زوال پذیر نظام تعلیم
زوال پذیر نظام تعلیم
آ ج کل پورے سندھ میں میٹرک کے سالانہ امتحانات جاری ہیں۔ ان امتحانات کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایسے وقت میں منعقد ہورہے ہیں کہ جب پورا صوبہ شدیدگرمی کی لپیٹ میں ہے۔امتحانی مراکز میں پنکھے ہونا تو دورکی بات بلکہ کمروں کی اندرونی حالت بھی مخدوش اور نا گفتہ بہ بتائی جاتی ہے۔
بعض اسکولوں کا قیام صرف اورصرف سرکاری کاغذات میں ہے،جو ہیں وہ بھی مخدوش اورویرانی کی حالت جن میں ، جن بھوت کے سایوں کا شائبہ ہوتا ہے۔امتحانات کے باقاعدہ آغازکے پہلے دن ہی سوشل ، پرنٹ ،الیکٹرونک میڈیا اور سماجی حلقوں میں امتحانی مراکز پر بے ضابطگیوں کے مناظر دیکھنے کو ملے جب کہ کمرہ امتحانات میں امیدوار نقل کے جدید طریقے استعمال کرتے رہے۔ قابل افسوس ہے یہ امرکہ کمرہ امتحان میں ڈیوٹی پر موجود عملہ خود اس کام میں برابرکا شریک ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پورے سندھ میں حکومت کی طرف سے پیسے کے بل بوتے پرگھوسٹ اساتذہ کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔ یہ نام نہاد ماہانہ تنخواہ دارگھوسٹ طبقہ کبھی اسکول کا رخ اس لیے نہیں کرتا کہ تنخواہ اس کے گھر پر پہنچ جاتی ہے۔اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا کیا معیار ہوگا؟ جب بچوں کو پڑھانے کا رواج ہی نہیں تو بچہ کیا امتحان دے گا۔
حدیث نبوی ﷺ ہے ''دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب ہے، دوسرا وہ جس نے اپنی لڑکی تمہارے نکاح میں دی اور تیسرا وہ جس سے علم کی دولت حاصل کی، ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے'' ہم عرصہ دراز سے تعلیم کے تھکے ہوئے معیارکی کہانیا ں سنتے چلے آئے ہیں۔ سنا ہے کہ وہاں کا تعلیم یافتہ اپنی چھٹی کی درخواست تک نہیں لکھ سکتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ طلباوطالبات کا پرائمری تا میٹرک کا ایسا قیمتی عرصہ ہوتا ہے جس میں وہ تازہ دم ہوتے ہیں اور جوکچھ اپنی محنت ، لگن اورایمانداری سے پڑھنے اور لکھنے اور کچھ نئی چیزیں سیکھنا ہوتی ہیں وہ اسی عرصہ میں سیکھ لیتا ہے جو بنیادی تعلیم کا بہترین اثاثہ ہوتا ہے۔
اس دورانیے کی تعلیم کو بگاڑنا ملک وقوم کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ۔ تعلیم کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر لا محالہ ذہن اساتذہ کی نااہلیت کی طرف ہی جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہاں وڈیروں کی شہنشاہیت اور صدیوں پرانی روایتی تہذیب ہے جو تعلیم کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ روحانی لحاظ سے سندھ اللہ کے برگزیدہ ولیوں، صوفی بزرگ ہستیوں کی سرزمین ہے۔ جن میں نمایاں طور پر بھٹ شاہ میں حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور ٹھٹھہ میں عبداللہ شاہ اصحابی۔ علم خود حاصل کرنا اور علم کے متلاشی افراد تک بلامعاوضہ منتقل کرنا ایک عظیم عبادت ہے۔ معاشرے میں استادکا احترام وعزت دوسروں شعبوں سے افضل ہے۔ ترقی اور مہذب معاشرہ کی تشکیل دو مہذب شخصیات ماں اور استادکی بدولت ہی ممکن ہے۔
میں نے ابتدائی تعلیم لاہورکے سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں حاصل کی اس وقت محدود تعداد میں انگریزی میڈیم اسکول بھی تھے جو عموما رائل اور ایلیٹ علاقوں میں ہوا کرتے تھے۔ سرکاری اسکولوں میں فیس نہایت معقول تھی اور وہ بھی معاف کروا لی جاتی تھی۔ اساتذہ کرام اپنا دینی فریضہ سمجھ کر محنت اورجانفشانی سے پڑھاتے تھے۔ بی اے یا بی ایس سی کے ساتھ تعلیم کی معقول پڑھائی اورتربیت پر مبنی اضافی ڈگری بی ایڈ یا ایم ایڈ کی ڈگری کے بغیر استاد کا چناؤ ہرگز نہیں ہوتا تھا۔ اساتذہ کو طالب علم کو کم ازکم تین یا چار مہینے ہر اسکول میں ایک مخصوص سلیبس کے ساتھ پڑھانے کی تربیت حاصل کرنی لازمی تھی۔ یہ طالبعلم بڑی جانفشانی اور ایمانداری کے ساتھ پڑھاتے تھے کہ امتحانی سوالات کے جوابات ازبر ہوجایا کرتے تھے اور یوں کمرہ امتحان میں نقل کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔آج کی طرح پرائیویٹ کاروباری اور اشتہاری کوچنگ سینٹرز تک نہیں تھے۔ طرز زندگی نہایت سادہ تھی ، بجلی گیس ، ٹی وی جیسی سہولیات تک نہ تھیں ۔
ہاں کشادہ لائبریریاں ضرور تھیں اور ہر اسکول میں لائبریری کے لیے ایک گھنٹہ مختص تھا،کھیل کے کشادہ میدان تھے۔ کیڈٹ نما تعلیم کی وجہ سے لاہور شہر پوری دنیا میں '' کالجوں کا شہر '' کے نام سے اپنی منفرد شہرت اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہاں کے کالجوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ وسیع وعریض رقبے پر ریاستی سر پرستی میں قائم تھے۔کالج کی حدود میں ہوا دارکمروں پر مشتمل ہاسٹل کی پر شکوہ عمارت جس کے ساتھ ایک کشادہ خوبصورت ہر ے بھرے قالین کی طرح گھاس سے بھرپور پارک اور رنگ برنگے قدرتی خوشبودار پھول اور سایہ دار دیوقامت درختوں سے مزین دالان ہوا کرتے تھے۔ یہاں بیرون لاہور سے آئے ہوئے طلبا وطالبات علم کی پیاس بجھانے آتے اور ان ہاسٹلز میں عارضی قیام کرتے اور تعلیم مکمل ہونے پر اپنے اپنے علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ دور درازکے علاقوں سے آئے ہوئے طلبا وطالبات کے قیام وطعام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ پرسکون اور پر فضا علمی ماحول میں اپنے وقت کے ضیاع کے بغیر اپنا وقت علمی حصول پر صرف کرسکیں۔
کراچی بلا شبہ بین الاقوامی معیارکا urbanization کا زندہ نمونہ ہے۔ یہاں بھی کسی زمانہ میں تعلیم کا معیار اچھا تھا مگر یہ بات بڑے افسوس اور رنج و ملال کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ جب جنرل ضیاالحق اقتدار پر زبردستی قابض ہوئے، انھوں نے امریکا کی آشیر باد میں سب سے پہلا کام عوامی منتخب عالمی شہرت یافتہ لیڈر ذوالفقارعلی بھٹوکو اسلامی امہ کے طرف سے پھانسی کو کالعدم قرارکرنے کے مطالبہ کے باوجود ان کو تخت دار پر لٹکا دیا اور ملک کی اہم عوامی فلاح وبہبود کی صنعتیں جو ریاست کی ملکیت تھیں، بعد ازاں اونے پونے فروخت کر ڈالیں، جن میں تعلیم کا شعبہ تو باضابطہ طور پر پرائیویٹ نہ کیا مگر تعلیم و تدریسی سرگرمیوں کی اجازت پرائیویٹ لوگو ں کے حوالہ کردی گئی اور یوں ریاست تعلیم کے شعبے سے مبرا ہوگئی۔
کراچی میں جس کے پاس تھوڑا بہت سرمایہ ہے، وہ یا تو چھوٹے چھوٹے رہائشی تنگ وتاریک مکانات یا فلیٹس میں نام نہاد انگلش میڈیم اشتہاری اسکول کھول لیتے ہیں یا کھانے پینے کا کاروبارکرلیتا ہے۔اس کا صرف مقصد اپنے سرمائے کو دگنا یا چوگنا کرنا ہوتا ہے ،اس لیے وہ ہر جائز ناجائزکام کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ حال ہی میں پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے فیسوں میں غیر معمولی اور غیرقانونی اضافے پر ملک کی اعلیٰ فاضل عدالت کے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی سماعت کے دوران کہا کہ ''ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، وہ خود لوگوں کو نجی اسکولزمیں داخلوں پر مجبورکرتی ہے اور دوسری طرف نجی اسکولزکو بھی فیس کے معاملے پر پابند رکھنا چاہتی ہے'' انھوں نے کہا کہ '' آئین کا آرٹیکل18 کاروبار اور تجارت کی بات کرتا ہے،کیا اسکولنگ تجارت یا کاروبار ہیں؟ نجی اسکولزکے ساتھ حکومت سے بھی پوچھیں گے کہ وہ کیا کررہی ہے؟ انھوں نے مزید استفسارکرتے ہوئے کہا کہ میں خود سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرچکا ہوں۔
سرکاری اسکول اور ان کا پہلے جیسا معیارآخرکہاں گیا ؟ بھاری فیسیں ادا نہ کر سکنے والا ٹیلنٹ ضایع ہورہا ہے۔ سرکاری اسکولز نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس میں چلے جاتے ہیں ۔ حکومت ہر مدرسہ کے ساتھ سرکاری اسکول قائم کرے۔ ان اسکولوں میں مفت کتابیں ، یونیفارم اور دودھ کا گلاس پیش کیا جائے اور مفت سہولیات دے کر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ اسکول جانا چاہتے ہیں یا مدارس میں۔تعلیم بنیادی حق ہے جس کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے۔'' کتابیںاور متعلقہ سٹیشنری مواد اسکول کی جانب سے مہنگے داموں فروخت اور دو دو ماہ کی چھٹیوں کی فیس وصول کرلی جاتی ہیں۔ پڑھانے والیوں کی خود تعلیم انٹرمیڈیٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کو پڑھانے کا وسیع یا قلیل تجربہ ہوتا ہے۔ مجبوری میں قلیل تنخواہ پر بھرتی ہوجاتی ہیں۔
لاہورکے تعلیم یافتہ لوگ بلا شبہ ملک کے انتظامی معاملات میں اہم ذمے داریاں بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہورکے تعلیمی معیارکوکوئی اب تک چیلنج نہ کرسکا۔ جہاں اعلیٰ تعلیم کے ناموراکیڈمک اورکیڈٹ درسگاہیں ہیں وہا ں ملک کی بیوروکریسی کی قدیم تربیت گا ہ علم و فن کے گہوارہ ''لاہور'' ہی میں ہے۔ صوبہ سندھ بھی ملک کا قیمتی حصہ ہے۔ سندھ کے باسیوں کو اگر اپنے صوبے کی تعلیمی بد حالی اور مستقبل کے معماروں کی تباہی و بربادی سے نکالنا چاہتی ہے تو پہلی فرصت میں لاہورکے تعلیمی نیٹ ورک پر توجہ دے، اسی میں پورے سندھ کی عافیت ہے۔
بعض اسکولوں کا قیام صرف اورصرف سرکاری کاغذات میں ہے،جو ہیں وہ بھی مخدوش اورویرانی کی حالت جن میں ، جن بھوت کے سایوں کا شائبہ ہوتا ہے۔امتحانات کے باقاعدہ آغازکے پہلے دن ہی سوشل ، پرنٹ ،الیکٹرونک میڈیا اور سماجی حلقوں میں امتحانی مراکز پر بے ضابطگیوں کے مناظر دیکھنے کو ملے جب کہ کمرہ امتحانات میں امیدوار نقل کے جدید طریقے استعمال کرتے رہے۔ قابل افسوس ہے یہ امرکہ کمرہ امتحان میں ڈیوٹی پر موجود عملہ خود اس کام میں برابرکا شریک ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پورے سندھ میں حکومت کی طرف سے پیسے کے بل بوتے پرگھوسٹ اساتذہ کی ایک بڑی کھیپ موجود ہے۔ یہ نام نہاد ماہانہ تنخواہ دارگھوسٹ طبقہ کبھی اسکول کا رخ اس لیے نہیں کرتا کہ تنخواہ اس کے گھر پر پہنچ جاتی ہے۔اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تعلیم کا کیا معیار ہوگا؟ جب بچوں کو پڑھانے کا رواج ہی نہیں تو بچہ کیا امتحان دے گا۔
حدیث نبوی ﷺ ہے ''دنیا میں تمہارے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب ہے، دوسرا وہ جس نے اپنی لڑکی تمہارے نکاح میں دی اور تیسرا وہ جس سے علم کی دولت حاصل کی، ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے'' ہم عرصہ دراز سے تعلیم کے تھکے ہوئے معیارکی کہانیا ں سنتے چلے آئے ہیں۔ سنا ہے کہ وہاں کا تعلیم یافتہ اپنی چھٹی کی درخواست تک نہیں لکھ سکتا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ طلباوطالبات کا پرائمری تا میٹرک کا ایسا قیمتی عرصہ ہوتا ہے جس میں وہ تازہ دم ہوتے ہیں اور جوکچھ اپنی محنت ، لگن اورایمانداری سے پڑھنے اور لکھنے اور کچھ نئی چیزیں سیکھنا ہوتی ہیں وہ اسی عرصہ میں سیکھ لیتا ہے جو بنیادی تعلیم کا بہترین اثاثہ ہوتا ہے۔
اس دورانیے کی تعلیم کو بگاڑنا ملک وقوم کی تباہی کے سوا کچھ نہیں ۔ تعلیم کی اس زبوں حالی کو دیکھ کر لا محالہ ذہن اساتذہ کی نااہلیت کی طرف ہی جاتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہاں وڈیروں کی شہنشاہیت اور صدیوں پرانی روایتی تہذیب ہے جو تعلیم کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ روحانی لحاظ سے سندھ اللہ کے برگزیدہ ولیوں، صوفی بزرگ ہستیوں کی سرزمین ہے۔ جن میں نمایاں طور پر بھٹ شاہ میں حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی اور ٹھٹھہ میں عبداللہ شاہ اصحابی۔ علم خود حاصل کرنا اور علم کے متلاشی افراد تک بلامعاوضہ منتقل کرنا ایک عظیم عبادت ہے۔ معاشرے میں استادکا احترام وعزت دوسروں شعبوں سے افضل ہے۔ ترقی اور مہذب معاشرہ کی تشکیل دو مہذب شخصیات ماں اور استادکی بدولت ہی ممکن ہے۔
میں نے ابتدائی تعلیم لاہورکے سرکاری اردو میڈیم اسکولوں میں حاصل کی اس وقت محدود تعداد میں انگریزی میڈیم اسکول بھی تھے جو عموما رائل اور ایلیٹ علاقوں میں ہوا کرتے تھے۔ سرکاری اسکولوں میں فیس نہایت معقول تھی اور وہ بھی معاف کروا لی جاتی تھی۔ اساتذہ کرام اپنا دینی فریضہ سمجھ کر محنت اورجانفشانی سے پڑھاتے تھے۔ بی اے یا بی ایس سی کے ساتھ تعلیم کی معقول پڑھائی اورتربیت پر مبنی اضافی ڈگری بی ایڈ یا ایم ایڈ کی ڈگری کے بغیر استاد کا چناؤ ہرگز نہیں ہوتا تھا۔ اساتذہ کو طالب علم کو کم ازکم تین یا چار مہینے ہر اسکول میں ایک مخصوص سلیبس کے ساتھ پڑھانے کی تربیت حاصل کرنی لازمی تھی۔ یہ طالبعلم بڑی جانفشانی اور ایمانداری کے ساتھ پڑھاتے تھے کہ امتحانی سوالات کے جوابات ازبر ہوجایا کرتے تھے اور یوں کمرہ امتحان میں نقل کے بارے میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔آج کی طرح پرائیویٹ کاروباری اور اشتہاری کوچنگ سینٹرز تک نہیں تھے۔ طرز زندگی نہایت سادہ تھی ، بجلی گیس ، ٹی وی جیسی سہولیات تک نہ تھیں ۔
ہاں کشادہ لائبریریاں ضرور تھیں اور ہر اسکول میں لائبریری کے لیے ایک گھنٹہ مختص تھا،کھیل کے کشادہ میدان تھے۔ کیڈٹ نما تعلیم کی وجہ سے لاہور شہر پوری دنیا میں '' کالجوں کا شہر '' کے نام سے اپنی منفرد شہرت اور نمایاں مقام رکھتا ہے۔یہاں کے کالجوں کی خاص بات یہ تھی کہ یہ وسیع وعریض رقبے پر ریاستی سر پرستی میں قائم تھے۔کالج کی حدود میں ہوا دارکمروں پر مشتمل ہاسٹل کی پر شکوہ عمارت جس کے ساتھ ایک کشادہ خوبصورت ہر ے بھرے قالین کی طرح گھاس سے بھرپور پارک اور رنگ برنگے قدرتی خوشبودار پھول اور سایہ دار دیوقامت درختوں سے مزین دالان ہوا کرتے تھے۔ یہاں بیرون لاہور سے آئے ہوئے طلبا وطالبات علم کی پیاس بجھانے آتے اور ان ہاسٹلز میں عارضی قیام کرتے اور تعلیم مکمل ہونے پر اپنے اپنے علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ دور درازکے علاقوں سے آئے ہوئے طلبا وطالبات کے قیام وطعام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ پرسکون اور پر فضا علمی ماحول میں اپنے وقت کے ضیاع کے بغیر اپنا وقت علمی حصول پر صرف کرسکیں۔
کراچی بلا شبہ بین الاقوامی معیارکا urbanization کا زندہ نمونہ ہے۔ یہاں بھی کسی زمانہ میں تعلیم کا معیار اچھا تھا مگر یہ بات بڑے افسوس اور رنج و ملال کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ جب جنرل ضیاالحق اقتدار پر زبردستی قابض ہوئے، انھوں نے امریکا کی آشیر باد میں سب سے پہلا کام عوامی منتخب عالمی شہرت یافتہ لیڈر ذوالفقارعلی بھٹوکو اسلامی امہ کے طرف سے پھانسی کو کالعدم قرارکرنے کے مطالبہ کے باوجود ان کو تخت دار پر لٹکا دیا اور ملک کی اہم عوامی فلاح وبہبود کی صنعتیں جو ریاست کی ملکیت تھیں، بعد ازاں اونے پونے فروخت کر ڈالیں، جن میں تعلیم کا شعبہ تو باضابطہ طور پر پرائیویٹ نہ کیا مگر تعلیم و تدریسی سرگرمیوں کی اجازت پرائیویٹ لوگو ں کے حوالہ کردی گئی اور یوں ریاست تعلیم کے شعبے سے مبرا ہوگئی۔
کراچی میں جس کے پاس تھوڑا بہت سرمایہ ہے، وہ یا تو چھوٹے چھوٹے رہائشی تنگ وتاریک مکانات یا فلیٹس میں نام نہاد انگلش میڈیم اشتہاری اسکول کھول لیتے ہیں یا کھانے پینے کا کاروبارکرلیتا ہے۔اس کا صرف مقصد اپنے سرمائے کو دگنا یا چوگنا کرنا ہوتا ہے ،اس لیے وہ ہر جائز ناجائزکام کے لیے بھی ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ حال ہی میں پرائیویٹ اسکولوں کی طرف سے فیسوں میں غیر معمولی اور غیرقانونی اضافے پر ملک کی اعلیٰ فاضل عدالت کے چیف جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کی سماعت کے دوران کہا کہ ''ریاست تعلیم کی فراہمی میں مکمل ناکام ہوچکی ہے، وہ خود لوگوں کو نجی اسکولزمیں داخلوں پر مجبورکرتی ہے اور دوسری طرف نجی اسکولزکو بھی فیس کے معاملے پر پابند رکھنا چاہتی ہے'' انھوں نے کہا کہ '' آئین کا آرٹیکل18 کاروبار اور تجارت کی بات کرتا ہے،کیا اسکولنگ تجارت یا کاروبار ہیں؟ نجی اسکولزکے ساتھ حکومت سے بھی پوچھیں گے کہ وہ کیا کررہی ہے؟ انھوں نے مزید استفسارکرتے ہوئے کہا کہ میں خود سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کرچکا ہوں۔
سرکاری اسکول اور ان کا پہلے جیسا معیارآخرکہاں گیا ؟ بھاری فیسیں ادا نہ کر سکنے والا ٹیلنٹ ضایع ہورہا ہے۔ سرکاری اسکولز نہ ہونے کی وجہ سے بچے مدارس میں چلے جاتے ہیں ۔ حکومت ہر مدرسہ کے ساتھ سرکاری اسکول قائم کرے۔ ان اسکولوں میں مفت کتابیں ، یونیفارم اور دودھ کا گلاس پیش کیا جائے اور مفت سہولیات دے کر فیصلہ عوام پر چھوڑا جائے کہ اسکول جانا چاہتے ہیں یا مدارس میں۔تعلیم بنیادی حق ہے جس کی فراہمی ریاست کی ذمے داری ہے۔'' کتابیںاور متعلقہ سٹیشنری مواد اسکول کی جانب سے مہنگے داموں فروخت اور دو دو ماہ کی چھٹیوں کی فیس وصول کرلی جاتی ہیں۔ پڑھانے والیوں کی خود تعلیم انٹرمیڈیٹ سے زیادہ نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کو پڑھانے کا وسیع یا قلیل تجربہ ہوتا ہے۔ مجبوری میں قلیل تنخواہ پر بھرتی ہوجاتی ہیں۔
لاہورکے تعلیم یافتہ لوگ بلا شبہ ملک کے انتظامی معاملات میں اہم ذمے داریاں بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہورکے تعلیمی معیارکوکوئی اب تک چیلنج نہ کرسکا۔ جہاں اعلیٰ تعلیم کے ناموراکیڈمک اورکیڈٹ درسگاہیں ہیں وہا ں ملک کی بیوروکریسی کی قدیم تربیت گا ہ علم و فن کے گہوارہ ''لاہور'' ہی میں ہے۔ صوبہ سندھ بھی ملک کا قیمتی حصہ ہے۔ سندھ کے باسیوں کو اگر اپنے صوبے کی تعلیمی بد حالی اور مستقبل کے معماروں کی تباہی و بربادی سے نکالنا چاہتی ہے تو پہلی فرصت میں لاہورکے تعلیمی نیٹ ورک پر توجہ دے، اسی میں پورے سندھ کی عافیت ہے۔