شارٹ فلم ’ آزاد ‘
دیار غیر میں بسنے والے یاسر اختر کا بطور ہیرو اور ڈائریکٹر نیا شاہکار مکمل
گوروں کے دیس برطانیہ میں بسنے والے یاسر اختر کسی تعارف کے محتاج نہیں، بطور چائلڈ سٹار اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے اس باصلاحیت اداکار نے جس طرح اداکاری ماڈلنگ اور گلوکاری کے شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اسی طرح بطور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں شارٹ فلموں کی سیریز پر کام شروع کیا جس کی پہلی فلم' آزاد'مکمل ہوچکی ہے۔
اس فلم میں ان کے مدمقابل اداکارہ مومل شیخ نے مرکزی کردار نبھایا ہے جبکہ دیگر فنکاروں میں پروین اکبر، گگن چوپڑا، عمران علی سید، جوڈین رچرڈسن اور حرا ترین سمیت دیگر شامل ہیں۔ فلم کی کہانی رومی زاہد نے لکھی ہے جبکہ اس کا بیک گراؤنڈ میوزک عابد عمر نے ترتیب دیا ہے۔
110منٹ دورانیے کی شارٹ فلم کی دیار غیر میں عکس بندی دیکھی جائے تو ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو آجکل کے دور میں بے حد ضروری ہے۔
اس حوالے سے ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے یاسر اختر کا کہنا تھا کہ کہ میرا پاکستان سے ایک گہرا ناتا ہے میں نے اپنے فنی سفر کا آغاز بطور چائلڈ سٹار کیا مگر کبھی یہ سوچا نہ تھا کہ مستقل اسی شعبے میں کام کروں گا، وقت گذرتا رہا اور میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتا رہا پہلے ایکٹنگ کی اور پھر میوزک کے شعبے کی جانب آیا مگر جو بھی کام کیا اس کو بڑی محنت اور لگن کے ساتھ انجام دیا اس کے بعد جب میں برطانیہ آیا تو یہاں بھی شوبز ہی میری پہلی ترجیح تھی۔
میں نے یہاں باقاعدہ اپنا پروڈکشن ہاؤس بنایا اور کام کرتا رہا اس دوران برطانیہ میں بسنے والے بہت سے نوجوان اور مقبول گلوکاروں کے ساتھ جہاں میوزک کے شعبے میں کام کیا وہیں بطور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بہت سے گانوں کی ویڈیو بھی بنائی دیکھا جائے تو یہ شعبہ بھی انتہائی دلچسپ تھا، جس میں کام کرتے ہوئے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا میں نے برطانیہ میں رہتے ہوئے جہاں بہت سے پروجیکٹس پر کام کیا وہیں ہر سال یوم آزادی سمیت دیگر ملکی اور مذہبی تہواروں کے موقع پر تقریبات میں بھی شرکت کرتا رہا اس مرتبہ میں نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے شارٹ فلموں کی سیریز بنانے کا فیصلہ کیا تھا میری بیگم اختر نے بھرپور انداز سے میری سپورٹ کی اس پروجیکٹ کے لیے رومی زاہد نے بہترین کہانی لکھی لیکن جب فلم کی کاسٹ فائنل کرنے کا وقت قریب آیا تو مجھے خاصی دشواری ہوئی کیوں کہ اس فلم کو برطانیہ میں شوٹ کرنا تھا تو مجھے ایک ایسی اداکارہ کی ضرورت تھی جو فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتی ہو۔ جب مجھے مومل شیخ کے بارے میں معلومات ملی تو میں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انہیں اس کردار کے لیے سائن کرلیا اس کی بڑی وجہ ان کے والد جاوید شیخ سے میرا ایک گہرا تعلق بھی ہے دوسری جانب مومن خود بھی بہت باصلاحیت اداکارہ ہے جس کا اندازہ مجھے ان کے ساتھ کام کر کے بھی ہوا اس پروجیکٹ کو ہم نے لندن کی خوبصورت لوکیشنز پر فلم بند کیا۔
اس دوران ہمیں خاصی دشواریوں کا سامنا بھی رہا کیونکہ کبھی موسم سرد ہو جاتا اور کبھی بارش ہونے لگتی جس کی وجہ سے اکثر شوٹنگ کینسل بھی ہوتی مگر ہم نے اپنا کام جاری رکھا اور اب یہ مکمل ہوچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ میں فلمسازی کا معیار بالکل الگ ہے پاکستان میں ہمیں فلم بنانے میں جو سرمایہ درکار ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ سرمایہ برطانیہ میں فلم بنانے کے لیے خرچ کرنا پڑتا ہے اس سلسلہ میں میری اہلیہ نے بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہمیں مکمل سپورٹ کیا اور ایک بھی لمحہ ایسا نہ تھا جو ہم نے فلم کی کہانی کی ڈیمانڈ کو پورا نہ کرتے ہوئے سین فلم بند کئے ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں یاسر اختر کا کہنا تھا اس وقت پاکستان میں فلمسازی کا شعبہ بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے لیکن میری فلم بھی کسی فیچر فلم سے کم نہ ہوگی کیونکہ جہاں اس کی کہانی جاندار ہے وہیں اس کے میوزک پربھی ہم نے خاص توجہ دی ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب ہماری فلم ناظرین دیکھیں تو انہیں ایسا نہ لگے کہ وہ کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں بننے والی اکثر فلموں کے بارے میں شائقین کی یہی رائے ہوتی ہے کہ وہ ٹی وی ڈرامہ لگتی ہیں، مگر میں نے اپنے اس پروجیکٹ میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ٹی وی ڈرامہ اور فلم کا فرق برقرار رہے۔
جہاں تک بات مومل شیخ کے کام کی ہے تو انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے فنکار کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا میں تو یہ کہوں گا کہ انہوں نے اپنے کردار کو سجانے کے لیے خوب محنت کی اور جب ہم نے ان کا کام دیکھا تو ہم سب حیران رہ گئے۔وہ واقعی ایک باصلاحیت اداکارہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ جب ہماری شارٹ فلم لوگ دیکھیں گے تو وہ ان کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کئے بغیر نہ رہیں گے۔
یاسراختر نے آخر میں بتایا کہ کہ میں لندن میں رہتا ہوں مگر میرا دل ہمیشہ پاکستان کے ساتھ لگتا ہے میں یہاں پر رہ کر بھی جو کام کرتا ہوں اس میں پاکستان کا کلچر نمایاں دکھائی دیتا ہے اس لیے میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے جس پراجیکٹ کو شروع کیا ہے یہ اس کا پہلا مرحلہ ہے اور آنے والے دنوں میں ہم بہت سی شارٹ فلمیں ناظرین کی تفریح کے لئے بنائیں گے مجھے امید ہے کہ جب لوگ ہماری اس کاوش کو دیکھیں گے تو اس کے موضوع فنکاروں کی اداکاری اور لندن کی خوبصورتی سے لطف اٹھائیں گے۔ لیکن میں یہاں ایک بات کا ذکر بھی ضرور کرنا چاہوں گا کہ پاکستانی عوام اپنے فنکاروں اور اپنی پروڈکٹس کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دے کیونکہ ہماری پہچان ہماری شناخت پاکستان سے ہے۔
اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو پاکستان فلم انڈسٹری اور ٹی وی ڈرامہ سمیت دیگر شعبوں میں کام کرنے والے فنکاروں تکنیک کاروں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی پاکستانی ڈرامہ دکھا کر نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہے اس لیے میری پوری پاکستانی قوم سے اپیل ہے کہ وہ پاکستان کے فنکاروں اور اس شعبے سے جڑے لوگوں کی قدر کریں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو دن رات محنت کرکے عوام کو تفریح کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔
اس فلم میں ان کے مدمقابل اداکارہ مومل شیخ نے مرکزی کردار نبھایا ہے جبکہ دیگر فنکاروں میں پروین اکبر، گگن چوپڑا، عمران علی سید، جوڈین رچرڈسن اور حرا ترین سمیت دیگر شامل ہیں۔ فلم کی کہانی رومی زاہد نے لکھی ہے جبکہ اس کا بیک گراؤنڈ میوزک عابد عمر نے ترتیب دیا ہے۔
110منٹ دورانیے کی شارٹ فلم کی دیار غیر میں عکس بندی دیکھی جائے تو ایک ایسا پراجیکٹ ہے جو آجکل کے دور میں بے حد ضروری ہے۔
اس حوالے سے ایکسپریس کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے یاسر اختر کا کہنا تھا کہ کہ میرا پاکستان سے ایک گہرا ناتا ہے میں نے اپنے فنی سفر کا آغاز بطور چائلڈ سٹار کیا مگر کبھی یہ سوچا نہ تھا کہ مستقل اسی شعبے میں کام کروں گا، وقت گذرتا رہا اور میں فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتا رہا پہلے ایکٹنگ کی اور پھر میوزک کے شعبے کی جانب آیا مگر جو بھی کام کیا اس کو بڑی محنت اور لگن کے ساتھ انجام دیا اس کے بعد جب میں برطانیہ آیا تو یہاں بھی شوبز ہی میری پہلی ترجیح تھی۔
میں نے یہاں باقاعدہ اپنا پروڈکشن ہاؤس بنایا اور کام کرتا رہا اس دوران برطانیہ میں بسنے والے بہت سے نوجوان اور مقبول گلوکاروں کے ساتھ جہاں میوزک کے شعبے میں کام کیا وہیں بطور پروڈیوسر اور ڈائریکٹر بہت سے گانوں کی ویڈیو بھی بنائی دیکھا جائے تو یہ شعبہ بھی انتہائی دلچسپ تھا، جس میں کام کرتے ہوئے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا میں نے برطانیہ میں رہتے ہوئے جہاں بہت سے پروجیکٹس پر کام کیا وہیں ہر سال یوم آزادی سمیت دیگر ملکی اور مذہبی تہواروں کے موقع پر تقریبات میں بھی شرکت کرتا رہا اس مرتبہ میں نے اپنے پروڈکشن ہاؤس کے بینر تلے شارٹ فلموں کی سیریز بنانے کا فیصلہ کیا تھا میری بیگم اختر نے بھرپور انداز سے میری سپورٹ کی اس پروجیکٹ کے لیے رومی زاہد نے بہترین کہانی لکھی لیکن جب فلم کی کاسٹ فائنل کرنے کا وقت قریب آیا تو مجھے خاصی دشواری ہوئی کیوں کہ اس فلم کو برطانیہ میں شوٹ کرنا تھا تو مجھے ایک ایسی اداکارہ کی ضرورت تھی جو فنکارانہ صلاحیتوں سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان پر بھی عبور رکھتی ہو۔ جب مجھے مومل شیخ کے بارے میں معلومات ملی تو میں نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر انہیں اس کردار کے لیے سائن کرلیا اس کی بڑی وجہ ان کے والد جاوید شیخ سے میرا ایک گہرا تعلق بھی ہے دوسری جانب مومن خود بھی بہت باصلاحیت اداکارہ ہے جس کا اندازہ مجھے ان کے ساتھ کام کر کے بھی ہوا اس پروجیکٹ کو ہم نے لندن کی خوبصورت لوکیشنز پر فلم بند کیا۔
اس دوران ہمیں خاصی دشواریوں کا سامنا بھی رہا کیونکہ کبھی موسم سرد ہو جاتا اور کبھی بارش ہونے لگتی جس کی وجہ سے اکثر شوٹنگ کینسل بھی ہوتی مگر ہم نے اپنا کام جاری رکھا اور اب یہ مکمل ہوچکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور برطانیہ میں فلمسازی کا معیار بالکل الگ ہے پاکستان میں ہمیں فلم بنانے میں جو سرمایہ درکار ہوتا ہے اس سے کہیں زیادہ سرمایہ برطانیہ میں فلم بنانے کے لیے خرچ کرنا پڑتا ہے اس سلسلہ میں میری اہلیہ نے بطور ایگزیکٹو پروڈیوسر ہمیں مکمل سپورٹ کیا اور ایک بھی لمحہ ایسا نہ تھا جو ہم نے فلم کی کہانی کی ڈیمانڈ کو پورا نہ کرتے ہوئے سین فلم بند کئے ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں یاسر اختر کا کہنا تھا اس وقت پاکستان میں فلمسازی کا شعبہ بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہے لیکن میری فلم بھی کسی فیچر فلم سے کم نہ ہوگی کیونکہ جہاں اس کی کہانی جاندار ہے وہیں اس کے میوزک پربھی ہم نے خاص توجہ دی ہے کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ جب ہماری فلم ناظرین دیکھیں تو انہیں ایسا نہ لگے کہ وہ کوئی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ پاکستان میں بننے والی اکثر فلموں کے بارے میں شائقین کی یہی رائے ہوتی ہے کہ وہ ٹی وی ڈرامہ لگتی ہیں، مگر میں نے اپنے اس پروجیکٹ میں اس بات کا خاص خیال رکھا ہے کہ ٹی وی ڈرامہ اور فلم کا فرق برقرار رہے۔
جہاں تک بات مومل شیخ کے کام کی ہے تو انہوں نے ثابت کیا کہ وہ ایک بڑے فنکار کی صاحبزادی ہیں انہوں نے اپنے کردار کے ساتھ انصاف کیا میں تو یہ کہوں گا کہ انہوں نے اپنے کردار کو سجانے کے لیے خوب محنت کی اور جب ہم نے ان کا کام دیکھا تو ہم سب حیران رہ گئے۔وہ واقعی ایک باصلاحیت اداکارہ ہیں اور مجھے امید ہے کہ جب ہماری شارٹ فلم لوگ دیکھیں گے تو وہ ان کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کئے بغیر نہ رہیں گے۔
یاسراختر نے آخر میں بتایا کہ کہ میں لندن میں رہتا ہوں مگر میرا دل ہمیشہ پاکستان کے ساتھ لگتا ہے میں یہاں پر رہ کر بھی جو کام کرتا ہوں اس میں پاکستان کا کلچر نمایاں دکھائی دیتا ہے اس لیے میں یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے جس پراجیکٹ کو شروع کیا ہے یہ اس کا پہلا مرحلہ ہے اور آنے والے دنوں میں ہم بہت سی شارٹ فلمیں ناظرین کی تفریح کے لئے بنائیں گے مجھے امید ہے کہ جب لوگ ہماری اس کاوش کو دیکھیں گے تو اس کے موضوع فنکاروں کی اداکاری اور لندن کی خوبصورتی سے لطف اٹھائیں گے۔ لیکن میں یہاں ایک بات کا ذکر بھی ضرور کرنا چاہوں گا کہ پاکستانی عوام اپنے فنکاروں اور اپنی پروڈکٹس کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دے کیونکہ ہماری پہچان ہماری شناخت پاکستان سے ہے۔
اگر ہم ماضی کا جائزہ لیں تو پاکستان فلم انڈسٹری اور ٹی وی ڈرامہ سمیت دیگر شعبوں میں کام کرنے والے فنکاروں تکنیک کاروں نے اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے، اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی پاکستانی ڈرامہ دکھا کر نوجوانوں کی تربیت کی جاتی ہے اس لیے میری پوری پاکستانی قوم سے اپیل ہے کہ وہ پاکستان کے فنکاروں اور اس شعبے سے جڑے لوگوں کی قدر کریں کیونکہ یہی وہ لوگ ہیں جو دن رات محنت کرکے عوام کو تفریح کے بہترین مواقع فراہم کرتے ہیں۔