جو ٹیکس دیں وہی عتاب میں
جب آپ نے مدینے کی ریاست بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے تو پھر مدد اس رب سے مانگیں وہ ہر جگہ آپ کا ساتھ دے گا۔
اپوزیشن اور حکومتی ارکان طنز کے جملوں کے ساتھ ایک دوسرے کے دامن اٹھا رہے ہیں اور مخالفانہ گفتگو کی خاطر مدارت جاری ہے نہ جانے کیسی کیسی خبریں اخبارات کی زینت بنتی ہیں کہ عقل حیران ہے، تعلیم یافتہ طبقہ تو سوچ رہا ہے کہ یہ معتبر جمہوری نظام آخر اس قوم کو کہاں تک لے کر جائے گا ، حکومتی وزراء اپوزیشن پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ انھیں اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرنا چاہیے کہ بڑے ارمانوں سے قوم نے کوئی نیا فیصلہ کیا ہے مگر افسوس عوامی خواہشات کو دفن کیا جا رہا ہے۔
تیکھے موضوعات پر اپوزیشن اور حکومتی ارکان چونچلے بازی میں لگے ہوئے ہیں، غرض کہ جو نوجوان سیاست دان ہیں تمام پارٹیوں سے ، ان کے بیانات پڑھنے کے بعد دل کی صورتحال ابتر ہوتی ہے اور یہی وہ نوجوان سیاستدان ہیں جن کے بزرگوں نے اس ملک پر سالوں حکومت کی ، آج انھیں اس ملک کی صورتحال تشویش ناک نظر آتی ہے جس میں حکومتی ارکان کا بھی کچھ قصور ہے ۔
حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ ماضی میں اپوزیشن نے کیا کیا ۔لوگ آپ کی بات سے اتفاق بھی کرتے ہیں مگر ماضی کی شکایتیں اب حکومتی ارکان ختم کریں کیونکہ عوام نے بنیادی سہولتوں کے لیے آپ کو ووٹ دیا ہے اور آپ حضرات برسر اقتدار آگئے ، آج پاکستان پر حکومت کر رہے ہیں تو خدارا اپنی وزارتوں پر توجہ دیں ، اس تبدیلی کو حقیقی تبدیلی میں بدلنے کی کوششیں کریں ، چھوڑیں اپوزیشن کو اگر ان میں روایات کی پاسداری ہوتی تو آج عمران خان برسر اقتدار نہ ہوتے۔
اب بھی وقت ہے کہ عمران خان اور ان کی کابینہ عوامی مسائل پر خاص توجہ دیں اگر بیانات سے ہی حکومت چلانی ہے تو یہ کام تو ماضی میں دوسری حکومتیں بھی کرتی رہیں مگر عوام دل گرفتہ تھے جبھی تو 1989 سے لے کر 2017 تک کے جو بت تھے وہ سب گرا دیے گئے ، اب برسر اقتدار حکومت کو چاہیے کہ دن رات کام کرے ، وزراء قوم کی دل آزاری کے بیانات نہ دیں ، وزیر پٹرولیم غلام سرور خان کہتے ہیں کہ شکر کریں تیل کی قیمت 12 روپے نہیں بڑھائی قوم منتظر ہے اپنے مسائل کے حل کے لیے اور اس لیے آپ دوستوں کو ایوانوں کی زینت بنایا گیا ۔ برسوں کے ناکارہ بت توڑ کر آپ حضرات کو عوام نے دل کے نہاں خانوں میں جگہ دی ہے اگر آپ گڈ گورننس نہیں دے سکتے تو کم ازکم گڈ ول goodwill والی بات تو کریں۔
شیخ رشید کہتے ہیں گزشتہ حکومت نے ریلوے پر کوئی توجہ نہیں دی ۔ بجا فرمایا ، اب آپ بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ اس ادارے کو چلائیں ۔ گزشتہ حکومتیں تو قصہ خواب ہوئیں اب قوم نے اپنی تقدیر کا فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں دے دیا ہے ، بسم اللہ کریں ۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں سینئر سٹیزن کے لیے ایئر اور ریلوے میں 50 فیصد رعایت دیں تو پتا چلے گا کہ آپ نے کوئی اہم کام انجام دیا ہے ۔ سنا ہے ایسا منصوبہ روبہ عمل ہے۔ 60 سال کے بعد تو انسان دوائیوں کے سہارے زندگی گزارتا ہے اور آج بیشتر سیاستدان سینئر سٹیزن میں شمار کیے جاتے ہیں اور واجب الاحترام ہیں یہ لوگ بلکہ یہ سینئر حضرات اس ملک کا گراں قدر اثاثہ ہیں ہر محکمے میں ان پر خاص توجہ دی جانی لازم ہے ۔
ملک بھر میں عمر رسیدہ صحافی حضرات کو بھی ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں خاص طور پر جو چاروں صوبوں کے پریس کلب کے ممبران ہیں ویسے بھی عمر تو ایک ریت کی عمارت کی شکل اختیار کرلیتی ہے 60 سال کے بعد سینئر سٹیزن صحافیوں کو پہلی فرصت میں ہیلتھ کارڈ جاری کیے جائیں ۔ ادھر وزیر اعظم عمران خان کہتے ہیں ہم ان لوگوں کی قدر کرتے ہیں جو ٹیکس دیتے ہیں اور پاکستان کے وی آئی پی وہ ہیں جو ٹیکس دیتے ہیں۔ انتہائی معذرت کے ساتھ ، اس ملک میں جو لوگ عزت و آبرو سے ٹیکس دیتے ہیں ان سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ دوران ڈرائیو آپ نے بیلٹ کیوں نہیں باندھی ان کی توہین کی جاتی ہے اور چالان کاٹ کر ہاتھ میں تھما دیا جاتا ہے جب کہ ہزاروں گاڑیاں بغیر نمبر پلیٹ بغیر لائسنس کے رواں دواں ہیں۔
ٹریفک کا نظام کراچی میں تباہ ہوچکا معصوم بچے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے کسی بات کا خیال نہیں کرتے ، پولیس بھی کچھ نہیں کہتی ، مخالف سمت سے آنیوالوں نے شہری ٹریفک کو تباہ کردیا ہے ان کے پاس نہ لائسنس ہے نہ کاغذات ، پھر جو شہری وقار کے ساتھ ملکی بقا کے لیے ٹیکس دے رہا ہے پولیس سارا دن ایسے لوگوں کی تذلیل کرتی ہے ۔ ایک خوف کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، لگتا ہے پولیس سٹیٹ ہے۔ سوچیں وزیر اعظم صاحب ! دل پر کیا گزرتی ہوگی ۔جب آپ کہتے ہیں کہ جو ٹیکس دیتے ہیں وہ ملک کا اثاثہ ہیں لہذا جو اثاثے ہوتے ہیں ان شریف شہریوں کے ساتھ رویہ ناقابل برداشت ہے ۔ آپ سے درخواست ہے کہ با اختیار وزیر داخلہ کا اہتمام کیجیے تاکہ صوبوں میں جو ٹریفک کا حال ہے اس کا کوئی تو پرسان حال ہو۔ سٹریٹ کرائمز کنٹرول ہوں، بہیمانہ جرائم کا سدباب ہو۔ امن و امان کو کوئی نقصان نہ پہنچائے۔ کراچی میں بے شمار مسائل ہیں ۔ ان میں سب سے بڑا مسئلہ دردناک ٹریفک کا ہے ۔
شائستہ ٹریفک شہر کا آئینہ ہوتی ہے، مگر شرفا کی توہین کی جاتی ہے ، بلاجواز چالان ہوتے ہیں،رشوت کا بازار گرم ہے۔ بغیر لائسنس بغیر کاغذات گاڑیاں چلانیوالے سے کوئی نہیں پوچھتا ، ہاں بیلٹ کے بارے میں جگہ جگہ شرفا کو روک کر تضحیک کی جاتی ہے ، ان کا قصور یہ ہے کہ وہ ملک کو ٹیکس دیتے ہیں۔ راقم اٹلی کے شہر وینس سے اسپین جا رہا تھا ہوائی ٹکٹ پر 11 ڈالر ٹیکس کاٹا گیا ، ایئرپورٹ پر جو عزت وہاں کی انتظامیہ نے راقم کو دی اس کو بیان کرنے کے لییمیرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان سے گزارش ہے کہ جو لوگ ایف بی آر کے ٹیکس دہندہ ہیں انھیں بھی کارڈ جاری کیا جائے تاکہ وہ جگہ جگہ قانون نافذ کرنیوالے اہلکاروں کے عتاب کا شکار نہ ہوں ان کی عزت و تکریم کو دیکھتے ہوئے لوگ خود ٹیکس کی طرف راغب ہوں گے ۔ جب اس مملکت خداداد میں ٹیکس ادا کرنے والوں کی سہولتیں دیکھیں گے تو پھر اپنی بقا اور سلامتی کے لیے لوگ خود ٹیکس کی طرف راغب ہوں گے ، ویسے بھی اب سبسڈی ختم کرنے کے لیے عمران خان بہت سنجیدہ نظر آتے ہیں یہ ان کا قابل تعریف اقدام ہے۔ اب انھیں چاہیے کہ صرف عوام کو دی جانیوالی سبسڈی ختم نہ کریں بلکہ دیگر محکموں کی سبسڈی کا بھی خاتمہ کریں۔
بچت اور سادگی کا کلچر لائیں۔ وزیراعظم کو چاہیے کہ جب وہ میدان عمل میں آئے ہیں تو پارلیمنٹ ہاؤس، کیفے ٹیریا، وزرا اور اراکین قومی اسمبلی کے سفری اخراجات، پٹرول، فون، بجلی کے بل، مفت سفر یہ سب بھی ختم کریں تاکہ قومی خزانے پر جو ناتواں بوجھ ہے وہ ختم ہو۔ جب آپ نے مدینے کی ریاست بنانے کا بیڑا اٹھایا ہے تو پھر مدد اس رب سے مانگیں وہ ہر جگہ آپ کا ساتھ دے گا ۔ کب تک صرف قوم ہی قربانی دے گی ۔ محمود و ایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا کریں ۔ بے مقصد پروٹوکول ختم کریں ۔ عوام مایوس ہوتے ہیں اشرافیہ کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ دیکھ کر ۔ ان کی آمد پر جانوروں کی طرح شہریوں کو بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے، راستے بند نہیں ہونے چاہئیں۔ اگر اس حکومت میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا تو پھر پچھلی حکومتوں سے کس بات کا گلہ شکوہ؟ وہ صحیح تھے غلط ۔ اب آپ تبدیلی وہ لائیں جو نظر آئے کہ واقعی آپ نے روایات کی پاسداری کا احترام کیا ہے ۔ اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر شاعر جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا اور پھر عوام بھی یہی کہے گی:
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے