ہماری بھارت سے اٹوٹ محبت
ہماری بھارت سے اٹل محبت کہ ہمارے حکمران بھارتی جاسوس کو صدارتی معافی عطا کرتے ہیں۔
ہم ایک ہی زبان بولتے ہیں، ایک ہی طرح کا لباس پہنتے ہیں، بود و باش کے طریقے ایک سے ہیں، صدیوں کا میل جول چند سیاستدانوں کے ذاتی تعصبات کی نذر ہوگیا۔ ہم یہ باتیں سن کر سیخ پا ہوتے جوں ہی کیمپ کا کوئی ادنیٰ یا اعلیٰ کارندہ اپنی گفتگو کے دوران اس موضوع کی طرف پلٹا کھاتا ہم اسے کاٹ کھانے کو دوڑتے۔ یہ اقتباس بریگیڈیئر صدیق سالک کی کتاب ''ہمہ یاراں دوزخ'' کے باب ''نفسیاتی جنگ'' سے لیا گیا ہے۔
''ہمہ یاراں دوزخ'' بریگیڈیئر صدیق سالک کی 1971 کی جنگ کے بعد بھارت کی قید میں گزارے گئے دنوں کی یاد داشتوں پہ مشتمل ہے۔ اس کتاب کے باب ''نفسیاتی جنگ'' میں بریگیڈیئر صدیق سالک بیان کرتے ہیں کہ کس طرح بھارت میں پاکستانی فوجی جنگی قیدیوں کے کیمپ کے بھارتی حوالدار میجر، نیم خواندہ ایڈجوٹنٹ اور کمانڈنٹ سے لے کر بھارتی حکومت اور بھارتی معاشرے کی بڑی بڑی شخصیات کیمپ کا دورہ کرکے پاکستانی فوجی جنگی قیدیوں کو نفسیاتی حربوں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ بھارتی اور پاکستانی ہر معاملے میں ایک ہی جیسی قوم ہیں بس یہ ایک سرحدی لکیر ہے جس نے دونوں کو بلاوجہ تقسیم کرکے رکھ دیا ہے یعنی یہ کہ دو قومی نظریہ غلط ہے جس کی بنیاد پہ پاکستان وجود میں آیا۔
بریگیڈیئر صدیق سالک تو 17 اگست 1988 کو جنرل ضیا کے جہاز کے کریش میں شہید ہوگئے ورنہ آج ہم میں ہوتے تو دنگ رہ جاتے کہ دو قومی نظریے کو باطل قرار دینے کی جن بھارتی کوششوں پہ پاکستانی جنگی قیدی فوجی جلتے کڑھتے تھے ان سے کہیں زیادہ تو آج کچھ پاکستانی دو قومی نظریے کو غلط ثابت فرما رہے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ بحیثیت مسلمان تمام مذاہب کی ہم نہایت عزت کرتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ مختلف مذاہب کے عقیدوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ایک حقیقت مثلاً یہ کہ ہم مسلمان ایک رب کی عبادت کرتے ہیں جب کہ ہندو دھرم میں کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک ملین یعنی دس لاکھ خداؤں کی مختلف لوگ پوجا کرتے ہیں اس طرح آلو گوشت کا معاملہ ہے کہ ہمارے شاکاہاری بھارتی دوست آلو تو بے شک کھاتے ہیں مگر گوشت کھانا تو دور کی بات محض گائے کا گوشت کھانے کے شبے ہی میں نجانے کتنے ہی مسلمانوں کو مار کاٹ چکے ہیں مگر ذرا دیکھیے کہ بعض ہم وطنوں نے کس جذبے سے سارے فرق مٹا دیے مگر بھارتی ہیں کہ ہم پاکستانیوں کی بھارت سے اس بے لوث محبت کو ماننے کو ہی تیار نہیں۔
زیادہ دور نہ جائیے آج کل کی ہی بات دیکھ لیجیے کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں درجنوں پاکستانیوں کو زندہ جلانے والے جنونی ہندو دہشت گردوں کو بھارتی عدالتوں نے ان کے کھلے عام میڈیا کے سامنے کیے جانے والے اعترافی بیانات کے باوجود رہا کردیا مگر آپ داد دیجیے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی پارٹیوں اور ان کے جملہ مذہبی و لسانی قوم پرست اتحادیوں میں سے کسی نے بھی بھارت کی مذمت نہیں کی ۔
ہمارے ازحد مقبول لیڈر جن کے خطاب کے موقع پہ سو ڈیڑھ سو کارکنوں کا ایک سمندر سا امڈ آتا ہے اور جن کی پاکستان کے لیے کی گئی بے مثال خدمات کے اعتراف میں بادشاہ لوگ انھیں آئے روز این آر او، ڈیل وغیرہ سے سرفراز کرتے ہی رہتے ہیں ان کے بارے میں میڈیا میں یہ اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں کہ ان کی شوگر ملوں، اسٹیل ملوں، دنیا بھر میں پھیلی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی دیکھ بھال بھی انھوں نے بھارتیوں کے سپرد کر رکھی ہے۔ یہ لیجیے اب اس خود سپردگی کو بھی بھارتی ہماری محبت نہیں جانتے۔
اور جناب ہمارے ہر دلعزیز کھرب پتی لیڈران گرامی ہی کیا خود ہم اور ہمارا میڈیا بھی گویا بھارت کی محبت میں سدا کے دیوانے ہیں ۔ بھارت میں نجانے کب سے پاکستانی فلموں، ڈراموں پہ مکمل پابندی ہے جب کہ ہمارے ہاں ابھی تک بھارتی فلمیں وغیرہ دھڑلے سے چل رہی تھیں۔ ہمارے محب وطن کیبل آپریٹرز ایسی بھارتی فلمیں تک دکھا رہے تھے جن میں پاکستان اور پاکستانی افواج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا ہوتا ہے۔
اب بات پاکستان مخالف بھارتی فلموں کی چلی ہے تو ذرا ذکر کرتے ہیں 2015 کی بھارتی فلم ''بے بی'' کا جس پہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دکھائے جانے پہ پابندی لگادی گئی۔ اب ذرا مزے کی بات دیکھیے کہ اسی پاکستان مخالف بھارتی فلم میں پاکستانی اداکار میکال ذوالفقار نے کام کیا۔ اب اگر میکال ذوالفقار بھارتی اداکار ہوتے اور انھوں نے بھارت مخالف کسی پاکستانی فلم میں کام کیا ہوتا تو نجانے ان کا بھارت میں کیا حشر ہوتا ان کا فلمی کیریئر تو ختم ہی ہوجاتا کم ازکم مگر ان کی خوش قسمتی کہ یہ پاکستان ہے جہاں سب کی شان ہے سوائے پاکستان کے۔ کیا بات ہے۔ واہ واہ!
اب ذرا ایک اور مثال دیکھیے بھارت سے ہماری اٹل محبت کی۔ 2008ء میں ہماری حکومت نے پاکستان میں جاسوسی کے جرم میں سزا پانے والے بھارتی ایجنٹ کشمیر سنگھ کو صدارتی معافی عطا کی۔ ان کے نگران وفاقی وزیر نے بڑے جوش سے کشمیر سنگھ کو رہائی دلوائی کہ بے چارہ بے گناہ قید میں ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ جناب وزیر صاحب اتنے خوش اور جوش میں تھے کہ کشمیر سنگھ کو اپنے وی آئی پی پروٹوکول میں واہگہ سرحد پہ چھوڑ کے آئے۔ ادھر کشمیر سنگھ کا بھارت پہنچتے ہی ذہنی توازن لوٹ آیا اور اس نے بھارتی میڈیا کے سامنے فخریہ اعتراف کیا کہ وہ بھارتی جاسوس ہے اور اس نے پاکستان میں اپنا مشن کامیابی سے مکمل کیا۔
لیجیے یہ ہے ہماری بھارت سے اٹل محبت کہ ہمارے حکمران بھارتی جاسوس کو صدارتی معافی عطا کرتے ہیں اور ہمارے وفاقی وزیر اپنے پورے وی آئی پی پروٹوکول میں اس بھارتی جاسوس کو بھارت کے حوالے کرکے خوشی سے پھولے نہیں سماتے مگر بھارتی ہیں کہ عام پاکستانیوں تک کو آئے دن اپنی جیلوں میں قتل کرتے رہتے ہیں۔ جس دن ہم نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو سوٹ پہنا کے بھارت کے حوالے کیا اسی دن بھارت نے پاکستانی شہری شاکر اللہ کی لاش پاکستان کو دی۔ اس مہینے مارچ میں ابھی 80 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ پاکستانی ماہی گیر نورالعین کو بھارت میں جیل کے عملے نے تشدد کرکے قتل کردیا اگر وہ بھارتی ہوتا تو بھارت سمیت پوری دنیا میں ہنگامہ مچ جاتا مگر عام پاکستانی تھا تو نہ سیاستدانوں نہ اداروں نے کچھ کیا بلکہ پاکستانی میڈیا پہ بھی ایک دن چھوٹی سی خبر چلی بس۔
پاکستان اور عام پاکستانی کی پاکستان میں بس اتنی ہی اہمیت ہے۔ جو پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں، اس پہ دشمنوں والے الزام لگاتے ہیں، اسے لوٹ لوٹ کر اربوں کھربوں جمع کرتے ہیں وہی یہاں کامران شادمان ہیں، انھیں ہی اس ملک کے ادارے، نظام انصاف و قانون اور میڈیا سر آنکھوں پہ بٹھاتا ہے۔ رہی بھارت کی محبت تو سچ پوچھیے تو لگتا ہے کہ اگر چند روز اور بھارتی فلموں، اشتہاروں پہ پابندی رہی تو عوام، میڈیا اور دوسرے لوگ گریبان چاک کیے سڑکوں پہ کہیں یہ نعرے لگاتے نہ نکل آئیں کہ ''بھارتی فلمیں کھولو، بے شک آزاد کشمیر بھی لے لو'' ہمارا کشمیر نہیں بھارت کی محبت اٹوٹ انگ ہے۔
''ہمہ یاراں دوزخ'' بریگیڈیئر صدیق سالک کی 1971 کی جنگ کے بعد بھارت کی قید میں گزارے گئے دنوں کی یاد داشتوں پہ مشتمل ہے۔ اس کتاب کے باب ''نفسیاتی جنگ'' میں بریگیڈیئر صدیق سالک بیان کرتے ہیں کہ کس طرح بھارت میں پاکستانی فوجی جنگی قیدیوں کے کیمپ کے بھارتی حوالدار میجر، نیم خواندہ ایڈجوٹنٹ اور کمانڈنٹ سے لے کر بھارتی حکومت اور بھارتی معاشرے کی بڑی بڑی شخصیات کیمپ کا دورہ کرکے پاکستانی فوجی جنگی قیدیوں کو نفسیاتی حربوں کے ذریعے ثابت کرنے کی کوشش کرتے کہ بھارتی اور پاکستانی ہر معاملے میں ایک ہی جیسی قوم ہیں بس یہ ایک سرحدی لکیر ہے جس نے دونوں کو بلاوجہ تقسیم کرکے رکھ دیا ہے یعنی یہ کہ دو قومی نظریہ غلط ہے جس کی بنیاد پہ پاکستان وجود میں آیا۔
بریگیڈیئر صدیق سالک تو 17 اگست 1988 کو جنرل ضیا کے جہاز کے کریش میں شہید ہوگئے ورنہ آج ہم میں ہوتے تو دنگ رہ جاتے کہ دو قومی نظریے کو باطل قرار دینے کی جن بھارتی کوششوں پہ پاکستانی جنگی قیدی فوجی جلتے کڑھتے تھے ان سے کہیں زیادہ تو آج کچھ پاکستانی دو قومی نظریے کو غلط ثابت فرما رہے ہیں۔
اب ظاہر ہے کہ بحیثیت مسلمان تمام مذاہب کی ہم نہایت عزت کرتے ہیں البتہ یہ ضرور ہے کہ مختلف مذاہب کے عقیدوں کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا ایک حقیقت مثلاً یہ کہ ہم مسلمان ایک رب کی عبادت کرتے ہیں جب کہ ہندو دھرم میں کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک ملین یعنی دس لاکھ خداؤں کی مختلف لوگ پوجا کرتے ہیں اس طرح آلو گوشت کا معاملہ ہے کہ ہمارے شاکاہاری بھارتی دوست آلو تو بے شک کھاتے ہیں مگر گوشت کھانا تو دور کی بات محض گائے کا گوشت کھانے کے شبے ہی میں نجانے کتنے ہی مسلمانوں کو مار کاٹ چکے ہیں مگر ذرا دیکھیے کہ بعض ہم وطنوں نے کس جذبے سے سارے فرق مٹا دیے مگر بھارتی ہیں کہ ہم پاکستانیوں کی بھارت سے اس بے لوث محبت کو ماننے کو ہی تیار نہیں۔
زیادہ دور نہ جائیے آج کل کی ہی بات دیکھ لیجیے کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں درجنوں پاکستانیوں کو زندہ جلانے والے جنونی ہندو دہشت گردوں کو بھارتی عدالتوں نے ان کے کھلے عام میڈیا کے سامنے کیے جانے والے اعترافی بیانات کے باوجود رہا کردیا مگر آپ داد دیجیے کہ ہمارے سیاسی رہنمائوں کی پارٹیوں اور ان کے جملہ مذہبی و لسانی قوم پرست اتحادیوں میں سے کسی نے بھی بھارت کی مذمت نہیں کی ۔
ہمارے ازحد مقبول لیڈر جن کے خطاب کے موقع پہ سو ڈیڑھ سو کارکنوں کا ایک سمندر سا امڈ آتا ہے اور جن کی پاکستان کے لیے کی گئی بے مثال خدمات کے اعتراف میں بادشاہ لوگ انھیں آئے روز این آر او، ڈیل وغیرہ سے سرفراز کرتے ہی رہتے ہیں ان کے بارے میں میڈیا میں یہ اطلاعات بھی آتی رہتی ہیں کہ ان کی شوگر ملوں، اسٹیل ملوں، دنیا بھر میں پھیلی جائیدادوں اور بینک اکاؤنٹس کی دیکھ بھال بھی انھوں نے بھارتیوں کے سپرد کر رکھی ہے۔ یہ لیجیے اب اس خود سپردگی کو بھی بھارتی ہماری محبت نہیں جانتے۔
اور جناب ہمارے ہر دلعزیز کھرب پتی لیڈران گرامی ہی کیا خود ہم اور ہمارا میڈیا بھی گویا بھارت کی محبت میں سدا کے دیوانے ہیں ۔ بھارت میں نجانے کب سے پاکستانی فلموں، ڈراموں پہ مکمل پابندی ہے جب کہ ہمارے ہاں ابھی تک بھارتی فلمیں وغیرہ دھڑلے سے چل رہی تھیں۔ ہمارے محب وطن کیبل آپریٹرز ایسی بھارتی فلمیں تک دکھا رہے تھے جن میں پاکستان اور پاکستانی افواج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا ہوتا ہے۔
اب بات پاکستان مخالف بھارتی فلموں کی چلی ہے تو ذرا ذکر کرتے ہیں 2015 کی بھارتی فلم ''بے بی'' کا جس پہ پاکستان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا ہونے کی وجہ سے پاکستان میں دکھائے جانے پہ پابندی لگادی گئی۔ اب ذرا مزے کی بات دیکھیے کہ اسی پاکستان مخالف بھارتی فلم میں پاکستانی اداکار میکال ذوالفقار نے کام کیا۔ اب اگر میکال ذوالفقار بھارتی اداکار ہوتے اور انھوں نے بھارت مخالف کسی پاکستانی فلم میں کام کیا ہوتا تو نجانے ان کا بھارت میں کیا حشر ہوتا ان کا فلمی کیریئر تو ختم ہی ہوجاتا کم ازکم مگر ان کی خوش قسمتی کہ یہ پاکستان ہے جہاں سب کی شان ہے سوائے پاکستان کے۔ کیا بات ہے۔ واہ واہ!
اب ذرا ایک اور مثال دیکھیے بھارت سے ہماری اٹل محبت کی۔ 2008ء میں ہماری حکومت نے پاکستان میں جاسوسی کے جرم میں سزا پانے والے بھارتی ایجنٹ کشمیر سنگھ کو صدارتی معافی عطا کی۔ ان کے نگران وفاقی وزیر نے بڑے جوش سے کشمیر سنگھ کو رہائی دلوائی کہ بے چارہ بے گناہ قید میں ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔ جناب وزیر صاحب اتنے خوش اور جوش میں تھے کہ کشمیر سنگھ کو اپنے وی آئی پی پروٹوکول میں واہگہ سرحد پہ چھوڑ کے آئے۔ ادھر کشمیر سنگھ کا بھارت پہنچتے ہی ذہنی توازن لوٹ آیا اور اس نے بھارتی میڈیا کے سامنے فخریہ اعتراف کیا کہ وہ بھارتی جاسوس ہے اور اس نے پاکستان میں اپنا مشن کامیابی سے مکمل کیا۔
لیجیے یہ ہے ہماری بھارت سے اٹل محبت کہ ہمارے حکمران بھارتی جاسوس کو صدارتی معافی عطا کرتے ہیں اور ہمارے وفاقی وزیر اپنے پورے وی آئی پی پروٹوکول میں اس بھارتی جاسوس کو بھارت کے حوالے کرکے خوشی سے پھولے نہیں سماتے مگر بھارتی ہیں کہ عام پاکستانیوں تک کو آئے دن اپنی جیلوں میں قتل کرتے رہتے ہیں۔ جس دن ہم نے بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو سوٹ پہنا کے بھارت کے حوالے کیا اسی دن بھارت نے پاکستانی شہری شاکر اللہ کی لاش پاکستان کو دی۔ اس مہینے مارچ میں ابھی 80 سال سے زیادہ عمر کے بزرگ پاکستانی ماہی گیر نورالعین کو بھارت میں جیل کے عملے نے تشدد کرکے قتل کردیا اگر وہ بھارتی ہوتا تو بھارت سمیت پوری دنیا میں ہنگامہ مچ جاتا مگر عام پاکستانی تھا تو نہ سیاستدانوں نہ اداروں نے کچھ کیا بلکہ پاکستانی میڈیا پہ بھی ایک دن چھوٹی سی خبر چلی بس۔
پاکستان اور عام پاکستانی کی پاکستان میں بس اتنی ہی اہمیت ہے۔ جو پاکستان کو برا بھلا کہتے ہیں، اس پہ دشمنوں والے الزام لگاتے ہیں، اسے لوٹ لوٹ کر اربوں کھربوں جمع کرتے ہیں وہی یہاں کامران شادمان ہیں، انھیں ہی اس ملک کے ادارے، نظام انصاف و قانون اور میڈیا سر آنکھوں پہ بٹھاتا ہے۔ رہی بھارت کی محبت تو سچ پوچھیے تو لگتا ہے کہ اگر چند روز اور بھارتی فلموں، اشتہاروں پہ پابندی رہی تو عوام، میڈیا اور دوسرے لوگ گریبان چاک کیے سڑکوں پہ کہیں یہ نعرے لگاتے نہ نکل آئیں کہ ''بھارتی فلمیں کھولو، بے شک آزاد کشمیر بھی لے لو'' ہمارا کشمیر نہیں بھارت کی محبت اٹوٹ انگ ہے۔