سرکاری ملازمتیں میرٹ اور معاشی صورتحال
یوں تو سرکاری ملازم عوام کا خادم ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس۔
KARACHI:
گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت اور سندھ کی صوبائی حکومت کی جانب سے بڑے پیمانے پر سرکاری ملازمتیں دینے کے ایک مرتبہ پھر اعلانات سامنے آئے ہیں ۔اس طرح کے اعلانات عوام کے لیے اس لیے بھی تجسس کا باعث ہوتے ہیں کہ ملک میں بے روزگاری انتہا پر ہے۔ پھر ملک میں ملازمتوں کا تسلسل سے ملنا بھی متاثر رہا ہے۔
حکومتیں ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے ملک میں ملازمتوں پر پابندی لگاتی رہی ہیں ۔اس لیے جب بھی ملازمتیں دینے کی بات ہوتی ہے تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ لیکن ایسے اعلانات اکثر و بیشتر صرف زبانی جمع خرچ ثابت ہوتے رہے ہیں۔ ماضی بعید کی باتیں نہ بھی کریں تو ماضی قریب میں 2017میں سندھ کے گورنر محمد زبیر نے بھی نجی اداروں میں 50ہزار ملازمتیں دینے کا اعلان کیا تھا ، لیکن پھرہمیشہ کی طرح وہ اعلان بھی وفا نہ ہوسکا ۔
اب حالیہ وفاقی و صوبائی اعلانات پر نظر ڈالیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ سندھ حکومت نے تو اگست 2018میں حکومت سنبھالتے ہی مختلف محکموں کی خالی اسامیوں کی تعداد اور صورتحال پر کام شروع کردیا تھا ۔ جس وجہ سے اب اُس کے پاس نہ صرف مختلف محکموں میں موجود خالی اسامیوں کی درست تعداد موجود ہے بلکہ اُنہیں پُر کرنے کے لیے روڈ میپ و مالی اُمور پر بھی تیزی سے کام ہورہا ہے۔
باقی جہاں تک بات ہے وفاقی حکومت کی تو2018کے انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پی ٹی آئی کی نئی حکومت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ابتدائی حکومتی روڈ میپ خطابات میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ملک میں ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان بھی کیا ۔ لیکن 9ماہ کا عرصہ گذر جانے کے بعد بھی وہ اب تک اعلانات ہی ہیں ۔ چلیں اُس وقت تو نئی نئی حکومت تھی، نہ حکومتی اُمور کا تجربہ تھا اور نہ ہی محکماتی اعداد و شمار کی سمجھ ، لیکن گذشتہ ہفتے بھی وفاقی حکومت کے مملکتی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واؤڈا نے محکمہ موسمیات کے ماہرین کی طرف سے کی جانیوالی برسات کی پیش گوئیوں کی طرح پھر 10دن کے اندر ملک میں ملازمتوں کی بارش ہونے کی اطلاع دیتے ہوئے کہا کہ ''اتنی ملازمتیں ہوں گی کہ امیدوار کم پڑجائیں گے''۔
اُن 10دنوں میں سے 6دن گذرگئے ہیں لیکن اب تک نہ تو حکومت نے کوئی آسامیوں کی محکماتی تعداد بتائی ہے کہ یہ ملازمتیں کس محکمے میں اور کتنی دی جائیں گی اور نہ ہی وزارت ِ خزانہ نے ان ملازمتوں سے ملکی خزانے پر پڑنے والے اضافی مالیاتی بوجھ سے متعلق کوئی روڈ میپ دیا ہے ۔ جب کہ معیشت کو حکومت خود ہی مریض قرار دے چکی ہے ۔ ملک کی معاشی صورتحال کے لیے اب بھلے ہی وزیر خزانہ شفایابی کی طرف گامزن ہونے کے اعلانات کریں لیکن حقیقت کیا ہے وہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے ۔
آئی ایم ایف کی حالیہ جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاشی صورتحال مزید خراب ہونے کا خدشہ ہے ۔ مہنگائی 7.6فیصد تک ہونے کے امکانات ہیں ۔ اقتصادی ترقی آیندہ سال مزید کم ہوکر 2.8 فیصد تک آجائے گی ۔ بے روزگاری کی شرح 1.6سے بڑھ کر 2.6فیصد ہوجانے کا تخمینہ ہے ۔
آئی ایم ایف کی اس رپورٹ سے لے کر ورلڈ بینک تک ، اسٹیٹ بینک سے ایف بی آر تک ، تمام اداروں کی رپورٹس کے مطابق ملک معاشی طور پر تیزی سے پستیوں کی طرف بڑھتا جارہا ہے ۔ جس کا ایک منظر ہمیں گذشتہ ہفتے یوں نظر آیا کہ اسٹاک ایکسچینج گذشتہ 6ماہ کی کم ترین سطح پر رہا ۔ جب کہ وفاقی حکومت کا ملکی محکموں و اداروںپر انتظامی اُمور اور حکومتی رٹ کا تو یہ عالم ہے کہ گیس و میڈیسن کمپنیاں ریٹ بڑھادیتی ہیں تو حکومت کو پتا تک نہیں ہوتا ، ڈالر کا ریٹ اور روپے کی قدر میں کمی اُن سے سنبھلی نہیں جاتی ، TDAPکے اُمور قابو میں نہ ہونے کی وجہ سے ایکسپورٹ کا حجم بھی کم ہو کر رہ گیا ہے،صوبہ سندھ میں اضافی ٹیکس ریکوری ہونے کے باوجود ملک کی مجموعی ٹیکس ریکوری میں بڑے پیمانے پر شارٹ فال ،اور سعودی ، یو اے ای و دیگر عالمی امداد اور قرضہ جات کی بڑی رقوم آنے اور عوام پر دال ، چاول اور آٹے و بجلی ، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں اضافے سے مہنگائی کے بم گرانے کے باوجود مارکیٹ میں عدم استحکام اُن کی ناکام معاشی پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
پھر خبریں ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط تسلیم کر لی ہیں ، جن سے ملک میں اشیاء دوگنے اضافے سے مزید مہنگائی کے طوفان آنے کا خدشہ ہے ۔ملک کی موجودہ صورتحال یہ ہے کہ وزیر خزانہ نے اقتصادی فریم ورک کا اعلان کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ ملک میں دفاع اور ترقی کے اخراجات تو چھوڑیں ، قرضوں کا سود دینے کے لیے بھی 800 ارب روپے درکار ہیں جو کہ خزانے میں نہیں ہیں ۔
ملک کی اس موجودہ گمبھیر و پریشان کُن معاشی صورتحال پر حکمرانوں کو کوئی تشویش لاحق نہ ہونا بھی بڑی تشویش کی بات ہے ۔ ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے کیا گیاایک کروڑ ملازمتیں دینے کا اعلان عملی طور پر کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہا تو دوسری طرف صنعتوں و اداروں کی نجکاری کے نام پر موجود ملازمین کو نکالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے ، اور تو اور ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن بھی ختم کرنے کی باتیں ہورہی ہیں ۔ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسی صرف بیرونی قرضہ جات کی حصولی پرمشتمل ہے ۔ ایسے میں یہ سوال بڑی اہمیت اختیار کرجاتا ہے کہ وفاقی حکومت کیسے ملازمتیں دے پائے گی ؟
ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ یہاں شخصیت پرستی نے اپنے ڈیرے مضبوطی سے ڈالے ہوئے ہیں ۔ کسی بھی چیز یا اُمور سے متعلق اداروں میں کثیر الماہرین کی کمیٹیاں تشکیل دینے کے بجائے ہر شعبے میں کسی فرد واحد کو ہی مسائل کا حل سمجھا جاتا ہے ۔ پارلیمنٹ سے پالیسی یا قانون سازی کے بجائے کیبنٹ میٹنگ میں وزیر اعظم کے احکامات کے تحت اختیار کردہ پالیسیوں سے کام چلایا جاتا ہے ۔ معیشت کے لیے ماہرین کی کمیٹی کے بجائے وزیر خزانہ کو مختیار کُل و دانش سمجھ لیا جاتا ہے ۔ پیشہ وارانہ اداراتی استعداد بڑھانے کے بجائے کسی نہ کسی کو ہیرو بناکر اُس فرد ِ واحد کی پیروی کی جاتی ہے ۔ پھر ہوتا یہ ہے کہ کچھ عرصے میں فرد ِ واحدملک کو کنگال کرکے خود دبئی یا لندن وغیر جاکر سیٹ ہوجاتا ہے اور ملک میں پھر کسی اور شخصیت کی تلاش شروع ہوجاتی ہے ۔
پی ٹی آئی کی جانب سے تین صوبوں اور وفاق میں قائم کردہ حکومت کے ملکی استحکام سے متعلق 9ماہ میں مسلسل جھوٹے وعدے اور شیخ چلی طرز کی پالیسیاں و منصوبہ بندیاں سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے تھے ، ایسے میں گذشتہ ہفتے پہلی مرتبہ 2اچھی خبریں سندھ کے عوام کے کانوں تک پہنچیں ۔ ایک تو تھر کول سے 660میگاواٹ بجلی کی کامیاب پیداوار کے 2پلانٹس کاسندھ حکومت کی جانب سے عملی طور پر افتتاح اور دوسری اچھی خبر یہ کہ صوبہ میں 40ہزار سرکاری ملازمتیں دینے کے اعلان کی صورت میں ۔
ماضی میں تھر کول پر اربوں روپے کے بجٹ لگانے کے باوجود وفاق کی جانب سے مقرر کردہ سائنسدان کی ناکامی کی بنیاد پر تھر کے کوئلے کو ناکارہ قرار دیا گیا ، لیکن اُسی کوئلے سے سندھ حکومت اور اینگرو پاور کمپنی کی جانب سے کامیاب پیداوار نے صوبائی اشتراکیت کی حامل پالیسی کو درست ثابت کیا ہے ،جب کہ وزیر اعظم کی جانب سے اسلام آباد میں بیٹھ کر ہزاروں میل دور حیدرآباد کی متنازعہ یونیورسٹی کا افتتاح کرنا کسی ڈرامے سے کم نہیںجب کہ دوسری طرف سندھ حکومت کی طرف سے تھر میں این ای ڈی یونیورسٹی کے کیمپس کا اعلان بھی واضح حکمت عملی کا ثبو ت ہے ۔
سندھ کی صوبائی حکومت کو جان بوجھ کر ملک بھر میں نااہل ترین ثابت کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لیکن اُس کے باوجود ملازمتوں کی فراہمی کے حوالے سے یہ قدرے بہتر کام کرتے نظر آرہی ہے ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے غیر قانونی طریقے سے روکے گئے مالیاتی ایوارڈ کے حصے سے 120ارب روپے کی رقم کے باوجود سندھ حکومت نے اگر صوبہ میں 40ہزار ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے تو اس کے پاس اِ ن ملازمتوں کی نہ صرف محکماتی خالی عہدوں کی دستیابی کی تعداد موجود ہے بلکہ اُنہیں پُر کرنے کے دوران میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے اُس نے این ٹی ایس ، آئی بی اے سکھر، آئی بی اے کراچی اور ایس ٹی ایس و ایسے دیگر مسابقتی اداروں میں سے بہتر ادارے کی تشخیص کے لیے بھی کام شروع کردیا ہے ۔
ماضی میں بڑے پیمانے پرغیرقانونی طور پر سیاسی و اداراتی بھرتیوں کی وجہ سے صوبہ سندھ میں ایک طرف قانونی ومالی بحران سر اُٹھاتے رہے ہیں تو دوسری طرف یہ حکومت کی بدنامی کا بھی باعث بنی رہی ہیں ۔ شاید اسی لیے ماضی کی ایسی غیرقانونی بھرتیوں میں وزراء کی انفرادی اور سطحی طور پرسیاسی چھتری تلے بیوروکریسی کے بڑے پیمانے پر ملوث ہونے کی رپورٹس کو مد ِ نظر رکھتے ہوئے سندھ حکومت نے گریڈ 1سے 4جیسی چھوٹی اسامیاں بھی ضلعی سطح پر ڈیپارٹمنٹل ریکروٹمنٹ کمیٹیز کے ذریعے پُر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ گریڈ 5تا 12کی اسامیوں کو ٹیسٹنگ اداروں کے ذریعے اور اس سے اوپر کی تمام اسامیاں کمیشن کے ذریعے پُر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ صوبہ میں میرٹ کے ماحول کو پروان چڑھانے میں معاون ہوگا ۔
سندھ حکومت کے یہ اقدامات صوبہ کے عوام کے لیے خوشخبری ہیں تو میرٹ کے فروغ کے لحاظ سے خوش آئند ہیں ۔ ایک طرف تھر کول جیسے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے پروجیکٹس کے ذریعے نیم سرکاری شعبہ کی ملازمتیں فراہم کی گئی ہیں تو دوسری طرف مکمل طور پر سرکاری اداروں میں ملازمتوں کی فراہمی کو عملی جامہ پہنانے کی کوششیں جاری ہیں ۔ سندھ میں شعبہ صحت میں ہنگامی طور پر1700ڈاکٹرز کی کنٹریکٹ پر عارضی بھرتیاں کی جارہی ہیں جوکہ بعد میں مستقل طورپر کمیشن کے ذریعے پُر کی جائیں گی ۔ اسی طرح لیبر ڈپارٹمنٹ، پاپولیشن ڈپارٹمنٹ ،محکمہ اینٹی کرپشن ،لائیو اسٹاک، ایس اینڈ جی اے ، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ، ایکسائیز وغیرہ وغیرہ میں ملازمتوں کی فراہمی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔
اب صرف صوبہ میں انتظامی اُمور میں قوانین پر سختی سے عملدرآمد اور شفافیت کو ہر حال میں یقینی بنانے سے صوبہ ملک میں ماضی کی طرح رہنمائی والی اپنی روایت کو جلا بخش سکتا ہے ۔ حالانکہ نیب کی کارروائیاں اب واضح طور پر انتقامی کارروائیاں محسوس ہونے لگی ہیں ، لیکن یہ صورتحال بھی صوبہ میں اُمور کو بہترکرنے میں معاون ثابت ہونے کے امکانات ہیں ۔ ان سے چھان کر نکلنے والے لوگ صوبہ سے بدعنوانی کے خاتمے کا باعث بننے کی اُمید ہیں ۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو پی ٹی آئی سرکار تو شفافیت کے نام پر ہی وجود میں آئی تھی لیکن اُس کی غیر شفافیت کی گونج پہلے مہمند ڈیم کے کنٹریکٹ دینے پر سنائی دی جب کہ یہ گونج دو روز قبل اس وقت شدت سے سنائی دینے لگی جب OGDCLکی جانب سے PPRAقوانین کو نظر انداز کرتے ہوئے سمندر سے تیل و گیس نکالنے کے ڈھانچے کا چینی رگ کمپنی کو 56لاکھ ڈالرز کا کنٹریکٹ دینے کی خبریں میڈیا کی زینت بنیں ۔ پھر دوسری طرف وفاقی وزراء مہنگائی پر عوام کو کوئی ریلیف کی نوید دینے کے بجائے عوام کی مزید چیخیں نکالنے کے عندیے دیتے نظر آتے ہیں ۔
یہ بات تو نہ صرف ملک بلکہ دنیا بھر پر آشکار ہوچکی ہے کہ پاکستان بے شمار وسائل سے مالامال ہے ، بس صرف اُن وسائل کو بہتر طریقے سے عوام کی فلاح و ملکی ترقی کے لیے ایمانداری سے خرچ کرنے کی نیت ہونی چاہیے ۔ میرٹ کو ہر حال میں یقینی بنایا جانا ہی پائیدار ترقی و استحکام کا باعث ہوتا ہے ۔ بصورت ِ دیگر عدم استحکام کی صورتحال ایسی بھیانک بن جاتی ہے جیسی اس وقت محکمہ تعلیم سندھ کی ہے ۔ پھر ماضی میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن اور سندھ پبلک سروس کمیشن جیسے اداروں پر لگنے والے الزامات اور مقدمات کی بناء پربھی ملک میں میرٹ مشکوک ہی رہا ہے ۔ اس لیے اِن داغوں کو دھونے کی اشد ضرورت ہے ۔ جس کے لیے سندھ حکومت اور ہائی کورٹ آف سندھ کی جانب سے سندھ پبلک سروس کمیشن کے اُمور بہتر بنانے کے لیے مسلسل انتظامات کیے جارہے ہیں لیکن فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے اُمور میں بہتری سے متعلق کوئی قابل ذکر اصلاحاتی کوششیں نظر نہیں آتیں۔
یوں تو سرکاری ملازم عوام کا خادم ہوتا ہے لیکن پاکستان میں اس کے برعکس۔ یہاں سرکاری ملازمین خدام کے بجائے حکام کی حیثیت اختیار کرجاتے ہیں ، پھر مراعات ، شان و شوکت اور کم محنت پر زیادہ اُجرت کی صورتحال کی بناء پر بھی سرکاری ملازمت لوگوںکو للچاتی ہے بالخصوص نوجوانوں کی حتمی خواہش بن جاتی ہے ۔
دوسری جانب نجکاری کی آڑ میں مختلف اداروں سے ڈاؤن سائیزنگ کی جاتی ہے ، ملازمین سے 8کے بجائے 12، 12گھنٹے کام لیا جاتا ہے ۔ کہیں اوور ٹائم کا کوئی تصور ہی نہیں تو کہیں ہے بھی تو عالمی معیار و ملکی لیبر قوانین کے مطابق نہیں ہوتا ۔ پھر دیگر اُمور میں بھی لیبر لاز کا اطلاق نظر نہیں آتا ۔ جس وجہ سے نوجوانوں کو نجی ملازمت کے مقابلے میں سرکاری ملازمت محفوظ مستقبل کی ضمانت محسوس ہوتی ہے ۔ ایسے میں سرکاری ملازمتوں کی فراہمی اور تربیت کے دوران امیدواروں کو عوام کی خدمت کے اسباق پڑھانے کی اشد ضرورت ہے ۔ پھر میرٹ کے اُس سابقہ نظام کو بحال و فعال اور مزید جدید و مستحکم کیا جانا بھی نہایت ضروری ہے۔