی خبر درست ہے؛ چنانچہ بھارت کو مزید شرمندگی اٹھانا پڑی ہے۔ مودی جی اس لیے بھی نادم ہیں کہ اس خبر کے منفی اثرات اُن کی انتخابی مہمات پر پڑیں گے کہ وہ تو پاکستان دشمنی کی بنیاد ہی پر انتخابی فتوحات حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔
موثر امریکی جرائد کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہو رہا ہے کہ امریکی حکومت پاکستان مخالف بھارتی جھوٹ اور آگ لگانے والے بیانات کی حمایت نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی امریکا مودی بیانیے کی تائید میں سامنے آ رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ مودی کی قیادت میں بھارت اس خطے میں ''پرابلم اسٹیٹ'' بن گیا ہے ۔افواجِ پاکستان کے ترجمان ادارے نے جس تہذیب اور دلیل سے بھارتی کذب بیانیوں کا پردہ چاک کیا ہے، بھارتی اس پر بھی خاصے پریشان ہیں۔ ایک سابق بھارتی لیفٹیننٹ جنرل نے برطانوی تھنک ٹینک (آئی آئی ایس ایس) میں اس پریشانی کا برسرِ مجلس اعتراف بھی کیا ہے۔ آئی ایس پی آر نے بالاکوٹ میں غیر ملکی میڈیا کے نمایندگان اور غیر ملکی سفیروں کو تازہ تفصیلی دَورہ کروا کر ایک اور بھارتی جھوٹ اور پروپیگنڈے کی ہوا نکال دی ہے۔