تین عیدیں اور سیاسی ہلچل
کیا پاک فوج کے شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ بھی شمالی وزیرستان یا کسی اور قبائلی علاقے میں ادا کی جا سکتی ہے؟
LONDON:
اس دفعہ عجب ماجرہ ہو گیا۔ ملک میں ایک نہ دو اکٹھی تین عیدیں منائی گئیں۔ پہلے شوال کا چاند شمالی وزیرستان میں نظر آیا۔ یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں جنگجو طالبان جمع ہیں۔ جنھیں جب بھی موقع ملتا ہے پاک فوج کے سپاہیوں کو شہیدکر ڈالتے ہیں۔ شمالی وزیرستان وہ علاقہ ہے جہاں پاکستان کے باغیوں کا قبضہ ہو چکا ہے اور باغیوں کے ہمدردوں کو اس پر کوئی تشویش نہیں بلکہ جب کبھی ان باغیوں کا پلڑا پاک فوج پر بھاری نظر آتا ہے تو وہ خوشی کے مارے وجد میں آئے ہوئے ایک دوسرے کو مبارک بادیں دے رہے ہوتے ہیں۔
کامرہ ایئربیس پر حالیہ حملہ ہو یا ماضی قریب میں کراچی نیول بیس پر حملہ یا جی ایچ کیو پر حملہ، بعض حضرات تو باغیوں کے حق میں دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف تماشا یہ ہے کہ جس علاقے پر باغیوں کا قبضہ ہے اور جہاں پاکستانی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں، بعض سیاستدان اور مذہبی رہنما حکومت کی مذمت کرتے ہوئے پر زور مطالبہ کر رہے ہیں کہ ڈرون حملوں کو روکا جائے۔ یہ حضرات تو چاہتے ہیں کہ پاک فوج کوافغانستان میں موجودامریکی افواج پر حملہ کردینا چاہیے۔
اب یہ حکومت اور پاک فوج کا فرض اور ذمے داری ہے کہ وہ امریکی ڈرون سے شمالی وزیرستان کی پہاڑیوں میں چھپے ان باغیوں کو تحفظ دیں تا کہ یہ اپنی افرادی قوت کو مجتمع کرتے ہوئے پاکستان کی شہری آبادیوں اور فوجی کی تنصیبات پر حملہ کر کے پاک فوج کو شکست دیتے ہوئے پاکستان پر قبضہ کر سکیں۔ کیا منظر ہو گا جب خدا نخواستہ ان باغیوں کے چند سو اور چند ہزار پر مشتمل گروہ یکے بعد دیگرے پاکستانی شہروں کو فتح کر رہے ہوں گے اور ان شہروں کے سادہ لوح اور نہتے شہری خوف کے مارے اپنے گھروں میں چھپ کر امان مانگ رہے ہوں۔
تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وسط ایشیا کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھے والے حملہ آوروں کے لوٹ مار ، عورتوں، بچوں اوربوڑھوں کو تہہ تیغ کرتے ہوئے موجودہ پاکستان اور برصغیر کے علاقوں پر قبضہ کر لیتے تھے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ آج بھی تاریخ کو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس دفعہ بھی مذہب کا لبادہ اوڑھ کر عام سادہ لوح پاکستانی مسلمانوں کو جھانسہ دیا جارہا ہے لیکن پس پردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔سوچنے کی بات یہ کہ امریکا اور اغیار کے دشمن یہ باغی اتنے ہی بہادر ہیں توپہاڑوں میں چھپے رہنے کے بجائے پاک فوج سے میدان میں آ کر مقابلہ کریں اور کھلی جنگ لڑیں۔
بلاشک و شبہ ڈرون حملوںسے بے قصور انسانی جانوں کا اتلاف ہو رہا ہے، مجھے اس پر سخت افسوس اور دکھ ہے اور میں دل سے چاہتا ہوں کہ ڈرون حملے بند ہونے چاہیے لیکن حقیقت یہ اس کی ذمے داری بھی باغیوں پر ہی عائد ہوتی ہے کہ انھوں نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جس میں ہلاکت کے سوا کوئی دوسری آپشن نہیں ہے ۔ان کی وجہ سے قبائلی علاقوں کے عوام ہی نہیں پاکستان کو بھی مسائل کا سامنا ہے۔ یہ جنگجو عوام کو حفاظتی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں ۔جب کسی ڈروں حملے میں کوئی مطلوب شخص کے ساتھ بے گناہ افراد بھی جاں بحق ہوتے ہیں تو پاکستان کے شہروں میں رہنے والے سیاستدان اور مذہبی رہنما ان ہلاکتوں کو پروپیگنڈے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ بھی ادا کی جانے لگی ہے۔ ان حضرات سے یہ سوال بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا پاک فوج کے شہدا کی غائبانہ نماز جنازہ بھی شمالی وزیرستان یا کسی اور قبائلی علاقے میں ادا کی جا سکتی ہے؟ کیا بات ہے ان پاکستانیوں کی کہ کھاتے پاکستان کا ہیں اور گیت کسی اور کے گاتے ہیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی تین عیدوں کی جس پر ہمارے لکھنے بولنے والے قومی یکجہتی کی پامالی پر خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔ پہلی بات تو ان حضرات کو یہ سمجھ لینی چاہیے کہ ایک دن عید منانے کی روایت چند دہائیوں پہلے ہی کی ایجاد ہے۔ اس سے پہلے ہر علاقے کے لوگ چاند دیکھ کر مقامی طور پر عید منا لیا کرتے تھے۔ رمضان اور شوال کے چاند کے پر کسی صوبے کو اعتراض نہیں سوائے خیبر پختونخواہ کے ایک خاص حلقے کے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ لوگ باقی سال سرکاری چاند کی رویت پر ''ایمان'' لے آتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ انگریز کے دور سے یہ روایت وہاں قائم ہے۔ اس طرح ان کو اپنی آزادی کا احساس ہوتا تھا۔
لگتا ہے کہ پاکستان قائم ہونے کے بعد بھی کچھ لوگ ابھی تک اس ''آزادی'' کاانتظار کر رہے ہیں جس کا تعلق ماضی میں پیوستہ ہے۔ بہرحال ایک سے زائد عید منانے کی بحث کی تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ جس دن سعودی عرب میں عید ہو اس دن عید منائی جائے حالانکہ سیکڑوں سال سے برصغیر میں چاند دیکھ کر ہی عید منائی جا رہی ہے۔ ہمارے ہاں کچھ حلقے جو سعودی اثر میں ہیں ایک عرصے سے زور لگا رہے ہیں کہ پاکستانی بھی سعودی عرب کی پیروی میں اُسی دن عید منائیں۔ بہرحال یہ ایسی بحث ہے جسے میرے جیسا عام مسلمان تو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اب کچھ ملکی سیاست کے بارے میںباتیں ہوجائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ عدالتوں کو ایسے فیصلے نہیں دینے چاہئیں جن پر عمل نہ ہو سکے۔ تمام ریاستی اداروں کی عزت اور توقیر ہونی چاہیے۔ انھوں نے ایک بار پھر یہ موقف دہرایا کہ حکومت نے خط لکھنے سے متعلق آئین کے مطابق عمل کرنا ہے۔ تازہ ترین خبر یہ ہے کہ وزیراعظم راجہ پرویز اشرف 27 اگست کو سپریم کورٹ کے احترام میں پیش ہوں گے۔ جب کہ بھارت کے چیف جسٹس نے کہا ہے کہ جج صاحبان کو ملک چلانے یا پالیسیاں بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اگر انتظامیہ عدلیہ کی ہدایات پر عمل درآمد کرنے سے انکار کر دے تو کیا ہوگا۔ یہ بھی آئین اور قانون کی گتھی ہے جسے میرے جیسا لکھاری سلجھانے سے قاصر ہے ۔ میں تو اتنا ہی کہوں گا کہ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔
پیر کو وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے تو 28 اگست کو ارسلان افتخار کیس بھی زیر سماعت آئے گا۔ جلد از جلد اس حوالے سے دودھ کادودھ اور پانی علیحدہ ہونا چاہیے۔اگر الزامات غلط ہیں تو الزام لگانے والے کو عبرتناک سزا دی جائے تا کہ آیندہ کوئی ایسی جرأت نہ کر سکے۔
انتخابات کب ہوں گے اس کا پتہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے اکتوبر کے تیسرے ہفتے کے درمیان کے عرصے میں چلے گا۔
ایک ضروری وضاحت:۔ اگر اتفاق سے مجھ سے کسی دن رابطہ نہ ہو سکے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ میں انتہائی حساس معاملات میں مصروف ہوں اس صورت میں مجھ سے اگلے دن رابطہ کریں۔ شکریہ
اوقات رابطہ:۔ پیر تا جمعہ دوپہر 2 تا 6 بجے شام
سیل فون نمبر: 0346-4527997