حمزہ عباسی صدارتی نظام کی حمایت میں میدان میں آگئے
معروف اداکار اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما حمزہ علی عباسی پاکستان میں صدارتی نظام کی حمایت میں میدان میں آگئے۔
اداکار حمزہ علی عباسی نے ایک چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں صدارتی نظام کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جب میں بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹر کررہا تھا تو میرا تھیسز بھی اسی موضوع پر تھا کہ 'پاکستان کے لیے صدارتی نظام' ہی بہتر ہے، یہ کہنا غلط ہے کہ پاکستان میں صدارتی نظام پہلے بھی آزمایا جا چکا ہے دراصل وہ صدارتی نظام نہیں بلکہ آمریت تھی چاہے وہ ایوب خان کا دور ہو، یحییٰ خان یا جنرل پرویز مشرف کا دور ہو۔
حمزہ علی عباسی نے یہ بھی کہا کہ پرویز مشرف کا پارلیمانی الیکشن کرانے کے عمل کو پارلیمانی سسٹم کہنا غلط ہوگا۔ آمریت میں جو بھی نظام ہو اسے صدارتی نظام کی مثال سے نہیں جوڑا جا سکتا، اسی طرح اسکندر مرزا محمد علی بوگرا کی ون یونٹ سسٹم کی مثال بھی صدارتی نظام نہیں تھا اس لیے یہ نہ کہا جائے کہ صدارتی نظام پاکستان میں آچکا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما حمزہ علی عباسی نے کہا کہ کوئی نظام بُرا نہیں ہوتا لیکن ہمیں اپنی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کون سا نظام ہمارے لیے بہتر ہے دس سال سے جو پارلیمانی نظام چلا آرہا ہے اس میں کچھ خامیاں ہیں جوکہ مجھے نہیں لگتا کہ وہ کبھی وقت کے ساتھ ٹھیک ہوپائیں گی۔
اداکار نے یہ بھی کہا کہ حلقے میں اراکین صوبائی اور قومی اسمبلی کی سیاست کی بات کریں تو ان کا ملکی اور غیر ملکی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا کیوں کہ حلقے میں کبھی بھی ملکی سیاست کی بات نہیں ہوتی بلکہ وہ تو نوکریاں لگانے کی اور گلیوں میں روڈ بنانے کی سیاست ہوتی ہے ایسے اراکین جب اسمبلیوں میں پہنچیں گے تو میرا نہیں خیال کہ وہ کچھ بڑے فیصلے کر پائیں گے، ہمیں ایم این اے اور ایم پی اے کے کام واضح طور پر بیان کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ہمارے لوگوں کو اس بات کا فرق ہی نہیں معلوم۔
حمزہ عباسی کا مزید کہنا ہے کہ پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم یہ نہیں کرسکتا کہ وہ محکمہ تعلیم میں کسی ماہر تعلیم کو وزیر مقرر کرسکے بلکہ اسے اپنی کابینہ میں سے ہی کسی شخص کو وزیر بنانا پڑتا ہے کیوں کہ وزیر ہونے کے لیے رکن پارلیمنٹ بننا ضروری ہے۔