انصاف کا نظام اور پارلیمانی ترجیحات

انصاف کا نظام اور پارلیمانی ترجیحات


سلمان عابد April 15, 2019
[email protected]

پاکستان کا سیاسی نظام عدم انصاف کے نظام پر کھڑا ہے۔ یہ کسی ایک ادارے کی ناکامی نہیں بلکہ حکومتی اور ادارہ جاتی نظام کی ناکامی ہے ۔ ہر ناکامی کا تعلق مختلف معاملات سے جڑا ہوتا ہے اور کوئی بھی فریق یا ادارہ خود کو بری الزمہ قرار نہیں دے سکتا۔ جب ریاست کے نظام میں انصاف کی فراہمی بڑی ترجیحات کا حصہ نہ ہو تو نظام نہ صرف اپنی افادیت کو کھو دیتا ہے بلکہ نظام کی ساکھ بھی متاثر ہوتی ہے ایسے نظام کو سیاسی لغت میں طبقاتی نظام سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔

فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ہونے والی نیشنل کانفرنس ''فوری انصاف معینہ کم معیاد میں کریمنل مقدمات کے فیصلے کرنے کے روڈ میپ'' سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے چند بنیادی نکات اٹھائے ہیں جو قابل غور ہیں۔ بدقسمتی سے انصاف کا شعبہ ہماری سیاسی اور پارلیمنٹ کی ترجیحات کا حصہ نہیں ہے۔ دوئم ہم نے فوری انصاف کی فراہمی کے تناظر میں پارلیمنٹ میں 17 رپورٹس پیش کیں، ایوان نے کسی پر مکمل عمل نہیں کیا۔ سوئم امریکی سپریم کورٹ سا ل میں 80 جب کہ برطانوی 100 مقدموں کا فیصلہ کرتی ہے، مگر اس کے برعکس ہم نے سال میں 26 ہزار مقدمات نمٹائے ہیں ۔

چہارم ہم پارلیمنٹ اور تمام ارکان اسمبلی سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ عدلیہ کی طرح قوم کو سستا اور فوری انصاف کی فراہمی میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی قانون سازی کریں۔ پنجم موجودہ عدالتی پالیسی ہم نے یہ بنائی ہے کہ اب وکیل کے ہونے یا نہ ہونے سے سماعت نہیں رکے گی، گواہوں کو پیش کرنا ریاست کی ذمے داری ہوگی چند روز میں فیصلہ ہوگا اور جانشینی کے لیے سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے عدالتوں میں جانا نہیں ہوگا۔

بنیادی طور پر چیف جسٹس نے سیاسی قیادت کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ انصا ف کے نظام میں حائل رکاوٹیں ختم کرنے میں عدم دلچسپی کا شکار ہیں۔ عمومی طور پر انصاف کا نظام عدلیہ، حکومت اور اداروں کے باہمی تعاون یا اصلاحات سمیت نئی پالیسیوں، قانون سازی یا عملدرآمد کے نظام میں موثر تبدیلیوں سے جڑا ہوتا ہے۔ لیکن کیونکہ ہمارے پارلیمانی نظام کی افادیت وہ نہیں جو کسی پارلیمانی جمہوری نظام کا خاصہ ہوتا ہے۔ مسئلہ محض عدالتی نظام یا انصاف تک محدود نہیں بلکہ ہم تجزیہ کریں تو پارلیمان کا کردار بہت محدود اور کمزور سمیت عدم ترجیحات کا شکار نظر آتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ ملک میں حکمرانی کا نظام شفافیت اور جوابدہی یا احتساب سے جڑا ہوا نہیں ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے عدالتی نظام کی کمزوریاں ہیں۔ کیونکہ جب اداروں کے مقابلے میں طاقتور افراد کی حکمرانی ہوگی تو ادارے افراد ہی کے تابع ہوتے ہیں جو شفاف جمہوری حکمرانی کے نظام میں بنیادی رکاوٹ ہے۔

ہماری سابقہ اور موجودہ حکومت نے انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے جو عدالتی اصلاحات کرنی تھیں اس پر بھی کوئی خاطر خواہ کام نہیں ہو سکا۔ اب اگر چیف جسٹس کا یہ موقف ہے کہ وہ عدالتی نظام میں اصلاحات کے تناظر میں پارلیمنٹ کے سامنے 17رپورٹس پیش کر چکے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ پارلیمنٹ اور حکومت وہ کچھ نہیں کرسکی جو اس کی بنیادی ذمے داری تھی۔ بدقسمتی سے ہم نے پارلیمنٹ کو قانون سازی، پالیسی سازی یا اہم قومی مسائل پر بات چیت کے فورم کے بجائے اسے ایک ڈیبیٹنگ کلب بنادیا ہے جو الزام تراشیوں، گالم گلوچ کا فورم بن چکا ہے جس سے سیاست کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہورہا ہے۔

پارلیمانی نظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں حکومت اور حزب اختلاف دونوں اپنی اپنی سطح پر ایک ایسی فعالیت کا کردار ادا کرتے ہیں جس کا مقصد قانون سازی اور اصلاحات کو یقینی بنانا ہوتاہے۔ لیکن ہماری پارلیمانی ترجیحات میں ذاتیات کی سیاست کو غلبہ حاصل ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم پارلیمنٹ میں آنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ نواز شریف کے بعد عمران خان بھی پارلیمنٹ میں شریک ہونا ضروری نہیں سمجھتے۔ حکومتی وزرا،ارکان اسمبلی اور حزب اختلاف کے لوگوں کی بھی عدم دلچسپی نمایاں رہے گی۔ پارلیمانی نظام اسٹینڈنگ کمیٹیاں ہوتی ہیں، لیکن بظاہر لگتا ہے کہ سب کچھ روائتی انداز سے چلایا جارہا ہے۔

اصل میں ہمارے پارلیمانی نظام میں جو لوگ منتخب ہوکر آتے ہیں ان کی ترجیحات میں قانون سازی، کبھی بھی اہم نہیں۔ ان کا موضوع بحث ترقیاتی فنڈ کا حصول، ذاتی مفاد پر مبنی سیاست یا اپنی جماعتوں کی جھوٹ پر مبنی ترجمانی کے سوا کچھ نہیں۔ کیونکہ پارلیمانی نظام کی ایک بڑی کنجی مضبوط سیاسی نظام ہوتا ہے۔

لیکن جب سیاسی جماعتیں ہی اپنی افادیت کھو دیں اور ان کو غیر جمہوری عمل سمیت خاندانوں کی بنیاد پر چلایا جائے گا تو جمہوری سیاست کا تماشہ بننا فطری امر ہو گا۔ پارلیمانی ارکان کو اہم قانونی اور سیاسی معاملات پر کوئی بریفنگ بھی نہیں دی جاتی اور نہ ہی یہ لوگ دلچسپی ظاہر کرتے ہیں۔ سیاسی اور قانونی ماہرین اور ارکان پارلیمنٹ کے درمیان بھی ہمیں کوئی خاص تبادلہ نظر نہیں آتا۔ کچھ لوگ ذاتی حیثیت میں فعالیت دکھاتے ہیں، جو ان کا اپنا شوق ہوتا ہے۔ کیونکہ اس نظام میں پارٹی قیادت اپنے ارکان سے بس یہ ہی توقع رکھتی ہے کہ وہ صرف اور صرف ان کے ایجنڈے کو تقویت دیں۔ اگر اس ایجنڈے میں قومی مسائل نظرانداز بھی ہوجائیں تو قیادت کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔اس لیے جو دکھ کا اظہار چیف جسٹس نے کیا ہے وہ محض ان کا دکھ ہی نہیں ہے بلکہ ہر صاحب دانش ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔

ہر معاملہ پر پارلیمانی نظام کی افادیت کمزور ہوگئی ہے۔ البتہ جہاں حکومت، حزب اختلاف باہمی طور پر یکجا نظر آتے ہیں وہ ان کی ذاتی مراعات پر ہونے والی قانون سازی ہوتی ہے۔ یہ عمل اور بھی زیادہ پریشان کرتا ہے۔ جب ہماری قیادت جمہوری، سیاسی، قانونی بالادستی، پارلیمانی خود مختاری، عوامی مفاد پر مبنی نعرو ں کی بنیاد پر شور مچاتی ہیں تو کاش وہ اپنے داخلی مسائل، تضادات اور بدنیتی کا بھی جائزہ لیں کہ وہ خود کیا کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے اس ملک کی سیاست جس انداز سے چل رہی ہے اس کا ایک بڑا نتیجہ عام لوگوں، مختلف شعبہ جات کے ماہرین اور پارلیمنٹ کے درمیان عدم اعتماد یا بڑھتی ہوئی خلیج کی صورت میں سامنے آرہا ہے۔ یہ جو سیاسی نظام میں لوگوں کی مایوسی ہے اس کی وجہ بھی ہماری پارلیمنٹ، حکومت اور حزب اختلاف کاوہ رویہ ہے جو ان کو عام آدمی سے لاتعلقی پر مجبور کرتا ہے۔

سیاسی، جمہوری اور پارلیمانی نظام کی ساکھ سیاسی نظام سے جڑی ہوتی ہے۔ یہ سیاسی نظام براہ راست عوامی مفاد سے جڑا ہوتا ہے، لیکن اگر ہماری مجموعی سیاست عوامی مفاد سے مختلف ہے تو سیاسی نظام محض خوش نما نعروں کی بنیاد پر کھڑا نہیں رہ سکتا۔ عدالتی نظام کی تقرریوں سے لے کر پورے ریاستی، حکومتی اور ادارہ جاتی تقرریوں کا نظام عملا سیاسی مداخلتوں سے جڑا ہوا ہے ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ موجودہ چیف جسٹس فوری انصاف کے حامی ہیں اور ماڈل کورٹس کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ لیکن جب تک ہمارے عدالتی اور انصاف کے نظام پر حکومت پیچھے اپنی سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ کھڑی نہیں ہوگی اور اداروں کو مضبوط بنانا اس کی ترجیح نہیں ہوگی تو کوئی بڑا کام ممکن نہیں ہوسکے گا۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے پارلیمانی نظام کی داخلی کمزوریوں کا درست انداز میں تجزیہ کریں اور ایسے امور کی نشاندہی کرکے ایک درست حکمت عملی اختیار کریں جو ہمیں بہتر نظام حکمرانی کی طرف لے جا سکے۔ لیکن کیا موجودہ سیاسی نظام اور اس سے جڑے فریق ایسا کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں تو اس کا جواب بہت کمزور نظر آتا ہے اور یہ ہی ہماری سیاست کا المیہ بھی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں