بھارت ڈوزیئر کے سوالات کا جواب دے

پلوامہ واقعہ تازہ کیس ہے حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے اولین فرصت میں مودی سرکار کو تحقیقات کی پیشکش کی۔

پلوامہ واقعہ تازہ کیس ہے حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے اولین فرصت میں مودی سرکار کو تحقیقات کی پیشکش کی۔ فوٹو: فائل

ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے اسلام آباد میں میڈیا بریفنگ کے دوران بتایا ہے کہ پاکستان نے پلوامہ حملے پر بھارت سے مزید قابل عمل معلومات مانگی ہیں، سوالات کا نیا سیٹ ان کے حوالے کیا گیا ہے لیکن بھارت نے ابھی تک پہلے8سوالات کا ہی جواب نہیں دیا، امید ہے نئے سوالات کا جواب جلد دیگا۔

تاہم بھارت اس کا جو جواب دے گا وہ یہی ہو گا ''ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا۔'' یہ بھارتی وطیرہ ہے۔ پاکستان نے ڈوزیئر کے حوالہ سے مزید معلومات مہیا کرتے ہوئے بغیر کوئی وقت ضایع کیے گزشتہ روز بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنرگورو آہلووالیہ کو دفتر خارجہ طلب کر کے ان سے پوچھا کہ بھارتی ڈوزیئر پر پاکستان کے سوالوں کے جواب ابھی تک کیوں نہیں دیے گئے؟

اس استفسار کی سفارتی ضرورت بھارت کے تاریخی طرز عمل اور حل طلب تنازعات کے سلسلہ میں اس کا مخاصمانہ اور دو رخی رویہ سے منسلک ہے، مودی سرکار حقیقت میں پلوامہ واقعہ کا ملبہ پاکستان پر گرانے کے سنگین مغالطہ میں گرفتار ہوئی ہے، لہذا دفتر خارجہ کا یہ مستحسن اقدام ہے کہ اس ترجمان نے بھارتی سفارت کار کو بلا کر اس پہلوتہی یا دانستہ تاخیر کی بابت معلومات لیں۔

دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ پلوامہ حملے سے متعلق بھارت کی جانب سے بھیجے گئے ڈوزیئر میں کالعدم تنظیموں کے جن کارندوں کا ذکر کیا گیا تھا پاکستان نے ان کو گرفتار کیا لیکن بھارت نے ڈوزیئر پر پاکستان کے سوالوں کے جوابات نہیں دیے۔ ان سوالوں میں بھارت سے پوچھا گیا تھا کہ وہ بتائے کہ کالعدم جیش محمد کا مبینہ ترجمان محمد حسن کون ہے؟ تمام متعلقہ تفصیلات فراہم کی جائیں۔


پاکستان نے مبینہ ترجمان کے سم کارڈ کا بھی مکمل ریکارڈ طلب کیا ہے کہ یہ سم کارڈ کس فون میں استعمال کیا گیا؟ کس نمبر پر استعمال کیا گیا؟ اس کا آئی پی ایڈریس کیا ہے؟ اس پر کہاں کہاں واٹس ایپ کالز کی گئیں؟ یہ کالز کن نمبروں پر کی گئیں؟ سم کارڈز کا ڈیٹا بھی فراہم کرنے کو کہا گیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے ایک بار پھر بھارت سے کہا گیا ہے کہ وہ قابل عمل ثبوت اور شواہد فراہم کرے پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون کیا جائے گا۔

اگر ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو بھی پتا چلتا ہے کہ دہشتگردی کے ہر اندرونی واقعہ کی فوری تحقیقات سے قبل بھارت پاکستان پر الزام ہی لگاتا رہا جب کہ خود اس کے تفتیشی ادارے، سابق عسکری چیفس اور میڈیا اینکرز بھارتی حکام کی ہیجانی کیفیت کا بھانڈہ پھوڑتے ہیں اور چند دنوں میں ملکی و عالمی سطح پر بھارتی میڈیا کا یک طرفہ شور وغوغا پانی کے بلبلے کی طرح بیٹھ جاتا ہے، مگر بھارت کا مائنڈ سیٹ بدستور پاکستان سے مستقل مخاصمت سے جڑا ہوا ہے اس لیے کسی بھی واقعہ یا دیرینہ تنازع کے حل کی کوئی بھی کوشش پاکستان کی مخلصانہ پیشکش کے باوجود بھارتی معقولیت پر مبنی نہیں رہی ۔ پلوامہ ٹریجیڈی میں بھی مودی سرکار کا ذہن اپنے فوجیوں کی الم ناک موت پر غم ناکی اور تحقیقاتی عمل کی شفافیت اور اپنی داخلی سیکیورٹی ڈیزاسٹر کے اعتراف سے انکارپراستوار ہے۔

چنانچہ بھارت میں دہشتگردی کے پچھلے واقعات کا بھی اگر غیرجانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو ان تمام واقعات کے سیاق و سباق میں پاکستان پر بلیم گیم میں کوئی فرق نہیں آیا۔ پاکستان نے ممکنہ طور پر سفارتکارانہ اقدار اور باریکیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بھارت سے ہمیشہ شواہد اور دستاویزات کی فراہمی کے لیے کہا مگر واقعات کی حقائق کی بنیاد پر چھان بین سے زیادہ بھارت کی کوشش ہوتی کہ جھوٹ، الزام تراشی اور میڈیا ٹرائل سے پاکستان کے خلاف جی بھر کے پوائنٹ اسکورنگ کی جائے۔

پلوامہ واقعہ تازہ کیس ہے حالانکہ وزیراعظم عمران خان نے اولین فرصت میں مودی سرکار کو تحقیقات کی پیشکش کی، لیکن دنیا نے دیکھ لیا کہ ایک ڈوزیئر کے جواب دینے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ دوسری جانب پاکستان نے واضح کیا کہ پاکستان کے خلاف بھارتی حملے کی ٹھوس انٹیلی جنس معلومات ہیں، اگر جارحیت کی گئی تو اسی طرح منہ توڑ جواب دیا جائیگا جس طرح27 فروری کو دیا گیا تھا ۔ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکرات چاہتا ہے لیکن ان مذاکرات کو پاکستان کی کمزوری نہیں سمجھنا چاہیے۔

ترجمان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری کو بتایا کہ مقبوضہ کشمیر سے تشویشناک خبریں مل رہی ہیں۔ حریت رہنماء یاسین ملک کو بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں منتقل کرنا، میر واعظ عمر فاروق کو این آئی اے میں پیش ہونے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔ پاکستان نے ان اقدامات کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ عالمی برادری بھارتی مظالم رکوانے میں کردار ادا کرے ۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی سیکولرازم اور جمہوری تاریخ ایک نازک دور سے گزر رہی ہے۔ بھارتی حکمراں چاہیں تو بھارتی فرسودہ سیاست کا دھارا موڑ سکتے ہیں، کشمیر ایشو کو حل کر کے خطے میں امن کی نئی تاریخ رقم کی جا سکتی ہے۔
Load Next Story