مہنگائی اور حکومت
مہنگائی عوام کی زندگی پر براہ راست اثر کرتی ہے اور عوام بے چارے کسی سے گلہ کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت کے جسم سے سنگین مسائل آکاس بیل کی طرح چمٹے ہوئے ہیں اور وہ ان مسائل کو حل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے لیکن عوام سے جڑے بعض سنگین مسائل ایسے ہیں جنھیں آسانی سے حل کیا جاسکتا ہے۔
ان مسائل میں سے ایک مسئلہ مہنگائی کا ہے جس نے غریب عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ایک مہنگائی وہ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ اس مہنگائی کو کوئی مائی کا لال اس وقت تک ختم نہیں کرسکتا جب تک سرمایہ دارانہ نظام باقی ہے لیکن بعض عوامی مسائل ایسے ہیں جنھیں ایک منظم طریقے سے عمل پیرا ہوکر ختم نہ سہی کم کیا جاسکتا ہے۔
ان مسائل میں ایک مسئلہ مہنگائی کا ہی ہے جس سے عوام براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ جیساکہ ہم نے وضاحت کی ہے سرمایہ دارانہ نظام سے جڑے ہوئے مسائل کو حل کرنا، اس نظام کو ختم کیے بغیر ممکن نہیں لیکن ایک مہنگائی وہ ہوتی ہے جو تاجر طبقے کی لائی ہوئی ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ مہنگائی اس قدر تیز رفتار ہے کہ اس کے پیچھے دوڑنے والوں کی ٹانگیں جواب دے جاتی ہیں لیکن یہ مہنگائی قابو میں نہیں آتی اگر حکومت میں عوام دوست نظریاتی لوگ موجود ہوں تو اس مہنگائی کے گلے میں رسی ڈالی جاسکتی ہے ۔
مثال کے طور پر روز مرہ استعمال کی اشیا سبزی، گوشت، انڈے وغیرہ ہیں، ہم غریب طبقات کی غیر مشروط حمایت کرتے آئے ہیں لیکن زیادہ سے زیادہ کمانے کی خواہش غریب کو غریب کے استحصال پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہ اس شیطانی نظام کا کارنامہ ہے جسے دنیا سرمایہ دارانہ نظام کے نام سے جانتی ہے۔ اس نظام میں نچلی سطح پر بھی قیمتوں میں کمی بیشی کا ایک ایسا سلسلہ جاری رہتا ہے جو عام آدمی کے لیے مشکلات کا باعث بنتا ہے ہمارے ملک میں قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے پرائس کنٹرول کمیشن کے نام پر ہزاروں اہلکاروں پر مشتمل ایک محکمہ قائم ہے اس محکمے کا کام اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہے۔
اشیائے صرف کی قیمتوں میں بلاجواز ظالمانہ اضافے کا اندازہ اس شرمناک حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ چکن آج دو سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہے تو کل بلا کسی جواز کے 300 سے زیادہ قیمت پر فروخت کا سلسلہ جاری رہتا ہے جن کا نوٹس اس لیے نہیں لیا جاتا کہ نچلی سطح سے اوپر کی سطح تک بھتے کا ایک پرائیویٹ نظام قائم ہے اور رشوت کی تقسیم نہایت ایماندارانہ طریقے سے کی جاتی ہے، جب پرائس کنٹرول کرنے والوں کی جیبوں میں بھاری رقم آجاتی ہے تو قیمتوں میں اضافے کو کون روک سکتا ہے؟
ہم نے اس بات کی نشان دہی کردی ہے کہ ایک مہنگائی سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ہوئی ہے۔ ایک تاجروں اور صنعت کاروں کی ایجاد ہے۔ تاجر اور صنعت کار بھاری منافع کے لالچ میں اشیائے صرف کی قیمتیں اپنی مرضی سے بڑھا دیتے ہیں۔ پاکستان میں پرائس کنٹرول کمیشن مہنگائی کی روک تھام میں بری طرح ناکام ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ کرپشن کی بھرمار ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا کوئی جواز ہوتا ہے۔ہم نے اس حوالے سے مثال بھی دی ہے کہ آج چکن کی قیمت 200 روپے کلو ہے تو دوسرے دن اسی چکن کو تین سو روپے فروخت کیا جا رہا ہے ایسے کھلے جرائم کی روک تھام کی ذمے داری کس پر آتی ہے؟ عوام چونکہ مہنگائی سے بری طرح متاثر ہیں اور مہنگائی روکنے والا کوئی نہیں ہے تو عوام اس ظالمانہ مہنگائی کی ذمے داری حکومت پر ڈالنے میں بالکل حق بجانب ہیں۔
مہنگائی عوام کی زندگی پر براہ راست اثر کرتی ہے اور عوام بے چارے کسی سے گلہ کرنے کے بھی قابل نہیں رہتے اپوزیشن نان ایشوز پر سیاست کرتی ہے۔ اپوزیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک کے برننگ ایشوز پر احتجاج کرے اور برننگ ایشو میں مہنگائی سرفہرست ہے۔ کیا حکومت کے خلاف پروپیگنڈے میں وقت ضایع کرنے والی اپوزیشن مہنگائی کے خلاف احتجاج کر رہی ہے؟
اس سوال کا جواب بہت مایوس کن ہے اپوزیشن کی ساری توجہ ساری کوششوں کامرکز حکومت کے خلاف طوفانی پروپیگنڈہ ہے۔ اپوزیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ عوام پر ہونے والے مظالم کے خلاف آواز اٹھائے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اپوزیشن کی ساری کوششیں حکومت کو کمزور کرنے میں لگی ہوئی ہیں۔ اپوزیشن تحریک انصاف کی حکومت کو ایک لمحہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ جب کہ 2008 سے 2018 تک آج کی اپوزیشن کسی خوف کسی خدشے کے بغیر اقتدار کی مدت پوری کرتی رہی ہے۔
تحریک انصاف لمبے لمبے پراجیکٹس پر سر کھپا رہی ہے لیکن اسے عوامی زندگی پر براہ راست اثرانداز ہونے والے مسائل پر توجہ دینے کی فرصت نہیں حکومت کی اس لاپرواہی اور غیر ذمے داری کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے حکومت کی اولین ذمے داری ہے کہ وہ اشیائے صرف کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے والے اداروں کی غیر ذمے داری اور کرپشن کے خلاف سخت ترین اقدامات کرے اور ان اداروں خصوصاً پرائس کنٹرول کمیشن میں کرپشن کی روک تھام کے لیے سخت ترین اقدامات کرے۔