سندھ حکومت کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے بجلی واجبات ادا کرنے کا حکم
سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کی بجلی کاٹنے سے روک دیا
سپریم کورٹ نے واجبات کی عدم ادائیگی سے متعلق کیس میں کے الیکٹرک کو شہری حکومت کی بجلی کاٹنے سے روکتے ہوئے سندھ حکومت کو 5 قسطوں میں 58 کروڑ کے واجبات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علیشاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو شہری حکومت پر کے الیکٹرک کے 58 کروڑ سے زائد واجبات کی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ میں کے الیکٹرک کے بل کی ادائیگی نہیں کر سکتا، میرے پاس تو ملازمین کو دینے کے لیے پیسے نہیں، پراپرٹی، چارجڈ پارکنگ، لائسنس فیس سب ریونیو تو سندھ حکومت لے جاتی ہے۔
کے الیکٹرک کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ کے ایم سی اور سندھ حکومت اپنے معاملات خود دیکھے ہمیں ہمارے واجبات دلوائے جائیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت مزید فنڈز نہیں دیتی سکتی، کے ایم سی میں ہزاروں جعلی ملازمین ہیں، کے ایم سی کو اس کے حصے کے فنڈز دے رہے ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کراچی اتنا ریونیو دیتا ہے اس کی دیکھ بھال کون کرے گا، سندھ حکومت اس شہر کو معمولی کیوں سمجھ رہی ہے، اگر شہر کی بجلی کٹ گئی تو احساس ہے اس کا کیا ہوگا، اس شہر سے اتنا ریونیو لیتے ہیں، کیا اس پر خرچ نہیں کرنا، ہمارے نرم رویے کو سندھ حکومت غیر سنجیدہ نہ لے۔
جسٹس سجاد علیشاہ نے کہا کہ سارا ریونیو تو سندھ حکومت لے جاتی ہے، کیا کے ایم سی خلائی مخلوق ہے، سندھ حکومت اپنا کیوں نہیں سمجھتی، سیاسی کھینچا تانی کی وجہ سے شہریوں کا بیڑا غرق ہو رہا ہے، کیا اس شہر کو اندھیرے میں ڈبونا چاہتے ہیں، اس طرح تو شہر کی سانس بند ہو جائے گی، یہ شہر تو ملک کی لائف لائن (زندگی) ہے۔
سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کو شہری حکومت کے محکموں کی بجلی کاٹنے سے روکتے ہوئے سندھ حکومت کو 5 قسطوں میں 58 کروڑ واجبات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ اپریل سے کے ایم سی ماہانہ بل خود ادا کرے، واجبات اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ کے ایم سی اور سندھ حکومت خود بیٹھ کر حل کرے۔
سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس مقبول باقر اور جسٹس سجاد علیشاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو شہری حکومت پر کے الیکٹرک کے 58 کروڑ سے زائد واجبات کی ادائیگی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ میں کے الیکٹرک کے بل کی ادائیگی نہیں کر سکتا، میرے پاس تو ملازمین کو دینے کے لیے پیسے نہیں، پراپرٹی، چارجڈ پارکنگ، لائسنس فیس سب ریونیو تو سندھ حکومت لے جاتی ہے۔
کے الیکٹرک کے وکیل عابد زبیری نے کہا کہ کے ایم سی اور سندھ حکومت اپنے معاملات خود دیکھے ہمیں ہمارے واجبات دلوائے جائیں۔
سندھ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف اختیار کیا کہ سندھ حکومت مزید فنڈز نہیں دیتی سکتی، کے ایم سی میں ہزاروں جعلی ملازمین ہیں، کے ایم سی کو اس کے حصے کے فنڈز دے رہے ہیں۔
جسٹس مقبول باقر نے ریمارکس دیے کراچی اتنا ریونیو دیتا ہے اس کی دیکھ بھال کون کرے گا، سندھ حکومت اس شہر کو معمولی کیوں سمجھ رہی ہے، اگر شہر کی بجلی کٹ گئی تو احساس ہے اس کا کیا ہوگا، اس شہر سے اتنا ریونیو لیتے ہیں، کیا اس پر خرچ نہیں کرنا، ہمارے نرم رویے کو سندھ حکومت غیر سنجیدہ نہ لے۔
جسٹس سجاد علیشاہ نے کہا کہ سارا ریونیو تو سندھ حکومت لے جاتی ہے، کیا کے ایم سی خلائی مخلوق ہے، سندھ حکومت اپنا کیوں نہیں سمجھتی، سیاسی کھینچا تانی کی وجہ سے شہریوں کا بیڑا غرق ہو رہا ہے، کیا اس شہر کو اندھیرے میں ڈبونا چاہتے ہیں، اس طرح تو شہر کی سانس بند ہو جائے گی، یہ شہر تو ملک کی لائف لائن (زندگی) ہے۔
سپریم کورٹ نے کے الیکٹرک کو شہری حکومت کے محکموں کی بجلی کاٹنے سے روکتے ہوئے سندھ حکومت کو 5 قسطوں میں 58 کروڑ واجبات ادا کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ اپریل سے کے ایم سی ماہانہ بل خود ادا کرے، واجبات اور اختیارات کی تقسیم کا معاملہ کے ایم سی اور سندھ حکومت خود بیٹھ کر حل کرے۔