جینیاتی بیماریاں جان لیوا… آگاہی اور سہولیات کیلئے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے
والدین سے بچوں کو موروثی بیماریوں کی منتقلی کے 25 فیصد امکانات ہوتے ہیں،ماہرین
ایکسپریس میڈیا گروپ اورLSD سوسائٹی کے زیر اہتمام SANOFI GENZYME کے اشتراک سے LYSOSOMAL STORAGE DISORDERS کے موضوع پر گزشتہ دنوں ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں ماہرین نے اس مرض کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔
تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیربرائے صحت حنیف خان پتافی تھے جبکہ مہمانان گرامی میں پروفیسر ڈاکٹرہماء ارشد چیمہ، پروفیسر ڈاکٹر آغاشبیر علی، ڈاکٹر شبنم بشیر، ایل ایس ڈی سوسائٹی کے سربراہ عاطف اعجاز قریشی اور SANOFI GENZYME کی نمائندہ لیلیٰ خان شامل تھیں۔سیمینار میں دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ایل ایس ڈی بیماریوں کے شکار افراد اور ان کے خاندان سمیت ڈاکٹرز اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔سیمینار کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کی سعادت ڈاکٹر نعمان غفار نے حاصل کی جبکہ اختتام پر مہمان خصوصی حنیف خان پتافی نے مہمان گرامی اورشرکاء میں یادگاری شیلڈز تقسیم کیں۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قائین ہے۔
حنیف خان پتافی
(مشیروزیراعلی پنجاب برائے صحت)
میںایل ایس ڈی سوسائٹی اور ایکسپریس میڈیا گروپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کمیاب بیماری کی جانب توجہ دلوائی۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے جس کے تقریباً 50 سے زائد گروپ ہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر یہودیوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک ہی خاندان میں شادی کرتے ہیں۔ پاکستان میں گو کہ ان مریضوں کی تعداد کم ہے مگر انہیں تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ایل ایس ڈی سوسائٹی اس مرض کے حوالے سے بہترین آگاہی مہم چلا رہی ہے، انشاء اللہ پنجاب حکومت انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔
مجھے بتایا گیا کہ ان مریضوں کے لیے مالی امداد کے جو کیس حکومت کو بھیجے گئے ان پر تیزی سے کام نہیں ہوا، میں یقین دلواتا ہوں کہ اس موذی مرض کے جتنے بھی کیس وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں بھجوائیں گے، ان پر تیزی سے کام ہوگا۔ پنجاب حکومت نے 6 ماہ قبل جب اقتدار سنبھالا تو 2 ہزار ارب روپے کے بجٹ میں مالی خسارے کے باوجود 371 ارب روپے تعلیم اور 289 ارب روپے صحت کیلئے مختص کیے گئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری ترجیح اورنج لائن یا میٹرو نہیں بلکہ صحت ہے لہٰذا ہم اس موذی مرض کے شکار افراد کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، پنجاب حکومت ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔
پروفیسرڈاکٹر ہماء ارشد چیمہ
(پروفیسر و ہیڈ آف پیڈیاٹرکس گیسٹرو اینٹرولوجی اینڈہیماٹولوجی چلڈرن ہاسپٹل اینڈ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لاہور)
ایل ایس ڈی جینیاتی بیماریوں کا گروپ ہے جو پاکستان پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک ایسا یونیک میکانزم بنایا ہے جس کے تحت جسم روزانہ گند کو ''ری سائیکل'' کرتا ہے لیکن اگر اس میں کسی ایک اینزائم کا مسئلہ ہو تو یہ کچڑا ری سائیکل نہیں ہوتا۔ اس کچڑے نے کہیں بیٹھنا ہوتا ہے لہٰذا وہ تلی، جگر، ہڈیوں، دماغ و غیرہ میں بیٹھتا ہے۔ جب یہ کچڑا تلی اور جگر میں بیٹھتا ہے تو اس کی سب سے پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ تلی اور جگر بڑھ جاتا ہے۔ ہڈیوں میں بیٹھتا ہے تو وہ ٹیڑھی ہوجاتی ہیں یا ان کی گروتھ رک جاتی ہے۔
دماغ میں کچڑا جاتا ہے تو دماغ کی ڈویلپمنٹ رک جاتی ہے۔ ایل ایس ڈی بیماریوں کا ایک ایسا گروپ ہے جس میں مختلف اینزائمز غائب ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے عام مرض gaucher disease ہے۔ اس مرض کے مبتلا بہت سارے بچے یہاں موجود ہیں۔ ان کے والدین بچوں کو لے کر جب ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسے خون کی دو بوتلیں لگوا چکے ہیں، اس کا خون نہیں بن رہااور اس کا تلی، جگر بڑھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مریض کو تھیلیسیمیا ہے مگر جب تھیلیسیمیا کی تشخیص نہیں ہوتی تو وہ پریشان ہوجاتا ہے کہ شاید کینسر یا ملیریا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹریننگ میں بہت ساری ایسی بیماریاں ہیں جن کا ڈاکٹرز نے معائنہ نہیں کیا ہوتا لہٰذا وہ مریض کو خون لگاتے رہتے ہیں جس سے مرض خراب ہوتا ہے اور تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔
جینیاتی بیماریوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کزن میرج اور برادری میں ہی شادی کا رجحان زیادہ ہے۔ یہ ایک قبیلہ بن جاتا ہے اور خراب جینز سامنے آنے لگتی ہیں۔ ہم نے عوامی آگہی مہم شروع کی ہے کہ اگر آپ کو بیماری ہے اور آپ کے خاندان میں کزن میرج زیادہ ہے تو امراض سے بچاؤ کیلئے بچوں کی شادیاں خاندان سے باہر کریں ۔ میرے پاس سوات سے بیمار بچہ لایا گیا جس کا پیٹ بڑھا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں بھینگا پن تھا۔ اس کے والدین اپنے دو بچے اس مرض کی وجہ سے گنوا چکے تھے، یہ بچہ میرے پاس بہت دیر سے لایا گیا اور وہ جانبر نہ ہوسکا۔ یہاں نور بادشاہ موجود ہے جو لوئر دیر سے ہے۔
ان کا چھوٹا بیٹا میرے پاس علاج کیلئے آیا تو اس کاتلی اور جگر کافی بڑھا ہوا تھا، اس کے پلیٹ لیٹس کم ہونے کی وجہ سے بلیڈنگ ہونے لگی جسے ہم روک نہیں سکے۔ ہم نے سرجنز کو علاج میں شامل کیا مگر اسے بچایا نہیں جاسکا۔ نور بادشاہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے کہا کہ میرا دوسرا بچہ بھی اسی مرض کا شکار ہے، وعدہ کریں کہ آپ اس کا علاج کریں گی اورا سے بچا لیں گی ، میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔ میں نے اس روتے ہوئے باپ کو چپ کروانے کیلئے وعدہ کیا کہ دنیا کے جس بھی ملک سے دوا لانا پڑی میں لاؤں گی۔ یہ پہلا بچہ تھا جس پر ہم نے فنڈنگ کی۔
پاکستان میں چونکہ اس کی دوا بہت مہنگی ہے اور ہر دو ہفتے بعد مریض کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت نے ہمیں 2سے 3 ماہ کی دوا دی مگر ہمیں اس کے لائف لانگ ٹریٹمنٹ کیلئے چیری ٹیبل پروگرامز کے پاس جانا پڑا۔ اس کا علاج بہترین چل رہا ہے۔ وہ سکول جاتا ہے۔ ہم ا سے تھرمس میں اینزائم دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ رہتا ہے وہاں تو بجلی کی درست سپلائی نہیں ہے۔ پھر ہم نے ایک موبائل کمپنی کے ٹاور والوں سے بات کی کہ ان کے پاس بلا تعطل بجلی کی رسائی ہے لہٰذا وہ یہ اینزائم اپنے پاس محفوظ کرلیں۔ انہوں نے زندگی بچانے میں ہمارا ساتھ دیا۔ آج نور بادشاہ رو نہیں رہا بلکہ خوش ہے کیونکہ اس کے بڑے بچے کی زندگی بچ گئی۔
مجھے دکھ ہوتا ہے کہ بے شمار مریض بچوں کو بچایا نہیں جاسکا جن کے والدین ہمیشہ کیلئے دکھ میں مبتلا ہوگئے۔ زندگی ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ اگر ان امراض کا علاج دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود ہے تو لوگوں کو اس تک رسائی ہونی چاہیے۔ جس طرح حکومت نے کچھ عرصہ قبل کینسر کیلئے کیا تھا کہ کچھ پیسے حکومت دے اور کچھ کمپنی۔ ہم نے حکومت کو تجویز دی کہ اگر اینزائم مہنگا ہے تو 70/30 کی شرح مقرر کرلی جائے، اس طرح مریضوں کو اینزائم کی فراہمی آسان بنائی جاسکتی ہے۔ یہ جان لیوا مرض ہے لہٰذا موثر اور بروقت علاج سے بچے کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ ایسے بے شمار مریض ہیں جن کا علاج ہوا تو ان کے تلی اور جگر جو بڑھے ہوئے تھے، کم ہوگئے، خون کی کمی ٹھیک ہوگئی اور اب وہ تقریباََ نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت میں اس طرح کے امراض سامنے آئے تو وہاں کی حکومت نے rare disease اور ایل ایس ڈی کیلئے 100 کروڑ روپے مختص کیے۔ اگر یہاں بھی اتنی رقم مختص کردی جائے تو ایل ایس ڈی کے مریضوں کا با آسانی علاج ہوسکتا ہے۔
میری حکومت سے گزارش ہے کہ rare genetic disorders کے حوالے سے وزیراعظم یا کوئی اور صوابدیدی فنڈ مقرر کیا جائے تاکہ ان مریضوں کا علاج ممکن ہوسکے۔ علاج کی سہولیات فراہم کرنے میں دیر ہوسکتی ہے مگر مریض بچے کی زندگی شاید مہلت نہ دے۔ اس کی ہڈیاں، خون، حواس کی نشوونما اب ہورہی ہے لہٰذا ہم اس کا جواب کل نہیں دے سکتے۔ مریض بچے کا نام ''آج'' ہے، یا تو ہم آج اس کا علاج کرلیں گے یا اسے ہمیشہ کیلئے کھو دیں گے۔ میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ ان کے لیے کام کریں۔
بہت سارے بچے جو زیر علاج ہیں وہ عالمی اداروں کی فنڈنگ کی وجہ سے ہیں،ہم نے امریکا اور یورپ سے اس حوالے سے علاج تک رسائی حاصل کی ہے، یہ ہماری ذاتی کوشش ہے جس سے مریضوں کو اینزائم فراہم کیے جارہے ہیں، پنجاب حکومت کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ حکومت ہمارے لیے ڈونیٹڈ ادویات کی رسائی آسان کر ے۔ ہر چھ ماہ بعد یہ ادوایات پاکستان آتی ہیں اور ہمارے ڈاکٹرز کو کاغذات لے کر کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ مصر میں 100 فیصد فنڈ وہاںکی حکومت فراہم کر رہی ہے، میں چاہتی ہوںہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہو۔ ہمارے ہاں مریضوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے، ہزار سے بھی کم ایل ایس ڈی کے مریض ہیں لہٰذا حکومت چاہے تو ان کے علاج کیلئے فنڈز فراہم کر سکتی ہے۔
پروفیسرڈاکٹر آغاشبیر علی
(پروفیسر آف پیڈیاٹرکس جنرل ہسپتال لاہور)
ایل ایس ڈی ایک کمیاب بیماری ہے مگر اس کے سب گروپ کو اکٹھا کریں تو اتنی بھی کمیاب نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاندان کے اندر شادیوں کا رجحان زیادہ ہے لہٰذا جب اس مرض کی تشخیص کا نظام بہتر ہوگا تو شاید ملک کے ہر کونے سے مریض سامنے آئیں گے۔ میٹابولک ڈس آرڈر کے حوالے سے ان بچوں پر غور کیا جاتا ہے جن کی گروتھ نہیں ہوتی، ان کے تلی اور جگر بڑھ جاتے ہیں، انہیں ہڈیوں کے مسائل ہوتے ہیں اور ہڈیاں بے جا بڑھ جاتی ہیں۔ اگر ان کی تہہ میں جائیں اور لیبارٹری ٹیسٹ کروائیں تو کوئی نہ کوئی میٹابولک ڈس آرڈر سامنے آجاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس بیماری کیلئے ٹریٹمنٹ آپشنز بہت محدود ہیں جنہیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ جب ضرورت پڑے تو ان بچوں کو خون لگا دیں، کبھی پلیٹ لیٹس، کبھی ریڈ سیلز لگا دیں۔ دوسری آپشن یہ ہے کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کر دیں۔ سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ جس اینزائم کی بیماری ہے وہ لگوادیں۔ بہت ساری بیماریوں کے اینزائم موجود ہیں جن میں gaucher disease، Fabry disease، Mucopolysaccharidosis میں سے کچھ بیماریاں شامل ہیں، یعنی 5 سے 6 ایسی بیماریاں ہیں جن میں اینزائم منتقلی کی آپشن موجود ہے۔ ہم کوئی بھی طریقہ علاج اپنائیں، اس کے لیے سوشل سپورٹ سروسز کی ضرورت ہوتی ہے۔اکثر مریض جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ان کی حالت بہت خراب ہوچکی ہوتی ہے جس کی وجہ بروقت تشخیص نہ ہونا ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ سے پہلے یا بعد میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، اس آپشن کیلئے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اینزائم رپلیس منٹ تھراپی کیلئے جو ادویات ہیں ان کا ملنا بھی مشکل کام ہے۔
جیسے ڈاکٹر ہماء نے بتایا کہ ٹریٹمنٹ کی راہ میں مالی مشکلات بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے ان بیماریوں کی جلد اور بروقت تشخیص کرنی ہے تو پوسٹ گریجوایٹ ڈاکٹرز کو ہسپتالوں اور کالجوں میں تربیت دینا ہوگی کہ وہ ان بیماریوں کی تشخیص کر سکیں۔ آج ایکسپریس میڈیا گروپ ہمارے ساتھ کھڑا ہے، یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اخبارات اور چینلز کے ذریعے میڈیکل کمیونٹی و دیگر لوگوں کو ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی دے۔
اس وقت ملک میں ایک بھی لیبارٹری ایسی نہیں ہے جہاں میٹابولک ڈس آرڈر کی تشخیص کی جاسکے۔ 22 کروڑ کی آبادی کے ملک میں اس قسم کی لیبارٹریوں کی ضرورت ہے۔ کم از کم ایک ایسی لیبارٹری ضرور قائم کی جائے جس میں ان بیماریوں کا شکار بچوں میں مرض کی تشخیص ہوسکے تاکہ ہم بھارت، جرمنی جیسے ممالک میںنمونے نہ بھیجیں۔ اس بیماری میں مبتلا بے شمار بچے مدد کیلئے محکمہ صحت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ حکومت ہمارا ہاتھ پکڑ لے یا ہمارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے تو ان مریضوں اور ان کے خاندان کے غم کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے ان بچوں کو حقیقی معنوں میں مدد دینی ہے تو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ مجھ سمیت اگر تمام لوگ اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر ان بچوں کیلئے سوچیں گے تو وہ دن دور نہیں ہے جب ہم یہاں اکٹھا ہونے کے مقاصد پالیں گے۔
عاطف اعجاز قریشی
( سربراہ ایل ایس ڈی سوسائٹی)
2010ء میں میری بڑی بیٹی کو Lysosomal Storage disorders بیماری کی تشخیص ہوئی جو میرے لیے انتہائی مشکل صورتحال تھی کیونکہ اس وقت اس مرض کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے آپشنز انتہائی کم تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے اس بیماری سے متاثرہ جو لوگ ملے ان کو بھی اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہی چیز Lysosomal Storage disorders society کی بنیاد بنی ۔ ہم نے 2018ء میں یہ سوسائٹی قائم کی تاکہ لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی دی جاسکے۔
Lysosomal storage disorders ایسے موروثی امراض ہیں جن میں والدین کیریئر ہوتے ہیں اور یہ امراض بچوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ والدین سے بچوں کو ان بیماریوں کی منتقلی کے 25 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ Lysosomal Storage disorders کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنجز تھے۔بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی ہم rare disease کی تعریف نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے پاس rare diseasesکی تعداد کیا ہے۔ اس سوسائٹی کے بنیادی مقاصد میں سب سے پہلا rare disease policy پر عملدرآمد تھا کہ ہم سرکارو دیگر سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے پائیدار ہیلتھ کیئر سسٹم لائیں جس میں نہ صرف بچوں میں اس مرض کی بروقت تشخیص ہوسکے بلکہ ان کے علاج کے حوالے سے انہیں بنیادی حق کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکے۔
Lysosomal Storage disorders society کے قیام سے اب تک ہم نے ملکی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ ہمارا پہلا اشتراک Global Genesکے ساتھ ہوا۔ یہ rare diseases کے حوالے سے سب سے بڑا ادارہ ہے اور ہم اس کے فاؤنڈنگ ممبرز میں سے ہیں۔ ہم International Gaucher Alliance کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ Inborn disorders کے حوالے سے ہم ایک پاکستانی ادارے کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ پیدائش کے وقت inborn disorders کی تشخیص کرکے جلد Lysosomal Storage disorders کا معلوم کر یں، اس سے بہتری آئے گی۔ Lysosomal Storage disorders کے مریضوں کو دنیا بھر میں effective therapyکی سہولت ہے۔ پاکستان میں اس کے مریض اگرچہ ابھی کم ہیں مگر ان میں سے بیشتر کو سہولیات میسر نہیں ہیں۔
2012ء سے اب تک پاکستان میں ایل ایس ڈی کے 780 مریضوں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ ابھی یہاں اس مرض کی تشخیص کی سہولت موجود نہیں ہے مگر اس کے باوجود ہم اس مرض میں مبتلا افراد کی اتنی بڑی تعداد کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مریض ایسے رہے جن کی تھراپی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے صرف 64 مریضوں کو یہ تھراپی مل رہی ہے اور وہ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جی رہے ہیں۔ باقی مریض ابھی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں جن میں سے بے شمار اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ Lysosomal Storage disorders کی تشخیص بروقت نہیں ہوپاتی اور اگر ہو جائے تو مریضوں کر بروقت علاج نہیں ملتا۔ یہ ہر خاندان کے لیے بہت مشکل صورتحال ہے۔ ہمیں ان کے لے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور اسی مقصد کے لیے یہ سوسائٹی قائم کی گئی ہے۔ ایل ایس ڈی سے متاثرہ خاندانوں کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر میں ایسے مریضوں کے علاج کے لیے حکومتی فنڈنگ نہیں ہے۔ جن 64 مریضوں کا میں نے ابھی ذکر کیا ان میں سے 51 مریضوں کا علاج انٹرنیشنل چیریٹی پروگرام جو فارماسیوٹیکل کمپنیاں خود چلا رہی ہیں کے تحت ہورہا ہے ۔ ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان مریضوں کیلئے تجربہ کار فزیشن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ پاکستان میں بہت کم سنٹرز قائم ہوئے ہیں جہاں Lysosomal Storage disorders کی تشخیص ہوسکتی ہے یا مریضوں کو علاج مل سکتا ہے۔ چلڈرن ہسپتال نے اس حوالے سے بہت زیادہ کام ہوا ہے۔ وہاں نہ صرف بچوں میں اس مرض کی بروقت تشخیص ہورہی ہے بلکہ انہیں عالمی اداروں کے تعاون سے علاج بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے کام کرے گی اور ہم مل کر Lysosomal Storage disorders کے مریضوں کو تشخیص اور علاج کی موثر سہولیات فراہم کرسکیں گے۔
ڈاکٹر شبنم بشیر
(پراجیکٹ ڈائریکٹر پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام)
Genetic disordersمیں تھیلیسیمیا سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کے سدباب کیلئے ہم پنجاب میں ایک بڑا پروگرام چلا رہے ہیں۔ پنجاب تھیلیسیما پریوینشن پروگرام کی بانی ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں۔ ہمارے ملک میں کمیونی کیبل بیماریوں کا بہت زیادہ بوجھ ہے جس کی وجہ سے نان کمیونی کیبل اور وراثتی بیماریوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان بیماریوں کے شکار افراد موجود ہیں۔ مجھے جو چیز زیادہ پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم جینیاتی امراض کے شبے والے مریضوں کی سکریننگ کرتے ہیں تو ان میں سے ایک تہائی تھیلیسیمیا کے مریض نکلتے ہیں مگر دو تہائی میں اس مرض کی تشخیص نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی اور جینیاتی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ڈاکٹر ہماء کے پاس بھیجا جائے تو ان میں سے بے شمار لوگ ایل ایس ڈی کا شکار ہوں گے۔
میرے نزدیک اس حوالے سے نیٹ ورکنگ کی بہت ضرورت ہے۔ ایل ایس ڈی کے حوالے سے یہ سیمینار بارش کا پہلا قطرہ ہے، اگر بروقت اور درست تشخیص کی جائے تو اس مرض کے شکار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ ایل ایس ڈی ، تھیلیسیمیا کی طرح ہے لہٰذا جن بچوں میں ایل ایس ڈی کی تشخیص ہوچکی ہے، ان کے خاندانوں کی سکریننگ کی جائے اور پریوینشن کاجو ماڈل ہم تھیلیسیمیا کیلئے لے کر چل رہے ہیں، اس مرض کے حوالے سے بھی اسے اپنایا جائے۔ ایل ایس ڈی سوسائٹی، ڈاکٹر ہماء اور ان کی ٹیم کی جانب سے میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ جو بہترین کام کر رہے ہیں، اس میں حکومت انہیں سپورٹ کرے اور فنڈز بھی فراہم کیے جائیں۔
وجاہت اللہ
میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ میری عمر 24سال ہے۔ میں نے بیچلرز آف الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور سے حاصل کی اور اب میں الیکٹریکل انرجی سسٹم انجینئرنگ میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ میں نے اپنا کورس ورک مکمل کر لیا ہے اور اب میں پاور الیکٹرانکس میں ریسرچ کر رہا ہوں۔ میرے حوالے سے دو چیزیں ہیں، ایک اچھی اور ایک بری۔ بری بات یہ کہ میں gaucherکا مریض ہوں۔ اچھی چیز یہ ہے کہ کوئی یقین نہیں کرتا کہ میں مریض ہوں۔ میرے تین بھائی اسی بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایک کی عمر ڈیڑھ سال،دوسرے کی عمراڑھائی سال اور تیسرے کی موت 22 برس کی عمر میں واقع ہوئی۔ اس سے پہلے مجھے اس حوالے سے آگاہی نہیں تھی کہ gaucher disease، hunter syndromeوغیرہ نام کی کوئی بیماریاں ہے۔
جب میرے بھائی کی وفات ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میریspleen کیوں نکالی گئی۔ دراصل میری spleen کو اس وقت نکالا گیا جب میں 5 برس کا تھا۔ میں نے اس حوالے سے تحقیق کا فیصلہ کیا اور اس کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔میں ہسپتال گیا اور وہاں تقریباََ 25 ہزار روپے کے ٹیسٹ کروائے ۔ ٹیسٹوں کے بعد میرے پر یہ لیبل لگا دیا گی کہ یہ gaucher کا مریض ہے۔
مجھے glucocerbrosidase ٹیسٹ لکھوایا گیا۔ میں نے انٹرنیٹ پر اس حوالے سے سرچ کیا۔ میں ایک لیبارٹری میں گیا جہاں اس ٹیسٹ کی سہولت تھی مگروہاں 80 ہزار روپے اس کی فیس تھی جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے لہٰذا میں نے ٹیسٹ نہیں کروایا۔ میری آخری امید Gaucher Alliance تھا۔ میں نے میڈم تانیہ کو ای میل کی اور انہوں نے مجھے انتہائی کم وقت میں اس کا جواب دیا۔ انہوں نے ایل ایس ڈی سوسائٹی کے صدر اور بانی عاطف قریشی کے ساتھ میرے سے ملاقات کی جنہوں نے اس مسئلے پر میری بہت مدد کی۔ میں نے ٹیسٹ کیلئے بلڈ سیمپل USA اور بھارت بھیجے، وہاں چند ماہ لگے اور مرض کی تشخیص ہوگئی۔میں سمجھتا ہوں کہ میں ٹائپ ون کا مریض ہوں کیونکہ مجھ میں اس کی علامات ہیں۔ الحمدللہ اب میں ٹھیک ہوں۔ میں ایل ایس ڈی سوسائٹی کا بے حد مشکور ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔
رقیہ بی بی
ڈاکٹر ہماء ارشد چیمہ کی بہت شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے بیٹے کا علاج شروع کیا۔ اس سے پہلے میرے دو بچوں کی موت ہوچکی ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ اب بھی میرے دو بچوں کو یہی مرض ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میراایک بچہ علاج کی وجہ سے ٹھیک ہے جبکہ بڑے بچے کا علاج شروع نہیں ہوا، اس کے ٹیسٹ ہورہے ہیں، امید ہے اس میں بہتری آئے گی۔ میں تعاون کرنے پر ڈاکٹرز کی مشکور ہوں۔
تقریب کے مہمان خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیربرائے صحت حنیف خان پتافی تھے جبکہ مہمانان گرامی میں پروفیسر ڈاکٹرہماء ارشد چیمہ، پروفیسر ڈاکٹر آغاشبیر علی، ڈاکٹر شبنم بشیر، ایل ایس ڈی سوسائٹی کے سربراہ عاطف اعجاز قریشی اور SANOFI GENZYME کی نمائندہ لیلیٰ خان شامل تھیں۔سیمینار میں دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے ایل ایس ڈی بیماریوں کے شکار افراد اور ان کے خاندان سمیت ڈاکٹرز اور طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔سیمینار کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کیا گیا جس کی سعادت ڈاکٹر نعمان غفار نے حاصل کی جبکہ اختتام پر مہمان خصوصی حنیف خان پتافی نے مہمان گرامی اورشرکاء میں یادگاری شیلڈز تقسیم کیں۔ سیمینار کی رپورٹ نذر قائین ہے۔
حنیف خان پتافی
(مشیروزیراعلی پنجاب برائے صحت)
میںایل ایس ڈی سوسائٹی اور ایکسپریس میڈیا گروپ کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے اس کمیاب بیماری کی جانب توجہ دلوائی۔ یہ ایک موروثی بیماری ہے جس کے تقریباً 50 سے زائد گروپ ہیں۔ یہ بیماری زیادہ تر یہودیوں میں پائی جاتی ہے کیونکہ وہ ایک ہی خاندان میں شادی کرتے ہیں۔ پاکستان میں گو کہ ان مریضوں کی تعداد کم ہے مگر انہیں تنہا نہیں چھوڑا جاسکتا۔ ایل ایس ڈی سوسائٹی اس مرض کے حوالے سے بہترین آگاہی مہم چلا رہی ہے، انشاء اللہ پنجاب حکومت انہیں تنہا نہیں چھوڑے گی۔
مجھے بتایا گیا کہ ان مریضوں کے لیے مالی امداد کے جو کیس حکومت کو بھیجے گئے ان پر تیزی سے کام نہیں ہوا، میں یقین دلواتا ہوں کہ اس موذی مرض کے جتنے بھی کیس وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں بھجوائیں گے، ان پر تیزی سے کام ہوگا۔ پنجاب حکومت نے 6 ماہ قبل جب اقتدار سنبھالا تو 2 ہزار ارب روپے کے بجٹ میں مالی خسارے کے باوجود 371 ارب روپے تعلیم اور 289 ارب روپے صحت کیلئے مختص کیے گئے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری ترجیح اورنج لائن یا میٹرو نہیں بلکہ صحت ہے لہٰذا ہم اس موذی مرض کے شکار افراد کو تنہا نہیں چھوڑیں گے، پنجاب حکومت ان کی ہر ممکن مدد کرے گی۔
پروفیسرڈاکٹر ہماء ارشد چیمہ
(پروفیسر و ہیڈ آف پیڈیاٹرکس گیسٹرو اینٹرولوجی اینڈہیماٹولوجی چلڈرن ہاسپٹل اینڈ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ لاہور)
ایل ایس ڈی جینیاتی بیماریوں کا گروپ ہے جو پاکستان پر بہت بڑا بوجھ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے جسم میں ایک ایسا یونیک میکانزم بنایا ہے جس کے تحت جسم روزانہ گند کو ''ری سائیکل'' کرتا ہے لیکن اگر اس میں کسی ایک اینزائم کا مسئلہ ہو تو یہ کچڑا ری سائیکل نہیں ہوتا۔ اس کچڑے نے کہیں بیٹھنا ہوتا ہے لہٰذا وہ تلی، جگر، ہڈیوں، دماغ و غیرہ میں بیٹھتا ہے۔ جب یہ کچڑا تلی اور جگر میں بیٹھتا ہے تو اس کی سب سے پہلی علامت یہ ہوتی ہے کہ تلی اور جگر بڑھ جاتا ہے۔ ہڈیوں میں بیٹھتا ہے تو وہ ٹیڑھی ہوجاتی ہیں یا ان کی گروتھ رک جاتی ہے۔
دماغ میں کچڑا جاتا ہے تو دماغ کی ڈویلپمنٹ رک جاتی ہے۔ ایل ایس ڈی بیماریوں کا ایک ایسا گروپ ہے جس میں مختلف اینزائمز غائب ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے عام مرض gaucher disease ہے۔ اس مرض کے مبتلا بہت سارے بچے یہاں موجود ہیں۔ ان کے والدین بچوں کو لے کر جب ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اسے خون کی دو بوتلیں لگوا چکے ہیں، اس کا خون نہیں بن رہااور اس کا تلی، جگر بڑھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مریض کو تھیلیسیمیا ہے مگر جب تھیلیسیمیا کی تشخیص نہیں ہوتی تو وہ پریشان ہوجاتا ہے کہ شاید کینسر یا ملیریا ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ ٹریننگ میں بہت ساری ایسی بیماریاں ہیں جن کا ڈاکٹرز نے معائنہ نہیں کیا ہوتا لہٰذا وہ مریض کو خون لگاتے رہتے ہیں جس سے مرض خراب ہوتا ہے اور تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔
جینیاتی بیماریوں کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کزن میرج اور برادری میں ہی شادی کا رجحان زیادہ ہے۔ یہ ایک قبیلہ بن جاتا ہے اور خراب جینز سامنے آنے لگتی ہیں۔ ہم نے عوامی آگہی مہم شروع کی ہے کہ اگر آپ کو بیماری ہے اور آپ کے خاندان میں کزن میرج زیادہ ہے تو امراض سے بچاؤ کیلئے بچوں کی شادیاں خاندان سے باہر کریں ۔ میرے پاس سوات سے بیمار بچہ لایا گیا جس کا پیٹ بڑھا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں میں بھینگا پن تھا۔ اس کے والدین اپنے دو بچے اس مرض کی وجہ سے گنوا چکے تھے، یہ بچہ میرے پاس بہت دیر سے لایا گیا اور وہ جانبر نہ ہوسکا۔ یہاں نور بادشاہ موجود ہے جو لوئر دیر سے ہے۔
ان کا چھوٹا بیٹا میرے پاس علاج کیلئے آیا تو اس کاتلی اور جگر کافی بڑھا ہوا تھا، اس کے پلیٹ لیٹس کم ہونے کی وجہ سے بلیڈنگ ہونے لگی جسے ہم روک نہیں سکے۔ ہم نے سرجنز کو علاج میں شامل کیا مگر اسے بچایا نہیں جاسکا۔ نور بادشاہ بہت پریشان ہوا۔ اس نے کہا کہ میرا دوسرا بچہ بھی اسی مرض کا شکار ہے، وعدہ کریں کہ آپ اس کا علاج کریں گی اورا سے بچا لیں گی ، میں اسے کھونا نہیں چاہتا۔ میں نے اس روتے ہوئے باپ کو چپ کروانے کیلئے وعدہ کیا کہ دنیا کے جس بھی ملک سے دوا لانا پڑی میں لاؤں گی۔ یہ پہلا بچہ تھا جس پر ہم نے فنڈنگ کی۔
پاکستان میں چونکہ اس کی دوا بہت مہنگی ہے اور ہر دو ہفتے بعد مریض کو اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت نے ہمیں 2سے 3 ماہ کی دوا دی مگر ہمیں اس کے لائف لانگ ٹریٹمنٹ کیلئے چیری ٹیبل پروگرامز کے پاس جانا پڑا۔ اس کا علاج بہترین چل رہا ہے۔ وہ سکول جاتا ہے۔ ہم ا سے تھرمس میں اینزائم دیتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا کہ جس علاقے میں یہ رہتا ہے وہاں تو بجلی کی درست سپلائی نہیں ہے۔ پھر ہم نے ایک موبائل کمپنی کے ٹاور والوں سے بات کی کہ ان کے پاس بلا تعطل بجلی کی رسائی ہے لہٰذا وہ یہ اینزائم اپنے پاس محفوظ کرلیں۔ انہوں نے زندگی بچانے میں ہمارا ساتھ دیا۔ آج نور بادشاہ رو نہیں رہا بلکہ خوش ہے کیونکہ اس کے بڑے بچے کی زندگی بچ گئی۔
مجھے دکھ ہوتا ہے کہ بے شمار مریض بچوں کو بچایا نہیں جاسکا جن کے والدین ہمیشہ کیلئے دکھ میں مبتلا ہوگئے۔ زندگی ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ اگر ان امراض کا علاج دنیا کے کسی بھی ملک میں موجود ہے تو لوگوں کو اس تک رسائی ہونی چاہیے۔ جس طرح حکومت نے کچھ عرصہ قبل کینسر کیلئے کیا تھا کہ کچھ پیسے حکومت دے اور کچھ کمپنی۔ ہم نے حکومت کو تجویز دی کہ اگر اینزائم مہنگا ہے تو 70/30 کی شرح مقرر کرلی جائے، اس طرح مریضوں کو اینزائم کی فراہمی آسان بنائی جاسکتی ہے۔ یہ جان لیوا مرض ہے لہٰذا موثر اور بروقت علاج سے بچے کی جان بچائی جاسکتی ہے۔ ایسے بے شمار مریض ہیں جن کا علاج ہوا تو ان کے تلی اور جگر جو بڑھے ہوئے تھے، کم ہوگئے، خون کی کمی ٹھیک ہوگئی اور اب وہ تقریباََ نارمل زندگی گزار رہے ہیں۔ بھارت میں اس طرح کے امراض سامنے آئے تو وہاں کی حکومت نے rare disease اور ایل ایس ڈی کیلئے 100 کروڑ روپے مختص کیے۔ اگر یہاں بھی اتنی رقم مختص کردی جائے تو ایل ایس ڈی کے مریضوں کا با آسانی علاج ہوسکتا ہے۔
میری حکومت سے گزارش ہے کہ rare genetic disorders کے حوالے سے وزیراعظم یا کوئی اور صوابدیدی فنڈ مقرر کیا جائے تاکہ ان مریضوں کا علاج ممکن ہوسکے۔ علاج کی سہولیات فراہم کرنے میں دیر ہوسکتی ہے مگر مریض بچے کی زندگی شاید مہلت نہ دے۔ اس کی ہڈیاں، خون، حواس کی نشوونما اب ہورہی ہے لہٰذا ہم اس کا جواب کل نہیں دے سکتے۔ مریض بچے کا نام ''آج'' ہے، یا تو ہم آج اس کا علاج کرلیں گے یا اسے ہمیشہ کیلئے کھو دیں گے۔ میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ ان کے لیے کام کریں۔
بہت سارے بچے جو زیر علاج ہیں وہ عالمی اداروں کی فنڈنگ کی وجہ سے ہیں،ہم نے امریکا اور یورپ سے اس حوالے سے علاج تک رسائی حاصل کی ہے، یہ ہماری ذاتی کوشش ہے جس سے مریضوں کو اینزائم فراہم کیے جارہے ہیں، پنجاب حکومت کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔ حکومت ہمارے لیے ڈونیٹڈ ادویات کی رسائی آسان کر ے۔ ہر چھ ماہ بعد یہ ادوایات پاکستان آتی ہیں اور ہمارے ڈاکٹرز کو کاغذات لے کر کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔ مصر میں 100 فیصد فنڈ وہاںکی حکومت فراہم کر رہی ہے، میں چاہتی ہوںہمارے ملک میں بھی ایسا ہی ہو۔ ہمارے ہاں مریضوں کی تعداد زیادہ نہیں ہے، ہزار سے بھی کم ایل ایس ڈی کے مریض ہیں لہٰذا حکومت چاہے تو ان کے علاج کیلئے فنڈز فراہم کر سکتی ہے۔
پروفیسرڈاکٹر آغاشبیر علی
(پروفیسر آف پیڈیاٹرکس جنرل ہسپتال لاہور)
ایل ایس ڈی ایک کمیاب بیماری ہے مگر اس کے سب گروپ کو اکٹھا کریں تو اتنی بھی کمیاب نہیں ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں خاندان کے اندر شادیوں کا رجحان زیادہ ہے لہٰذا جب اس مرض کی تشخیص کا نظام بہتر ہوگا تو شاید ملک کے ہر کونے سے مریض سامنے آئیں گے۔ میٹابولک ڈس آرڈر کے حوالے سے ان بچوں پر غور کیا جاتا ہے جن کی گروتھ نہیں ہوتی، ان کے تلی اور جگر بڑھ جاتے ہیں، انہیں ہڈیوں کے مسائل ہوتے ہیں اور ہڈیاں بے جا بڑھ جاتی ہیں۔ اگر ان کی تہہ میں جائیں اور لیبارٹری ٹیسٹ کروائیں تو کوئی نہ کوئی میٹابولک ڈس آرڈر سامنے آجاتا ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس اس بیماری کیلئے ٹریٹمنٹ آپشنز بہت محدود ہیں جنہیں ہاتھ کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ جب ضرورت پڑے تو ان بچوں کو خون لگا دیں، کبھی پلیٹ لیٹس، کبھی ریڈ سیلز لگا دیں۔ دوسری آپشن یہ ہے کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کر دیں۔ سب سے بہتر آپشن یہ ہے کہ جس اینزائم کی بیماری ہے وہ لگوادیں۔ بہت ساری بیماریوں کے اینزائم موجود ہیں جن میں gaucher disease، Fabry disease، Mucopolysaccharidosis میں سے کچھ بیماریاں شامل ہیں، یعنی 5 سے 6 ایسی بیماریاں ہیں جن میں اینزائم منتقلی کی آپشن موجود ہے۔ ہم کوئی بھی طریقہ علاج اپنائیں، اس کے لیے سوشل سپورٹ سروسز کی ضرورت ہوتی ہے۔اکثر مریض جب ہمارے پاس آتے ہیں تو ان کی حالت بہت خراب ہوچکی ہوتی ہے جس کی وجہ بروقت تشخیص نہ ہونا ہے۔ بون میرو ٹرانسپلانٹ سے پہلے یا بعد میں پیدا ہونے والی پیچیدگیاں، اس آپشن کیلئے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اینزائم رپلیس منٹ تھراپی کیلئے جو ادویات ہیں ان کا ملنا بھی مشکل کام ہے۔
جیسے ڈاکٹر ہماء نے بتایا کہ ٹریٹمنٹ کی راہ میں مالی مشکلات بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ ہمیں ان رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ اگر ہم نے ان بیماریوں کی جلد اور بروقت تشخیص کرنی ہے تو پوسٹ گریجوایٹ ڈاکٹرز کو ہسپتالوں اور کالجوں میں تربیت دینا ہوگی کہ وہ ان بیماریوں کی تشخیص کر سکیں۔ آج ایکسپریس میڈیا گروپ ہمارے ساتھ کھڑا ہے، یہ میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اخبارات اور چینلز کے ذریعے میڈیکل کمیونٹی و دیگر لوگوں کو ان بیماریوں کے بارے میں آگاہی دے۔
اس وقت ملک میں ایک بھی لیبارٹری ایسی نہیں ہے جہاں میٹابولک ڈس آرڈر کی تشخیص کی جاسکے۔ 22 کروڑ کی آبادی کے ملک میں اس قسم کی لیبارٹریوں کی ضرورت ہے۔ کم از کم ایک ایسی لیبارٹری ضرور قائم کی جائے جس میں ان بیماریوں کا شکار بچوں میں مرض کی تشخیص ہوسکے تاکہ ہم بھارت، جرمنی جیسے ممالک میںنمونے نہ بھیجیں۔ اس بیماری میں مبتلا بے شمار بچے مدد کیلئے محکمہ صحت کی جانب دیکھ رہے ہیں۔ حکومت ہمارا ہاتھ پکڑ لے یا ہمارے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دے تو ان مریضوں اور ان کے خاندان کے غم کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اگر ہم نے ان بچوں کو حقیقی معنوں میں مدد دینی ہے تو اپنی ذات سے بالاتر ہوکر کام کرنا ہوگا۔ مجھ سمیت اگر تمام لوگ اپنے ذاتی مفاد کو پس پشت ڈال کر ان بچوں کیلئے سوچیں گے تو وہ دن دور نہیں ہے جب ہم یہاں اکٹھا ہونے کے مقاصد پالیں گے۔
عاطف اعجاز قریشی
( سربراہ ایل ایس ڈی سوسائٹی)
2010ء میں میری بڑی بیٹی کو Lysosomal Storage disorders بیماری کی تشخیص ہوئی جو میرے لیے انتہائی مشکل صورتحال تھی کیونکہ اس وقت اس مرض کی تشخیص اور علاج کے حوالے سے آپشنز انتہائی کم تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ مجھے اس بیماری سے متاثرہ جو لوگ ملے ان کو بھی اسی قسم کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہی چیز Lysosomal Storage disorders society کی بنیاد بنی ۔ ہم نے 2018ء میں یہ سوسائٹی قائم کی تاکہ لوگوں کو اس بیماری کے حوالے سے آگاہی دی جاسکے۔
Lysosomal storage disorders ایسے موروثی امراض ہیں جن میں والدین کیریئر ہوتے ہیں اور یہ امراض بچوں میں منتقل ہوجاتے ہیں۔ والدین سے بچوں کو ان بیماریوں کی منتقلی کے 25 فیصد امکانات ہوتے ہیں۔ Lysosomal Storage disorders کے حوالے سے بہت زیادہ چیلنجز تھے۔بدقسمتی سے پاکستان میں آج بھی ہم rare disease کی تعریف نہیں کرسکتے کیونکہ ہمیں معلوم ہی نہیں ہے کہ ہمارے پاس rare diseasesکی تعداد کیا ہے۔ اس سوسائٹی کے بنیادی مقاصد میں سب سے پہلا rare disease policy پر عملدرآمد تھا کہ ہم سرکارو دیگر سٹیک ہولڈرز کے تعاون سے پائیدار ہیلتھ کیئر سسٹم لائیں جس میں نہ صرف بچوں میں اس مرض کی بروقت تشخیص ہوسکے بلکہ ان کے علاج کے حوالے سے انہیں بنیادی حق کی فراہمی بھی یقینی بنائی جاسکے۔
Lysosomal Storage disorders society کے قیام سے اب تک ہم نے ملکی و بین الاقوامی اداروں کے ساتھ اشتراک کیا ہے۔ ہمارا پہلا اشتراک Global Genesکے ساتھ ہوا۔ یہ rare diseases کے حوالے سے سب سے بڑا ادارہ ہے اور ہم اس کے فاؤنڈنگ ممبرز میں سے ہیں۔ ہم International Gaucher Alliance کے رکن بھی ہیں۔ اس کے علاوہ Inborn disorders کے حوالے سے ہم ایک پاکستانی ادارے کے ساتھ ملکر کام کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ پیدائش کے وقت inborn disorders کی تشخیص کرکے جلد Lysosomal Storage disorders کا معلوم کر یں، اس سے بہتری آئے گی۔ Lysosomal Storage disorders کے مریضوں کو دنیا بھر میں effective therapyکی سہولت ہے۔ پاکستان میں اس کے مریض اگرچہ ابھی کم ہیں مگر ان میں سے بیشتر کو سہولیات میسر نہیں ہیں۔
2012ء سے اب تک پاکستان میں ایل ایس ڈی کے 780 مریضوں کی نشاندہی ہوچکی ہے۔ ابھی یہاں اس مرض کی تشخیص کی سہولت موجود نہیں ہے مگر اس کے باوجود ہم اس مرض میں مبتلا افراد کی اتنی بڑی تعداد کی نشاندہی کرچکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر مریض ایسے رہے جن کی تھراپی موجود ہے لیکن بدقسمتی سے صرف 64 مریضوں کو یہ تھراپی مل رہی ہے اور وہ اپنی زندگی بھرپور طریقے سے جی رہے ہیں۔ باقی مریض ابھی اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں جن میں سے بے شمار اپنی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ Lysosomal Storage disorders کی تشخیص بروقت نہیں ہوپاتی اور اگر ہو جائے تو مریضوں کر بروقت علاج نہیں ملتا۔ یہ ہر خاندان کے لیے بہت مشکل صورتحال ہے۔ ہمیں ان کے لے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور اسی مقصد کے لیے یہ سوسائٹی قائم کی گئی ہے۔ ایل ایس ڈی سے متاثرہ خاندانوں کو بے شمار چیلنجز درپیش ہیں۔
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہیلتھ کیئر میں ایسے مریضوں کے علاج کے لیے حکومتی فنڈنگ نہیں ہے۔ جن 64 مریضوں کا میں نے ابھی ذکر کیا ان میں سے 51 مریضوں کا علاج انٹرنیشنل چیریٹی پروگرام جو فارماسیوٹیکل کمپنیاں خود چلا رہی ہیں کے تحت ہورہا ہے ۔ ایک اور بڑا چیلنج یہ ہے کہ ان مریضوں کیلئے تجربہ کار فزیشن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ پاکستان میں بہت کم سنٹرز قائم ہوئے ہیں جہاں Lysosomal Storage disorders کی تشخیص ہوسکتی ہے یا مریضوں کو علاج مل سکتا ہے۔ چلڈرن ہسپتال نے اس حوالے سے بہت زیادہ کام ہوا ہے۔ وہاں نہ صرف بچوں میں اس مرض کی بروقت تشخیص ہورہی ہے بلکہ انہیں عالمی اداروں کے تعاون سے علاج بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ حکومت اس حوالے سے کام کرے گی اور ہم مل کر Lysosomal Storage disorders کے مریضوں کو تشخیص اور علاج کی موثر سہولیات فراہم کرسکیں گے۔
ڈاکٹر شبنم بشیر
(پراجیکٹ ڈائریکٹر پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام)
Genetic disordersمیں تھیلیسیمیا سب سے زیادہ عام ہے۔ اس کے سدباب کیلئے ہم پنجاب میں ایک بڑا پروگرام چلا رہے ہیں۔ پنجاب تھیلیسیما پریوینشن پروگرام کی بانی ڈاکٹر یاسمین راشد ہیں۔ ہمارے ملک میں کمیونی کیبل بیماریوں کا بہت زیادہ بوجھ ہے جس کی وجہ سے نان کمیونی کیبل اور وراثتی بیماریوں کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ یہ حقیقت ہے کہ ان بیماریوں کے شکار افراد موجود ہیں۔ مجھے جو چیز زیادہ پریشان کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ جب ہم جینیاتی امراض کے شبے والے مریضوں کی سکریننگ کرتے ہیں تو ان میں سے ایک تہائی تھیلیسیمیا کے مریض نکلتے ہیں مگر دو تہائی میں اس مرض کی تشخیص نہیں ہوتی بلکہ وہ کسی اور جینیاتی مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ڈاکٹر ہماء کے پاس بھیجا جائے تو ان میں سے بے شمار لوگ ایل ایس ڈی کا شکار ہوں گے۔
میرے نزدیک اس حوالے سے نیٹ ورکنگ کی بہت ضرورت ہے۔ ایل ایس ڈی کے حوالے سے یہ سیمینار بارش کا پہلا قطرہ ہے، اگر بروقت اور درست تشخیص کی جائے تو اس مرض کے شکار افراد کی تعداد بہت زیادہ ہوگی۔ ایل ایس ڈی ، تھیلیسیمیا کی طرح ہے لہٰذا جن بچوں میں ایل ایس ڈی کی تشخیص ہوچکی ہے، ان کے خاندانوں کی سکریننگ کی جائے اور پریوینشن کاجو ماڈل ہم تھیلیسیمیا کیلئے لے کر چل رہے ہیں، اس مرض کے حوالے سے بھی اسے اپنایا جائے۔ ایل ایس ڈی سوسائٹی، ڈاکٹر ہماء اور ان کی ٹیم کی جانب سے میں حکومت سے مطالبہ کرتی ہوں کہ جو بہترین کام کر رہے ہیں، اس میں حکومت انہیں سپورٹ کرے اور فنڈز بھی فراہم کیے جائیں۔
وجاہت اللہ
میرا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے۔ میری عمر 24سال ہے۔ میں نے بیچلرز آف الیکٹریکل انجینئرنگ کی ڈگری یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی پشاور سے حاصل کی اور اب میں الیکٹریکل انرجی سسٹم انجینئرنگ میں ماسٹرز کر رہا ہوں۔ میں نے اپنا کورس ورک مکمل کر لیا ہے اور اب میں پاور الیکٹرانکس میں ریسرچ کر رہا ہوں۔ میرے حوالے سے دو چیزیں ہیں، ایک اچھی اور ایک بری۔ بری بات یہ کہ میں gaucherکا مریض ہوں۔ اچھی چیز یہ ہے کہ کوئی یقین نہیں کرتا کہ میں مریض ہوں۔ میرے تین بھائی اسی بیماری کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ ایک کی عمر ڈیڑھ سال،دوسرے کی عمراڑھائی سال اور تیسرے کی موت 22 برس کی عمر میں واقع ہوئی۔ اس سے پہلے مجھے اس حوالے سے آگاہی نہیں تھی کہ gaucher disease، hunter syndromeوغیرہ نام کی کوئی بیماریاں ہے۔
جب میرے بھائی کی وفات ہوئی تو مجھے احساس ہوا کہ میریspleen کیوں نکالی گئی۔ دراصل میری spleen کو اس وقت نکالا گیا جب میں 5 برس کا تھا۔ میں نے اس حوالے سے تحقیق کا فیصلہ کیا اور اس کی وجہ دریافت کرنے کی کوشش کی۔میں ہسپتال گیا اور وہاں تقریباََ 25 ہزار روپے کے ٹیسٹ کروائے ۔ ٹیسٹوں کے بعد میرے پر یہ لیبل لگا دیا گی کہ یہ gaucher کا مریض ہے۔
مجھے glucocerbrosidase ٹیسٹ لکھوایا گیا۔ میں نے انٹرنیٹ پر اس حوالے سے سرچ کیا۔ میں ایک لیبارٹری میں گیا جہاں اس ٹیسٹ کی سہولت تھی مگروہاں 80 ہزار روپے اس کی فیس تھی جو عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے لہٰذا میں نے ٹیسٹ نہیں کروایا۔ میری آخری امید Gaucher Alliance تھا۔ میں نے میڈم تانیہ کو ای میل کی اور انہوں نے مجھے انتہائی کم وقت میں اس کا جواب دیا۔ انہوں نے ایل ایس ڈی سوسائٹی کے صدر اور بانی عاطف قریشی کے ساتھ میرے سے ملاقات کی جنہوں نے اس مسئلے پر میری بہت مدد کی۔ میں نے ٹیسٹ کیلئے بلڈ سیمپل USA اور بھارت بھیجے، وہاں چند ماہ لگے اور مرض کی تشخیص ہوگئی۔میں سمجھتا ہوں کہ میں ٹائپ ون کا مریض ہوں کیونکہ مجھ میں اس کی علامات ہیں۔ الحمدللہ اب میں ٹھیک ہوں۔ میں ایل ایس ڈی سوسائٹی کا بے حد مشکور ہوں اور ان کی کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔
رقیہ بی بی
ڈاکٹر ہماء ارشد چیمہ کی بہت شکرگزار ہوں جنہوں نے میرے بیٹے کا علاج شروع کیا۔ اس سے پہلے میرے دو بچوں کی موت ہوچکی ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ اب بھی میرے دو بچوں کو یہی مرض ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ میراایک بچہ علاج کی وجہ سے ٹھیک ہے جبکہ بڑے بچے کا علاج شروع نہیں ہوا، اس کے ٹیسٹ ہورہے ہیں، امید ہے اس میں بہتری آئے گی۔ میں تعاون کرنے پر ڈاکٹرز کی مشکور ہوں۔