پاک بھارت کشیدگی اصل وجہ

پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی بس سروس کا باقاعدہ آغاز 16 مارچ 1999ء کو ہوا۔۔


سید ذیشان حیدر August 17, 2013
syedzeeshanhaider.com

ISLAMABAD: اس وقت کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی 19 فروری 1999ء کو دہلی سے براستہ واہگہ بارڈر لاہور پہنچ گئے۔ پاکستانی وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنی کابینہ کے خاص وزراء کے ساتھ وزیراعظم واجپائی کا استقبال کیا۔ دوستی بس سروس کا باقاعدہ آغاز 16 مارچ 1999ء کو ہوا۔ اس سے قبل 1998ء میں دونوں پڑوسی ممالک نے دنیا بھر کے سامنے خود کو الگ الگ جوہری طاقت ثابت کرنے کے لیے ایٹمی دھماکے کیے جن کے بعد سفارتی اور فوجی سطح پر حالات انتہائی کشیدہ صورت حال اختیار کر گئے۔ مگر عالمی ثالثوں اور خود پاکستانی حکومت کی رضا مندی سے بس ڈپلومیسی کا آغاز ہوا اور کشیدگی کی صورت حال میں خاطر خواہ کمی بھی واقع ہوئی۔ اپنے اس دورے کے دوران وزیراعظم واجپائی نے 21 فروری 1999ء کو مینار پاکستان کے سائے تلے لاہور اعلامیے پر دستخط کیے۔

یہ اعلامیہ 1972ء میں شملہ معاہدے کے بعد بھارت اور پاکستان کے مابین طے پانے والا پہلا انتہائی اہم سیاسی معاہدہ تصور ہوتا ہے۔ بلا شبہ اس معاہدے نے پوکھران (بھارت) اور چاغی (پاکستان) میں ہوئے ایٹمی دھماکوں کے اثر کو کم ضرور کر دیا۔ مگر یہ ''دوستی،، کی صورت حال زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکی تقریباً تین ماہ بعد مئی 1999ء میں کارگل کے محاذ پر ایک محدود جنگ چھڑ گئی۔ لداخ اور سری نگر کا واحد زمینی راستہ کارگل سے ہی گزرتا ہے بھارتی افواج کے لیے سیاچن کے محاذ پر فوجی کمک و رسد کے لیے کارگل ہی واحد راستہ ہے۔ پاکستان کا موقف بہت واضح تھا کہ کارگل کے محاذ پر مجاہدین بھارتی افواج سے جنگ میں مصروف ہیں مگر اس نقطہ نظر کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی حاصل نہ ہو سکی۔

یہ بہت حیران کن امر تھا کہ پاکستانی وزیراعظم ایک طویل ڈپلومیسی کے ذریعے بھارتی وزیراعظم کو پاکستان لانے میں کامیاب ہوئے۔ پھر چند ماہ بعد ایک جنگ چھیڑ دی گئی۔ اس کارگل جنگ کے بعد اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے میاں صاحب کی حکومت کو چلتا کیااور خود اقتدار پر قابض ہو گئے۔ میاںصاحب کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس آپریشن کے بارے میں ایک مبہم نوعیت کی بریفنگ ضرور دی گئی مگر نہ تو میاں صاحب کو اس کاروائی کے مکمل مضمرات سے آگاہی حاصل ہوئی اور نہ ہی ان کی رضا مندی اس میں شامل تھی۔ یہ خالصتاً جنرل مشرف اور ان کے رفقاء کا ایڈونچر تھا جس کا خمیازہ کئی قیمتی جانوں کے ضیاع کی صورت میں افواج پاکستان اور پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑا۔

اس واقعہ کے بعد اسلام آباد اور نئی دہلی میں اعتماد کا ایسا فقدان پیدا ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ مزید بدتر ہی ہوتا چلا گیا۔ نقصان شائد جنگ کے دوران پاکستان کا بھارت کی نسبت کم ہوا ہو مگر جنگ کے ہماری جمہوری معاشی اور بین الاقوامی سفارتی سطح پر نقصانات کی فہرست طویل ہوتی رہی۔

پھر 24 دسمبر 1999ء کو ایئر انڈیا کی فلائٹ 814آئی سی کھٹمنڈو سے دہلی کی جانب اڑان بھرنے کے بعد ہائی جیک ہو گئی اور امرتسر سے ہوتی ہوئی دبئی اور بالآخر قندھار (افغانستان ) میں لینڈ کروا دی گئی۔مبینہ طور پر ایک کالعدم تنظیم نے اس طیارے کو 176مسافروں سمیت ہائی جیک کیا ان ہائی جیکرز کا مطالبہ تھا کہ بھارت کشمیر سے گرفتار کیے گئے مجاہدین کے چند کمانڈروں کو رہا کرے ۔جو بالآخر سات روز بعد رہا کر دیے گئے ان میں مشتاق احمد زرگر ،احمد امیر شیخ اور مولانا مسعود اظہر شامل تھے۔ مشتاق احمد زرگر کا تعلق کشمیر سے تھا ۔ احمد عمر شیخ برطانوی نژاد پاکستانی پر 2002ء میںمشہور امریکی صحافی ڈینیئل پرل کا کراچی میں بیہمانہ قتل کا الزام تھا، مولانا مسعود اظہر کا تعلق بہاولپور سے ہے ۔13دسمبر کو نئی دہلی میں ہوئے ایک اور دہشت گرد حملے پر بھارت نے الزام پاکستان کے انٹیلی جنس اداروں پر عائد کیا۔اس بار یہ حملہ بھارتی پارلیمنٹ پر 5 دہشت گردوں نے کیا جس کی ذمے داری جیش محمد نامی تنظیم نے قبول کی، یہ تنظیم ان ہی مولانا مسعود اظہر نے قائم کی تھی(جن کا ذکر طیارہ ہائی جیک میں ہو چکا) ان تمام تر بے اعتمادیوں کے بعد 2002ء میں ہوئی سارک کانفرنس کے موقع پر جنرل مشرف نے اٹل بہاری واجپائی سے مصافحہ کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔اس ایک مصافحہ نے کئی سالوں پر محیط بے اعتمادی کی فضا کو قدرے کم کر دیا۔ مگر پھر 2008ء میںہوئے ممبئی حملوں نے دونوں ممالک میں خلیج مزید بڑھا دی۔

اس اعتماد کے فقدان میں مزید اضافہ حال ہی میں بھارتی فوجیوں کے سر قلم کر دیے جانے کے واقعہ کے بعد ہوا ۔صورت حال وہی پرانی ہے۔میاں نواز شریف کو حکومت میں آئے ابھی چند ماہ بھی نہ گزرے کہ ''طاقتور،، حلقوں نے اپنا اثرو رسوخ دکھانا شروع کر دیا۔ میاں نواز شریف اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی بھارت سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی باتیں کرتے آ رہے ہیں۔ پھر حلف اٹھانے کے فوراً بعد بھارتی وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار بھی کر ڈالا۔ پاکستان میں جاری توانائی کے بحران کو حل کرنے میں بھی بھارت کی مدد لینے کی ٹھان لینے کے بعد کچھ وفود کا تبادلہ بھی ابھی ہونا تھا کہ یہ دلخراش واقع رونما ہو گیا اور اب گاہے بگاہے سرحد پر مختلف مقامات پر جھڑپیں معمول بن گئی ہیں۔

یہ توجہ طلب بات ہے کہ جب بھی کوئی جمہوری حکومت بھارت اور افغانستان کے ساتھ دیرپا عمل شروع کرنے کا ارادہ ہی کرتی ہے تو مشرقی یا مغربی سرحدوں پر صورت حال کشیدہ ہو جاتی ہے۔ ان حالات کی خرابی کے پیچھے کیا محرکات ہو سکتے ہیں اس پرشائد کبھی کوئی قرطاس ابیض(وائیٹ پیپر) شائع کرنے کی ہمت کر لے۔ ذرا غور کریں میاں صاحب نے ہندوستان سے بجلی کی خواہش ظاہر کی۔ ایک مستحکم پاکستانی بینک انڈیا میں اپنی برانچیں کھولنے کے لیے پر تول رہا تھا۔ بھارت کی جانب سے پاکستانی بزرگ شہریوں کو بھارت میں قیام کے دوران پولیس رپورٹ سے مستثنٰی قرار دے دیا گیا۔ پاکستانی افواج نے (گرین بک 13۔2012) میں مشرقی بارڈر (بھارت )کے ساتھ مغربی بارڈر (افغانستان) کی جانب توجہ مبذول کرنے کی بات بھی کی نتیجتًا بھارت اور پاکستان کے مابین تعلقات امن کی طرف بڑھ رہے تھے۔اس جملہ پیش رفت کا منطقی انجام دونوں ممالک کے دفاعی بجٹ میں کمی اور مسلح غیر سرکاری گروہوں کی سرپرستی سے ہاتھ کھینچنا ہونا تھا۔

یہ صورتحال ان مخصوص ریاستی اور بالخصوص غیر ریاستی عناصر کے لیے نا قابل برداشت تھی، آ خر کون اپنا چولہا ٹھنڈا کرنا گوارا کرتا ہے خاص کر ایسے ملک میں جہاں حصول رزق حلال انتہائی مشکل ہو۔ ہمارے ملک کے ،،طاقتور ترین ،، حلقے ہمیشہ سے مبینہ طور پر طالبان اور مجاہدین گروپس کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ افغان جنگ کے دنوں میں یہ مجاہدین ریاست کی ،،لاڈلی اولاد ،، تصور ہوتے تھے۔ ان طاقتور حلقوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ افغانستان پر ہر حال میں کنٹرول ان ہی قوتوں کا رہے ۔افغان جنگ کے دنوں میں تربیت یافتہ مجاہدین اب درجنوں عسکری تنظیمیں بنا چکے ہیں جوخود پاکستان کی ریاست کے لیے درد سر بنی ہوئی ہیں ۔ایک مکتبہ فکر کاخیال ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن نہ کرنے کی وجہ بھی شائد یہی ہے کہ 2014ء میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغانستان پر ان ہی قوتوں کی مدد سے اپنا اثرو رسوخ قائم رکھا جا سکے۔

اسی( 80) کی دہائی میں پالے گئے لاڈلوں نے 90ء کی دہائی سے اب تک جو گل کھلائے ہیں شائد اس سے ہمارے ،،مالک مکانوں،، نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ ان عقل کل لوگوں کی صلاحیتوں نے ملک کو دو لخت کر دیا اور آج حا لت یہ کہ پاکستان کا کوئی گلی کوچہ محفوظ نہیں ہے ۔مگر مثبت پہلو یہ ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد نے زمینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے پاکستان میں لڑی جانے والی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کوئٹہ میں حال ہی میں اپنی جنگ ہونے کی سند جاری کر دی ہے۔ امید ہے کہ چند دنوں میں بننے والی سیکیورٹی پالیسی سیاست کے بجائے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ موجودہ پاک بھارت کشیدگی کا براہ راست تعلق وزارت خارجہ اور وزارت دفاع سے ہے۔ مگر یہ دونوںقلمدان محترم وزیراعظم کے پاس ہیں تو کیا یہ صورت حال میاں صاحب کی مستقبل میں بھارت کے لیے امن اور مفاہمت پر مبنی پالیسیوں کا جواب ہیں یا امتحان؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں