طبلِ جنگ بج چکا
آج وہ وقت آگیا ہے کہ جب اس ملک پاکستان کو لوٹ کھانے والے کھل کھلا کر سامنے آچکے ہیں۔
لاکھوں امیر کبیر لوگوں نے بینکوں سے قرضے لیے اور واپس نہیں کیے اور لوٹ مار کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے بلکہ لوٹ مار کا یہ کاروبار آسمانوں کی بلندیوں کو چھو رہا ہے یہ جو آج پاکستان تباہ و برباد ہوتا نظر آرہا ہے یہ سب کیا دھرا انھی لٹیروں کا ہے جو 70 سال سے لوٹ مار کیے ہی جا رہے ہیں۔
پاکستان میں جو بھی حکومت بنی اس نے صرف لوٹ مار ہی کی اور چلتی بنی۔ یہ ہمارا ملک پاکستان تو ہر لحاظ سے بڑا زرخیز ہے، یہ تو زمین سے خزانے اچھالتا رہتا ہے مگر لٹیرے ان خزانوں سے اپنے خزانے بھر لیتے ہیں۔ زمین کو اس کا خراج نہیں دیتے۔ ان لٹیروں نے زمین بانجھ کر ڈالی، دریا خشک کردیے، سمندر تباہ کر ڈالا۔ کروڑوں ٹن ''قاتل فضلہ'' سمندر میں روزانہ داخل ہوتا ہے۔
اور لٹیرے ذرا بھی شرمندہ نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ ''لٹیرا کہنا بند کرو'' یہ کیا ڈاکو، چور لٹیرے کی گردان لگا رکھی ہے! مہنگائی کو ختم کرو، غربت مٹاؤ، نوکریاں دو، گھر بناؤ، گلیوں میں رلتے بچوں کو اسکولوں میں داخل کرو۔ تھر میں آج بھی غذا کی قلت سے مرتے بچوں کو بچاؤ۔ اسپتالوں میں مفت دوائیں فراہم کرو۔ یہ سب انسانی فلاح و بہبود کی باتیں وہ ''عوام کے خیر خواہ'' کر رہے ہیں جو پچھلے 70 سالوں میں اس ملک میں حکمران رہے ہیں۔ یہی ایک مضبوط ٹولہ ہے (بلکہ آہنی ٹولہ ہے) اور اسی ٹولے نے ملک کو کنگال کیا ہے۔ اس ٹولے کے بزرگ تو مر کھپ گئے ہیں اور اب ان بزرگوں کے بیٹے، بیٹیاں، بھتیجے بھانجے، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں حکمران بنے بیٹھے ہیں۔
یہی ظالم اپوزیشن کا لبادہ بھی ضرورتاً اوڑھ لیتے ہیں۔ آج تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ اس حکومت میں بھی سابقہ حکومتوں کے لٹیرے بیٹھے دیکھ جاسکتے ہیں، وہ جالب نے کہا تھا ناں ''اندر بھائی باہر بھائی بیچو بیچ ہے گندھارا پو بارہ''۔ ان لٹیروں کی ''پوبارہ'' ہمیشہ قائم رہتی ہے۔ انعام درانی یاد آگئے ہیں۔ آج سے 25 سال پہلے کی بات ہے۔ میں ان دنوں انکم ٹیکس آفس کراچی میں انسپکٹر ہوتا تھا، انکم ٹیکس کراچی میں ایک مشاعرہ ہوا تھا۔ اس میں معروف صحافی و شاعر انعام درانی صاحب بھی شریک ہوئے تھے۔
ان کا ایک مصرعہ ہی ذہن میں یاد رہ گیا ہے ''کاٹ لو جو کاٹ سکتے ہو مری انکم پہ ٹیکس'' اس مصرعے کو انعام درانی صاحب نے جس طرح پڑھا تھا، وہ بڑا کام دکھاگیا۔ انعام درانی صاحب نے مصرعہ پڑھا ''کاٹ لو جو کاٹ سکتے ہو'' اتنا کہہ کر لمحے بھر کو درانی صاحب رکے اور پھر گویا ہوئے ''مری انکم پہ ٹیکس''۔ اس وقت تو یہ بات مزاح میں ٹل گئی مگر آج لٹیرے ٹھونک بجا کے علی الاعلان کہہ رہے ہیں ''کاٹ لو جو کاٹ سکتے ہو'' اور موجودہ حکمران ابھی تک تو لٹیروں کا کچھ بھی نہیں کاٹ سکے، مگر لگتا ہے کہ اب ''یہ کٹ ہی جائے گا۔''
آج وہ وقت آگیا ہے کہ جب اس ملک پاکستان کو لوٹ کھانے والے کھل کھلا کر سامنے آچکے ہیں۔ ان کے محل، چمچماتی گاڑیاں، عمدہ لباس، مہنگی عینکیں، لش پش سینڈل، جوتے، ہزاروں کا بیوٹی پارلر زدہ چہرہ۔ اور دوسری طرف پھٹے پرانے، گہرے زرد، نیلے، کالے کپڑے پہنے غریب، مہلک بیماریوں میں مبتلا، بغیر دوا دارو اپنی قبروں کی طرف رواں دواں اور ادھر حکمرانوں کا نزلہ زکام بھی لندن امریکا میں دیکھا جا رہا ہے۔ اب سب کچھ سامنے آچکا ہے۔ میدان جنگ تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ کروڑوں غریبوں، خون تھوکتوں کا لشکر اپنی اپنی صفیں درست کر رہا ہے، تیر انداز کہاں کمان سنبھالیں گے، گھڑ سوار کدھر ہوں گے، دائیں بائیں اور عقب کا دھیان کیسے رکھا جائے گا۔ ظالم اور مظلوم کے درمیان فیصلہ کن معرکہ ہونے کو باطل تیار ہے۔ موجودہ حکمران بھی سن لیں یہ وزیر اعظم، گورنر ہاؤس خالی کرنے سے عوام کو سیر کرانے سے ہرگز ہرگز بات نہیں بنے گی۔
اب عوام ہر ''نقش کہن'' کو مٹانے کے لیے اٹھیں گے۔ طبل جنگ پر تھاپ پڑ چکی۔ کروڑوں پسے ہوئے عوام اپنے حقوق چھیننے کے لیے اپنا ترانہ طبل جنگ کے ساتھ پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ ظالموں، جابروں، غاصبوں کے محلوں کی طرف ان کے ''ٹھکانوں'' کی طرف۔ للکاریں فضاؤں میں بلند ہو رہی ہیں شعلہ بار آنکھیں بڑھ رہی ہیں، دہکتے جسم جل رہے ہیں، روشنی چاہیے! روشنی چاہیے! کی اونچی آوازوں کا شور ہے۔ طبل جنگ کی تھاپ پر عوام اپنا ترانہ گا رہے ہیں:
جب تک چند لٹیرے میرے وطن کو گھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی اپنی جنگ رہے گی
ظلم کہیں بھی ہو' ہم اس کا سر خم کرتے جائیں گے
محلوں میں اب اپنے لہو کے دیے نہ جلنے پائیں گے
کٹیاؤں سے جب تک صبحوں نے منہ پھیرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی' اپنی جنگ رہے گی
جان لیا اے اہل کرم تم ٹولی ہو عیاروں کی
دست نگر کیوں بن کے رہے' یہ بستی ہے غداروں کی
ڈوبے ہوئے دکھ درد میں جب تک سانجھ سویرے ہیں
اپنی جنگ رہے گی
انقلاب انقلاب زندہ باد! انقلاب انقلاب زندہ باد!