غیر محتاط جبڑے
جہنم میں سب سے دہکتی ہوئی جگہ ان لوگوں کی ھو گی جنھوں نے بڑے اخلاقی بحران کے دنوں میں بھی اپنی غیرجانبداری برقرار رکھی
کتابوں میں صاف لکھا ہے کہ۔۔۔۔''جہنم میں سب سے دہکتی ہوئی جگہ ان لوگوں کے لیے رکھی جائے گی جنھوں نے بڑے اخلاقی بحران کے دنوں میں بھی اپنی غیر جانبداری برقرار رکھی۔''
تو پھرکیا کیا جائے؟ کیا ان لوگوں کا ذکر کرتے وقت کسی طرح کی غیرجانبداری برتی جائے اور کیا انھیں جناح ایونیو اسلام آباد میں دونوں ہاتھوں میں ہتھیار لہرا کر فیملی کے ساتھ سیر سپاٹا کرنے والے مجہول کی طرح شک کا فائدہ دے دیا جائے؟ جی نہیں۔ میں یہ حروف تحریر میں لاتے وقت یہ دروازہ بند کرتا ہوں۔
بلوچستان کے ایک وطن دشمن گروہ نے زیارت ریزیڈنسی پر حملہ کیا تھا۔ غیر ملکی ایجنٹوں کی مہارت ان کے جلو میں تھی۔ اس سے انھوں نے کسی آسکر مقابلے میں حصہ نہیں لینا تھا۔ ان کا یہ کام ان بے وقوفوں نے کردیا ہے۔ ٹی وی پر دکھا کے برابر کا حصہ ڈال دیا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی وڈیو نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر سبھی دیکھ سکتے ہیں لیکن کسی بھی شکل میں اس کی سرعام نمائش مناسب نہیں ہے۔ یہ اس قدر توہین آمیز ہے کہ میں یہاں اس کی تفصیل بتانے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ دیکھ کے ابکائی آتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں ایک دو نمبری لبرل گروہ ایسا پیدا ہوگیا ہے جو روشن خیالی کی الف بے بھی نہیں جانتا۔ یہ نو دولتیوں کا اردو میڈیم سیکولر گروپ ہے۔ ''گیارہ اگستیا گروپ''۔ یہ سب اپنی بیٹری شاید چک شہزاد کے ایک فارم سے چارج کرواتے ہیں۔ معیار کا اندازہ اسی بات سے کرلیں۔
چھوٹی سوچ اور چھوٹے سر والے یہ لوگ جن کا تین انچ کا سر بھی بھیجے کو ترستا ہے بڑی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ ہر ایشو پر بات کرنی چاہیے۔ کون سی بات کرنی چاہیے؟ کیا بابائے قوم، فادر آف دی نیشن کی توقیر پر بات ہوسکتی ہے۔ کسی کی توہین مطلوب نہیں لیکن سوال ہے کہ کیا یہ لوگ، جوتوں اور بوٹوں سے اپنے والد گرامی کی بے توقیری کی فلم بھی اسی طرح بار بار چلا کے دکھا سکتے ہیں؟
چند ہفتے گزرے ملک کے صدر کا انتخاب ہوا۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا ایک اہم اور خوش کن مرحلہ تھا لیکن اسے بھی دو طرح سے بے مزہ کردیا گیا۔ سیاسی طور پر بھی اور اخلاقی طور پر بھی۔ سیاسی معاملات تو چلیں کھیل کا حصہ ہیں لیکن جناب! یہ دہی بڑے اور جلیبیاں کون سی زبان ہے؟ ممنون حسین ایک بھلے مانس اور پڑھے لکھے شخص ہیں۔ متوسط طبقے سے تعلق ہے۔ کاروباری اور سماجی حلقوں میں خوب جانے پہچانے ہیں اور نیک نام ہیں۔ مدتوں کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری سے متعلق رہے۔ اس کے صدر بھی منتخب ہوئے بلکہ چیمبر کے صدر ہی تھے کہ سندھ کے گورنر بنادیے گئے۔ موجودہ حالات میں ان کا بطور صدر پاکستان انتخاب انتہائی خوش آیند ہے لیکن حیرت ہے کہ بے خبر لوگوں کا ایک گروہ یوں ظاہر کرتا رہا جیسے وہ کوئی گمنام شخص ہیں۔ دہی بڑوں اور کپڑے کی دکان کا تمسخرانہ ذکر کیا گیا اور متبادل کے طور پر اس عہدے کے لیے ایسے شخص کا بھی ذکر کیا گیا جن کا حکمران جماعت سے کوئی تنظیمی تعلق نہیں تھا۔ وہ بھی بھلے لوگ تھے اور اتفاق سے ان کا تعلق بھی کراچی سے تھا ورنہ اس طرح کی غیر محتاط اور بے سری تنقید کوئی اور رخ بھی اختیار کرسکتی تھی۔ تب ان لوگوں نے چیخنا تھا کہ زبان اور زمین کا ذکر کیوں ہورہا ہے۔ وہ تو خیر ہوئی کہ منتخب ہونے کے بعد ممنون صاحب نے جو نپے تلے ٹی وی انٹرویوز دیے ہیں انھوں نے ایسے تھڑ دلوں کے منہ پر طمانچہ رسید کرکے انھیں چپ کرادیا ہے اور معاملہ رفع دفع ہوگیا ہے۔
بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بے استادے ہیں۔ خود رو پودے، جھاڑ جھنکار، جن کی کبھی تراش خراش ہوئی اور نہ کبھی کوئی پیوند لگا۔ بے مہار آزادی ملی تو اچھی شہرت والے گھروں میں بھی بے سرے جنم لینے لگے اور وہ بے لگام بھی ہوگئے۔ ایک یورپی کہاوت ہے کہ ''بلی اصطبل میں بچے جن دے تو وہ گھوڑے نہیں کہلاتے'' جن کا خمیر ہی خراب ہو وہ مہک کہاں سے لائیں گے۔
ڈیرہ اسماعیل خان والی جیل بریک کا قصہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ ایک تو ویسے ہی یہ شرمندگی ہی شرمندگی والا معاملہ تھا اور دوسرے غیر محتاط جبڑے اسے مزید المناک بناتے گئے۔ نااہلیوں کا جنازہ ایک سے دوسرے کندھے پر منتقل ہوتا رہا اور پھر معاملہ ٹائیں ٹائیں فش۔ یوں جیسے کہ چلو جیل خالی ہوئی اور جان چھوٹی۔ خس کم جہاں پاک۔ ارے بھئی! یہ انٹیلی جنس کی ناکامی کا شور کیوں تھا؟ ایک ایک تفصیل تو پتہ تھی۔ کب، کہاں اور کیسے۔ سب معلوم۔ پھر بھی تساہل اور غیر ذمے داری کی نشاندہی میں ڈنڈی ماری گئی۔ اب کچھ ہی دنوں میں اس کی وڈیو بھی آنے والی ہوگی۔ بنوں جیل بریک کی تو آ بھی گئی اور چل بھی گئی۔ جونہی ڈی آئی خان والی وڈیو موصول ہو اسے بھی فی سبیل اللہ دکھانے میں پہل کریں۔ وہ آپ ہی کے لیے تو یہ سب کچھ فلماتے ہیں اور آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ کب دہشت گردوں کا دایاں ہاتھ بن گئے۔
آخر میں اس کامیڈی شو کا ذکر کہ جو پانچ چھ گھنٹے اسلام آباد کے جناح ایونیو پر دکھایا جاتا رہا۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہنا ہے۔ بس اتنا کہ زمردخان صاحب اچھے آدمی دکھائی دیتے ہیں لیکن کبڈی کھیلنے میں اگر انھوں نے تھوڑی سی اور مہارت حاصل کی ہوتی تو کام بن جانا تھا۔ ان کے تو دونوں داؤ بے کار گئے اور ساتھ ہی سارا شو بھی تمام ہوا۔ حالانکہ پبلک تو اسے ابھی دیر تک دیکھنے کی متمنی تھی۔ تمام رات ٹی وی کے سامنے بیٹھنے اور کھانے پینے کا بندوبست کرلیا تھا۔ اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔ ہم ہیں ہی عجب قوم۔ ہر وقت فارغ لیکن بے حد مصروف۔ یہاں عورتیں مارننگ شوز رات کو دیکھتی ہیں اور مرد حضرات ریسٹورانٹ میں ''بوفے'' ڈکارنے کے بعد ویٹر سے کہتے ہیں ''بچا ہوا تمام کھانا پیک کردو۔''