ظلم وستم انتہا پر
آخری سوال روٹی کا ہے، ملک بھر، خاص کر سندھ کے کسان اور ہاری غذائی قلت کا شکار ہیں۔
کوئی ایسا دن نہیں گذرتا ہے جب کوئی بچی اغوا نہ ہو،کوئی خاتون تشدد کا شکار نہ ہو،کوئی عورت کاروکاری کے الزام میں قتل نہ ہو یا اس کے گھر والوں نے خود قتل نہ کیا ہو یا مسلح افراد نے اغوا کرنے کے بعد زیادتی کرکے قتل نہ کیا ہو ۔ آگاہی اور سہولتوں کی شدید قلت کے باوجود پا کستان میں سالانہ بارہ ہزار خواتین 16700 بچے دوران زچگی ہلاک ہو تے ہیں۔
خیبر پختون خوا میں سالانہ 1700خواتین دوران زچگی جاں بحق ہوتی ہیں، اس کی بڑی وجہ بیٹا پیدا کرنے کی خواہش اور مانع حمل ادویات کے استعمال میں کمی ہے۔ پاپولیشن کونسل آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال لگ بھگ 5 لاکھ ساٹھ ہزار خواتین نے اپنی مرضی کے بغیر بچوں کو جنم دیا ، جس کی بڑی وجہ پسماندہ علاقوں میں مانع حمل ادویات کے استعمال کا فقدان ہے ۔
ایک خاتون کو اس کے شوہر نے اپنے چار دوستوں کے سامنے جبرا رقص کرنے کا حکم دیا اور انکار کرنے پر اس کا سرمنڈایا گیا اور جب وہ تھانے ایف آئی آرکٹوانے گئی تو اس سے پولیس والوں نے رقم طلب کی جب کہ اس کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھی۔ '' رہبر بھی یہاں بن گئے ہیں رہزن'' ۔ میں اس خاتون کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے شوہرکے کہنے پر اس کے دوستوں کے سامنے رقص کرنے کی بجائے سر تو منڈوالیا مگر شوہر کی بیہودگی اورکمینگی کو ماننے سے انکارکردیا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تھانے دار فوری طور پر تھانے میں بیوی سے بھی شوہرکا سر منڈواتا ۔ابھی حال میں خیبر پختون خوا کی حکومت نے 9 شہروں میں 10برس سے یونیسیف کی جانب سے چلائے جانے والے child protection and welfareکے ادارے کا بوریا بستر گول کردیا، اگر وہاں سے فنڈ آنا بند ہوگیا ہے تو حکومت کو خود چاہیے کہ اسے اپنے بجٹ سے جاری رکھتی۔ محنت کش ہی پیداوار دیکر سب کا پیٹ پالتے ہیں ۔
مکان بنانے والوں کے پاس مکان نہیں،کپڑا بنانے والوں کے پاس کپڑے نہیں، جوتا بنانے والوں کے پاس جوتے نہیں اورگندم اگا نے والوں کے پاس گندم نہیں۔ اس طبقاتی نظام میں صاحب جائیداد طبقات کی ریاست محافظ ہوتی ہے۔ کراچی ، لاہور اور دیگر شہروں میں غریبوں کے دہائیوں سے بنے ہوئے مکانات اور دکانوں کو ڈھایا جارہا ہے۔ یہ ہے طبقاتی نظام کا تضاد۔اس لیے جب تک اس طبقاتی نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا، عوام کی بھلائی ایک خواب بن کے رہ جائے گی۔ کچھ عرصے قبل لورا لائی میں پروفیسر امان لونی اور بہاول پور میں پروفیسر خالد محمود کے قتل پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے خاطر خواہ رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ مشال خان کے 26 قاتلوں کو بھی رہا کردیا گیا۔ان سارے عوامل میں سہولت کاروں اور ریاست کے بعض کارندے بھی شریک ہیں، ان کی بھی تفتیش ہونی چاہیے جس طرح سے بنگلہ دیش میں کیا گیا اور وہاں دہشت گردی میں خاصی حد تک کمی آئی ہے ۔
بہرحال آخری سوال روٹی کا ہے، ملک بھر، خاص کر سندھ کے کسان اور ہاری غذائی قلت کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس عدالتی فیصلے کے باوجود انھیں گنے کی اور چاول کی جائز قیمت نہیں ملی، اب گندم کی باری ہے ۔ یہاں ابھی تک حکومت کی جانب سے فروخت کے لیے سرکاری نرخ مقرر نہیں کیے گئے، اگر کسانوں کوگندم کی جائز قیمت نہ ملی تو وہ بھوک سے تو مریں گے ہی بلکہ آیندہ آنے والے برسوں میں گندم کی کاشت زیادہ نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ان کو مناسب قیمت نہیں ملے گی، پھرحکومت کوگندم درآمد کرنی پڑے گی، جب کہ پہلے حکومت گندم برآمد کرتی تھی اور برآمدگی میں کمی کے سبب ملک کے زرمبادلہ میں کمی آئے گی اور معاشی ابتری میں مزید اضافہ ہوگا ۔اس وقت حکومت، پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کررہی ہے جب کہ پاکستان کا ہر پانچواں آدمی غذائی قلت کا شکار ہے۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاوری کرتے ہوئے بجلی کے نرخوں میں دو روپے فی یونٹ، پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر چھ روپے اضافہ کرکے اور روپے کی قدر میں مزیدکمی کرنے کی شرط کو مان کر پاکستان کے نوے فیصد محنت کش اور پیداواری قوتوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے۔ یہ صورتحال عالمی سرمایہ داری کی انحطاط پذیری کا ہی ایک حصہ ہے ۔ جس کا اظہار فرانس میں پیلی جیکٹ تحریک،الجزائرکی تحریک ، سوڈان اور برازیل کی تحریک کے ذریعے ہورہا ہے۔ چین میں بھی ہزاروں ہڑتالیں ہورہی ہیں، جن میں بہت سے مطالبات مزدوروں نے منوائے بھی ہیں۔
اس وقت چین کی 50 کروڑکی آ بادی روزانہ دو ڈالر سے کم کماتی ہے اور اسی چین میں 20 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں جب کہ پیپلزکانگریس (اسمبلی ) میں 200 ارب پتی مو جود ہیں ۔ اب وہ دن جلد قریب آرہا ہے کہ خطے کے عوام سامراج کے تسلط سے آزادی حاصل کرکے ایک غیر طبقاتی سوسائٹی قائم کرکے دنیا کو ایک کردیں گے ، جہاں بھوک ، افلاس ، غربت اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ ہوجائے گا۔
خیبر پختون خوا میں سالانہ 1700خواتین دوران زچگی جاں بحق ہوتی ہیں، اس کی بڑی وجہ بیٹا پیدا کرنے کی خواہش اور مانع حمل ادویات کے استعمال میں کمی ہے۔ پاپولیشن کونسل آف پاکستان کی سالانہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال لگ بھگ 5 لاکھ ساٹھ ہزار خواتین نے اپنی مرضی کے بغیر بچوں کو جنم دیا ، جس کی بڑی وجہ پسماندہ علاقوں میں مانع حمل ادویات کے استعمال کا فقدان ہے ۔
ایک خاتون کو اس کے شوہر نے اپنے چار دوستوں کے سامنے جبرا رقص کرنے کا حکم دیا اور انکار کرنے پر اس کا سرمنڈایا گیا اور جب وہ تھانے ایف آئی آرکٹوانے گئی تو اس سے پولیس والوں نے رقم طلب کی جب کہ اس کے پاؤں میں چپل بھی نہیں تھی۔ '' رہبر بھی یہاں بن گئے ہیں رہزن'' ۔ میں اس خاتون کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے شوہرکے کہنے پر اس کے دوستوں کے سامنے رقص کرنے کی بجائے سر تو منڈوالیا مگر شوہر کی بیہودگی اورکمینگی کو ماننے سے انکارکردیا ۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تھانے دار فوری طور پر تھانے میں بیوی سے بھی شوہرکا سر منڈواتا ۔ابھی حال میں خیبر پختون خوا کی حکومت نے 9 شہروں میں 10برس سے یونیسیف کی جانب سے چلائے جانے والے child protection and welfareکے ادارے کا بوریا بستر گول کردیا، اگر وہاں سے فنڈ آنا بند ہوگیا ہے تو حکومت کو خود چاہیے کہ اسے اپنے بجٹ سے جاری رکھتی۔ محنت کش ہی پیداوار دیکر سب کا پیٹ پالتے ہیں ۔
مکان بنانے والوں کے پاس مکان نہیں،کپڑا بنانے والوں کے پاس کپڑے نہیں، جوتا بنانے والوں کے پاس جوتے نہیں اورگندم اگا نے والوں کے پاس گندم نہیں۔ اس طبقاتی نظام میں صاحب جائیداد طبقات کی ریاست محافظ ہوتی ہے۔ کراچی ، لاہور اور دیگر شہروں میں غریبوں کے دہائیوں سے بنے ہوئے مکانات اور دکانوں کو ڈھایا جارہا ہے۔ یہ ہے طبقاتی نظام کا تضاد۔اس لیے جب تک اس طبقاتی نظام کا خاتمہ نہیں ہوگا، عوام کی بھلائی ایک خواب بن کے رہ جائے گی۔ کچھ عرصے قبل لورا لائی میں پروفیسر امان لونی اور بہاول پور میں پروفیسر خالد محمود کے قتل پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے خاطر خواہ رد عمل ظاہر نہیں کیا۔ مشال خان کے 26 قاتلوں کو بھی رہا کردیا گیا۔ان سارے عوامل میں سہولت کاروں اور ریاست کے بعض کارندے بھی شریک ہیں، ان کی بھی تفتیش ہونی چاہیے جس طرح سے بنگلہ دیش میں کیا گیا اور وہاں دہشت گردی میں خاصی حد تک کمی آئی ہے ۔
بہرحال آخری سوال روٹی کا ہے، ملک بھر، خاص کر سندھ کے کسان اور ہاری غذائی قلت کا شکار ہیں۔ گزشتہ برس عدالتی فیصلے کے باوجود انھیں گنے کی اور چاول کی جائز قیمت نہیں ملی، اب گندم کی باری ہے ۔ یہاں ابھی تک حکومت کی جانب سے فروخت کے لیے سرکاری نرخ مقرر نہیں کیے گئے، اگر کسانوں کوگندم کی جائز قیمت نہ ملی تو وہ بھوک سے تو مریں گے ہی بلکہ آیندہ آنے والے برسوں میں گندم کی کاشت زیادہ نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ ان کو مناسب قیمت نہیں ملے گی، پھرحکومت کوگندم درآمد کرنی پڑے گی، جب کہ پہلے حکومت گندم برآمد کرتی تھی اور برآمدگی میں کمی کے سبب ملک کے زرمبادلہ میں کمی آئے گی اور معاشی ابتری میں مزید اضافہ ہوگا ۔اس وقت حکومت، پانچ لاکھ ٹن گندم برآمد کررہی ہے جب کہ پاکستان کا ہر پانچواں آدمی غذائی قلت کا شکار ہے۔
ابھی حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے احکامات کی بجاوری کرتے ہوئے بجلی کے نرخوں میں دو روپے فی یونٹ، پٹرول کی قیمت میں فی لیٹر چھ روپے اضافہ کرکے اور روپے کی قدر میں مزیدکمی کرنے کی شرط کو مان کر پاکستان کے نوے فیصد محنت کش اور پیداواری قوتوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے گڑھے میں دھکیل رہی ہے۔ یہ صورتحال عالمی سرمایہ داری کی انحطاط پذیری کا ہی ایک حصہ ہے ۔ جس کا اظہار فرانس میں پیلی جیکٹ تحریک،الجزائرکی تحریک ، سوڈان اور برازیل کی تحریک کے ذریعے ہورہا ہے۔ چین میں بھی ہزاروں ہڑتالیں ہورہی ہیں، جن میں بہت سے مطالبات مزدوروں نے منوائے بھی ہیں۔
اس وقت چین کی 50 کروڑکی آ بادی روزانہ دو ڈالر سے کم کماتی ہے اور اسی چین میں 20 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں جب کہ پیپلزکانگریس (اسمبلی ) میں 200 ارب پتی مو جود ہیں ۔ اب وہ دن جلد قریب آرہا ہے کہ خطے کے عوام سامراج کے تسلط سے آزادی حاصل کرکے ایک غیر طبقاتی سوسائٹی قائم کرکے دنیا کو ایک کردیں گے ، جہاں بھوک ، افلاس ، غربت اور طبقاتی تفریق کا خاتمہ ہوجائے گا۔