فلاحی ریاست
کیا ایک منصفانہ اور ویلفیئر ریاست ان کے ذہن میں ہے‘ کیا وہ ملک کے سیاسی اور جوڈیشل نظام کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت سنبھالنے کے بعد 20اگست 2018کو وزیر اعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میںپاکستان کو ''ریاست مدینہ'' کی طرز کی ریاست بنانے کا اعلان کیا اور اس کے بعد بھی کئی مواقعے پر وہ اس اعلان کا اعادہ کرچکے ہیں' اس سلسلے میں ان کا ارادہ مضبوط معلوم ہوتا ہے۔آج ریاست مدینہ پر روشنی ڈالیں گے کہ اس سے ان کی مراد کیا ہے؟۔
ان کا کہنا ہے کہ نیا پاکستان بہت جلد ساتویں صدی کی ریاست مدینہ جیسا ہوگا ' ہر مسلمان ریاست مدینہ کو سیاسی' معاشی'سماجی اورامن کے لحاظ سے ایک مکمل ریاست سمجھتا ہے لیکن عمران خان واضح طور پر اس ریاست کے خد و خال بیان نہیں کر رہے کہ ان کی ریاست اصل ریاست مدینہ کے کتنے قریب ہوگی؟۔
کیا ایک منصفانہ اور ویلفیئر ریاست ان کے ذہن میں ہے' کیا وہ ملک کے سیاسی اور جوڈیشل نظام کو ٹھیک کرنا چاہتے ہیں'عوام کے لیے ایک فلاحی ریاست کا قیام 'جو عوام کی ضروریات کا خیال رکھ سکے واقعی ایک بہت ہی اچھا ارادہ ہے۔
موجودہ حکومت کو تقریباً آٹھ مہینے ہونے کوہیں'محاورے کے بقول تو بہادر بچے کے پاؤں پالنے میں پہچانے جاتے ہیں لیکن اس بچے یا حکومت کی حرکات تو ابتدائی دن سے ایسی ہیں کہ ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ کمپنی چلنے والی نہیں ہے 'اس حکومت سے بہتر توقعات وابستہ کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں لیکن ان کے پیچھے جو قوتیں ہیں ان کی خدمت میں کچھ گزارشات پیش کرنا شاید غلط نہ ہوگا' بلکہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ
؎شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
ریاست کے وجود میں آنے کے متعلق سیاسی دانشوروں کی طرف سے مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں' سرمایہ دار دنیا میں ان میں سب سے زیادہ قبول عام تھامس ہابس'جان لاک اور روسو کا نظریہ عمرا نی معاہدہ(Social Contract) ہے' اس نظریے کے مطابق' جب انسان فطرت پر کلی انحصار کی ابتدائی سوشل ازم کی جنگلوں اور غاروں کی زندگی' کو چھوڑ کر مہذب زندگی میں داخل ہوا' تو تاریخ کے کسی مرحلے میں انھوں نے آپس میں ایک ''سماجی یا عمرانی معاہدہ'' کیا۔
اس معاہدے کے نتیجے میں سول سوسائٹی یا ''ریاست ''وجود میں آئی 'رعایا اور حکمرانوں کے درمیان 'اس سماجی یا عمرانی معاہدے کے تحت حقوق اور فرائض کا تعین کیا گیا'عوام نے اپنی آزادی ریاست کے قوانین کے تابع کردی اور بدلے میں ریاست نے' عوام کے جان و مال کی حفاظت'تعلیم 'صحت اور فلاح و بہبود کی ذمے داری اٹھائی' اس معاہدے کی بنیادی شرط ہی ایک ویلفیئر اسٹیٹ کا قیام تھا'تاکہ عوام ایک منظم معاشرے یا ریاست میں بہتر زندگی گزارسکیں۔
'' ویلفیئر اسٹیٹ'' یا فلاحی ریاست میں عوام کو بنیادی اہمیت حاصل ہوتی ہے 'عوام کی جان و مال کا تحفظ 'تعلیم' صحت'روزگار 'معیشت 'حقوق اور دوسرے مسائل کے حل کو اولیت حاصل ہوتی ہے' ایسی ریاست میںقومی مفاد کا تعین' عوامی حقوق کی بنیاد پرہوتا ہے 'قومی مفاد کا تقاضہ ہوتا ہے کہ عوام کو پینے کا صاف پانی ملے 'اگر ہیضہ'ملیریا 'ڈینگی یا ٹی بی پھیل رہا ہے 'تو اس کی روک تھام کے لیے وسائل مختص کرنا' قومی مفاد کا سب سے بڑا تقاضا ہے' اگر بچوں کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں تو انھیں تعلیم دلانا ریاست کا اولین فریضہ ہے 'روزگار عوام کا بنیادی حق ہے اگر اس کے مواقعے موجود نہیں تو پھر قومی مفاد خطرے میں ہے 'اگر عوام کو جان ومال کا تحفظ حاصل نہیں تو یہ ریاست کے قومی مفاد کے خلاف ہے اور ضروری ہے کہ ساری توجہ اس طرف صرف کی جائے۔ ویلفیئر اسٹیٹ میں ریاست کا دفاع یا اس کی جغرافیائی سلامتی کو نظر انداز نہیں کیا جاتا لیکن ترجیح اور تقدم بہر حال عوام کو حاصل ہوتی ہے۔
ریاست کے دیگر فرائض میں بڑی جاگیرداریوں کا خاتمہ'ٹیکس کی آمدنی کو عوام پر خرچ کرنا' نظام انصاف کو بہتر اور شفاف بنانا 'ہر شعبے میں میرٹ کا نظام لاگو کرنا 'ملک میں یکساں نظام تعلیم نافذ کرنا جو ہنر مند افراد پیدا کرے 'ہمسایوں کے ساتھ امن کا قیام' حکومت اور فیصلہ سازی کا حق منتخب نمایندوں کو دینا اور ہر ادارے کو اپنے آئینی دائرے کے اندر کام کرنے پر مائل کرنا'سویلین منتخب افراد کی حکومت نہ کہ اداروں کی۔ اگران اصلاحات پر عمل کیا جاسکے تویہ ایک انقلاب سے کم نہیں ہوگا اور یہی ریاست مدینہ کی ماڈرن شکل ہوسکتی ہے۔
فلاحی ریاست کے مقابلے میں ''سیکیورٹی اسٹیٹ'' کے تصور میں مرکزیت ریاست کو حاصل ہوتی ہے' اس کا مفہوم یہ ہے کہ ریاست کا دفاع 'اس کی حفاظت 'اس کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں'اس تصور میں عوام کی حیثیت ضمنی ہے 'اگر ریاست تقاضا کرے تو عوام کو قربان کیا جا سکتا ہے' اگر ریاست کا مفاد تقاضہ کرے کہ اس کے پاس ایٹمی قوت ہو' تو عوام کا پیٹ کاٹ کر یہ قوت حاصل کی جائے۔
بدقسمتی سے قیام پاکستان کے ساتھ ہی حکمرانوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ' پاکستان ایک سیکیورٹی اسٹیٹ ہوگا، نتیجہ یہ کہ عوام کے مسائل حل ہونے کے لیے وسائل نہیں بچے اور دفاعی اخراجات بھی بڑھتے بڑھتے ناقابل برداشت ہوگئے' ابھی تک برصغیر میں ہتھیاروں اور میزائلوں کی دوڑ جاری ہے 'اگر ہندوستان کا میزائیل 300کلومیٹر تک مار کرتا ہے تو ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم اپنا پیٹ کاٹ کر 400کلو میٹر تک مار کرنے والا میزائل بنالیں۔
امریکی رسالے نیوزویک کے مطابق پاکستان کی معیشت کا سائز ایک مینڈک جتنا ہے اور اس پر ٹرک کے سائز کا دفاعی بجٹ لادا گیا ہے۔آج ضرورت ہے کہ اس ملک کے اہل سیاست متحد ہوجائیںاور اس بات کا اعلان کریںکہ وہ پاکستان کو اب ایک ویلفیئر اسٹیٹ بنائیں گے، ضروری ہو گیا ہے کہ وسائل کا رخ ریاست کے بجائے عوام کی طرف کیا جائے' کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی طاقت بننے کے بعد اب پاکستان محفوظ ترین ملک بن گیا ہے۔
جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد 'فاتح اور مفتوح ممالک دونوں تباہی کا شکار تھے 'مایوسی کا شکار عوام ' ہر طرف تباہ شدہ عمارتوں کے کھنڈرات کو دیکھ رہے تھے' ان ممالک کو دیوانگی کے اس مظاہرے کے بعد 'سسٹم کی بحالی کا مرحلہ درپیش تھا ۔جرمنی 'جاپان سمیت بہت سے یورپی اور ایشیائی ممالک نے ان کھنڈرات پر اپنی عظیم ترقی کی بنیاد رکھی 'اس ترقی کا فارمولہ بڑا سادہ تھا کہ ان ممالک نے جنگی جنون(Warfare) کی پالیسی کو ترک کرکے سماجی بہبود (Welfare)کی پالیسی اختیار کی ۔ان ممالک نے بڑی جنگی مشینری'بنانے کے بجائے قومی تعمیر نو پر توجہ دی۔
اس کے لیے انھوں نے تجارت اور بہترین سفارت کاری کا استعمال کیا 'کفایت شعاری کو سرکاری پالیسی کا حصہ بنایا گیا' غیر ترقیاتی اخراجات 'مثلاً دفاعی اور انتظامی اخراجات میں کمی کرکے وسائل کا رخ 'مادی اور انسانی وسائل کی ترقی کے منصوبوں کی طرف موڑا گیا'جن سے آمدن اور ترقی میں اضافہ ہوا ۔برآمدات کو مدد فراہم کی گئی اور سامان تعیش کی درآمد پر زیادہ ٹیکس لگایا گیا 'کرپشن اور دیگر خرابیوں کے خلاف سخت ادارے بنائے 'جنگی منصوبوں کے بجائے ان فلاحی منصوبوں کی وجہ سے آج ہم ان ممالک میں ترقی دیکھ رہے ہیں۔