دونوں بھائی
آج اپنے ساتھیوں اور بہی خواہوں کو افسردہ چھوڑ کر وہ احتساب کے سپرد ہو گئے ہیں۔
کچھ نہیں بہت سے لوگوں کو میاں نواز شریف کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بے حد دکھ ہے لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ میاں صاحب کے لا ابالی پن اور ان کے شاہانہ مزاج اور عادات و اطوار نے انھیں اقتدار میں بھی بہت پریشان رکھا ۔ ان لوگوں کی باتیں سن کر مجھے اپنے ایک سینئر استاد مرحوم مقبول صاحب کا نثری نوحہ یاد آگیا۔ مقبول صاحب کا نوجوان بیٹا فوت ہو گیا، ان کے ہاں تعزیت کے لیے حاضری دی تو وہ نوجوان بیٹے کے غم میں نڈھال تھے۔ انھوں نے کہا کہ اس نے زندگی میں بھی بہت رلایا اور مر کر بھی بہت رلایا۔
میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی، ایک اقتدار میں تو دوسرا اپوزیشن میں ہوتا ۔ تیسری اور آخری بار بھی میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے اقتدار کا پانچ سالہ دور مکمل کرانے کے بعد اقتدار میں آئے تو پاکستانی مزاج رکھنے والوں نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ اس کے باوجود کہ وہ میاں صاحب کا اقتدار پہلے بھی دو مرتبہ دیکھ بلکہ بھگت چکے تھے لیکن ماضی کی ان کی اچھی بری حکومتوں کی سب باتوں کو بھلا کر لوگوں کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور سیاست میں ان کا ایک نئے جھونکے کی طرح استقبال کیا گیا ۔
ان کے اقتدار کے پہلے دونوں ادوار سے کچھ زیادہ تلخ یادیں وابستہ نہیں تھیں کہ ان کو تیسری بار ناپسند کیا جاتا لیکن ان کے کئی ساتھیوں نے جن میں اکثر غیر سیاسی لوگ تھے اور چند ایک سیاسی بھی تھے جنہوں نے اپوزیشن اور وہ بھی مارشل لاء کی اپوزیشن میں میاں صاحب کے لیے قربانیاں دیں تھیں ان کو تیسرے دور حکومت میں فوراً اپنے نرغے میں لے لیا، وہ سب اس شخص کو اچھی طرح جان پہچان چکے تھے اور اب وہ کوئی غلطی کوئی کوتاہی اور سستی کرنے پر تیار نہیں تھے ۔ ان لوگوں نے میاں
صاحب کو اچھی حکومت سے دور اور اپنے مفادات سے قریب کر لیا ۔ میاں صاحب سیاست میں کئی دہائیاں گزارنے کے بعد بھی اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال نہ کر سکے کہ ان چالاک اور کاریگر لوگوں سے بچ کر رہ سکتے۔ انھی چالاک اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ملک کے مقتدر حلقوں کے ساتھ ٹکر لینے کا مشورہ دیا اور یہ مشورہ وہ تب تک دیتے رہے جب تک میاں صاحب نے اس پر عمل نہ کر دیا۔ میاں صاحب کے ہمدردانہ مزاج میں کبھی ہلچل پیدا ہوتی تو وہ کسی بڑے عوامی منصوبے پر متوجہ ہو جاتے ۔ انھوں نے ترنگ میں آ کر کئی ایسے کام کیے جو بالکل غیر روائتی، جارحانہ اور انقلابی تھے مثلاً ان کے پہلے دور میں سندھ کے ہاریوں میں زمین کی تقسیم کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
ملک میں موٹر ویز اور چائنہ پاکستان راہداری منصوبہ کوئی معمولی منصوبے نہیں تھے۔ وہ اگر یہ کام سیاسی حکمت عملی اور ملکی اداروں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھنے کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے اور اس کے صحیح نتائج کا ادراک کر لیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ انھوں نے اپنے اقتدار کے تینوں زمانوں میں بڑے بڑے کام کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے بنیادی اور دیرپا بھلائی کے کئی دوسرے کام بھی کیے جن کا ذکر کرنے کی یہاں نہ گنجائش ہے اور نہ مقصد، عرض یہ کرنا ہے کہ میاں نواز شریف میں سے اگر ''تجارت'' نکال لی جاتی تو وہ ایک اچھے اور جرات مند حکمران تھے۔
اقتدار کے پہلے دور میں جب دونوں بھائیوں کو ان کے قریبی لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب جب خدا نے آپ کو اقتدار دے دیا ہے آپ آج سے اعلان کر دیں کہ ہمارے کاروبار ختم اور ان میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے۔ دونوں بھائیوں نے اس وقت اپنے والد صاحب سے اس تجویز کا ذکر کیا تو انھوں نے نہ صرف ان کو ڈانٹ دیا بلکہ اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ میرے ذاتی خیال میں ان بھائیوں کے اقتدار میں تب سے زوال شروع ہوا اور غلطی پر غلطیاں ہونی شروع ہوئیں جو اب تک ان کی جان نہیں چھوڑ رہیں۔ بھارت کے ساتھ کاروبار کے معاملات ہوں۔ میاں نواز شریف اور ان کی ماضی کی سیاسی حریف پارٹی پیپلز پارٹی میں بنیادی فرق پاکستانیت کا تھا جو میاں صاحب نے اپنی ذاتی خواہشوں پر قربان کر دیا اور عوام کے دلوں میں ان کی بھارت نواز ی چھید کر گئی۔
بہر کیف میاں نواز شریف بہت بدل گئے ۔ ان کی یہ تبدیلی بھارت نواز بیانات اور مودی کی مہمان نواز ی سے ہر پاکستانی پر ظاہر ہو گئی۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ میاں نواز شریف ذاتی طور پر ایک اچھے انسان ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں حیا ہے، ہمدردی ہے، خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کے بھائی میاں شہباز شریف کی کار کردگی کا ہر کوئی معترف ہے یہاں تک کہا جاتا رہا کہ وزیر اعظم تو انھیں ہونا چاہیے تھا ۔ دونوں بھائیوں کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی جوڑی تھی ۔ میاں شہباز نے عوامی بھلائی کے بہت کام کیے ہیں اگر دونوں بھائیوںمیں خرابیاں تھیں تو خوبیوں سے بھی خالی نہیں تھے ۔ ذرا سنبھل کر چلتے اور نادان دوستوں کی باتوں پر زیادہ توجہ نہ دیتے تو بچ نکلتے۔
آج اپنے ساتھیوں اور بہی خواہوں کو افسردہ چھوڑ کر وہ احتساب کے سپرد ہو گئے ہیں۔ ان کے اس انجام پر کوئی بھی خوش نہیں لیکن یہ سب کچھ ان کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ عوام کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ عوام کی تو خواہش تھی کہ میاں صاحب کی حکومت کا تسلسل برقرار رہتا لیکن جس طرح اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح ان کے اقتدار کی گرفت بھی کمزور پڑ گئی اور خود غرض یا نادان دوست اس کمزور ذہن کے شخص کو لے ڈوبے۔ میاں صاحبان کے ساتھ جو سیاسی تعلق رہا اس کے واسطے مگر ایک رنج و ملال کے ساتھ وہ یاد رہیں گے۔
میاں نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری رہی، ایک اقتدار میں تو دوسرا اپوزیشن میں ہوتا ۔ تیسری اور آخری بار بھی میاں نواز شریف پیپلز پارٹی کے اقتدار کا پانچ سالہ دور مکمل کرانے کے بعد اقتدار میں آئے تو پاکستانی مزاج رکھنے والوں نے ان کا پرجوش خیر مقدم کیا۔ اس کے باوجود کہ وہ میاں صاحب کا اقتدار پہلے بھی دو مرتبہ دیکھ بلکہ بھگت چکے تھے لیکن ماضی کی ان کی اچھی بری حکومتوں کی سب باتوں کو بھلا کر لوگوں کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ تھیں اور سیاست میں ان کا ایک نئے جھونکے کی طرح استقبال کیا گیا ۔
ان کے اقتدار کے پہلے دونوں ادوار سے کچھ زیادہ تلخ یادیں وابستہ نہیں تھیں کہ ان کو تیسری بار ناپسند کیا جاتا لیکن ان کے کئی ساتھیوں نے جن میں اکثر غیر سیاسی لوگ تھے اور چند ایک سیاسی بھی تھے جنہوں نے اپوزیشن اور وہ بھی مارشل لاء کی اپوزیشن میں میاں صاحب کے لیے قربانیاں دیں تھیں ان کو تیسرے دور حکومت میں فوراً اپنے نرغے میں لے لیا، وہ سب اس شخص کو اچھی طرح جان پہچان چکے تھے اور اب وہ کوئی غلطی کوئی کوتاہی اور سستی کرنے پر تیار نہیں تھے ۔ ان لوگوں نے میاں
صاحب کو اچھی حکومت سے دور اور اپنے مفادات سے قریب کر لیا ۔ میاں صاحب سیاست میں کئی دہائیاں گزارنے کے بعد بھی اپنی سمجھ بوجھ کو استعمال نہ کر سکے کہ ان چالاک اور کاریگر لوگوں سے بچ کر رہ سکتے۔ انھی چالاک اور ہوشیار لوگوں نے ان کو ملک کے مقتدر حلقوں کے ساتھ ٹکر لینے کا مشورہ دیا اور یہ مشورہ وہ تب تک دیتے رہے جب تک میاں صاحب نے اس پر عمل نہ کر دیا۔ میاں صاحب کے ہمدردانہ مزاج میں کبھی ہلچل پیدا ہوتی تو وہ کسی بڑے عوامی منصوبے پر متوجہ ہو جاتے ۔ انھوں نے ترنگ میں آ کر کئی ایسے کام کیے جو بالکل غیر روائتی، جارحانہ اور انقلابی تھے مثلاً ان کے پہلے دور میں سندھ کے ہاریوں میں زمین کی تقسیم کرنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔
ملک میں موٹر ویز اور چائنہ پاکستان راہداری منصوبہ کوئی معمولی منصوبے نہیں تھے۔ وہ اگر یہ کام سیاسی حکمت عملی اور ملکی اداروں کے ساتھ مکمل ہم آہنگی رکھنے کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے اور اس کے صحیح نتائج کا ادراک کر لیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ انھوں نے اپنے اقتدار کے تینوں زمانوں میں بڑے بڑے کام کرنے کی کوشش کی ۔ انھوں نے بنیادی اور دیرپا بھلائی کے کئی دوسرے کام بھی کیے جن کا ذکر کرنے کی یہاں نہ گنجائش ہے اور نہ مقصد، عرض یہ کرنا ہے کہ میاں نواز شریف میں سے اگر ''تجارت'' نکال لی جاتی تو وہ ایک اچھے اور جرات مند حکمران تھے۔
اقتدار کے پہلے دور میں جب دونوں بھائیوں کو ان کے قریبی لوگوں نے یہ مشورہ دیا کہ اب جب خدا نے آپ کو اقتدار دے دیا ہے آپ آج سے اعلان کر دیں کہ ہمارے کاروبار ختم اور ان میں کوئی اضافہ نہیں کریں گے۔ دونوں بھائیوں نے اس وقت اپنے والد صاحب سے اس تجویز کا ذکر کیا تو انھوں نے نہ صرف ان کو ڈانٹ دیا بلکہ اس تجویز کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ میرے ذاتی خیال میں ان بھائیوں کے اقتدار میں تب سے زوال شروع ہوا اور غلطی پر غلطیاں ہونی شروع ہوئیں جو اب تک ان کی جان نہیں چھوڑ رہیں۔ بھارت کے ساتھ کاروبار کے معاملات ہوں۔ میاں نواز شریف اور ان کی ماضی کی سیاسی حریف پارٹی پیپلز پارٹی میں بنیادی فرق پاکستانیت کا تھا جو میاں صاحب نے اپنی ذاتی خواہشوں پر قربان کر دیا اور عوام کے دلوں میں ان کی بھارت نواز ی چھید کر گئی۔
بہر کیف میاں نواز شریف بہت بدل گئے ۔ ان کی یہ تبدیلی بھارت نواز بیانات اور مودی کی مہمان نواز ی سے ہر پاکستانی پر ظاہر ہو گئی۔ میں نے کئی بار لکھا ہے کہ میاں نواز شریف ذاتی طور پر ایک اچھے انسان ہیں ۔ ان کی آنکھوں میں حیا ہے، ہمدردی ہے، خوشگوار طبیعت کے مالک ہیں۔ ان کے بھائی میاں شہباز شریف کی کار کردگی کا ہر کوئی معترف ہے یہاں تک کہا جاتا رہا کہ وزیر اعظم تو انھیں ہونا چاہیے تھا ۔ دونوں بھائیوں کو اگر ملا کر دیکھا جائے تو یہ ایک اچھی جوڑی تھی ۔ میاں شہباز نے عوامی بھلائی کے بہت کام کیے ہیں اگر دونوں بھائیوںمیں خرابیاں تھیں تو خوبیوں سے بھی خالی نہیں تھے ۔ ذرا سنبھل کر چلتے اور نادان دوستوں کی باتوں پر زیادہ توجہ نہ دیتے تو بچ نکلتے۔
آج اپنے ساتھیوں اور بہی خواہوں کو افسردہ چھوڑ کر وہ احتساب کے سپرد ہو گئے ہیں۔ ان کے اس انجام پر کوئی بھی خوش نہیں لیکن یہ سب کچھ ان کا اپنا کیا دھرا ہے ۔ عوام کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ عوام کی تو خواہش تھی کہ میاں صاحب کی حکومت کا تسلسل برقرار رہتا لیکن جس طرح اداروں کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی اسی طرح ان کے اقتدار کی گرفت بھی کمزور پڑ گئی اور خود غرض یا نادان دوست اس کمزور ذہن کے شخص کو لے ڈوبے۔ میاں صاحبان کے ساتھ جو سیاسی تعلق رہا اس کے واسطے مگر ایک رنج و ملال کے ساتھ وہ یاد رہیں گے۔