بہتان بد عنوانیاں اور بندی خانے
بہتان ،بد عنوانیاں اور بندی خانے
وطنِ عزیز کے ممتاز اخبار نویس اور محترم محقق جناب منیر احمد منیر کی تازہ کتاب کا مطالعہ کرتے ہُوئے کئی حیرتوں نے دبوچ رکھا ہے۔ ''نواز شریف اور بے نظیر، جیسا کہ مَیں انھیں جانتا ہُوں'' نامی اس کتاب میں شرمندہ کر دینے والی کئی باتیں ہیں ۔ یہ تصنیف دراصل سابق صدرِ پاکستان ، سردار فاروق احمد خان لغاری، سے دو عشرے قبل کیے گئے دو مفصل مکالموں پر مشتمل ہے۔
کتاب پڑھتے ہُوئے یوں لگتا ہے جیسے وقت دو دہائیوں سے تھما ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ پاکستان اور اس کے مقتدر سیاستدانوں کے جو حالات 20 سال پہلے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ویسے ہی کرپشن کے الزامات ۔دو عشرے قبل سابق صدرِ پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے یکساں طور پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو کرپشن میں لتھڑا قرار دیا تھا اور آج پی ٹی آئی کی طرف سے نواز شریف اورآصف زرداری پر تہمتیں عائد کی جا رہی ہیں ۔
کچھ الزامات نواز شریف پر احتساب عدالت میں ثابت بھی ہُوئے اور انھیں سات سال کی سزا بھی ملی جب کہ زرداری پر عائد کی گئی متعدد تہمتیں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ لغاری صاحب نے دو عشرے قبل پیشگوئی کی تھی کہ یہ دونوں ایک روز پکڑے جائیں گے : '' (یہ دونوں)جتنی مرضی ہائی ٹیکنالوجی استعمال کرلیں، ایک مکافاتِ عمل بھی ہوتا ہے۔ یہ انشاء اللہ پکڑے جائیں گے۔'' (صفحہ 15)۔ 1998ء میں دیے گئے انٹرویو میں سابق صدرِ پاکستان کہتے ہیں کہ ''حکومت کے پاس تو شائد تین چار ماہ بعد سول سروسز کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے بھی نہ ہوں، یہ ڈیم کہاں سے بنائیں گے؟'' (صفحہ29) اور آج 2019ء میں ہماری حکومت کی مالی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ ملک کی ترقی کے دعویدار پھر بتائیں : بدلا کیا؟ بیس سال قبل بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہمارے حکمران غیروں سے قرض مانگ رہے تھے، آج بھی قرض مانگا جا رہا ہے۔ آج پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان ملک کو وَن یونٹ بنانے جا رہے ہیں۔
زیر نظر کتاب پڑھتے ہُوئے حیرت ہوتی ہے کہ یہی شکوہ فاروق احمد لغاری بیس سال پہلے جناب نواز شریف اور شہباز شریف سے کر رہے تھے :''یہ لوگ (شریف برادران) پاکستان کو چلا رہے ہیں وَن یونٹ کی طرح ۔ یہ پاکستان کو ایک خاندان کی حکمرانی کے طور پر چلا رہے ہیں ، جیسے مغلیہ حکومت کے زوال کے دَور میں تھا...... جس طرح وَن یونٹ کے طور پر یہ ملک کو چلا رہے ہیں ، ان تمام چیزوں نے مل کر چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔'' (صفحہ 30/31) کیا یہ بیان پڑھ کر لگتا نہیں کہ وقت وہیں کا وہیں تھما ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔
فاروق لغاری کرپشن کے حوالے سے اپنے اوپر عائد گئے بہتانوںکو تو سرے ہی سے مسترد کرتے ہیں لیکن مکالمے کے دوران متعدد بار نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو الزامات کی زد میں رکھتے نظر آتے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے وہ نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک ہی سکّے کے دورُخ قرار دیتے ہیں (صفحہ15) اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس میدان میں دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں: ''نواز شریف نے تو بینظیر کو کمشنوں اور کک بیکس کی راہ دکھائی۔ نواز شریف نے اپنی چیف منسٹری کے دَور میں اسٹیٹ پراپرٹی سے لوگوں کو نوازا، سیاسی خرید و فروخت کی۔ اور پھر بینظیر کو جب موقع ملا کہ اُس سے حساب لے، جب اُس کے پاس بہت مواد تھا بھی تو اس کو نہیں استعمال کیا۔''(صفحہ 35) اگر ہمارے یہ دونوں سابقہ وزرائے اعظم ایک دوسرے کا خود ہی احتساب کر لیتے تو شائد بعد میں آنے والی مصیبتوں اور ندامتوں سے بچ جاتے ۔ فاروق لغاری کہتے ہیں کہ '' ہم نے بینظیر بھٹو سے جا کر کہا تھا (جب وہ وزیر اعظم تھیں ) کہ آپ کے شوہر (آصف زرداری)کے بارے رشوت کے الزامات ہیں ، انھیں سنبھالیں '' لیکن وعدے کے باوجود محترمہ ایسا نہ کر سکیں ۔
اگر تادیبی قدم اُٹھا لیا جاتا تو آج جناب آصف زرداری کرپشن کے کئی بہتانوں سے محفوظ ہو کر سیاست کر رہے ہوتے ۔ وقت گزر گیا لیکن احتساب سے پہلو تہی کی گئی ۔ لغاری صاحب کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ، اب تک جس نے بھی جتنا حرام کمایا ہے ، سب قابلِ واپسی ہے : ''پاکستانی عوام ان تمام لوگوں سے انشاء اللہ ایک ایک پیسہ وصول کریں گے۔ آج یا کل ، کل یا پرسوں ۔'' (صفحہ39) اِس خواہش کو بیس سال بیت چکے ہیں لیکن ایک دھیلا بھی واپس نہیں لیا جا سکا ۔ اب بھی عمران خان کی طرف سے اِسی ضمن میں دعوے اور وعدے تو بہت کیے جا رہے ہیں لیکن لگتا نہیں ہے کہ وہ مبینہ لُوٹی قومی دولت واپس لے سکیں گے۔
فاروق لغاری بتاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں یہ منصوبہ بنا تھا کہ تیس ، بتیس ایم این ایز مل کر قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کریں اور کسی بھی وقت ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جج چھٹی پر بھیج سکتے ہیں لیکن اُنہو ں نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا ۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔ منیر احمد منیر صاحب چونکہ تاریخِ پاکستان کے اسکالر اور قائد اعظم ؒ کے عاشقِ صادق ہیں، اس لیے زیر نظر کتاب میں قائد اعظم ؒ کے ساتھیوں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے ۔ شائد اس لیے بھی کہ اُن مردانِ باصفا کو دیکھ کر ہمیں کچھ شرم آجائے ۔ لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم چوہدری محمد علی 1956ء کے آئین کی تیاری کے بعد شدید بیمار پڑ گئے ۔ اُس وقت کے صدرِ پاکستان نے ملکی خدمات کے اعتراف میں انھیں سرکاری خرچ پر علاج کے لیے بیرونِ ملک بھیجنا چاہا لیکن چوہدری محمد علی نے یہ پیشکش ٹھکرا دی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کے ذاتی استعمال پر اُن کا کوئی حق نہیں ہے۔ صدر اور کابینہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔
خاصے وچار کے بعد طے پایا کہ چوہدری صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ حکومتِ پاکستان سے قرض لے کر علاج کے لیے باہر چلے جائیں ؛ چنانچہ مطلوبہ رقم فی الفور انھیں فراہم کر دی گئی۔ چوہدری محمد علی صاحب علاج کے لیے (بیرونِ ملک) چلے گئے ۔ علاج کروا کر وطن واپس آئے اور چھ ماہ بعد قرض کی رقم حکومتِ پاکستان کو واپس کر دی ۔ یہ واقعہ پڑھا تو خواب سا لگا ہے ۔ کیا آج کے کسی بھی پاکستانی حکمران سے ایسے کردار کی توقع کی جا سکتی ہے؟ فاروق لغاری کہتے ہیں کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میرے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ (کسی بھی وقت) نااہل ہو سکتے ہیں (صفحہ 67) سابق صدرِ پاکستان ایک سابق پاکستانی صحافی اور سیاستدان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ یہ صاحب پاکستان میں جھوٹ پھیلانے میں گوئبلز کا بھی باپ ہے ۔ انکشافات سے بھری یہ کتاب 78ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور (فون: 0333 4332920) سے حاصل کیا جا سکتی ہے ۔ قیمت تین سو روپے ۔
کتاب پڑھتے ہُوئے یوں لگتا ہے جیسے وقت دو دہائیوں سے تھما ہے۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ پاکستان اور اس کے مقتدر سیاستدانوں کے جو حالات 20 سال پہلے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔ ویسے ہی کرپشن کے الزامات ۔دو عشرے قبل سابق صدرِ پاکستان فاروق احمد خان لغاری نے یکساں طور پر بینظیر بھٹو اور نواز شریف کو کرپشن میں لتھڑا قرار دیا تھا اور آج پی ٹی آئی کی طرف سے نواز شریف اورآصف زرداری پر تہمتیں عائد کی جا رہی ہیں ۔
کچھ الزامات نواز شریف پر احتساب عدالت میں ثابت بھی ہُوئے اور انھیں سات سال کی سزا بھی ملی جب کہ زرداری پر عائد کی گئی متعدد تہمتیں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ لغاری صاحب نے دو عشرے قبل پیشگوئی کی تھی کہ یہ دونوں ایک روز پکڑے جائیں گے : '' (یہ دونوں)جتنی مرضی ہائی ٹیکنالوجی استعمال کرلیں، ایک مکافاتِ عمل بھی ہوتا ہے۔ یہ انشاء اللہ پکڑے جائیں گے۔'' (صفحہ 15)۔ 1998ء میں دیے گئے انٹرویو میں سابق صدرِ پاکستان کہتے ہیں کہ ''حکومت کے پاس تو شائد تین چار ماہ بعد سول سروسز کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے بھی نہ ہوں، یہ ڈیم کہاں سے بنائیں گے؟'' (صفحہ29) اور آج 2019ء میں ہماری حکومت کی مالی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔ ملک کی ترقی کے دعویدار پھر بتائیں : بدلا کیا؟ بیس سال قبل بھی اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہمارے حکمران غیروں سے قرض مانگ رہے تھے، آج بھی قرض مانگا جا رہا ہے۔ آج پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی طرف سے دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ عمران خان ملک کو وَن یونٹ بنانے جا رہے ہیں۔
زیر نظر کتاب پڑھتے ہُوئے حیرت ہوتی ہے کہ یہی شکوہ فاروق احمد لغاری بیس سال پہلے جناب نواز شریف اور شہباز شریف سے کر رہے تھے :''یہ لوگ (شریف برادران) پاکستان کو چلا رہے ہیں وَن یونٹ کی طرح ۔ یہ پاکستان کو ایک خاندان کی حکمرانی کے طور پر چلا رہے ہیں ، جیسے مغلیہ حکومت کے زوال کے دَور میں تھا...... جس طرح وَن یونٹ کے طور پر یہ ملک کو چلا رہے ہیں ، ان تمام چیزوں نے مل کر چھوٹے صوبوں میں پنجاب کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کا ایک موقع فراہم کیا ہے۔'' (صفحہ 30/31) کیا یہ بیان پڑھ کر لگتا نہیں کہ وقت وہیں کا وہیں تھما ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔
فاروق لغاری کرپشن کے حوالے سے اپنے اوپر عائد گئے بہتانوںکو تو سرے ہی سے مسترد کرتے ہیں لیکن مکالمے کے دوران متعدد بار نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو الزامات کی زد میں رکھتے نظر آتے ہیں۔ کرپشن کے حوالے سے وہ نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو ایک ہی سکّے کے دورُخ قرار دیتے ہیں (صفحہ15) اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس میدان میں دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر ہیں: ''نواز شریف نے تو بینظیر کو کمشنوں اور کک بیکس کی راہ دکھائی۔ نواز شریف نے اپنی چیف منسٹری کے دَور میں اسٹیٹ پراپرٹی سے لوگوں کو نوازا، سیاسی خرید و فروخت کی۔ اور پھر بینظیر کو جب موقع ملا کہ اُس سے حساب لے، جب اُس کے پاس بہت مواد تھا بھی تو اس کو نہیں استعمال کیا۔''(صفحہ 35) اگر ہمارے یہ دونوں سابقہ وزرائے اعظم ایک دوسرے کا خود ہی احتساب کر لیتے تو شائد بعد میں آنے والی مصیبتوں اور ندامتوں سے بچ جاتے ۔ فاروق لغاری کہتے ہیں کہ '' ہم نے بینظیر بھٹو سے جا کر کہا تھا (جب وہ وزیر اعظم تھیں ) کہ آپ کے شوہر (آصف زرداری)کے بارے رشوت کے الزامات ہیں ، انھیں سنبھالیں '' لیکن وعدے کے باوجود محترمہ ایسا نہ کر سکیں ۔
اگر تادیبی قدم اُٹھا لیا جاتا تو آج جناب آصف زرداری کرپشن کے کئی بہتانوں سے محفوظ ہو کر سیاست کر رہے ہوتے ۔ وقت گزر گیا لیکن احتساب سے پہلو تہی کی گئی ۔ لغاری صاحب کہتے سنائی دیتے ہیں کہ جب سے پاکستان بنا ہے ، اب تک جس نے بھی جتنا حرام کمایا ہے ، سب قابلِ واپسی ہے : ''پاکستانی عوام ان تمام لوگوں سے انشاء اللہ ایک ایک پیسہ وصول کریں گے۔ آج یا کل ، کل یا پرسوں ۔'' (صفحہ39) اِس خواہش کو بیس سال بیت چکے ہیں لیکن ایک دھیلا بھی واپس نہیں لیا جا سکا ۔ اب بھی عمران خان کی طرف سے اِسی ضمن میں دعوے اور وعدے تو بہت کیے جا رہے ہیں لیکن لگتا نہیں ہے کہ وہ مبینہ لُوٹی قومی دولت واپس لے سکیں گے۔
فاروق لغاری بتاتے ہیں کہ بینظیر بھٹو کے دَورِ وزارتِ عظمیٰ میں یہ منصوبہ بنا تھا کہ تیس ، بتیس ایم این ایز مل کر قومی اسمبلی میں ایک قرار داد پیش کریں اور کسی بھی وقت ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جج چھٹی پر بھیج سکتے ہیں لیکن اُنہو ں نے یہ منصوبہ ناکام بنا دیا ۔ کچھ بھی تو نہیں بدلا ۔ منیر احمد منیر صاحب چونکہ تاریخِ پاکستان کے اسکالر اور قائد اعظم ؒ کے عاشقِ صادق ہیں، اس لیے زیر نظر کتاب میں قائد اعظم ؒ کے ساتھیوں کا تذکرہ کرنا نہیں بھولے ۔ شائد اس لیے بھی کہ اُن مردانِ باصفا کو دیکھ کر ہمیں کچھ شرم آجائے ۔ لکھتے ہیں کہ وزیر اعظم چوہدری محمد علی 1956ء کے آئین کی تیاری کے بعد شدید بیمار پڑ گئے ۔ اُس وقت کے صدرِ پاکستان نے ملکی خدمات کے اعتراف میں انھیں سرکاری خرچ پر علاج کے لیے بیرونِ ملک بھیجنا چاہا لیکن چوہدری محمد علی نے یہ پیشکش ٹھکرا دی ۔ اُن کا کہنا تھا کہ قومی خزانے کے ذاتی استعمال پر اُن کا کوئی حق نہیں ہے۔ صدر اور کابینہ میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ۔
خاصے وچار کے بعد طے پایا کہ چوہدری صاحب سے درخواست کی جائے کہ وہ حکومتِ پاکستان سے قرض لے کر علاج کے لیے باہر چلے جائیں ؛ چنانچہ مطلوبہ رقم فی الفور انھیں فراہم کر دی گئی۔ چوہدری محمد علی صاحب علاج کے لیے (بیرونِ ملک) چلے گئے ۔ علاج کروا کر وطن واپس آئے اور چھ ماہ بعد قرض کی رقم حکومتِ پاکستان کو واپس کر دی ۔ یہ واقعہ پڑھا تو خواب سا لگا ہے ۔ کیا آج کے کسی بھی پاکستانی حکمران سے ایسے کردار کی توقع کی جا سکتی ہے؟ فاروق لغاری کہتے ہیں کہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے میرے سامنے اعتراف کیا تھا کہ وہ (کسی بھی وقت) نااہل ہو سکتے ہیں (صفحہ 67) سابق صدرِ پاکستان ایک سابق پاکستانی صحافی اور سیاستدان کے بارے میں تبصرہ کرتے ہُوئے کہتے ہیں کہ یہ صاحب پاکستان میں جھوٹ پھیلانے میں گوئبلز کا بھی باپ ہے ۔ انکشافات سے بھری یہ کتاب 78ستلج بلاک علامہ اقبال ٹاؤن لاہور (فون: 0333 4332920) سے حاصل کیا جا سکتی ہے ۔ قیمت تین سو روپے ۔