نباتات و حیاتیات کے پیچیدہ سلسلے
حیاتیات اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والا ہر قاری جانتا ہے کہ فوٹوسنتھے سز کا عمل کس طرح ہوتا ہے۔
یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں کہ سبز پودے اور دوسرے حیاتی اجسام جو فوٹو سنتھے سز انجام دیتے ہیں زمین پر زندگی کی بنیاد ہیں۔ فوٹوسنتھے سز کے ذریعے پودے شمسی توانائی کو زندگی کے سرمائے میں منتقل کردیتے ہیں۔ یہ سرمایہ، کاربوہائیڈریٹ کہلاتا ہے۔ پودوں کی یہ سرمایہ کاری بھی عجیب ہے۔ اس لیے کہ جب دنیا بھر کی اسٹیل ملز 500 ملین ٹن اسٹیل بنانے کے لیے کام کر رہی ہوتی ہیں اسی دوران دنیا بھر کے سبز پودے 200 بلین ٹن کاربوہائیڈریٹ بنا رہے ہوتے ہیں۔
کاربوہائیڈریٹ کے ساتھ ساتھ، پودوں کی فراہم کردہ ایک اور شے بھی زندگی کا لازمہ ہے۔ اور وہ شے ہے آکسیجن۔
حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی نے زمین پر کبھی بھی جنم نہ لیا ہوتا بشرطیکہ اربوں سال پہلے زمین پر فوٹوسنتھے سز کا عمل نہ ہوا ہوتا۔ جس کے نتیجے میں آکسیجن پیدا ہوتی اور زندگی کی اولین ضرورت اس سیارے کو فراہم کی گئی۔
''مختصر الفاظ میں فوٹوسنتھے سز حیاتیات کا بنیادی عمل ہے۔'' امریکا کی بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے حیاتیات کے شعبے کے انچارج حیاتیات دان جون بینٹ کا کہنا ہے ''یہی عمل ہمارے لیے وہ غذا مہیا کرتا ہے جو ہم کھاتے ہیں اور اس عمل کا حامل آکسیجن ہے جس کے ذریعے ہماری سانس برقرار ہے۔''
حیاتیات اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والا ہر قاری جانتا ہے کہ فوٹوسنتھے سز کا عمل کس طرح ہوتا ہے۔ کسی بھی پودے کے خلیے کا ایک جز کلوروپلاس ہے۔ کلوروپلاسٹ میں مخصوص ''کلوروفل'' مالیکیول ہوتے ہیں۔ یہ مالیکیول ایسی کیمیائی نوعیت رکھتے ہیں کہ شمسی توانائی کے ''فوٹون'' کے ان سے ٹکرانے پر ''الیکٹرون'' خارج ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح کلوروفل مالیکیول مثبت بار حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی اس بے اعتدالی کو ختم کرنے کے لیے پانی کا الیکٹرون حاصل کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں پانی کا مالیکیول ٹوٹ جاتا ہے آکسیجن کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن کے مثبت آئن خارج ہوتے ہیں۔ یہ مثبت آئن اور منفی الیکٹرون کلوروپلاسٹ کی جھلی یا ممبرین کی مخالف اطراف پر جگہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اس طرح کلورو پلاسٹ کے سروں کے درمیان ویسا ہی برقی کیمیائی پوٹنشل پیدا ہوجاتا ہے جیساکہ بیٹری کے سروں کے درمیان ہوتا ہے اور یہ ایک قدرتی بیٹری بن جاتا ہے۔ اس کی توانائی atp مالیکیولوں کا امتزاج کرنے لگتی ہے atp مالیکیول ایسے حیاتیاتی محرکات ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کاربوہائیڈریٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔
مذکورہ بالا بیان باوجود اپنی جامعیت کے مکمل نہیں اور اسی نوعیت کا ہے جیساکہ دماغ کو برقی کیمیائی کمپیوٹرز کا مجموعہ کہا جائے اور اعصاب کو سرکٹ صاف بات تو یہ ہے کہ سائنس دان ابھی تک فوٹو سنتھے سز کی پوری جادوگری سمجھ نہیں پائے ان کے سامنے بے شمار سوالات کا پلندہ موجود ہے جن میں یہ سوال بطور خاص جواب مانگ رہے ہیں:۔
1۔ کلوروپلاسٹ کی جھلی یا ممبرین کے اندر، الیکٹرون کرلیتا ہے۔ لیکن الیکٹرون میں فوراً الٹی چھلانگ مارنے کا رجحان موجود ہے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتا ہے اور اس دوران اپنی توانائی کو حرارت کے طور پر خارج کرتا ہے۔
فوٹوسنتھے سز کے دوران پیدا ہونے والے الیکٹران بھی اسی طرح کام کرتے ہیں اور atp امتزاج میں حصہ لینے سے پہلے الٹی چھلانگ لگا کر کلوروفل میں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں ایسا کرنے سے ایک خاص قسم کی پروٹینی ساخت روک دیتی ہے۔ ساخت کے متعلق ابھی محدود علم ہے۔
اس ترکیب سے بولٹن اور دوسرے لوگ جو فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ نباتاتی پروٹین جیسی کوئی شے بناکر الیکٹرون کو الٹی چھلانگ سے روکا جائے۔ اس طرح وہ کافی دیر تک کیونون پر رہے گا۔ اس دوران اسے کیونون سے حاصل کرلیا جائے اور ایک سرکٹ میں بہنے پر مجبور کردیا جائے۔ اس طرح بجلی کا بہاؤ حاصل کرکے بلب روشن کیے جائیں۔
ڈیوپانٹ کے آرنزن کا کہنا ہے کہ انسانی غذائی پیداوار میں نئے اضافوں کا خواہش مند ہے۔ اور اپنے غذائی معیارات بلند کرنا چاہتا ہے تو اسے پودوں اور ان سے متعلق عملیات پر توجہ کرنا ہوگی۔ ڈیوپانٹ کیڑے مار دوائیں بنانے میں عالمی شہرت رکھنے والی کمپنی ہے چنانچہ آرنزن ایسے پودے پیدا کرنے پر کام کر رہا ہے جو جڑی بوٹیوں کے خلاف قدرتی قوت مدافعت رکھتے ہوں فی الوقت جڑی بوٹیاں ختم کرنے کے لیے مخصوص کیمیہ (کیمکلز) استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کیمیہ کے اثرات فصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے جڑی بوٹیاں ختم کرنے کا موجودہ طریقہ کار مثالی نہیں اور کوشش جاری ہے کہ پودوں کی نئی اور بہتر انواع کے ذریعے اس مسئلے کو بھی حل کیا جائے۔
آرنزن کی کوششیں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت رکھتی ہیں کہ 2000 میں ایک ایسی جڑی بوٹی سامنے آئی تھی جو کیمیہ کے خلاف قدرتی قوت مدافعت رکھتی تھی۔ یہ جڑی بوٹی واشنگٹن ریاست کی ایک نرسری میں زیر مطالعہ آتی اور سمجھنے میں کہ جڑی بوٹی کے اندر یہ خصوصیت کیونکر پیدا ہوتی پورے چھ سال لگ گئے۔
دراصل ہوتا یہ ہے کہ زیادہ تر جڑی بوٹی مارنے والے کیمیہ اس پروٹین پر حملہ کرتے ہیں جو الیکٹرون اخراج میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح فوٹوسنتھے سز کا عمل رک جاتا ہے اور بوٹی مر جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایسی بوٹی میں جو ان کیمیہ کا اثر قبول نہیں کرتی ایک ایسا جینی تغیر واقع ہوتا ہے جو پہلے ہی سے پروٹین کو تبدیل کرچکا ہو۔
اور ہائیڈروجن آئن ایک مالیکیول سے دوسرے تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟
2۔ ان تعاملی مراکز کی ساخت کیسی ہے جن میں فوٹوسنتھے سز کے بنیادی عناصر موجود ہوتے ہیں؟
3۔ فوٹوسنتھے سز عمل کے دوران پانی کا مالیکیول کیونکر ٹوٹتا ہے؟
4۔ پودوں کی جین فوٹوسنتھے سز سے متعلق عملیات پر کیسے قابو رکھتی ہے؟
ان سوالوں کے جوابات سے پودوں کے اندر واقع ہوتے عمل واضح ہوں گے نیز ان بنیادی عملیات پر روشنی پڑے گی جو حیاتیات کی بنیاد ہیں۔ مثال کے طور پر ''کیونونQuinone'' ایک خاص قسم کا مالیکیول ہے جو الیکٹرون تبادلے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے یہ مالیکیول زندہ اشیا میں توانائی کے بنیادی تبادلے میں حصہ لیتا ہے۔ ڈیوپانٹ کمپنی کے ڈائریکٹر برائے تحقیق نباتات چارلس آرنزن کے بقول ''تمام بڑے بڑے توانائی تبادلے کیونون کو استعمال کرتے ہیں۔ خواہ یہ عمل پودوں میں ہو رہا ہو، بیکٹیریا میں یا جانوروں کے خلیات میں۔''
ان سوالوں کے جوابات سے حیاتی انجینئرنگ کو بھی خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے چنانچہ اس قسم کی ایک کوشش ابھی جاری ہے جو جیمز بولٹن کر رہے ہیں۔ جیمز بولٹن مغربی اونٹاریو کی شمسی فوٹو کیمیا لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں۔ بولٹن کے ساتھ ساتھ ارگون نیشنل لیبارٹری، ایری زونا یونیورسٹی اور کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بھی ایسی ہی کوشش میں مصروف ہیں ان سب کوششوں کا خلاصا یہ ہے کہ کلوروفل سے ملتا جلتا ایک مالیکیول ''پورفائرن'' دریافت ہوا ہے۔ اس مالیکیول کو کیونون مالیکیول کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور جب پورفائرن پر روشنی پڑتی ہے تو اپنا ایک الیکٹرون خارج کردیتا ہے۔ اس الیکٹرون کو کیونون مالیکیول قبول کرلیتا ہے۔
ان دریافتوں اور مشاہدات کی روشنی میں اب جدید ترین حکمت عملی یہ سامنے آرہی ہے کہ پودوں کو حسب منشا استعمال کرنے کے لیے ان میں جینی تغیرات پر قابو پایا جائے اور کسی بھی جین کو پودے میں داخل کرنے یا خارج کرنے کی بنیاد پر تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں۔ دیکھیں یہ حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے یا آنے والے برسوں میں کوئی نئی دریافت نئے زاویے دکھاتی ہے؟
کاربوہائیڈریٹ کے ساتھ ساتھ، پودوں کی فراہم کردہ ایک اور شے بھی زندگی کا لازمہ ہے۔ اور وہ شے ہے آکسیجن۔
حقیقت تو یہ ہے کہ زندگی نے زمین پر کبھی بھی جنم نہ لیا ہوتا بشرطیکہ اربوں سال پہلے زمین پر فوٹوسنتھے سز کا عمل نہ ہوا ہوتا۔ جس کے نتیجے میں آکسیجن پیدا ہوتی اور زندگی کی اولین ضرورت اس سیارے کو فراہم کی گئی۔
''مختصر الفاظ میں فوٹوسنتھے سز حیاتیات کا بنیادی عمل ہے۔'' امریکا کی بروک ہیون نیشنل لیبارٹری کے حیاتیات کے شعبے کے انچارج حیاتیات دان جون بینٹ کا کہنا ہے ''یہی عمل ہمارے لیے وہ غذا مہیا کرتا ہے جو ہم کھاتے ہیں اور اس عمل کا حامل آکسیجن ہے جس کے ذریعے ہماری سانس برقرار ہے۔''
حیاتیات اور سائنس سے دلچسپی رکھنے والا ہر قاری جانتا ہے کہ فوٹوسنتھے سز کا عمل کس طرح ہوتا ہے۔ کسی بھی پودے کے خلیے کا ایک جز کلوروپلاس ہے۔ کلوروپلاسٹ میں مخصوص ''کلوروفل'' مالیکیول ہوتے ہیں۔ یہ مالیکیول ایسی کیمیائی نوعیت رکھتے ہیں کہ شمسی توانائی کے ''فوٹون'' کے ان سے ٹکرانے پر ''الیکٹرون'' خارج ہونے لگتے ہیں۔ اس طرح کلوروفل مالیکیول مثبت بار حاصل کرلیتے ہیں اور اپنی اس بے اعتدالی کو ختم کرنے کے لیے پانی کا الیکٹرون حاصل کرتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں پانی کا مالیکیول ٹوٹ جاتا ہے آکسیجن کے ساتھ ساتھ ہائیڈروجن کے مثبت آئن خارج ہوتے ہیں۔ یہ مثبت آئن اور منفی الیکٹرون کلوروپلاسٹ کی جھلی یا ممبرین کی مخالف اطراف پر جگہ حاصل کرلیتے ہیں۔ اس طرح کلورو پلاسٹ کے سروں کے درمیان ویسا ہی برقی کیمیائی پوٹنشل پیدا ہوجاتا ہے جیساکہ بیٹری کے سروں کے درمیان ہوتا ہے اور یہ ایک قدرتی بیٹری بن جاتا ہے۔ اس کی توانائی atp مالیکیولوں کا امتزاج کرنے لگتی ہے atp مالیکیول ایسے حیاتیاتی محرکات ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کاربوہائیڈریٹ میں تبدیل کردیتے ہیں۔
مذکورہ بالا بیان باوجود اپنی جامعیت کے مکمل نہیں اور اسی نوعیت کا ہے جیساکہ دماغ کو برقی کیمیائی کمپیوٹرز کا مجموعہ کہا جائے اور اعصاب کو سرکٹ صاف بات تو یہ ہے کہ سائنس دان ابھی تک فوٹو سنتھے سز کی پوری جادوگری سمجھ نہیں پائے ان کے سامنے بے شمار سوالات کا پلندہ موجود ہے جن میں یہ سوال بطور خاص جواب مانگ رہے ہیں:۔
1۔ کلوروپلاسٹ کی جھلی یا ممبرین کے اندر، الیکٹرون کرلیتا ہے۔ لیکن الیکٹرون میں فوراً الٹی چھلانگ مارنے کا رجحان موجود ہے۔ چنانچہ وہ ایسا ہی کرتا ہے اور اس دوران اپنی توانائی کو حرارت کے طور پر خارج کرتا ہے۔
فوٹوسنتھے سز کے دوران پیدا ہونے والے الیکٹران بھی اسی طرح کام کرتے ہیں اور atp امتزاج میں حصہ لینے سے پہلے الٹی چھلانگ لگا کر کلوروفل میں جانا چاہتے ہیں۔ لیکن انھیں ایسا کرنے سے ایک خاص قسم کی پروٹینی ساخت روک دیتی ہے۔ ساخت کے متعلق ابھی محدود علم ہے۔
اس ترکیب سے بولٹن اور دوسرے لوگ جو فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ نباتاتی پروٹین جیسی کوئی شے بناکر الیکٹرون کو الٹی چھلانگ سے روکا جائے۔ اس طرح وہ کافی دیر تک کیونون پر رہے گا۔ اس دوران اسے کیونون سے حاصل کرلیا جائے اور ایک سرکٹ میں بہنے پر مجبور کردیا جائے۔ اس طرح بجلی کا بہاؤ حاصل کرکے بلب روشن کیے جائیں۔
ڈیوپانٹ کے آرنزن کا کہنا ہے کہ انسانی غذائی پیداوار میں نئے اضافوں کا خواہش مند ہے۔ اور اپنے غذائی معیارات بلند کرنا چاہتا ہے تو اسے پودوں اور ان سے متعلق عملیات پر توجہ کرنا ہوگی۔ ڈیوپانٹ کیڑے مار دوائیں بنانے میں عالمی شہرت رکھنے والی کمپنی ہے چنانچہ آرنزن ایسے پودے پیدا کرنے پر کام کر رہا ہے جو جڑی بوٹیوں کے خلاف قدرتی قوت مدافعت رکھتے ہوں فی الوقت جڑی بوٹیاں ختم کرنے کے لیے مخصوص کیمیہ (کیمکلز) استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان کیمیہ کے اثرات فصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔ اس لیے جڑی بوٹیاں ختم کرنے کا موجودہ طریقہ کار مثالی نہیں اور کوشش جاری ہے کہ پودوں کی نئی اور بہتر انواع کے ذریعے اس مسئلے کو بھی حل کیا جائے۔
آرنزن کی کوششیں اس لحاظ سے خصوصی اہمیت رکھتی ہیں کہ 2000 میں ایک ایسی جڑی بوٹی سامنے آئی تھی جو کیمیہ کے خلاف قدرتی قوت مدافعت رکھتی تھی۔ یہ جڑی بوٹی واشنگٹن ریاست کی ایک نرسری میں زیر مطالعہ آتی اور سمجھنے میں کہ جڑی بوٹی کے اندر یہ خصوصیت کیونکر پیدا ہوتی پورے چھ سال لگ گئے۔
دراصل ہوتا یہ ہے کہ زیادہ تر جڑی بوٹی مارنے والے کیمیہ اس پروٹین پر حملہ کرتے ہیں جو الیکٹرون اخراج میں مدد دیتی ہے۔ اس طرح فوٹوسنتھے سز کا عمل رک جاتا ہے اور بوٹی مر جاتی ہے۔ اس کے برعکس ایسی بوٹی میں جو ان کیمیہ کا اثر قبول نہیں کرتی ایک ایسا جینی تغیر واقع ہوتا ہے جو پہلے ہی سے پروٹین کو تبدیل کرچکا ہو۔
اور ہائیڈروجن آئن ایک مالیکیول سے دوسرے تک کیسے پہنچ جاتے ہیں؟
2۔ ان تعاملی مراکز کی ساخت کیسی ہے جن میں فوٹوسنتھے سز کے بنیادی عناصر موجود ہوتے ہیں؟
3۔ فوٹوسنتھے سز عمل کے دوران پانی کا مالیکیول کیونکر ٹوٹتا ہے؟
4۔ پودوں کی جین فوٹوسنتھے سز سے متعلق عملیات پر کیسے قابو رکھتی ہے؟
ان سوالوں کے جوابات سے پودوں کے اندر واقع ہوتے عمل واضح ہوں گے نیز ان بنیادی عملیات پر روشنی پڑے گی جو حیاتیات کی بنیاد ہیں۔ مثال کے طور پر ''کیونونQuinone'' ایک خاص قسم کا مالیکیول ہے جو الیکٹرون تبادلے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے یہ مالیکیول زندہ اشیا میں توانائی کے بنیادی تبادلے میں حصہ لیتا ہے۔ ڈیوپانٹ کمپنی کے ڈائریکٹر برائے تحقیق نباتات چارلس آرنزن کے بقول ''تمام بڑے بڑے توانائی تبادلے کیونون کو استعمال کرتے ہیں۔ خواہ یہ عمل پودوں میں ہو رہا ہو، بیکٹیریا میں یا جانوروں کے خلیات میں۔''
ان سوالوں کے جوابات سے حیاتی انجینئرنگ کو بھی خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے چنانچہ اس قسم کی ایک کوشش ابھی جاری ہے جو جیمز بولٹن کر رہے ہیں۔ جیمز بولٹن مغربی اونٹاریو کی شمسی فوٹو کیمیا لیبارٹری کے ڈائریکٹر ہیں۔ بولٹن کے ساتھ ساتھ ارگون نیشنل لیبارٹری، ایری زونا یونیورسٹی اور کیلی فورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی بھی ایسی ہی کوشش میں مصروف ہیں ان سب کوششوں کا خلاصا یہ ہے کہ کلوروفل سے ملتا جلتا ایک مالیکیول ''پورفائرن'' دریافت ہوا ہے۔ اس مالیکیول کو کیونون مالیکیول کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے اور جب پورفائرن پر روشنی پڑتی ہے تو اپنا ایک الیکٹرون خارج کردیتا ہے۔ اس الیکٹرون کو کیونون مالیکیول قبول کرلیتا ہے۔
ان دریافتوں اور مشاہدات کی روشنی میں اب جدید ترین حکمت عملی یہ سامنے آرہی ہے کہ پودوں کو حسب منشا استعمال کرنے کے لیے ان میں جینی تغیرات پر قابو پایا جائے اور کسی بھی جین کو پودے میں داخل کرنے یا خارج کرنے کی بنیاد پر تبدیلیاں عمل میں لائی جائیں۔ دیکھیں یہ حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے یا آنے والے برسوں میں کوئی نئی دریافت نئے زاویے دکھاتی ہے؟