
وحید مراد کہتے ہیں کہ سینٹ میتھیوز چرچ 1914 میں تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے چند برس بعد ہی ان کے مرحوم دادا محمد حسین نے اس کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سنبھال لی تھی۔ وحید مراد کے مطابق ان کے دادا نے 35 سال تک گرجا گھر کی دیکھ بھال کی، ان کے انتقال کے بعد یہ ذمہ داری وحید مراد کے والد شکرو خان کو منتقل ہوگئی۔ انھوں نے 45 سال تک یہ ذمہ داری نبھائی۔ والد کے انتقال کے بعد وحید مراد نے ان کی جگہ لے لی۔ سینٹ میتھیوز چرچ کی دیکھ بھال کرتے ہوئے وحید مراد کو 17 برس گزرچکے ہیں۔ وحید مراد کے بقول وہ اپنے بچوں کو وصیت کرچکے ہیں کہ ان کی موت کے بعد اس قابل فخر خاندانی روایت کو جاری رکھیں۔ وحید مراد کے بقول انھوں نے گرجا گھر کی دیکھ بھال کرنے میں کبھی شرم محسوس نہیں کیوں کہ ان کے نزدیک کسی بھی مذہب کی عبادت گاہ مسجد ہی کی طرح قابل احترام ہے۔ وحید مراد کا گھر میلاچ گائوں سے، جہاں گرجا گھر واقع ہے، 6 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ وہ روزانہ اونچے نیچے پہاڑی راستوں پر یہ فاصلہ طے کرتے ہوئے گرجا گھر پہنچتے ہیں۔ اس معمول میں بارش، برفباری اور یخ بستہ ہوائیں بھی حائل نہیں ہوپاتیں۔ گرجا گھر پہنچنے کے بعد وہ اس کی صفائی ستھرائی کرتے ہیں، پھول رکھتے ہیں، سردیوں میں برف صاف کرتے ہوئے اور گھنٹا بھی بجاتے ہیں۔ نتھیاگلی کی آبادی میں کوئی عیسائی نہیں، اس کے باوجود وحید مراد باقاعدگی سے گرجا گھر پہنچ کر اسے صاف ستھرا رکھتے ہیں۔ یہاں آنے والے اکثر سیاح ہوتے ہیں۔
ان میں عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شامل ہوتے ہیں۔ ایک مسلمان کو گرجا گھر کی دیکھ بھال کرتے دیکھ کر عیسائی سیاح خوش ہوتے ہیں اور وحید مراد کو سراہتے ہیں اور بعض اوقات انھیں تحائف بھی دیتے ہیں۔ پشاور کے معروف مذہبی اسکالر اور پاکستان کونسل برائے عالمی مذاہب کی کور کمیٹی کی رکن پروفیسر ڈاکٹر عبدالغفور کہتے ہیں کہ یہ ہمارے معاشرے کی اصل تصویر ہے جہاں مختلف عقائد کے لوگ مذہبی رواداری کے ساتھ رہتے ہیں۔ پروفیسر عبدالغفور کا کہنا ہے کہ وحید مراد کے علاوہ بھی مختلف شہروں میں بہت سے مسلمان گرجا گھروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔