غالب کے جعلی خطوط
کتاب سرورق دیدہ زیب ہے۔ بیک کور پر مصنف کا خودنوشت سوانحی خاکہ قارئین کونہ صرف متوجہ کرتا ہے۔
اس پرآشوب دور میں ہنسنے ہنسانے کے مواقعے ذرا کم ہی میسر آتے ہیں اور اگر موقع مل جائے تو اس سے بڑھ کر اور خوشی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے تفکرات کی دنیا سے نجات ملی۔ تھوڑا ہی عرصہ گزرا ہے جب انور احمد علوی کی کتاب ''غالب کے جعلی خطوط'' منظر عام پر آئی اور قارئین کو مسکرانے اور جی کے بہلانے کا سامان مہیا کرگئی۔
انور احمد علوی کا شمار مزاح نگاروں کی صف اول میں ہوتا ہے ان کی مزاحیہ تحریریں انفرادیت اور شائستگی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، مصنف سالہا سال سے ''مزاح پلس'' کے نام سے ایک دیدہ زیب پرچہ بھی نکالتے رہے ہیں ۔ کتاب کے عنوان کے ساتھ (A Fake Book) بھی درج کردیا ہے اس کتاب سے قبل مزاح کی غالباً سات کتابیں دھنک کے رنگوں کی طرح ادبی افق پر جلوہ گر ہوچکی ہیں اور مصنف نے خوب داد و تحسین کے پھول سمیٹے۔
کتاب سرورق دیدہ زیب ہے۔ بیک کور پر مصنف کا خودنوشت سوانحی خاکہ قارئین کونہ صرف متوجہ کرتا ہے بلکہ مزاج میں شگفتگی کے رنگ بکھیرتا ہے۔ اخلاقی و باطنی تربیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہم نے صبر و قناعت کا درس اپنی والدہ سے ، رشتہ داریاں نبھانا اپنے والد سے اور طنز کرنا اپنی اہلیہ سے سیکھا ہے۔ سماجی زندگی کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ گھر میں تو ہم پرکوئی ٹرسٹ کرتا نہیں پھر بھی ایک دینی مدرسے کے ٹرسٹی رہ چکے ہیں موجودہ مصروفیات کا ذکر بھی کچھ اس طرح کیا ہے، نومولود بچوں کے کان میں اذان دینا، جاں بلب مریضوں کے سرہانے یٰسین شریف پڑھنا، لوگوں کی دعاؤں کی درخواستیں سننا، بیوی سے بات بات پر الجھنا اور ہرگھنٹی کی آواز پر چونک کر دروازے کی طرف لپکنا۔
مصنف کے ہم عصروں نے بھی جن کا موجودہ زمانے کے بہترین مزاح نگاروں میں شمار ہوتا ہے جناب انور علوی کے علم و فن پر بہت محبت و آگہی کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے، عزیز جبران انصاری لکھتے ہیں کہ ''انور احمد علوی طنز و مزاح کی اس بے ہنگم بھیڑ میں اپنا پروقار مقام بہت تیزی سے بنا رہے ہیں، انھوں نے معاشرے کی اخلاقی و سماجی خرابیوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ طنز کے باطن سے مزاح کے دھنک رنگ نمایاں ہو کر پڑھنے والے کو اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں، طنزومزاح کی دنیا میں انور احمد علوی خطوط غالب کے حوالے سے اپنی شناخت کراچکے ہیں اس کے لیے انھوں نے بہت محنت کی ہے، غالب کے تمام خطوط کو جاگتے ذہن کے ساتھ پڑھا ہے اس کی اصل روح کو سمجھا ہے آج کی زبان کے مقابلے میں غالب کی مخصوص زبان کو حرز جاں کہا ہے۔ماضی کو حال سے پیوست کیا ہے، کیا یہ کام سرسری سا ہے؟ اس مشکل کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو زبان و بیان کی حقیقت کو سمجھتے ہیں انور احمد علوی کو بجا طور پر زبان غالب کا حافظ سمجھنا چاہیے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔''
پروفیسر جبران انصاری نے ''غالب کا دسترخوان'' سے کئی پیراگراف شامل مضمون کیے ہیں جو علوی صاحب نے غالب کی زبان میں لکھے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
''کیا ہوا پچھلے دنوں آم کھا کر بے دھیانی میں دانتوں کے بجائے اپنی آنکھ میں خلال کر بیٹھا، گھر میں کوئی نہ تھا،گھبرا کر باہر نکلا ، بری حالت دیکھی تو مجھے پالکی میں بٹھا کراسپتال میں پہنچایا میں جس کو طبی تجربہ گاہ کہا کرتا ہوں، سات بجے شام ایمرجنسی میں لایا گیا تھا، پونے دو بجے شب ڈاکٹر میرے معائنے کو آیا ڈاکٹر نے معائنے کے بعد فلوکا اثر بتایا اور خون کا ٹیسٹ لکھ کر دے دیا، وہ میں نے کروایا کہ اپنے خون پر شک کرنا ہم ترکوں کی حمیت کے خلاف ہے اور دوائی لے کر گھر چلا آیا، بی بی نے سنا تو دوا اس نے جھپٹ لی، کس واسطے کہ اس کو فلو تھا اور اگلے روز ڈاکٹر سے آنکھ کی دوا لے کر لوٹی تھی۔ جب کہ والی اودھ آج قضائے الٰہی سے پورے ہوئے، حق مغفرت کرے عجب بیمار مرد تھا۔
''ایں سعادت بزور بازونیست '' اس مضمون کے خالق سید معراج جامی ہیں، مزاح کے حوالے سے ان کی بھی ایک علیحدہ شناخت ہے انھوں نے بھی انور علی کی مس گائیڈ کے بارے میں قارئین کو آگاہی دی ہے کہ ''خطوط غالب'' میں غالب کا نعم البدل یہی ہمارے منشی انور احمد علوی ہیں اس دعوے کی دلیل کے لیے غالب کے خط سے چند سطور پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔ میاں! خدا تم کو سلامت رکھے۔ تین خط تمہارے آگے آئے تھے اور ایک پرسوں آیا ان کا جواب میں نے نہیں لکھا کیونکہ وہ جواب طلب نہ تھے، تم نے مجھ غم کے پتلے کو تعزیت کے سلسلے میں لکھے تھے، بھائی میرے عزیزوں کے مرنے کا انتظار نہ کیا کرو، لو اب شہر کی سنو یکشنبہ کو ماہ مقدس رمضان ہوا اسی دن سے صبح کو بریلوی مسجد میں امام صاحب سے قرآن سنتا ہوں، شب کو دیوبندی مسجد میں تراویح پڑھتا ہوں۔ جمعہ کی نماز اہل حدیث کی مسجد میں پڑھتا ہوں کیونکہ تمہارے ہاں مسلمانوں کی کوئی مخصوص مسجد مجھ کو نظر نہ آئی۔ اختتام اس طرح ہوتا ہے جمعہ 23 مئی 1995۔ خیریت کا طالب
کتاب میں 21 مکتوب شامل ہیں ہر خط کی داستان علیحدہ ہے۔ خط نمبر 2 کی ابتدائی سطریں۔ صاحب جس گھڑی تمہارا فون آیا، میں بازار میں تھا، بی بی کو دمِ شب تنہا بھیج دینے میں وہم آیا، خدا جانے اگر کوئی امرِ حادث ہو تو بدنامی تمام عمر رہے اس سبب سے ہمراہ اس کے چلا گیا ورنہ شبِ عید کی بجائے بازار کے گھر پر ہی کاٹتا، اس واسطے کہ مجھ کو تو اب رامپور نے چلتے وقت عید کارڈ، جوڑا اورکچھ رقم ہدیہ کردی تھی، بی بی موزوں طبع ہوتی تو وہ بھی کسی نواب سے مراعات فطرانہ و لباس فاخرہ پاتی۔ یہاں مریخ کا موسم دو دن سے سخت گرم ہے اس لیے اپنی کوٹھڑی میں بند ہوں۔ اے سی لگا ہے، ہاتھ کا پنکھا جھل رہا ہوں، پانی کا خالی جھجرا دھرا ہے، ہیروئن پی رہا ہوں اور یہ خط لکھ رہا ہوں۔ خط نمبر 1۔اہا ہاہا! آئیے! بیٹھیے مولانا علوی، السلام علیکم، مزاج مبارک، کرانچی بندرکا کیا کہنا ایسا شہرکہاں پیدا ہوتا ہے! سرکار کا ملازم ہوتا تو بدلی کراکے وہیں رہ جاتا ادھر کو نہ آتا، تیسری عالمی اردو کانفرنس میں جانا ہوا، بھائی وہم اور چیز ہے، حقیقت اور چیز۔ میں مثل اوروں کے اپنے خرچ پر عالمی مشاعروں میں شریک نہیں ہوتا ایک غزل کے واسطے عزت کیوں کھوؤں۔
انور علوی نے غالب کی زوجہ محترمہ کا حال اس طرح لکھا ہے۔(پنشن معطل ہونے کے بعد) مرزا کو بتلادو چائے لگ گئی ہے پینی ہو تو میز پر آجاویں چند روز بعد ایک شام بی بی کی یہ گڑگڑاہٹ سنائی دی ہم افطار کے بعد گھومنے جاویں گے، مرزا جاویں یا نہ جاویں، میں اصلاح نواب صاحب کے کلام کی کر رہا تھا، جانے سے انکار نہ کیا تھا ساتھ اس کے میں نہ گیا، پر افسوس مجھ کو بہت ہوا ۔ ایک خاتون تلک احوال میرا یہ سب پہنچا ، خیریت میری دریافت کی اور کچھ مجھ کو تسلی دی کچھ تردد نہ کرو فقر ودانش کا چولی دامن کا ساتھ ہے جملہ بازی و جملہ سازی کا دور ختم ہوا۔ دفتر میں میرے آکر بیٹھ رہو، شاعری میں میرے غزل پسند ہے جو تم اچھی بنالیتے ہو جب بندی کے ذہن میں کوئی خیال آوے گا نثر میں تم کو بتلادے گی، شعر میں تم اس کو ڈھال دینا، دو موسیقار ایک دھن بناسکتے ہیں دو شاعر ایک شعر کیوں نہیں بناسکتے۔ قرض تمہارا اتر جاوے گا، ہاتھ تمہارا کھل جاوے گا۔'' کس قدر سلیقے اور نفاست کے ساتھ غالب کے الفاظ کو اپنے خطوط میں برتا ہے کہ واقعی خطوط غالب کا مزہ دے گئے گزشتہ سالوں میں راقم الحروف کے ناول پر نہ کہ مضمون قلم بند کیا بلکہ اپنے دولت کدے پر تقریب رونمائی کا بھی انتظام کیا، اسی مضمون سے چند الفاظ۔ بھائی صاحب! خواتین پر لکھنا کچھ ہنسی کھیل نہیں سو بار سوچنا پڑتا ہے کسی کی زیادہ تعریف کردوں تو گھر میں سننی بھی پڑتی ہے۔ انور علوی کا قلم نت نئے شگوفے کھلاتا ہے، یہی ان کا کمال فن ہے۔ اللہ کرے یہ فن مزید ترقی کرے ۔(آمین)
انور احمد علوی کا شمار مزاح نگاروں کی صف اول میں ہوتا ہے ان کی مزاحیہ تحریریں انفرادیت اور شائستگی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہیں، مصنف سالہا سال سے ''مزاح پلس'' کے نام سے ایک دیدہ زیب پرچہ بھی نکالتے رہے ہیں ۔ کتاب کے عنوان کے ساتھ (A Fake Book) بھی درج کردیا ہے اس کتاب سے قبل مزاح کی غالباً سات کتابیں دھنک کے رنگوں کی طرح ادبی افق پر جلوہ گر ہوچکی ہیں اور مصنف نے خوب داد و تحسین کے پھول سمیٹے۔
کتاب سرورق دیدہ زیب ہے۔ بیک کور پر مصنف کا خودنوشت سوانحی خاکہ قارئین کونہ صرف متوجہ کرتا ہے بلکہ مزاج میں شگفتگی کے رنگ بکھیرتا ہے۔ اخلاقی و باطنی تربیت کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ہم نے صبر و قناعت کا درس اپنی والدہ سے ، رشتہ داریاں نبھانا اپنے والد سے اور طنز کرنا اپنی اہلیہ سے سیکھا ہے۔ سماجی زندگی کی وضاحت اس طرح کی ہے کہ گھر میں تو ہم پرکوئی ٹرسٹ کرتا نہیں پھر بھی ایک دینی مدرسے کے ٹرسٹی رہ چکے ہیں موجودہ مصروفیات کا ذکر بھی کچھ اس طرح کیا ہے، نومولود بچوں کے کان میں اذان دینا، جاں بلب مریضوں کے سرہانے یٰسین شریف پڑھنا، لوگوں کی دعاؤں کی درخواستیں سننا، بیوی سے بات بات پر الجھنا اور ہرگھنٹی کی آواز پر چونک کر دروازے کی طرف لپکنا۔
مصنف کے ہم عصروں نے بھی جن کا موجودہ زمانے کے بہترین مزاح نگاروں میں شمار ہوتا ہے جناب انور علوی کے علم و فن پر بہت محبت و آگہی کے ساتھ خامہ فرسائی کی ہے، عزیز جبران انصاری لکھتے ہیں کہ ''انور احمد علوی طنز و مزاح کی اس بے ہنگم بھیڑ میں اپنا پروقار مقام بہت تیزی سے بنا رہے ہیں، انھوں نے معاشرے کی اخلاقی و سماجی خرابیوں کو اس طرح بیان کیا ہے کہ طنز کے باطن سے مزاح کے دھنک رنگ نمایاں ہو کر پڑھنے والے کو اپنے رنگ میں رنگ لیتے ہیں، طنزومزاح کی دنیا میں انور احمد علوی خطوط غالب کے حوالے سے اپنی شناخت کراچکے ہیں اس کے لیے انھوں نے بہت محنت کی ہے، غالب کے تمام خطوط کو جاگتے ذہن کے ساتھ پڑھا ہے اس کی اصل روح کو سمجھا ہے آج کی زبان کے مقابلے میں غالب کی مخصوص زبان کو حرز جاں کہا ہے۔ماضی کو حال سے پیوست کیا ہے، کیا یہ کام سرسری سا ہے؟ اس مشکل کو وہی سمجھ سکتے ہیں جو زبان و بیان کی حقیقت کو سمجھتے ہیں انور احمد علوی کو بجا طور پر زبان غالب کا حافظ سمجھنا چاہیے اور یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔''
پروفیسر جبران انصاری نے ''غالب کا دسترخوان'' سے کئی پیراگراف شامل مضمون کیے ہیں جو علوی صاحب نے غالب کی زبان میں لکھے ہیں آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔
''کیا ہوا پچھلے دنوں آم کھا کر بے دھیانی میں دانتوں کے بجائے اپنی آنکھ میں خلال کر بیٹھا، گھر میں کوئی نہ تھا،گھبرا کر باہر نکلا ، بری حالت دیکھی تو مجھے پالکی میں بٹھا کراسپتال میں پہنچایا میں جس کو طبی تجربہ گاہ کہا کرتا ہوں، سات بجے شام ایمرجنسی میں لایا گیا تھا، پونے دو بجے شب ڈاکٹر میرے معائنے کو آیا ڈاکٹر نے معائنے کے بعد فلوکا اثر بتایا اور خون کا ٹیسٹ لکھ کر دے دیا، وہ میں نے کروایا کہ اپنے خون پر شک کرنا ہم ترکوں کی حمیت کے خلاف ہے اور دوائی لے کر گھر چلا آیا، بی بی نے سنا تو دوا اس نے جھپٹ لی، کس واسطے کہ اس کو فلو تھا اور اگلے روز ڈاکٹر سے آنکھ کی دوا لے کر لوٹی تھی۔ جب کہ والی اودھ آج قضائے الٰہی سے پورے ہوئے، حق مغفرت کرے عجب بیمار مرد تھا۔
''ایں سعادت بزور بازونیست '' اس مضمون کے خالق سید معراج جامی ہیں، مزاح کے حوالے سے ان کی بھی ایک علیحدہ شناخت ہے انھوں نے بھی انور علی کی مس گائیڈ کے بارے میں قارئین کو آگاہی دی ہے کہ ''خطوط غالب'' میں غالب کا نعم البدل یہی ہمارے منشی انور احمد علوی ہیں اس دعوے کی دلیل کے لیے غالب کے خط سے چند سطور پڑھیے اور لطف اٹھائیے۔ میاں! خدا تم کو سلامت رکھے۔ تین خط تمہارے آگے آئے تھے اور ایک پرسوں آیا ان کا جواب میں نے نہیں لکھا کیونکہ وہ جواب طلب نہ تھے، تم نے مجھ غم کے پتلے کو تعزیت کے سلسلے میں لکھے تھے، بھائی میرے عزیزوں کے مرنے کا انتظار نہ کیا کرو، لو اب شہر کی سنو یکشنبہ کو ماہ مقدس رمضان ہوا اسی دن سے صبح کو بریلوی مسجد میں امام صاحب سے قرآن سنتا ہوں، شب کو دیوبندی مسجد میں تراویح پڑھتا ہوں۔ جمعہ کی نماز اہل حدیث کی مسجد میں پڑھتا ہوں کیونکہ تمہارے ہاں مسلمانوں کی کوئی مخصوص مسجد مجھ کو نظر نہ آئی۔ اختتام اس طرح ہوتا ہے جمعہ 23 مئی 1995۔ خیریت کا طالب
کتاب میں 21 مکتوب شامل ہیں ہر خط کی داستان علیحدہ ہے۔ خط نمبر 2 کی ابتدائی سطریں۔ صاحب جس گھڑی تمہارا فون آیا، میں بازار میں تھا، بی بی کو دمِ شب تنہا بھیج دینے میں وہم آیا، خدا جانے اگر کوئی امرِ حادث ہو تو بدنامی تمام عمر رہے اس سبب سے ہمراہ اس کے چلا گیا ورنہ شبِ عید کی بجائے بازار کے گھر پر ہی کاٹتا، اس واسطے کہ مجھ کو تو اب رامپور نے چلتے وقت عید کارڈ، جوڑا اورکچھ رقم ہدیہ کردی تھی، بی بی موزوں طبع ہوتی تو وہ بھی کسی نواب سے مراعات فطرانہ و لباس فاخرہ پاتی۔ یہاں مریخ کا موسم دو دن سے سخت گرم ہے اس لیے اپنی کوٹھڑی میں بند ہوں۔ اے سی لگا ہے، ہاتھ کا پنکھا جھل رہا ہوں، پانی کا خالی جھجرا دھرا ہے، ہیروئن پی رہا ہوں اور یہ خط لکھ رہا ہوں۔ خط نمبر 1۔اہا ہاہا! آئیے! بیٹھیے مولانا علوی، السلام علیکم، مزاج مبارک، کرانچی بندرکا کیا کہنا ایسا شہرکہاں پیدا ہوتا ہے! سرکار کا ملازم ہوتا تو بدلی کراکے وہیں رہ جاتا ادھر کو نہ آتا، تیسری عالمی اردو کانفرنس میں جانا ہوا، بھائی وہم اور چیز ہے، حقیقت اور چیز۔ میں مثل اوروں کے اپنے خرچ پر عالمی مشاعروں میں شریک نہیں ہوتا ایک غزل کے واسطے عزت کیوں کھوؤں۔
انور علوی نے غالب کی زوجہ محترمہ کا حال اس طرح لکھا ہے۔(پنشن معطل ہونے کے بعد) مرزا کو بتلادو چائے لگ گئی ہے پینی ہو تو میز پر آجاویں چند روز بعد ایک شام بی بی کی یہ گڑگڑاہٹ سنائی دی ہم افطار کے بعد گھومنے جاویں گے، مرزا جاویں یا نہ جاویں، میں اصلاح نواب صاحب کے کلام کی کر رہا تھا، جانے سے انکار نہ کیا تھا ساتھ اس کے میں نہ گیا، پر افسوس مجھ کو بہت ہوا ۔ ایک خاتون تلک احوال میرا یہ سب پہنچا ، خیریت میری دریافت کی اور کچھ مجھ کو تسلی دی کچھ تردد نہ کرو فقر ودانش کا چولی دامن کا ساتھ ہے جملہ بازی و جملہ سازی کا دور ختم ہوا۔ دفتر میں میرے آکر بیٹھ رہو، شاعری میں میرے غزل پسند ہے جو تم اچھی بنالیتے ہو جب بندی کے ذہن میں کوئی خیال آوے گا نثر میں تم کو بتلادے گی، شعر میں تم اس کو ڈھال دینا، دو موسیقار ایک دھن بناسکتے ہیں دو شاعر ایک شعر کیوں نہیں بناسکتے۔ قرض تمہارا اتر جاوے گا، ہاتھ تمہارا کھل جاوے گا۔'' کس قدر سلیقے اور نفاست کے ساتھ غالب کے الفاظ کو اپنے خطوط میں برتا ہے کہ واقعی خطوط غالب کا مزہ دے گئے گزشتہ سالوں میں راقم الحروف کے ناول پر نہ کہ مضمون قلم بند کیا بلکہ اپنے دولت کدے پر تقریب رونمائی کا بھی انتظام کیا، اسی مضمون سے چند الفاظ۔ بھائی صاحب! خواتین پر لکھنا کچھ ہنسی کھیل نہیں سو بار سوچنا پڑتا ہے کسی کی زیادہ تعریف کردوں تو گھر میں سننی بھی پڑتی ہے۔ انور علوی کا قلم نت نئے شگوفے کھلاتا ہے، یہی ان کا کمال فن ہے۔ اللہ کرے یہ فن مزید ترقی کرے ۔(آمین)