کالا کوٹ اور اسٹیتھواسکوپ

موکل کے ساتھ میٹنگ کے بعد کئی بار سننے میں آیا کہ انھوں نے مقدمہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔

h.sethi@hotmail.com

بہت پرانی بات ہے شہر سیالکوٹ میں ایک نہایت قابل و تجربہ کار وکیل صاحب تھے لیکن عجیب شہرت کے مالک تھے ،کوئی موکل اپنا مقدمہ ان کے سپرد کرنے کے لیے وقت لیتا تو وہ کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتے اور پھر اسے یوں سوالات کرتے جیسے کوئی وکیل مخالف فریق پر جرح کر رہا ہو، ان کے سوالات پر اکثر اوقات انھیں اپنا وکیل کرنے آیا ہوا شخص پریشان ہو جاتا، چند ایک لوگ تو غصے میں بھی آئے لیکن برداشت کر گئے۔

موکل کے ساتھ میٹنگ کے بعد کئی بار سننے میں آیا کہ انھوں نے مقدمہ لینے سے انکار کر دیا ہے اور Heavy Fee کی آفر بھی ٹھکرا دی ہے۔ وکیل صاحب کی اس غیر معمولی شہرت سے ہر کوئی واقف تھا اور یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ جس سول یا فوجداری کیس کی پیروی کرتے پہلی عدالت یا ایپیلیٹ کورٹ میں سرخرو ہو کر نکلتے۔ ان کی لیگل پریکٹس کی سادہ حقیقت صرف اس قدر تھی کہ وہ جھوٹا مقدمہ لیتے ہی نہیں تھے ، اس کا کام موکل کا کیس عدالت میں پیش کر کے Relief لینا ہوتا ہے کیونکہ عدالتی انصاف کی بنیاد قانون پر ہوتی ہے نہ کہ اخلاق پر۔

جب معروف شخصیت محترم شیخ امتیاز یونیورسٹی لاء کالج لاہور کے پرنسپل تھے تو قانون کی گریجویشن دو سال میں ہوتی تھی۔ پہلا سال F.EL اور دوسرا LLB کہلاتا تھا۔ میڈیکل کی تعلیم کے لیے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج تھا، ان دو کالجوں کے فارغ التحصیل گریجوئیٹس کا معتبر نام اور مقام ہوتا تھا۔ لاء کا کورس طویل مدت تک دو سال کے بعد تین سال ہو گیا ، صرف فرسٹ اور سیکنڈ ڈویژن میں گریجویشن کرنے والوںکو یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ ملتا تھا ۔گویا قابلیت شرط تھی، اس کالج کے چند فل ٹائم اور اکثر معروف وکلاء پارٹ ٹائم لیکچرر ہوتے تھے جو عموماً ٹاپ کے پریکٹسنگ وکیل ہوتے۔

پھر ضرورت کے مطابق ایف اے پاس اور تھرڈ ڈویژن میں گریجویشن کرنے والوں کی قانون دان بننے کی خواہش کو Accomodate کرنے اور پرائیویٹ لاء کالج کھولنے والوں کے دبائو کے پیش نظر محکمہ تعلیم نے ایف اے پاس طلباء کے لیے پانچ سال اور بی اے تعلیم والوں کو تین سال لاء گریجویشن مدت کی سہولت دے کر پرائیویٹ لاء کالجز کھولنے کی پالیسی کا اجرا کر دیا، اب گلی گلی شہر شہر تین اور پانچ سال کا کورس پڑھانے اور قانون کے گریجویٹ پیدا کرنے کا سلسلہ جاری ہے ۔

بعض پرائیویٹ کالج تو ایسے علاقوں اور عمارات میں قائم ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ شخص وہاںاپنے پرائمری کلاس کے بچوں کو بھی تعلیم دلوانے سے گریز کرے ، ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ ہمارا ایف اے پاس اور تھرڈ ڈویژنر گریجویٹ کتنی عقل و فہم اور قابلیت کا مالک ہوتا ہے، اس کے لیے تو انگریزی کا ایک غلطیوں سے پاک پیراگراف لکھ لینا یا sentence بول لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے چہ جائیکہ قانون کی گہری باریکیوں پر عبور حاصل کر کے عدلیہ کے روبرو موقف بیان کر کے فریق مخالف کے استدلال کو رد کر دینا۔


پھر ہر شہر اور عدالتوں میں جہاں صرف ایک سو وکلاء کی گنجائش ہے، چار پانچ سو نوجوان کالے کوٹ پر نیکٹائی لگائے موکل کی تلاش میں فرسٹریٹڈ گھومتے گھورتے اور اپنی سروسز پیش کرتے اور آمادہ فساد نظر آتے ہیں۔ گزشتہ دس پندرہ سال کے دوران وکلاء کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ ایف اے ، بی اے پاس اسٹوڈنٹ نے تو قانون کی ڈگری لی تھی، مقدمات لینے کمائی کرنے اور مصروف رہنے کے لیے شاید کسی نے انھیں چٹی، ہٹی اور کھٹی کا اصولِ معیشت نہیں بتایا تھا۔ وکالت میں تو ابتدائی چار پانچ سالInvest کر کے اپنی قابلیت منوانی ہوتی ہے لیکن ہمارے New Entrants ڈے ون سے کمائی کرنا چاہتے ہیں جو اس پروفیشن میں ممکن نہیں۔

یہ وکلاء گردی، ہنگامے ، مارکٹائی ، ججوں سے لڑائی ، ہاتھا پائی ، عدالتوں کو تالے، سڑکیں بلاک کرنا کوئی ان ہونی نہیں۔ لاء پڑھنے والے یہ تین اور پانچ سال میں وکیل بن کر فوری روٹی کے متلاشیHave Nots کلاس کے نوجوان ہیں، ان کی تربیت کی ضرورت ہے، ان کا کالا کوٹ محترم اور معتبر ہے، اسے کالا دھبہ بننے سے روکنے کی ضرورت ہے۔ وکلاء گردی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے، مذکورہ وکیل ممکن ہے کلی طور پر قصور وار نہ ہوں لہٰذا ان کی تربیت کے لیے کسی کو توInitiative لینا ہو گا۔ شاید جناب چیف جسٹس کے ذہن میں کبھی یہ خیال آیا ہو ؟

حصول ِ انصاف و حق کے لیے وکلاء کی موجودگی اور ان کی خدمات سے دنیا کے بے شمار ممالک اور افراد نے استفادہ کیا جب کہ ڈاکٹر حکیم مسیحائی کرتے ہوئے بیماری کو صحت یابی میں بدل کر ثواب کماتے اور دعائیں لیتے ہیں جیسے جیسے آبادی میں اضافہ ہوا اور نت نئی بیماریوں کی آمد ہوئی اس کے ساتھ ہی سرکاری اسپتالوں اور میڈیکل کالجوں کی کمی کی وجہ سے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں نے اس ضرورت کو پورا کیا اور اب پرائیویٹ اسپتالوں کی تعداد سرکاری اسپتالوں سے کہیں زیادہ ہے لیکن لوگوں کی غربت اور بیماریوں سے فائدہ اُٹھانے والوں نے اپنے اپنے جعلی کلینک کھول کر ضرورت مندوں کے پیسے اور ان کی بیماریوں سے کھیلنا شروع کر دیا، اب جینوئن ڈاکٹروں کی تعداد سے زیادہ نیم حکیموں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور اس کی وجہ غربت اور جہالت ہے ۔

ہر شہر میں اچھی اور برُی شہرت والے کلینک اور اسپتال موجود ہیں۔ پرائیویٹ اسپتالوںمیں ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جن سے کنسلٹیشن اور علاج کرا لینا ایک متوسط آدمی کے بس میں نہیں رہا جب کہ سرکاری اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد قابو میں نہیں رہی، سرکاری اسپتالوں کے ڈاکٹروں کی تنخواہیں اور مراعات کم ہونے کی وجہ سے آئے دن ان کے احتجاج ، ہڑتالوں، ہنگاموں اور دھرنوں کی شکل اختیار کرکے حکومت اور مریضوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

وُکلاء توکلائنٹ نہ ملنے اور کمائی نہ ہونے کی وجہ سے ہنگامے کر کے اپنی فرسٹریشن دور کرنے کے ساتھ اپنے پیشے کی بدنامی کرتے اور ججز پر بھی غُصّہ اُتارتے ہیں لیکن ڈاکٹر حضرات بیماروں کا استحصال کرتے ہیں جو ایک مسیحا صفت کو زیب نہیں دیتا۔ کالا کوٹ عدل اور انصاف کا نشان ہے جب کہ سٹیتھو اسکوپ صحت و تندرستی کا وسیلہ و علامت ہے۔ امید کرنے چاہیے کہ ہردو ماہرین اپنی نشانیوں کو بدنام ہونے سے بچائیں گے۔
Load Next Story