پروپیگنڈہ موثر و خوفناک حربہ
’’مسلسل پروپیگنڈ ے کے ذریعے سے یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت سمجھنے لگیں۔
ہٹلر اپنی کتاب میری جدوجہد ( (Mein Kampfمیں لکھتا ہے کہ ''مسلسل پروپیگنڈ ے کے ذریعے سے یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ جنت کو دوزخ اور دوزخ کو جنت سمجھنے لگیں اور جو پروپیگنڈا سب سے زیاہ موثر ہونا چاہیے لازم ہے کہ اسے زیادہ عاقلانہ و دانش مندانہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے، عوام کی جتنی زیادہ تعداد کو متاثر کرنا منظور ہے، پروپیگنڈے کی ذہنی سطح اتنی ہی نیچی ہونی چاہیے، چونکہ جھوٹ بہت بڑا ہوتا ہے اس لیے وہ لوگوں کو قائل کرنے کا حامل بن جاتا ہے، عوام حد درجہ سادہ لوح ہوتے ہیں لہٰذا چھوٹے جھوٹ کے مقابلے میں بڑا جھوٹ ان کے لیے زیادہ موثر ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو وہ خود جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں لیکن بڑا جھوٹ بولتے ہوئے انھیں شرم آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ان میں سے اکثر بڑے جھوٹے کے متعلق شبہ کا خیال بھی دل میں نہیں لاسکتے لہٰذا جھوٹ جتنا بڑا ہوگا عام لوگ اتنی ہی بے تکلفی سے اسے قبول کرلیں گے۔ وہ کہتا ہے کہ پروپیگنڈے کا ایک اور بڑا اصول یہ ہے کہ معاملہ ایک دشمن تک محدود رکھا جائے، عوام کے سامنے بیک وقت نفرت کے لیے دشمنوں کی زیادہ تعداد پیش نہ کرو، صرف ایک دشمن کو ان کی نفرت کا ہدف بننے دو۔ عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور عقل کم، اس لیے پروپیگنڈا صرف چند نکتوں تک محدود رہنا چاہیے اور خاص باتوں پر بار بار زور دینا چاہیے، یہاں تک کہ عوام میں سے ہر فرد سمجھ لے تم اسے کیا سمجھانا چاہتے ہو۔ پروپیگنڈہ کرنے والے کو نفسیاتی ہتھکنڈوں سے بھی کام لینا چاہیے۔''
ہٹلر نازیت کے لیے پروپیگنڈے کو نہایت موثر اور خوفناک حربہ سمجھتا تھا۔ میکس لرنر نے کہا تھا کہ ''ہٹلر دور حاضر کی تاریخ میں پروپیگنڈے کا سب سے بڑا ماہر ہے۔'' پروپیگنڈے کے فن میں اپنی فہم و بصیرت کو درجہ کمال پر پہنچانے کی غرض سے ہٹلر نے متعدد نظاموں کا گہرا مطالعہ کیا، ان میں رومن کیتھولک کلیسا کی تنظیم اور اس کے طور طریقے، پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کا پروپیگنڈا شامل تھے۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ ہم سب کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ جمہوریت بحال ہے لیکن سیاسی اور معاشی استحکام ناپید ہے، انتشار کا ایک عجب عالم ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، قومی اداروں کے درمیان کھینچا تانی ہے، عوام کو سہولتیں میسر نہیں، بجلی کا بحران روز بروز شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے، روزگار کے مواقع نہیں ہیں، مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے۔ صنعتوں کا فروغ رک سا گیا ہے۔ پورا ملک دہشت گردی کی آگ میں جل رہا ہے، فوج، پولیس، عبادت گاہوں، سیاست دانوں، شہریوں پر ہونے والے خودکش حملے رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں، بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کے لیے کوئی قومی ایجنڈا موجود نہیں۔ ایک طرف تو پاکستان کے عوام اور اس کی مسلح افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں تو دوسری طرف میڈیا میں بیٹھے کچھ حضرات مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کے حق میں مہم چلا رہے ہیں۔
ان عقل کے اندھوں، نام نہاد اورغیر پیشہ ورانہ اور جانب دارانہ ٹی وی مبصرین کو یہ اندازہ ہی نہیں ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی کتنی خوفناک لہر اس خطے کو تہہ و بالا کیے ہوئے ہے۔ اس کی معمولی سی مثال ہلیری کلنٹن کے وہ الفاظ ہیں جس میں انھوں نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیا پر طالبان کے قبضے کا خدشہ موجود ہے اور جب انھوں نے جنوبی ایشیا کا نام لیا تو اس میں نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان، بنگلہ دیش اور بھارت شامل ہیں، اگر اس صورتحال اور اس خدشے کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس میں وسط ایشیائی روسی ریاستیں بھی شامل ہیں اور اگر اس خطے کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وسط ایشیائی ریاستوں اور افغانستان سے جنگجو گروہ پورے برصغیر پر کئی مرتبہ حملہ آور ہوچکے ہیں اور طویل عرصے تک انھوں نے حکمرانی کی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے موقع پر جب پوری قوم میں ایک اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
نفرت اور انتشار کا کھیل پروپیگنڈے کے ذریعے کس کے اشارے پر کھیلا جارہا ہے، اس وقت جب کہ ملک اور قوم کو اتحاد و یکجہتی کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، نفرت کے اس گھنائونے کھیل کا مقصد کیا ہے؟ افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے، جو ان حالات میں بھی قوم کے اتحاد میں رکاوٹ بن رہا ہے اور وہ اب بھی پاکستان میں طالبان نما حکومت کے خواب دیکھ رہا ہے، یہ خواب پاکستان کو نقصان تو پہنچا سکتا ہے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ جو لوگ یہ سو چ رکھتے ہیں وہ دراصل دنیاکے تیور کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ جب کہ پاکستان پر صرف یہ ہی ایک دبائو نہیں دوسرا دبائو ایک بڑے پڑوسی ملک بھارت کی جانب سے بھی ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کو بدنام کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔
بھارت کا یہ منفی رویہ خود بھارت کے مفاد میں اس لیے نہیں ہے کہ اس رویے سے پاکستان میں موجود انتہا پسندی کی سوچ رکھنے والے عناصر اور مضبوط ہوجائیں گے اور اس خطے میں عدم استحکام کے امکانات بڑھ جائیں گے اور یہ عدم استحکام صرف پاکستان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ بھارت اور دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آجائیں گے۔ اس وقت اس خطے کو استحکام اور امن دینے کی واحد صورت یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت اور سیاسی استحکام کے ساتھ امن اور محبت کی سوچ کو فروغ دیا جائے۔ یہ ہی وہ واحد ہتھیار ہوگا جس سے دہشت گردی کو شکست دی جاسکتی ہے اور ان تمام مذہبی جماعتوں، رہنمائوں اور شخصیات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے جو طالبان کی دہشت گردی کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ میڈیا میں بیٹھے ہوئے ان ملک و عوام دشمنوں کا بھی بائیکا ٹ کیا جائے جو ان حالات میں نفرت کا کھیل کھیل رہے ہیں اور پروپیگنڈے کے ذریعے قوم کو گمراہ کرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔ پاکستان کے عوام معصوم ضرور ہیں لیکن بے وقوف ہرگز نہیں جو ان کے پروپیگنڈے کا شکار ہوجائیں گے۔