ڈاکٹر ذکی حسن سائنسی فکر اور انسان دوستی کے علم بردار

ماضی کی مختلف حکومتوں نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں وہ جگہ نہیں دی۔

پاکستان میں تعلیم کے شعبے کی جو کم زوریاں اور خامیاں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔فوٹو: فائل

ISLAMABAD:
پاکستان میں تعلیم کے شعبے کی جو کم زوریاں اور خامیاں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی کی مختلف حکومتوں نے تعلیم کو قومی ترجیحات میں وہ جگہ نہیں دی جو ایک روشن مستقبل کی خواہش مند قوم کے پیشِ نظر ہوسکتی ہے۔ پھر تعلیم کے شعبے کو ماضی میں جس قدر بھی وسائل بہم ہوئے اُن کا بہترین استعمال نہیں کیا جاسکا۔ سو گذشتہ 65 برسوں میں تعلیمی اداروں، اساتذہ اور طلباء کی تعداد میں قابلِ ذکر اضافے کے باوجود اچھی تعلیم اب بھی قوم کے ایک بڑے حصے کی دسترس میں نہیں ہے۔ یہی نہیں بلکہ تعلیم کا شعبہ اور بھی بہت سے مسائل کی آماج گاہ ہے جن میں معیارِ تعلیم کی عمو می پستی، اس شعبے میں بدعنوانیوں کی بہتات اور نصاب ہائے تعلیم کی پس ماندگی سرِ فہرست ہیں۔

ان تمام مسائل کے باوجود تعلیم کے شعبے میں پچھلے چھے سات عشروں میں کئی اچھے تجربات بھی ہوئے ہیں۔ بہت سے قابلِ ذکر ادارے بھی ہمارے ہاں قائم ہوئے ہیں اور ایسے اساتذہ کی بھی کمی نہیں رہی جنہوں نے اپنے خلوص اور محنت سے تمام تر معاندات کے باوجود مثبت کارکردگی کی ایسی مثالیں قائم کیں جن سے صرف نظر کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں۔ اساتذہ ہی قوم کے اصل معمار ہوتے ہیں۔ کسی قوم کو اچھے استاد میسرآجائیں تو اُس کے لیے ترقی اور افتخار کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اپنی تاریخ کے ایسے ہی محسن افراد کی فہرست پر نظر ڈالی جائے تو اس میں ایک نمایاں اور محترم نام ڈاکٹر ذکی حسن کا نظر آتا ہے۔

ڈاکٹر ذکی حسن پاکستان میں میڈیسن کی تعلیم سے وابستہ لوگوں کے لیے تو کوئی اجنبی شخصیت نہیں ہیں لیکن دوسرے شعبہ ہائے زندگی کے باخبر لوگ بھی ان سے ناواقف نہیں ہوں گے۔ پیشے کے لحاظ سے وہ یقیناً میڈیکل سائنس سے وابستہ تھے، لیکن اُن کے افکار اور کام کی وسعت اپنے شعبے سے بہت آگے تک تھی۔ انہوں نے محنت کشوں کی بستیوں میں، معذور افراد اور معاشرے کے دوسرے مجبور اور پسے ہوئے طبقوں کے لیے جو طبّی خدمات سرانجام دیں انہوں نے اُن کو سماجی حلقوں میں بھی بہت اچھے طور پر متعارف کروا دیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی عملی زندگی اور پیشہ ور انہ ذمے داریوں کو عوام دوستی کے جس قالب میں ڈھالا، اُس نے اُن کے سوچنے کے انداز کو بھی عوام دوستی کا پیکر فراہم کر دیا تھا۔ وہ اشتراکیت کے اصولوں سے بھی بہ خوبی واقف تھے، لیکن ایک طبقاتی نظام کس طرح انسانوں کے درمیان خلیج پیدا کرتا ہے اور پس ماندگی کے مارے ہوئے لوگ کس طرح بے بسی اور ذلّت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں، اس کا مشاہدہ انہوں نے بچشمِ خود کچی آبادیوں اور مزدور بستیوں میں کیا۔ انہوں نے جس بیمار اور لااغر انسانیت کو دیکھا اُسی نے اُن کو سماجی انصاف کی جدوجہد پر کمربستہ ہوجانے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹرذ کی حسن نے کوئی80 سال کی زندگی پائی۔ اس زندگی کا بڑا حصہ سماجی شعور سے متصف اور خدمتِ خلق کے جذبے سے معمور رہا۔

ڈاکٹر ذکی حسن کی عوام دوست جدوجہد کو اُن کے سائنسی طرزِ فکر سے جدا کر کے دیکھنا بہت مشکل ہے۔ اُن کا غوروفکر کا انداز سائنسی تھا، مسائل کے حل تک پہنچنے کا اُن کا طریقۂ کار بھی سائنسی تھا اور اپنی سوچ اور مطالعے کے نتائج کو دوسروں تک پہنچانے کے اُن کے انداز میں بھی سائنسی پیرائے کو دیکھا جاسکتا تھا۔ اُن کے اس طرزِ فکر و احساس نے زندگی کے حوالے سے اُن کو بہت مثبت روّیوں کا حامل بنادیا تھا۔ چناںچہ کوئی مشکل مرحلہ درپیش ہوتا، کوئی آزمائش ہوتی یا کسی بحران کا سامنا ہوتا، ہر صورت میں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت کا ٹھہرائو اپنی جگہ برقرار رہتا تھا۔

زندگی کے آخری برسوں میں جب وہ مختلف بیماریوں سے دوچار ہوئے تب بھی اُن کی شخصیت میں کسی قسم کی شکست وریخت نہیں ہوئی بلکہ انتقال سے تین، چار سال قبل جب وہ امریکا سے دل کا آپریشن کروا کر واپس آئے تو وہ اس پورے تجربے سے بے حد مسرور اور شاد نظر آرہے تھے۔ میرے پوچھنے پر بتانے لگے کہ کس طرح خاصی دیر تک وہ خود بھی اسکرین پر آپریشن کے ابتدائی مرحلے کو دیکھتے رہے۔ وہ سائنس کی اس درجہ ترقی پر بے حد خوش تھے اور اُن کا کہنا تھا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ آج میڈیکل سائنس اس مقام تک پہنچ چکی ہے کہ جس کا ہم سے پہلے کی نسلیں تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ آخری زمانے میں ڈاکٹر صاحب کے ہاتھوں میں رعشہ آچکا تھا۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اُن کے لیے دوسروں سے ہاتھ ملانا بھی مشکل ہوچکا تھا۔ لیکن اُن کے سامنے کسی کو ہم دردی کا اظہار کرنے کا یارا نہیں ہوسکتا تھا کیوںکہ وہ فوراً بات کو ہنسی میں اڑادیتے تھے۔ اُن کا کہنا ہوتا تھا کہ عمر کا تقاضا ہے، جسم بھی تو مشین ہے، زیادہ وقت گزر جانے پر کارکردگی متاثر ہونے لگتی ہے۔

ڈاکٹرذکی حسن 1927میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے حیدرآباد دکن میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور وہیں سے نیورولوجی اور نفسیات میں اختصاص حاصل کیا۔ گریجویشن کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے جہاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی 1959سے 1961 تک انہیں برطانیہ کی نفیلڈ(Nuffield)فیلو شپ حاصل رہی۔ پاکستان میں وہ مختلف اہم ذمے داریوں سے عہدہ برا ہوئے۔ 1967سے 1987تک، کوئی بیس برس انہوں نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی میں خدمات سرانجام دیں۔ یہاں وہ نیورو سائیکٹری کے شعبے کے سربراہ بنے۔ سندھ میڈیکل کالج میں انہوں نے ایک عرصہ تدریس کی ذمے داریاں پوری کیں۔ انہوں نے نرسنگ اسکول میں بھی پڑھایا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے نفسیات، عمرانیات اور سوشل ورک کے شعبوں میں بھی مختلف اوقات میں پڑھاتے رہے۔

تدریس کے علاوہ ڈاکٹر ذکی حسن تحقیق کی طرف بھی ہمیشہ مائل رہے۔ خاص طور پر جن موضوعات پر انہوں نے کام کیا اُن میں ذہنی امراض، بچوں کی معذوریاں(Disabilities)، مرگی(Epilepsy) شَقاق دِماغی (Schizophrenia) شامل تھے۔ ان کی تحقیقات کا ایک اور اہم موضوع ذہنی امراض کا سماجی حالات سے تعلق تھا۔

ڈاکٹر ذکی حسن کو اپنے مضمون میں جو درک حاصل تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے مشاہدات ، مطالعے اور تحقیقات میں جو پھیلائو آتا رہا اُس کا اعتراف بھی علمی حلقوں میں جاری رہا۔ چناںچہ وہ ملک اور بیرونِ ملک کئی اہم پیشہ ور اداروں، کمیٹیوں اور تحقیقی بورڈز کے رکن بنے۔ ایسے اداروں نے بھی اُن کو ہاتھوں ہاتھ لیا جو مزدوروں اور پس ماندہ بستیوں میں بہبود کے کام کرنے میں مصروف تھے۔ چناںچہ وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(PILER) سے نہ صرف وابستہ تھے بلکہ کئی سال تک وہ اس کے صدر بھی رہے۔ اس کے علاوہ وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف سوشل ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ (ISRD)، پاکستان ایسوسی ایشن آف میڈیکل ایجوکیشن اور پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی (کراچی چیپٹر) جیسے اداروں کے صدر رہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کراچی اور پاکستان سائی کیٹرک سو سائٹی کو بھی اُن کی صدارت سے مستفید ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔


اپنے علمی اور پیشہ ور انہ کام کے حوالے سے ڈاکٹرذکی حسن کو ملک میں اور بیرونِ ملک کئی اعزازات سے نوازا گیا۔ 1972سے 1981 تک وہ یونیسیف کے ایگزیکیٹو بورڈ میں پاکستان کے نمائندے رہے۔ 1980میں وہ اس بورڈ کے چیئرمین رہے۔ ڈاکٹر ذکی حسن کو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (جنیوا) کی ایکسپرٹ کمیٹی برائے ذہنی صحت کا رکن بننے اور اس ادارے کی تحقیقاتی کمیٹی کی رکنیت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ ڈاکٹر صاحب 1961سے1974تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(PMDC)کے رکن رہے۔

مذکورہ تمام پیشہ ورانہ خدمات اور اعزازات کا نقطۂ عروج کا بعض اہم تعلیمی اداروں کی تشکیل وتعمیر میں ان کے کردار کی صورت میں سامنے آیا۔ 1987میں وہ بقائی میڈیکل کالج کے بانی ڈین بنے۔ بعدازاں جب یہ کالج یونیورسٹی کے درجے پر فائز ہوا تو ڈاکٹر ذکی حسن 1992سے1996تک بقائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔

1997میں کراچی میں جناح میڈیکل کالج کے قیام کے وقت وہ اس ادارے سے ڈین کی حیثیت سے وابستہ ہوئے۔ خیال یہ تھا کہ یہ کالج جلد یونیورسٹی بن جائے گا۔ شاید اس سلسلے میں خاصی پیش رفت بھی ہوگئی تھی لیکن حکومتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کے نتیجے میں یہ مرحلہ طے نہیں ہوسکا۔ جس صوبائی اسمبلی کو یونیورسٹی کا چارٹر منظور کرنا تھا وہ خود تحلیل ہوگئی اور جناح میڈیکل کالج، یونیورسٹی بنتے بنتے رہ گیا۔

اپنی تحقیقات کے وسیلے سے ڈاکٹرذکی حسن کو پاکستانی معاشرے کے تہہ در تہہ سماجی عوارض کو سمجھنے کا موقعہ ملا۔ گذشتہ تین چار عشروں میں ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی کے ساتھ انتہا پسندی اور عدم رواداری کے رویوں نے فروغ پایا ہے۔ تحمل اور برداشت کا مادّہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ یہی نہیں بلکہ جسمانی اور ذہنی تشدد کے واقعات روز کا معمول بن چکے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ایک عام آدمی ان انتہا پسندانہ رویّوں کا شکار کیوں کر ہوتا چلا جاتا ہے ۔ ڈاکٹر ذکی حسن نے اس موضوع پر خاطر خواہ کام کیا۔ اُن کا خیال تھا کہ معاشرے کی ٹوٹ پھوٹ، افراد کی شخصیت کے اندر بھی شکست وریخت پیدا کر دیتی ہے۔

اس شکست وریخت کے نتیجے میں فرد اپنی داخلی یکجہتی ہی سے محروم نہیں ہوتا بلکہ وہ ذات کے ایک شدید بحران اور خود سے لاتعلقی سے دوچار ہوجاتا ہے۔ تب آس پاس ہونے والی چیزیں بھی اس کو متاثر کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔ اور پھر ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ جہاں فرد ہر قسم کے خارجی تشدد کے مظاہرے کے حوالے سے بے حس ہو جاتا ہے۔ یہ بات کسی بھی فرد کے لیے ایک المیے سے کم نہیں کہ اس کے اندر اچھائی یا برائی کی تمیز ختم ہوجائے اور وہ ہر خرابی کو معمول کی چیز کے طور پر قبول کرنے لگے۔ سوال یہ ہے کہ بعض لوگ تشدد پر کیوں آمادہ ہوتے ہیں؟ اس کے پیچھے بھی داخلی اور خارجی دونوں طرح کے اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ ایک موقع پر میں نے ڈاکٹر صاحب سے دریافت کیا تھا کہ انسان کا طرزِ عمل (Behaviour)، اُس کا مزاج اور طبیعت، یہ چیزیں پیدائشی اور موروثی طور پر متعین ہوتی ہیں یا ان چیزوں کو انسان کا خارجی ماحول متشکل کرتا ہے؟

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ بہت سی چیزیں پیدائشی طور پر انسان میں آتی ہیں اور ان کا سبب بھی سائنسی ہی ہوتا ہے۔ البتہ جو کچھ انسان کو پیدائشی اور موروثی طور پر حاصل ہوتا ہے بعد کی زندگی میں اُس پر ماحول کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوتے ہیں۔ بہت سی پیدائشی اور موروثی عادتیں اور جبلّتیں جو منفی انداز کی ہوں، ایک مثبت ماحول کے زیرِاثر اُن کے اثرات کو ختم یا محدود کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ماحول اگر خود ہی بُرا اور خراب ہو تو وہ ان منفی موروثی خصوصیات کو مزید طاقت ور بنا دیتا ہے۔ یہی صورت مثبت موروثی خصوصیات کی بھی ہے۔ وہ اچھے ماحول میں مزید بہتر جب کہ بُرے ماحول میں برائی کی طرف مائل ہوسکتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک صحت مند معاشرہ بنانا اور سوسائٹی میں اچھے رویّوں کو فروغ دینا، فرد کی اصلاح کے نقطۂ نظر سے غیر معمولی اہمیت کا حامل فریضہ ہے۔

ڈاکٹر ذکی حسن اپنے انہی خیالات کی توسیع و اشاعت کے لیے اخبارات ورسائل میں مضامین لکھتے تھے۔ وہ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے پروگراموں میں بھی شریک ہوتے تھے۔ اُن کے مضامین کئی علمی کتابوں میں ابواب کی شکل میں شائع ہوئے۔ اس کے علاوہ اُن کے تقریباً 120مقالے علمی جرائد کی زینت بنے۔

ڈاکٹر ذکی حسن اپنے خالص پیشہ ورانہ موضوعات کے علاوہ دیگر سماجی واقتصادی موضوعات سے بھی بڑی دل چسپی رکھتے تھے۔ انہوں نے ان موضوعات پر بہت کچھ لکھا اور بارہا ان پر زبانی اظہارِ خیال کیا۔ وہ معاشرے کی اقتصادی ترقی کو بنیادی اہمیت کا حامل تصور کرتے تھے۔ لیکن ان کا ترقی کا تصور محض اقتصادی نمو اور معاشی پھیلائو تک محدود نہیں تھا۔ اُن کی دانست حقیقی معاشی ترقی وہ ہے جس کے ثمرات ایک عام فرد کی زندگی میں منعکس ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ ترقی کے اس تصور کی رُو سے افرادِ معاشرہ کے لیے صحت بخش غذا کی فراہمی، حفظانِ صحت کے وسائل کی دست یابی، تعلیم تک ہر بچے کی رسائی، سر چھپانے کے لیے موزوں مکان کی موجودگی اور اپنی پسند کے پیشے کو اختیار کرنے کی سہولت ایسے تقاضے ہیں جن کی تکمیل ناگزیر ہے۔

ڈاکٹر صاحب کا یہ بھی خیال تھا کہ حقیقی معاشی ترقی تب ہی ممکن ہے جب کہ معاشرے میں موجود طبقاتی امتیازات کو ختم کیا جائے یا ان کو قابلِ ذکر حد تک کم کرنے میں کام یابی حاصل کی جائے۔ ڈاکٹر صاحب بامعنی اور مؤثر تعلیم کے خاص طور سے بڑے پُرزور وکیل تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ تعلیم کا اصل مقصد طالب علموں کے ذہنوں کو کھولنا، اُن کو سوال کرنے کا حوصلہ فراہم کرنا اور پھر اُن کو سوالات کے جواب تلاش کرنے کا راستہ سجھانا تھا۔ وہ ایسی تعلیم کو تعلیم ہی تصور نہیں کرتے تھے جو طالب علموں کو چند مخصوص نظریات کی تنگنائے میں محصور کرنے اور اُن کو تخلیق کے بجائے تقلید کا عادی بنانے کا کام کرتی ہے۔ اُن کا خیال تھا کہ ہم کو اپنی نوجوان نسل پر اعتماد کرنا چاہیے اور اُن کو اتنا اعتماد اور حوصلہ فراہم کر دینا چاہیے کہ وہ اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنے کی سمت رواں دواں ہوسکے۔

ڈاکٹرذکی حسن کا طرزِ تحریر بہت سادہ مگر پر اثر تھا۔ ان کی انگریزی تحریریں، خاص طور سے وہ جو عام لوگوں کے لیے لکھی گئی ہیں، اُن میں بھاری بھر کم الفاظ اور مشکل ترکیبوں سے مکمل احتراز کیا گیا ہے، البتہ خالص پیشہ ورانہ مقالوں میں، جو تیکنیکی نوعیت کے حامل ہیں، وہ زبان استعمال کی گئی ہے جس کا تقاضا متعلقہ موضوعات خود کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ذکی حسن عام زندگی میں بڑے نظم وضبط کے عادی تھے۔ وقت کی پابندی اُن کا مستقل شعار تھا۔ لیکن اس کے باوجود وہ کوئی مشکل انسان نہیں تھے۔ اس کے برعکس انہوں نے بہت شگفتہ مزاج پایا تھا۔ اُن کی حسِّ مزاح بھی اکثر بیدار رہتی تھی۔ فرصت کے اوقات میں ان کی صحبت، عالمِ مصروفیت میں ان کی رفاقت سے کچھ کم فیض بخش نہیں ہوتی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کی وہ خصوصیت جو ان کی دیگر تمام خوبیوں پر فائق تھی، وہ اُن کا انکسار تھا۔ وہ چھوٹے بڑے، ہر شخص کو عزت دینے کے معاملے میں جتنے فراخ دل واقع ہوئے تھے اتنے کم ہی لوگ ہوتے ہوں گے۔ان کی حیثیت ایک ثمر دار درخت اور ایک سائبان کی سی تھی۔15دسمبر 2007کو ہم اس سائبان سے محروم ہوگئے۔
Load Next Story